قصیدہ معراجیہ

کلام: اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری حنفی  علیہ الرحمہ


وہ سرورِ کِشورِ رسالت جو عرش پر جلوہ گر ہوۓ تھے
نئے نرالے طرَب کے ساماں عرب کے مہمان کے لیے تھے

بہار ہے شادیاں مبارک چمن کو آبادیاں مبارک
ملک فلَک اپنی اپنی لے میں یہ گھر عنادل کا بولتے تھے

وہاں فلَک پر یہاں زمیں میں رَچی تھی شادی مچی تھیں دھومیں
اُدھر سے انوار ہنستے آتے اِدھر سے نفحات اُٹھ رہے تھے

یہ چھوٹ پڑتی تھی اُن کے رُخ کی کہ عرش تک چاندنی تھی چٹکی
وہ رات کیا جگمگا رہی تھی جگہ جگہ نصب آئینے تھے

نئی دُلھن کی پَھبن میں کعبہ نکھر کے سنورا سنور کے نکھرا
حجر کے صدقے کمر کے اِک تِل میں رنگ لاکھوں بَناؤ کے تھے

نظر میں دولہا کے پیارے جلوے حیا سے محراب سر جھکاۓ
سیاہ پردے کے منہ پر آنچل تجلئ ذاتِ بحت سے تھے

خوشی کے بادَل اُمَڈ کے آۓ دِلوں کے طاؤس رنگ لاۓ
وہ نغمۂ نعت کا سماں تھا حرم کو خود وجد آ رہے تھے

یہ جھوما میزابِ زَر کا جھومر کہ آ رہا کان پر ڈَھلَک کر
پھوہار برسی تو موتی جَھڑ کر حطیم کی گود میں بَھرے تھے

دلہن کی خوشبو سے مست کپڑے نسیم گستاخ آنچلوں سے
غلافِ مشکیں جو اُڑ رہا تھا غزال نافے بسا رہے تھے

پہاڑیوں کا وہ حسنِ تزئیں وہ اُونچی چوٹی وہ ناز و تمکیں
صبا سے سبزہ میں لہریں آتیں دوپٹّے دھانی چنے ہوۓ تھے

نہا کے نہروں نے وہ چمکتا لباس آبِ رَواں کا پہنا
کہ موجیں چھڑیاں تھیں دھار لچکا حبابِ تاباں کے تھل ٹکے تھے

پرانا پُرداغ ملگجا تھا اُٹھا دیا فرش چاندنی کا
ہجومِ تارِ نگہ سے کوسوں قدم قدم فرش بادلے تھے

غبار بن کر نثار جائیں کہاں ہم اُس رہگزر کو پائیں
ہمارا دل حوریوں کی آنکھیں فرشتوں کے پَر جہاں بچھے تھے

خدا ہی دے صبر جانِ پُرغم دِکھاؤں کیونکر تجھے وہ عالم
جب اُن کو جھرمٹ میں لے کے قدسی جناں کا دولہا بنا رہے تھے

اُتار کر اُن کے رخ کا صدقہ یہ نور کا بٹ رہا تھا باڑا
کہ چاند سورج مچل مچل کر جبیں کی خیرات مانگتے تھے

وہی تو اب تک چھلک رہا ہے وہی تو جوبن ٹپک رہا ہے
نہانے میں جو گرا تھا پانی کٹورے تاروں نے بھر لیے تھے

بچا جو تلووں کا اُن کے دھوون بنا وہ جنّت کا رنگ و روغن
جنہوں نے دولہا کی پائی اُترن وہ پھول گلزارِ نور کے تھے

خبر یہ تحویلِ مہر کی تھی کہ رُت سہانی گھڑی پِھرے گی
وہاں کی پوشاک زیبِ تن کی یہاں کا جوڑا بڑھا چکے تھے

تجلئ حق کا سہرا سر پر صلوٰۃ و تسلیم کی نچھاور
دو رویہ قدسی پَرے جما کر کھڑے سلامی کے واسطے تھے

جو ہم بھی واں ہوتے خاکِ گلشن لپٹ کے قدموں سے لیتے اترن
مگر کریں کیا نصیب میں تو یہ نامرادی کے دن لکھے تھے

ابھی نہ آۓ تھے پشتِ زیں تک کہ سر ہوئی مغفرت کی شلّک
صدا شفاعت نے دی مبارک گناہ مستانہ جھومتے تھے

عجب نہ تھا رخش کا چمکنا غزالِ دَم خوردہ کا پھڑکنا
شعاعیں بُکے اُڑا رہی تھیں تڑپتے آنکھوں پہ صاعقے تھے

