شعبان المعظم اسلامی سال کا آٹھواں مہینہ ہے۔
سیدنا امام محمد غزالی فرماتے ہیں ’’شعبان دراصل شعب سے مشتق ہے۔ اس کا معنی ہے پہاڑ کو جانے کا راستہ، اور یہ بھلائی کا راستہ ہے۔شعبان سے خیر کثیر نکلتی ہے۔‘‘
شعبان اور قرآن حکیم:
ترجمہ: قسم اس روشن کتاب کی بیشک ہم نے اسے برکت والی رات میں اتارا بے شک ہم ڈر سنانے والے ہیں اس میں بانٹ دیا جاتا ہے ہر حکمت والا کام ہمارے پاس کے حکم سے بے شک ہم بھیجنے والے ہیں۔( پارہ 25، سورۃ دخان، آیت 1 تا 5)
احادیث میں فضائل شعبان :
۱۔نبی کریمﷺ نے فرمایا:’’ رجب اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے، شعبان میرا مہینہ ہے، اور رمضان میری اُمت کا مہینہ ہے۔‘‘
(ماثبت با السنۃ صفحہ۱۷۰بحوالہ جامع الکبیر بروایت امام حسن بصری رحمہ اللہ)
۲۔محدث دیلمی رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں:’’حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے فرمایا، میں نے حضور اکرم محمد رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے سُنا، اللہ تعالیٰ چار راتوں میں بھلائی کی مہر لگاتا ہے۔ (۱) شب عید الاضحی (۲) شب عید الفطر (۳) ماہ رجب کی پہلی شب (۴) شب نصف شعبان۔
(مثیر الغرام الساکن الی اشرف الاماکن لابن الجوزی،رقم الحدیث: 72)
۳۔حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے، نبی کریم ﷺ نے فرمایا، ’’پانچ راتیں ایسی ہیں کہ ان میں کوئی دعا رد نہیں ہوتی، (۱) رجب کی پہلی رات (۲)نصف شعبان کی رات(۳) جمعہ کی رات (۴۔۵) دونوں عیدوں کی رات۔
(بیہقی،شعب الایمان،حدیث:3711)
۴۔حضور اکرمﷺ نے شعبان کی تیرہویں شب اپنی امت کی شفاعت کے لیے دعا کی تو آپ کو تہائی عطا ہوا، پھر چودہویں شب دعا کی تو دو تہائی عطا ہوا، پھر پندرہویں شب دعا کی تو سب کچھ عطا ہوا، سوائے اس کے جو اللہ تعالیٰ سے بِدکے ہوئے اونٹ کی طرح بھاگے یعنی نافرمانی کرنے والا۔
(مکاشفۃ القلوب صفحہ ۶۸۲)
۵۔حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ آمد شعبان پر فرماتے، اس میں اپنی جانوں کو پاک کرو اور اپنی نیتوں کو درست کرو۔
(مکاشفۃ القلوب ۶۸۱)
۶۔ابن اسحق نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا کہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے مجھے بتایا نصف شعبان کی شب رسول اللہﷺ مسجد میں سجدہ کی حالت میں یہ دعا فرما رہے تھے:
سَجَدَ لَکَ سَوَا دِیْ وَخَیَالِیْ وَاٰمَنَ بِکَ فَوَا دِیْ وَہٰذِہٖ یَدِیْ وَمَا جَنَیْتُ بِہَا عَلیٰ نَفْسِیْ یَا عَظِیْمًا یُّرْ جیٰ لِکُلِّ عَظِیْمٍ اِغْفِرِ الذَّنْبَ الْعَظِیْمَ سَجَدَوَجْہِیَ لِلَّذِیْ خَلَقَہٗ وَصَوَّرَہٗ وَشَقَّ سَمْعَہٗ وَبَصَرَہٗ
(میرے بدن اور میری صورت نے تجھے سجدہ کیا میرا دل تجھ پر ایمان لایا اور یہ میرے ہاتھ ہیں جن سے میں نے خود پر زیادتی کی، اے عظیم! ہر بڑی بات میں اس پر امید کی جاتی ہے، بڑا گناہ معاف فرمادے میرے چہرے نے اس ذات کو سجدہ کیا جس نے اسے پیدا کیا اس کی صورت بنائی اور کان اور آنکھ بنائے) پھر آپﷺ نے سر اٹھایا اور یہ دعا کی:
