قربان، فدا، نچھاور، عاشق معشوق، حاضروناظر
لاابالی و غیرہا کااطلاق جناب باری تعالیٰ میں حرام حرام اشدحرام ہے
عا شق الرحمن، معشوق اﷲ اور عاشق الٰہی نام رکھناکیسا؟
مـسـئلـہ: ۱۳تا۱۴
کیا فرماتے ہیں علماے دین ومفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کے بارے میںکہ:
(۱)خداوند قدوس کی شان میں یہ الفاظ بولے جاسکتے ہیں یا نہیں ؟اگر نہیں تو بولنے والے پر اور سننے والے پر توبہ لازم ہے یا نہیں ؟
’’قربان، فدا، نچھاور، عاشق، معشوق، حاضروناظر، لا ابالی، صاحب، میاں، لفظ شکایت، اور ہوس تھی دید کی، معراج کا بہانہ تھا، اور یہ شوق ہے، اے خدا میں بھی اور میرے ماں باپ بھی تیری لونڈی اور غلام ہیں‘‘۔ از روئے شرع صحیح جواب عنایت فرمائیں۔
(۲)عاشق الرحمٰن اور معشوق اﷲ، عاشق الٰہی نام رکھنا درست ہے یا نہیں؟ واضح فرمائیں نیز وجہ نا جائز وحرام بھی بتائیں، عین کرم ہوگا۔
مستفتی :محمد انور علی رضوی محلہ ذخیرہ بریلی شریف یو پی
الجواب:
(۱)معاذاﷲ رب العٰلمین جلت عظمتہ وعزت عزتہ کی شان رفیع میں قربان فدا نچھاور اور جن الفاظ سے متبادرو عرف جاری ہیں بلکہ محض دلالت لفظ سے محبوب پر مر مٹ جانے، فنا ہو جانے کا اطلاق ہوجناب باری تعالیٰ میں حرام حرام اشد حرام بلکہ اپنے ان معانی ظاہرہ متبادرہ کی بنا پر کفر میں صریح اور اگر معاذاﷲ سامعین نے یہی معنی مراد لیا جو اس سے متبادر ہیں تو کفر متعین اور قائل وسامع دونوںپرتوبہ تجدید ایمان وتجدید نکاح بیوی والوں پر بہر کیف لازم ہے۔ واﷲ تعالٰی اعلم
(۱)اس شعرکی مزیدوضاحت کے لیے ’’فتاویٰ امجدیہ‘‘جلد۴، صفحہ۲۷۸تا۲۸۷(مطبوعہ دارالعلوم امجدیہ، مکتبہ رضویہ، آرام باغ، کراچی) اور ’’فتاویٰ شارح بخاری ‘‘جلد۱، صفحہ۶۰۸(مطبوعہ مکتبہ برکات المدینہ، جامع مسجدبہارشریعت، بہادرآباد، کراچی) کامطالعہ کریں۔ (میثم قادری)
’’اصول الدین عندالامام ابی حنیفہ‘‘میں ہے:
’’من و صف اللّٰہ تعالٰی بمعنٰی من معانی البشر فقد کفر-اھ‘‘
[اصول الدین عندالامام ابی حنیفۃ، الباب الاول، المبحث الثالث موقفہ من الفرق الکلامیۃ، ص۳۰۳ مطبع دارالصمیعی للنشروالتوزیع مکۃ المکرمۃ السعودیۃ]
اور عاشق ومعشوق میں حرج نہیں جبکہ وہ معنی مراد نہ لیں جو جانبِ بشر میں مراد ہوتے ہیں اور حاضر ناظر کا اطلاق اﷲ تعالیٰ کے لئے ناجائز ہے جبکہ حضور سے حضورِ مکانی اور نظر سے آنکھ سے دیکھنا مراد نہ لیں، ورنہ یہ بھی کفر ہے اور بعض فقہائے کرام نے اسی لئے اس کو کفر بتایا، اگرچہ مختاریہی ہے کہ کفرنہیں حضور بمعنی علم اور نظر بمعنی مطلق رُویت شائع ہے۔ ’’دُرِّمختار‘‘ میں ہے:
’’یا حاضر ویا ناظر لیس یکفر‘‘۔
(الدرالمختار، ج۶، ص۴۰۸، باب المرتد، دارالکتب العلمیۃ، بیروت)
’’ردُّ المحتار ‘‘میں ہے:
’’فان الحضور بمعنی العلم شائع (مایکون من نجوی ثلاثۃ الا ھو رابعھم) (المجادلۃ) والنظر بمعنی الرؤیۃ (اَلَمْ یَعْلَمْ بِاَنَّ اللّٰہَ یَرٰی) (العلق) فالمعنی یا عالم من یری۔ بزازیۃ‘‘۔
(ردالمحتار، ج۶، ص۴۰۸، باب المرتد، مطلب فی معنی درویش درویشاں، دارالکتب العلمیۃ، بیروت)
لااُبالی کا اطلاق سوء ِادب وکفر ہے اور صاحب کا اطلاق نہ چاہیے، یونہی میاں کا اطلاق بھی منع ہے اور اﷲ تعالیٰ سے شکایت کرنا حرام ہے اور ہوس وبہانہ کا اطلاق اﷲ تعالیٰ کے لئے کفر ہے جس سے توبہ وتجدیدایمان وتجدید نکاح لازم ہے اور اﷲ تعالیٰ کے لونڈی وغلام کہنے میں حرج نہیں جبکہ بمعنی مملوک کہے اور بندہ اور کنیز کہنا بہتر ہے۔ واﷲ تعالٰی اعلم
(۲)درست ہے۔
واﷲ تعالٰی اعلم فقیر محمد اختر رضا خاں ازہری قادری غفرلہٗ