ہجومِ اُمید ہے گھٹاؤ مرادیں دے کر انہیں ہٹاؤ
اَدب کی بھاگیں لیے بڑھاؤ ملائکہ میں یہ غلغلے تھے

اُٹھی جو گردِ رہِ منوّر وہ نور برسا کہ راستے بھر
گرے تھے بادَل بھرے تھے جل تھل اُمڈ کے جنگل اُبَل رہے تھے

ستم کیا کیسی مَت کٹی تھی قمر وہ خاک اُن کی رہگزر کی
اٹھا نہ لایا کہ مَلتے مَلتے یہ دیکھنا داغ سب مٹے تھے

براق کے نقشِ سُم کے صدقے وہ گل کھلاۓ کہ سارے رستے
مہکتے گلبن لہکتے گلشن ہرے بھرے لہلہا رہے تھے

نمازِ اقصیٰ میں تھا یہی سرّ عیاں ہو معنئ اوّل آخر
کہ دست بستہ ہیں پیچھے حاضر جو سلطنت آگے کر گئے تھے

یہ اُن کی آمد کا دبدبہ تھا نکھار ہر شے کا ہو رہا تھا
نجوم و افلاک جام و مینا اُجالتے تھے کھنگالتے تھے

نقاب الٹے جو مہرِ انور جلالِ رخسار گرمیوں پر
فلک کو ہیبت سے تَپ چڑھی تھی تپکتے انجم کے آبلے تھے

یہ جوششِ نور کا اثر تھا کہ آبِ گوہر کمر کمر تھا
صفاۓ رہ سے پھسل پھسل کر ستارے قدموں پہ لوٹتے تھے

بڑھا یہ لہرا کے بحرِ وحدت کہ دُھل گیا نامِ ریگِ کثرت
فلک کے ٹیلوں کی کیا حقیقت یہ عرش و کرسی دو بلبلے تھے

وہ ظلِّ رحمت وہ رخ کے جلوے کہ تارے چھپتے نہ کھلنے پاتے
سنہری زَربفت اودی اطلس یہ تھان سب دھوپ چھاؤں کے تھے

چلا وہ سروِ چماں خراماں نہ رک سکا سدرہ سے بھی داماں
پلَک جھپکتی رہی وہ کب کے سب این و آں سے گذر چکے تھے

جھلک سی اِک قدسیوں پر آئی ہوا بھی دامن کی پِھر نہ پائی
سواری دولہا کی دور پہنچی برات میں ہوش ہی گئے تھے

تھکے تھے روح الامیں کے بازو چُھٹا وہ دامن کہاں وہ پہلو
رکاب چھوٹی امید ٹوٹی نگاہِ حسرت کے ولولے تھے

روِش کی گرمی کو جس نے سوچا دماغ سے اِک بھبوکا پھوٹا
خرَد کے جنگل میں پھول چمکا دہر دہر پیڑ جَل رہے تھے

جَلو میں جو مرغِ عقل اُڑے تھے عجب بُرے حالوں گرتے پڑتے
وہ سدرہ پر ہی رہے تھے تھک کر چڑھا تھا دَم تیورا گئے تھے

قَوی تھے مرغانِ وہم کے پَر اُڑے تو اُڑنے کو اور دَم بھر
اٹھائی سینے کی ایسی ٹھوکر کہ خونِ اندیشہ تھوکتے تھے

سنا یہ اِتنے میں عرشِ حق نے کہ لے مبارک ہو تاج والے
وہی قدم خیر سے پھر آۓ جو پہلے تاجِ شرَف ترے تھے

یہ سن کے بے خود پکار اُٹّھا نثار جاؤں کہاں ہیں آقا
پھر اُن کے تلووں کا پاؤں بوسہ یہ میری آنکھوں کے دِن پِھرے تھے

جھکا تھا مجرے کو عرشِ اعلیٰ گِرے تھے سجدے میں بزمِ بالا
یہ آنکھیں قدموں سے مل رہا تھا وہ گردِ قربان ہو رہے تھے

ضیائیں کچھ عرش پر یہ آئیں کہ ساری قندیلیں جِھلمِلائیں
حضورِ خورشید کیا چمکتے چراغ منہ اپنا دیکھتے تھے

یہی سماں تھا کہ پَیکِ رحمت خبر یہ لایا کہ چلیے حضرت
تمہاری خاطر کشادہ ہیں جو کلیم پر بند راستے تھے

بڑھ اے محمَّد قریں ہو احمد قریب آ سرورِ ممجَّد
نثار جاؤں یہ کیا نِدا تھی یہ کیا سماں تھا یہ کیا مزے تھے

تَبَارَکَ اللہ شان تیری تجھی کو زیبا ہے بے نیازی
کہیں تو وہ جوشِ لن تَرَانِی کہیں تقاضے وصال کے تھے

