خلیفۂ مجاز سرکار مفتیٔ اعظم وتاج الشریعہ ، قاضیٔ شرع رامپور

حضرت علامہ مفتی سید شاہد علی حسنی نوری جمالی علیہ الرحمہ


ولادت

2 صفر المظفر 25 نومبر 1952ء بروز چهارشنبه صبح صادق کے وقت ہوئی !!
والد ماجد سید سیف اللہ شاه حسنی بن سید ارشاد شاہ حسنی نیک خو اور صوفی منش بزرگ تھے۔
قاضی شرع کے مورث اعلی پیپلی تحصیل سوار
ضلع رامپور کے مشہور بزرگ حضرت سید شبیر شاہ حسنی قدس سرہ ہیں۔

تعلیم وتربیت

مفتی صاحب علیہ الرحمہ نے ابتدائی تعلیم ملک نگلی میں پائی۔ پھر قرآن کریم حفظ کیا۔ اس کے بعد دینی علوم کی طرف متوجہ ہوئے ، 1390ھ میں جامع العلوم فرقانیہ مسٹن گنج ، رامپور میں داخل ہوئے۔
شعبان 1399 ھ میں جامع العلوم فرقانیہ مسٹن گنج
سے فراغت حاصل کر کے سند فضیلت پائی۔
15 جمادی الاول 1409ھ کو مرکز اہل سنت جامعہ رضویہ منظر اسلام بریلی سے باقاعدہ امتحان دے کر فاضل درس نظامی کی سند حاصل کی۔

بیعت وخلافت

مفتی اعظم ہند مولانا مصطفی رضا قادری کے دست حق پرست پر 13 محرم 1400 کو شرف بیعت حاصل کیا.
شوال المکرم 1401ھ میں اجازت و خلافت سے سرفراز ہوئے ، تاج الشریعہ علامہ
محمد اختر رضا خاں قادری ازہری علیہ الرحمہ, قطب مدینہ علامہ ضیاء الدین احمد مدنی وغیرہ سے بھی شرف اجازت وخلافت حاصل تھا.
درس وتدریس

تدریسی زندگی کا آغاز جامع العلوم فرقانیہ سے کیا۔ پھر 12 اکتوبر 1979ء میں دارالعلوم گلشن بغداد رامپور میں شعبہ عربی کے صدر مدرس کی حیثیت سے پڑھایا. 12 دسمبر 1981ء کو الجامعۃ الاسلامیہ کی بنیاد ڈالی اور اخیر وقت تک صدر مدرس اور شیخ الحدیث کی حیثیت سے مثالی خدمات انجام دیتے رہے۔
آپ کے تلامذہ میں کئی نامور اہل علم وادب ,مدرسین وخطبا اور قلم وقرطاس کے ماہرین شامل ہیں.

ازدواجی زندگی

1983ء میں مفتی صاحب کی شادی ہوگئی تھی ، آپ کی اہلیہ محترمہ سیدہ نسرین بی بنت حضرت الحاج سید صادق علی شاہ بخاری علیہ الرحمہ سجادہ نشین آستانہ عالیہ حضرت حافظ سید بسم اللہ شاہ میاں قادری جمالی علیہ الرحمہ ٹانڈہ چھنگا ضلع بریلی شریف جیسے معروف خانوداے سے تعلق رکھتی تھیں 2002ء میں ان کا وصال ہوگیا تھا.
ماشاء اللہ پانچ صاحبزادیاں اور پانچ صاحبزادے ہیں ۔ جن میں ایک صاحبزادے سید ریحان رضا نوری کا طویل علالت کے بعد 2005ء میں وصال ہوگیا۔ بقیہ اولاد حیات ہے اور کئی بچوں کی شادیاں بھی ہوچکی ہیں. آپ کے علمی جانشین وفرزند سعید مولانا سید فیضان نوری اس وقت جامعہ ازہر میں زیر تعلیم ہیں.
تبلیغی اسفار