اَللّٰہُمَّ ارْزُقْنِیْ قَلْبًا تَقِیًّا نَقِیًّا مِّنَ الشِّرْکِ بَرِیًّا لَّا کَا فِرًا وَّ لَا شَقِیًّا
(اے اللہ! مجھے ایسا دل عطا فرما جو پر ہیزگار ہو شرک سے پاک ہو، نیک ہو ، نہ کافر ہواور نہ ہی بدبخت ہو) پھر دوبارہ سجدہ کیا اور میں نے یہ پڑھتے ہوئے سُنا:
اَعُوْذُ بِرِضَائِکَ مِنْ سَخَطِکَ وَ بِعَفْوِکَ مِنْ عُقُوْبَتِکَ وَبِکَ مِنْکَ لَا اُحْصِیْ ثَنَآئَ عَلَیْکَ اَنْتَ کَمَا اَثْنَیْتَ عَلٰی نَفْسِکَ اَقُوْلُ کَمَا قَالَ اَخِیْ دَاؤٗدُ اَغْفِرُ وَجْھِیْ فِیْ التُّرَابِ لِسَیِّدِیْ وَحَقَّ لِوَجْہِ سَیِّدِیْ اَنْ یُّغْفَرَ
(میں تیری ناراضگی سے تیری پناہ مانگتا ہوں تیری سزا سے تیری معافی کی پناہ تجھ سے تیری پناہ، میں تیری تعریف نہیں کرسکتا بس تو ایسا ہے جیسے کہ تو نے خود اپنی تعریف فرمائی میں وہی کہتاہوں جو میرے بھائی حضرت داؤودعلیہ السلام نے کہا میں اپنے آقا کے لیے مٹی میں اپنے چہرے کو خاک آلود کرتا ہوں اور چہرے کا یہ حق ہے کہ اپنے آقا کے لیے خاک آلودہ ہو۔)
(مکاشفۃ القلوب صفحہ۶۸۳۔۶۸۴)
۷۔ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ میں ایک رات رسول اللہﷺ کو نہ پاکر آپ کی تلاش میں نکلی آپ جنت البقیع میں تھے، آپ کا سر آسمان کی جانب اٹھا ہوا تھا، آپ نے مجھے فرمایا، اے عائشہ کیا تمہیں ڈر ہے کہ اللہ اور اس کا رسول تم پر ظلم کرے گا؟ میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ مجھے گمان ہوا شاید آپ دوسری ازواج کے پاس تشریف لے گئے ہیں۔ آپ نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ پندرہویں شعبان کی رات آسمانِ دنیا پر (اپنی شایانِ شان) نزول فرماتا ہے اور بنو کلب قبیلہ کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے۔
(ترمذی جلد اول صفحہ۲۷۵)
۸۔مولائے کائنات حضرت علی کرم اللہ وجہہ روایت کرتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا، نصف شعبان کی رات میں قیام کرو اور دن میں روزہ رکھو، کیونکہ اللہ تعالیٰ اسی رات غروب آفتاب تا طلوع فجر آسمانِ دنیا کی طرف متوجہ رہتا ہے اور فرماتا ہے ’’کوئی ہے مجھ سے مغفرت طلب کرنے والا کہ میں اسے بخش دوں، کوئی رزق طلب کرے تو اس کو رزق دوں، کوئی مصیبت سے چھٹکارا چاہے تو اس کو عافیت دوں۔
(ابن ماجہ شریف صفحہ نمبر۹۹)
۹۔حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے:’’نبی کریمﷺ نے فرمایا! اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب ظہور فرماتا ہے اور مشرک و چغل خور کے علاوہ سب کی بخشش فرمادیتا ہے۔
(سنن ابن ماجہ صفحہ ۹۹)
شعبان المعظم اور معمولاتِ اہلسنّت:
علماء و مشائخ اہل سنت کا صدیوں سے معمول ہے کہ نصف شعبان المعظم کی رات ۶نوافل کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں۔ نوافل کی ادائیگی کا طریقہ یہ ہے کہ نماز مغرب کے بعد۶ رکعات نوافل اس طرح پڑھیں کہ دو رکعت نماز نفل برائے درازی عمر بالخیرپڑھیں، پھر سورۃ یٰسین پڑھ کر مزید دورکعت نفل برائے ترقی و کشادگی رزق پڑھیں، پھر سوۃ یٰسین پڑھ کر مزید دو رکعت نفل برائے دفع بلیات و استغفار پڑھیں پھر سورۃ یٰسین پڑھ کر دعائے شعبان پڑھیں۔
