مصلح اہل سنت حضرت علامہ حافظ قاری محمد مصلح الدین صدیقی قادری رضوی علیہ الرحمہ

۱۱؍ربیع الاول ۱۳۳۶ھ ؍۱۹۱۷ء ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۷؍جمادی الثانی ۱۴۰۳ھ؍۲۳مارچ ۱۹۸۳ء


پیر طریقت حضرت علامہ قاری محمد مصلح الدین صدیقی قادری رضوی علیہ الرحمہ ۱۱؍ربیع الاول ۱۳۳۶ھ بمطابق ۱۹۱۷ءکو قندھار شریف ،ضلع ناندھیڑ ،حیدر آباد دکن میں پیدا ہوئے۔

آپ کے آباؤ اجداد شرفائے دکن میں سے تھے اور صدیوں سے دینِ متین کی خدمت کافریضہ سرانجام دیتے آرہے تھے۔آپ کے والد ماجد مولانا غلام جیلانی علیہ الرحمہ نے حیدرآباد دکن میں 55سال تک امامت و خطابت کے فرائض انجام دیئے ۔ کراچی میں 1955میں آپ کا وصال ہوا اور میوہ شاہ قبرستان میں تدفین ہوئی۔

اپنے والدماجد حضرت مولانا غلام جیلانی رحمتہ اللہ علیہ سے قرآن حکیم حفظ کیا تقریباً سترہ برس کی عمر میں اپنا وطن چھوڑ کر مدرسہ مصباح العلوم مباکپور اعظم گڑھ میں علوم اسلامیہ کی تحصیل کا آغاز کیااور حضرت حافظ ملت ، حافظ عبدالعزیز محدث مبارکپوری علیہ الرحمہ کی زیر نگرانی آٹھ برس میں تکمیل کی اس کے بعد حافظ ملت آپ کو صدرالشریعہ بدر الطریقہ حضرت علامہ مولانا حکیم محمد امجد علی اعظمی رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں لے گئے ۔وہاں آپ حضرت صدرالشریعہ سے بیعت ہوئے اور پھرکچھ عرصہ بعد حضرت صدرالشریعہ نے آپ کو تمام سلاسل طریقت میں اجازت و خلافت بھی عطا فرمائی۔

تحصیل علم کے بعدآپ نے ناگپور کی جامع مسجد میں امامت و خطابت فرمائی نیز جامعہ عربیہ ناگپور میں تدریسی خدمات بھی انجام دیں، کچھ عرصہ سکندرآباد حیدرآباد دکن کی جامع مسجد میں بھی خطابت فرمائی، سقوط حیدرآباد دکن کہ جس میں سات لاکھ مسلمان شہید ہوئے،کے بعد 1949ء میں آپ پاکستان تشریف لائے اور اخوند مسجد کھارادر میںخطیب و امام رہے ۔آپ یہی چاہتے تھے کہ کسی چھوٹی مسجد میں رہ کر دین کی کچھ خدمت کی جائے مگر پھر لوگوں کے بے حد اصرار پر آپ جامع میمن مسجد کھوڑی گارڈن تشریف لائے۔ یہاں آپ کے پاس سینکڑوں عقیدتمندوں اورحاجتمندوں کا ہجوم رہنے لگا اور آپ نے اسے رضائے الہٰی سمجھ کر اسی جگہ مستقل قیام فرمایا ۔

اخوند مسجد کی امامت کے دوران آپ نے محدث اعظم پاکستان حضرت علامہ سردار احمد لائلپوری ، حضرت علامہ مولانا عارف اللہ شاہ صاحب، حضرت پیر صاحب دیول شریف ، غزالیٔ زماں علامہ سید احمد سعید کاظمی رحمۃ اللہ علیہم اجمعین کی خواہش اورایماء پر ڈیڑھ سال جامع مسجد واہ کینٹ راولپنڈی میں امامت و خطابت کی۔نیز دارالعلوم مظہر یہ آرام باغ اور اس کے بعد دارالعلوم امجدیہ میں وصال سے پہلے تک تدریسی اور علمی خدمات انجام دیتے رہے ۔