خرَد سے کہہ دو کہ سَر جھکا لے گماں سے گزرے گزرنے والے
پڑے ہیں یاں خود جہت کو لالے کسے بتاۓ کدھر گئے تھے

سراغِ اَین و متَیٰ کہاں تھا نشانِ کَیف و اِلیٰ کہاں تھا
نہ کوئی راہی نہ کوئی ساتھی نہ سنگِ منزل نہ مرحلے تھے

اُدھر سے پیہم تقاضے آنا اِدھر تھا مشکل قدم بڑھانا
جلال و ہیبت کا سامنا تھا جمال و رحمت ابھارتے تھے

بڑھے تو لیکن جھجھکتے ڈرتے حیا سے جھکتے ادب سے رُکتے
جو قرب اِنہی کی روِش پہ رکھتے تو لاکھوں منزل کے فاصلے تھے

پر اُن کا بڑھنا تو نام کو تھا حقیقتاً فعل تھا اُدھر کا
تنزّلوں میں ترقّی اَفزا دَنَیٰ تَدَلّیٰ کے سلسلے تھے

ہوا نہ آخر کہ ایک بجرا تَموجِ بحرِ ھو میں ابھرا
دَنَیٰ کی گودی میں ان کو لے کر فنا کے لنگر اٹھا دیے تھے

کسے ملے گھاٹ کا کنارا کدھر سے گزرے کہاں اتارا
بھرا جو مثلِ نظر طرارا وہ اپنی آنکھوں سے خود چھپے تھے

اٹھے جو قصرِ دَنَیٰ کے پردے کوئی خبر دے تو کیا خبر دے
وہاں تو جا ہی نہیں دوئی کی نہ کہہ کہ وہ بھی نہ تھے،ارے تھے

وہ باغ کچھ ایسا رنگ لایا کہ غنچہ و گل کا فرق اٹھایا
گرہ میں کلیوں کی باغ پھولا گلوں کے تکمے لگے ہوۓ تھے

محیط و مرکز میں فرق مشکل رہے نہ فاصل خطوطِ واصل
کمانیں حیرت میں سر جھکاۓ عجیب چکّر میں دائرے تھے

حجاب اٹھنے میں لاکھوں پردے ہر ایک پردے میں لاکھوں جلوے
عجب گھڑی تھی کہ وصل و فرقت جنم کے بچھڑے گلے ملے تھے

زبانیں سوکھی دِکھا کے موجیں تڑپ رہی تھیں کہ پانی پائیں
بھنور کو یہ ضعفِ تشنگی تھا کہ حلقے آنکھوں میں پڑ گئے تھے

وہی ہے اوّل وہی ہے آخر وہی ہے باطن وہی ہے ظاہر
اسی کے جلوے اسی سے ملنے اسی سے اس کی طرف گئے تھے

کمانِ امکاں کے جھوٹے نقطو تم اوّل آخر کے پھیر میں ہو
محیط کی چال سے تو پوچھو کدھر سے آۓ کدھر گئے تھے

اِدھر سے تھیں نذرِ شہ نمازیں اُدھر سے انعامِ خسروی میں
سلام و رحمت کے ہار گندھ کر گلوۓ پُرنور میں پڑے تھے

زبان کو انتظارِ گفتن تو گوش کو حسرتِ شنیدن
یہاں جو کہنا تھا کہہ لیا تھا جو بات سننی تھی سن چکے تھے

وہ برجِ بطحا کا ماہ پارا بہشت کی سیر کو سدھارا
چمک پہ تھا خلد کا ستارا کہ اُس قمر کے قدم گئے تھے

سرورِ مقدم کی روشنی تھی کہ تابشوں سے مہِ عرب کی
جناں کے گلشن تھے جھاڑ فرشی جو پھول تھے سب کنول بنے تھے

طرب کی نازش کہ ہاں لچکیے ادب وہ بندش کہ ہِل نہ سکیے
یہ جوشِ ضدّین تھا کہ پودے کشاکشِ اَرَّہ کے تلے تھے

خدا کی قدرت کہ چاند حق کے کروڑوں منزل میں جلوہ کر کے
ابھی نہ تاروں کی چھاؤں بدلی کہ نور کے تڑکے آ لیے تھے

نبئ رحمت شفیعِ امّت رضا پہ للہ ہو عنایت
اِسے بھی اُن خلعتوں سے حصّہ جو خاص رحمت کے واں بٹے تھے

ثناۓ سرکار ہے وظیفہ قبولِ سرکار ہے تمنّا
نہ شاعری کی ہوس نہ پروا روی تھی کیا کیسے قافیے تھے

Menu