وجہ تسمیہ:
اسلامی سال کا تیسرا مہینہ ربیع الاول مبارک ہے۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ جب ابتداء میں اس کا نام رکھا گیا تو اس وقت موسم ربیع یعنی فصل بہار کا آغاز تھا۔اس لئے اس ما ہِ مبارک کو ربیع الاول کہتے ہیں۔
میلاد اور قرآن:
انعقادِ میلاد، اللہ تعالیٰ کی سنّت ہے،محبوب کبریا صلی اللہ علیہ وسلم کا میلاد شریف خود خالق اکبر جل شانہ نے بیان کیا ہے:
وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیۡثٰقَ النَّبِیّٖنَ لَمَاۤ اٰتَیۡتُکُمۡ مِّنۡ کِتٰبٍ وَّحِکْمَۃٍ ثُمَّ جَآءَکُمْ رَسُوۡلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنۡصُرُنَّہٗؕ قَالَ ءَاَقْرَرْتُمْ وَاَخَذْتُمْ عَلٰی ذٰلِکُمْ اِصْرِیۡؕ قَالُوۡۤا اَقْرَرْنَاؕ قَالَ فَاشْہَدُوۡا وَاَنَا مَعَکُمۡ مِّنَ الشّٰہِدِیۡنَ﴿۸۱﴾ فَمَنۡ تَوَلّٰی بَعْدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْفٰسِقُوۡنَ﴿۸۲﴾
ترجمۂ کنز الایمان:اور یاد کرو جب اللّٰہ نے پیغمبروں سے ان کا عہد لیا جو میں تم کو کتاب اور حکمت دوں پھر تشریف لائے تمہارے پاس وہ رسول کہ تمہاری کتابوں کی تصدیق فرمائے تو تم ضرور ضرور اس پر ایمان لانا اور ضرور ضرور اس کی مدد کرنا فرمایا کیوں تم نے اقرار کیا اور اس پر میرا بھاری ذمہ لیا سب نے عرض کی ہم نے اقرار کیا فرمایاتو ایک دوسرے پر گواہ ہوجاؤ اور میں آپ تمہارے ساتھ گواہوں میں ہوں تو جو کوئی اس کے بعد پھرے تو وہی لوگ فاسق ہیں (سورۃ آلِ عمران،آیۃ،۸۱،۸۲)
اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
لَقَدْ جَآءَکُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُوْمِنِیْنَ رَؤُوْفٌ الرَّحِیْم
ترجمۂ کنزالایمان :بے شک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گراں ہے۔ تمہاری بھلائی کے بہت چاہنے والے ہیں اور مسلمانوں پر کمال مہربان مہربان. (پ ۱۱،سورۃ التوبہ،آیۃ، ۱۲۸)
اس آیت شریفہ میں پہلے اللہ جل شانہ نے فرمایا کہ ’’مسلمانوں تمہارے پاس عظمت والے رسول تشریف لائے‘‘ یہاں تو اپنے حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت شریفہ بیان فرمائی….. پھر فرمایا کہ ’’وہ رسول تم میں سے ہیں‘‘ اس میں اپنے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کا نسب شریف بیان فرمایا ہے ….. پھر فرمایا ’’تمہاری بھلائی کے بہت چاہنے والے اور مسلمانوں پر کرم فرمانے والے مہربان ہیں‘‘ یہاں اپنے محبوب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت بیان فرمائی۔میلاد ِ مروجہ میں یہی تین باتیں بیان کی جاتی ہیں۔ پس ثابت ہوا کہ سرکار ابد قرارصلی اللہ علیہ وسلم کا میلاد شریف بیان کرنا سنت الٰہیہ ہے۔
ربیع الاول اور فرمان رسول
میلادِ مصطفیٰﷺ بزبانِ مصطفیٰﷺ:
عَنْ عِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، صَاحِبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ، وَخَاتَمُ النَّبِيِّينَ، وَأَبِي مُنْجَدِلٌ فِي طِينَتِهِ وَسَأُخْبِرُكُمْ عَنْ ذَلِكَ أَنَا دَعْوَةُ أَبِي إِبْرَاهِيمَ ، وَبِشَارَةُ عِيسَى، وَرُؤْيَا أُمِّي آمِنَةَ الَّتِي رَأَتْ» وَكَذَلِكَ أُمَّهَاتُ النَّبِيِّينَ يَرَيْنَ، وَأَنَّ أُمَّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَتْ حِينَ وَضَعَتْهُ لَهُ نُورًا أَضَاءَتْ لَهَا قُصُورُ الشَّامِ، ثُمَّ تَلَا :يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا وَدَاعِيًا إِلَى اللَّهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا مُنِيرًا [الأحزاب: 46]
ترجمہ:حضرر عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ فرماتے ہیں: میں نے اللہ کے حبیب ﷺ کو فرماتے سنا!میں اللہ تعالیٰ کا خاص بندہ اور خاتم النبیین ہوں(اور میں اسوقت بھی موجود تھا )جب حضرت آدم علیہ الصلوٰۃوالسلام ابھی مٹی میں ملے ہوئے تھے ،اور میں میں تمھیں بتائے دیتا ہوں کہ میں حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃوالسلام کی دعااور حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃوالسلام کی بشارت ہوں ،اور اپنی والدہ ماجدہ کا خواب ہوں،جو انھوں نے دیکھا،جیسے تمام انبیا ء کرام کی مائیں خواب دیکھتی آئی ہیںاور رسول اکرم ﷺ کی والدہ ماجدہ سلام اللہ علیہانے بوقت ولادتِ مصطفیٰ ﷺ ایک ایسا نور دیکھا جس سے شام کے محلات روشن ہوگئے۔پھر اللہ کے حبیب ﷺ نے( سورۃ الاحزاب کی آیۃ،۴۶)تلاوت فرمائی:يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا وَدَاعِيًا إِلَى اللَّهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا مُنِيرًا [الأحزاب: 46]اے غیب کی خبریں بتانے والے (نبی) بیشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر ناظر اور خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا اور اللّٰہ کی طرف اس کے حکم سے بلاتا او ر چمکادینے والا آفتاب [الأحزاب: 46](رواہ۔احمد،بزاز،طبرانی،حاکم،وکثیر محدثینِ عظام)
بعض لوگ لا علمی کی بنا پر میلاد شریف کا انکار کردیتے ہیں۔ حالانکہ محبوب کبریا صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنا میلاد بیان کیاہے۔ سیّدنا حضرت عباس فرماتے ہیں کہ سیّد العرب و العجمﷺ کو یہ اطلاع ملی کہ کسی گستاخ نے آپ کے نسب شریف میں طعن کیا ہے تو،
فَقَالَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم عَلَی الْمِنْبَرِ فَقَالَ مَنْ اَنَا فَقَا لُوْ اَنْتَ رَسُوْلُ اللہ … قَالَ اَنَا مُحَمَّدُ ابْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَبْدُ الْمُطَّلِبْ اِنَّ اللہَ خَلَقَ الْخَلْقَ فَجَعَلْنِیْ فِیْ خَیْرِ ہِمْ ثُمَّ جَعَلَہُمْ فِرْقَتَیْنِ فَجَعَلْنِیْ فِیْ خَیْرِ ہِمْ فِرْقَۃً ثُمَّ جَعَلَہُمْ قَبَائِلَ فَجَعَلْنِیْ فِیْ خَیْرِ ہِمْ قَبِیْلَۃً ثُمَّ جَعَلَہُمْ بُیُوْتًا فَاَنَا خَیْرُ ہُمْ نَفْسًا وَخَیْرُہُمْ بَیْتًا(رواہ الترمذی، مشکوٰۃ شریف ص ۵۱۳)