حضرت علامہ قاری مصلح الدین صدیقی رحمۃ اللہ علیہ پاکستان میں سلسلۂ قادریہ کے ممتاز و معروف روحانی پیشواء تھے۔ آپ کو سلسلہ قادریہ، رضویہ، سنوسیہ، شاذلیہ، منوریہ، معمریہ اور اشرفیہ میں حضرت صدرالشریعہ کے علاوہ شہزاۂ اعلیٰ حضرت حضور مفتی اعظم ہند مولانا الشاہ مصطفی رضا خان بریلوی اور قطب مدینہ حضرت علامہ مولانا ضیاء الدین احمد مدنی علیہما الرحمہ سے اجازت وخلافت حاصل تھی۔ آپ کی ذات گرامی علماء وصوفیائے کرام میںخاص توجہ اور عقیدت و محبت کا مظہر تھی جسے بھی آ پ کو صحبت اور محبت میسر آئی وہ رسول اللہ ﷺکا گرویدہ اور شیدائی بن کر رہ گیا۔

حضرت علامہ قاری محمد مصلح الدین صدیقی رحمۃ اللہ علیہ نے دیگر بزرگان دین کی طرح سلسلہ قادریہ میں حضرت غوث پاک محبوب یزدانی سیدنا سیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ سے خاص نسبت پائی تھی آپ نے اللہ و رسول جل جلالہ وﷺکی اطاعت اور فرمانبرداری یعنی قرآن و سنت پر کاربند رہنے کے بعد حضرت غوث پاک کی تعلیمات مقدسہ پر خصوصی طور پر عمل کیا تھا اسی لئے قدرت کاملہ نے آپ کو اپنی بہترین نعمتوں سے نوازا تھا۔ آپ پیران پیر سرکار غوث اعظم رضی اللہ عنہ کی محبت اور عقیدت میں صوفیاء کرام کے شانہ بشانہ رہے۔مصلح الدین کے معنی دین کی اصلاح کرنے والے کے ہوتے ہیں آپ نے اپنی زندگی کے ہر دور میں دین اسلام کی اس خدمت کو احسن طریقہ پر پورا کیا۔

حضرت غوث الثقلین رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ اگر مصائب نہ ہوتے تو تمام لوگ عابد و زاہدبن جاتے لیکن مسلمانوں پر جب کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ صبر کا دامن چھوڑ دیتے ہیں اور اپنے رب سے دور ہوجاتے ہیں یا د رکھو جو صبر کے امتحان میں پورا نہ اترا وہ عطا الٰہی سے محروم رہ گیا۔ حضور غوث پاک صبر ہی کو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی قرار دیتے ہیں آپ کے نزدیک صبر ہی عبد اور معبود کے درمیان رشتہ کو مزید مستحکم کرتا ہے صبر و رضا کو چھوڑ دینا آپ کی تعلیمات کے منافی ہے ۔حضرت علامہ قاری محمد مصلح الدین صدیقی رحمۃ اللہ علیہ کے لئے سلسلہ قادریہ کی یہ تعلیمات آپ کی زندگی کا جز و لاینفک بن چکی تھیں۔ وہ زہد و تقویٰ اور پرہیز گاری ،حلم اور برد باری کا کامل نمونہ تھے شفقت و محبت کا منبع آپ کی ذات گرامی تھی ۔بزرگان دین سے آپ کا گہرا تعلق تھااور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی سے آپ کو والہانہ عشق تھااکثر اعلیٰ حضرت کی نعتیں ورد زبان رہتیں اور تقریب میں بھی جا بجااعلیٰ حضرت کے اشعار پڑھتے، آپ بہت ہی مختصر مگرجامع اور قابل فہم الفاظ میں تقریر کرتے تھے آپ کا انداز اس قدر دل نشین ہوتا کہ ہر لفظ دل و دماغ میں پیوست ہوکر رہ جاتا تھا ۔

آپ کا وصال ۷؍جمادی الثانی ۱۴۰۳ھ، ۲۳؍ مارچ ۱۹۸۳ء کو کراچی میں حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے ہوا۔آپ کی نماز جنازہ نبیرۂ اعلیٰ حضرت تاج الشریعہ علامہ مفتی محمد اختررضاخاں بریلوی دامت برکاتہم العالیہ نے پڑھائی۔پاکستان کی ہر دینی ، مذہبی، روحانی تنظیم نے آپ کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا ۔ نامور مشائخ و علماء کرام نے آپ کی رحلت کو ایک قومی سانحہ قرار دیتے ہوئے آپ کے درجات کی مزید سر بلندی کیلئے خصوصی دعائیں مانگیں۔ آپ کا جسدِ خاکی کھوڑی گارڈن ،موجودہ مصلح الدین گارڈن کراچی میں محواستراحت ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں ان محترم و مقدس ہستیوں کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق بخشے اور ان کے مشن کو جاری و ساری رکھے ۔

مضامین

Menu