مفتی صاحب علیہ الرحمہ نے ملک و بیرون ملک میں مسلسل تبلیغی دورے کئے جن میں خاص کر مہاراشٹر ، آندھراپردیش، مدھیہ پردیش، کرناٹک تامل ناڈو، کیرالہ،آسام ، بہار، اتراکھنڈ، وغیرہ کے اضلاع میں خوب تبلیغی دورے فرماکر اشاعت علم کا کارنامہ انجام دیا. بیرون ممالک میں نیپال، ہالینڈ (آمسٹرڈم)، جرمنی ، فرانس، پیرس ۔ سعودی عرب مکہ معظمہ ، مدینہ منورہ، جدہ)،
عرب امارات (دوبئی ، شارجہ ،بیلجیئم اردن ( جارڈن) وغیرہ۔

حج وزیارت

تین مرتبہ حج و زیارت کا شرف حاصل کیا ان میں ایک بار اپنے والدین کریمین اور خسر محترم کے ہمراہ اسی مبارک سفر میں بیت المقدس وغیرہ بھی
حاضری کی سعادت حاصل ہوئی ۔ اس کے علاوہ متعدد عمرے بھی ادا کئے ۔

تصنیف وتالیف

مصروف زندگی کے باوجود اللہ نے ان کے وقت میں کافی برکت رکھی تھی اس لئے اتنی ساری مصروفیات کے باوجود تصنیف و تالیف کا کام بھی خوب انجام دیا ۔ مختلف موضوعات پر تقریبا چالیس(40) کتابیں یادگار ہیں جو چھپ کر شائع
ہوچکیں اور مزید کئی کتابیں غیر مطبوعہ ہیں جو جلد ہی چھپ کر منظر عام پر آ جائیں گی۔

تحريكات

مفتی صاحب نے مسلم پرسنل لاء کے تحفظ ، بابری مسجد کی بازیابی کے لئے جیل بھرو تحریک ، ڈاکٹر آنند سُمن کی قرآن کریم کے سلسلہ میں بکواس کے خلاف احتجاج،
دِواکر راہی کی بکواس کے خلاف احتجاجی جلوس تحفظ شریعت کمیٹی ، جیسی کئی اہم تحریکات کی کامیاب قیادت کرکے مسلمانان ہند کے وقار کی حفاظت فرمائی.

علاوہ ازیں لوگوں کے کثیرخانگی معاملات اور جائیدادوں کے پیچیده مسائل کا خاطر خواہ نپٹارہ ۔ حادثات و مصائب پر مصیبت زدوں کو امداد،غربا کی روز مرہ کی ضروریات کی مدد اور دلی ہمدردی مفتی صاحب کی فطرت ثانیہ تھی.

وصال پرملال
20 رجب المرجب1440ھ/28 مارچ2019ء جمعرات کی شب میں ایک صاحب جلسہ چہلم میں شرکت کے لئے تشریف لے گئے, وہاں لوگوں کو وعظ و نصیحت کرتے ہوئے آخرت کی تیاری کرنے اور دنیا کی رنگینی سے پرہیز کرنے کی تاکید فرمائی. سلام ودعا کے بعد گھر تشریف لائے, موسم بہت پیارا ہو رہا تھا, جمعہ کا دن دستک دے رہا تھا. قاصد اجل کی آمد ہوئی وقت 3:30 کا تھا،اچانک طبیعت ناساز ہوئی اور سانس اکھڑنے لگی. یہ سب تو بہانہ تھا مولیٰ کا قاصد آچکا تھا اور ایک زمانے کو اپنی فعالیت سے حیران کرنے والی شخصیت بالآخر ابدی نیند سوگئی. انا للہ و انا الیہ راجعون

جان کر من جملہ خاصان میخانہ تجھے
مدتوں رویا کریں گے جام وپیمانہ تجھے

 

Menu