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ممبر پر تشریف لائے اور فرمایا کہ میں کون ہوں؟ صحابۂ کرام علیہم الرضوان نے عرض کیا کہ آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔ فرمایا میں عبدالمطلب کے بیٹے کا بیٹا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے مخلوق پیدا کی ان میں سب سے بہتر مجھے بنایا پھر مخلوق کے دو گروہ کیے ان میں مجھے بہتر بنایا پھر ان کے قبیلے کیے اور مجھے بہتر قبیلہ بنایا پھر ان کے گھرانے بنائے مجھے ان میں بہتر بنایا تو میں ان سب میں اپنی ذات کے اعتبار اور گھرانے کے اعتبار سے بہتر ہوں۔اس حدیث شریف سے ثابت ہو اکہ حضور پر نور شافع یوم النشور صلی اللہ علیہ وسلم نے بذاتِ خود محفلِ میلاد منعقد کی جس میں اپنا حسب و نسب بیان فرمایا۔
نیز یہ بھی ثابت ہوا کہ محفل میلاد کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ اس مجلس و محفل میں ان لوگوں کا رد کیا جائے جو آپ کی بدگوئی کرتے ہوں۔اعلیٰ حضرت امام اہلسنت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
سارے اچھوں میں اچھا سمجھیے جسے
ہے اس اچھے سے اچھا ہمارا نبیﷺ
سارے اونچوں سے اونچا سمجھئے
جسےہے اس اونچے سے اونچا ہمارا نبیﷺ
ربیع الاول اور فضائل و معمولات
ماہِ ربیع الاول شریف کے لیے خصوصی ہدایات:
ربیع الاول شریف کے مقدس مہینے میں حصول برکات کے لیے، عبادات کی کثرت (نماز، روزہ اور صدقات و خیرات) کیجیے۔ گناہوں سے بچنے کا خصوصی اہتمام اس مہینے میں کرنا چاہیے، جھوٹ، غیبت، چغلی، ایذا رسانی، الزام تراشی، غصہ و برہمی وغیرہ سے اپنی ذات کو آلودہ نہ کیجیے، عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دن اپنے چہروں پر مسکراہٹ سجائے رکھیے،کسی سے بھی (اپنا ہو یا پرایا) جھگڑا کرنے سے اجتناب کیجیے۔
ایک خاص تحفہ:
ماہ ربیع الاول شریف کی کسی بھی جمعرا ت کے دن یا شبِ جمعہ گلاب کے چند پھول لے کراپنے گھر میں باوضو ہوکر بیٹھیں، پھولوں کو سامنے رکھیں،درود شریف تین مرتبہ پڑھیں،پھر
اَللّٰہ نَاصِرٌ….. اَللّٰہُ حَافِظٌ…..اللّٰہُ الصَّمَد
۳۱۳ مرتبہ پڑھیں اور تین مرتبہ درود شریف پڑھ کر پھولوں پر دم کردیں، اور یہ پھول مٹھائی وغیرہ کے ساتھ ملا کر کھالیں، مشائخ سے منقول ہے کہ جو ایسا کرے گا پورے سال بھر رزق میں برکت ہوگی، مفلسی قریب نہیں آئے گی۔
ربیع الاول اور روزے:
عَنْ اَبِیْ قَتَا دَۃ قَالَ سُئِلَ رَسُوْلُ اللہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عَنْ صَوْمِ یَوْمِ الْاَثْنَیْنِ فَقَالَ فِیْہِ وُلِدْتُ وَفِیْہِ اُنْزِلَ عَلَیَّ. (مشکوٰۃ صفحہ ۱۷۹)
(ترجمہ) سیّدنا حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پیر کے دن روزہ رکھنے کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ میں اسی دن پیدا ہوا۔ اور اسی روز مجھ پر قرآن نازل ہوا۔اس حدیث شریف نے واضح کردیا کہ کسی دن کا تعین و تقرر کرنا ناجائز نہیں ہے۔ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بروز پیر دو نعمتیں نازل فرمائی گئی تھیں ایک ولادت مقدسہ اور دوسرے نزول قرآن، اسی لیے آپ نے پیر کے دن کو روزہ رکھنے کے معیّن فرمایا۔