اللہ رب العزت کے فضل و کرم سے ان نوافل کی برکت سے آئندہ ایک سال تک خیر و عافیت کے ساتھ زندگی اورمحتاجی و آفات سے حفاظت رہے گی۔
دعائے نصف شعبان المعظم
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَللّٰہُمَّ یَا ذَ الْمَنِّ وَلَا یُمَنُّ عَلَیْہِ یَاذَالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِط یَا ذَاالطَّوْلِ وَالْاِنْعَامِ فلَاَ اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ ظَہْرُ اللَّاجِئِیْنَط وَجَارُ الْمُسْتَجِیْرِیْنَط وَاَمَانُ الْخَآئِفِیْنَط اَللّٰہُمَّ اِنْ کُنْتَ کَتَبْتَنِیْ عِنْدَکَ فِٓی اُمِّ الْکِتٰبِ شَقِیًّا اَوْ مَحْرُوْمًا اَوْ مَطْرُوْدًا اَوْ مُقَتَّرًاعَلَیَّ فِی الرِّزْقِط فَامْحُ اللّٰہُمَّ بِفَضْلِکَ شَقَا وَتِیْ وَحِرْ مَا نِیْ وَطَرْدِیْ وَاقْتِتَارَرِزْقِیْط وَاثْبِتْنِیْ عِنْدَکَ فِیٓ اُمِّ الْکِتٰبِ سَعِیْدًا امَّرْزُوْقًا مُّوَفَّقًا لِّلْخَیْرَاتِط فَاِنَّکَ قُلْتَ وَقَوْلُکَ الْحَقُّ فِیْ کِتَابِکَ الْمُنَزَّلِط عَلٰی لِسَانِ نَبِیِّکَ الْمُرْسَلِط یَمْحُو اللہُ مَا یَشَآئُ وَیُثْبِتُ وَ عِنْدَہٗ اُمُّ الْکِتٰبِ اِلٰہِیْ بِالتَّجَلِّیِّ الْاَعْظَمِط فِیْ لَیْلَۃِ النِّصْفِ مِنْ شَہْرِ شَعْبَانَ الْمُکَرَّمِط اَلَّتِیْ یُفْرَقُ فِیْہَا کُلُّ اَمْرٍ حَکِیْمٍ وَّ یُبْرَمُط اَنْ تَکْشِفَ عَنَّا مِنَ الْبَلَائِ وَالْبَلْوَ آئِ مَا نَعْلَمُ وَمَا لَا نَعْلَمُ وَاَنْتَ بِہٖ اَعْلَمُ اِنَّکَ اَنْتَ الْاَعَزُّالْاَکْرَمُط وَصَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِہٖ وَ اَصْحَابِہٖ وَسَلَّمْ وَالْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَلَمِیْنَ
فاتحہ اور حلوہ :
۱۴ شعبان کو خصوصاًحلوہ پکانا اور اس پرفاتحہ دلانا بھی بزرگانِ دین کے معمولات سےہے۔حلوہ پکا کر آقائے دوجہاں حضور اکرم حضرت محمد مصطفیﷺ اورتمام صالحین، اولیائے کاملین، سلاسل تصوف و طریقت کے بزرگان دین، اپنے آباؤ اجداد، اعزاو اقربا(جو حالتِ ایمان پر رحلت کر گئے ہوں) اور عام مومنین کی حلوے پر فاتحہ دلائیں اور ہمسایوں میں تقسیم کریں، خصوصاً محتاج و مستحقین امداد کو حلوے کے علاوہ کچھ خیرات بھی دیں۔ مشائخ سے منقول ہے یہ ارواح اپنے عزیزوں کی جانب سے فاتحہ و نذور کے منتظر ہوتے ہیں۔ ایصالِ ثواب کے تحفے وصول کرکے خوش ہوتے ہیں اور بارگاہ الٰہی میں اپنے زندہ عزیزوں کے حسنِ خاتمہ و آخرت کے لیے سفارش بھی کرتے ہیں۔
بخاری شریف کی حدیث جلد دوم صفحہ ۸۱۷ کے مطابق حلوہ کھانا رسول اکرمﷺ کی سنت متواتر اور سنتِ عادیہ دونوں پر عمل ہے۔ جبکہ حلوہ کھلانے سے متعلق اللہ کے پیارے حبیب ہمارے طبیب مصطفی کریم علیہ التحیۃ والتسلیم فرماتے ہیں ’’جس نے اپنے مسلمان بھائی کو میٹھا لقمہ کھلایا اس کو سبحانہ و تعالیٰ حشر کی تکلیف سے محفوظ رکھے گا۔
(شرح الصدور، للعلامہ امام سیوطی )
قبرستان حاضری کے آداب:
نصف شعبان المعظم کی رات قبرستان جانا اور اپنے عزیز و اقارب اور تمام مسلمانوں کے لئے دعائے مغفرت کرنا برزگوں کا معمول بھی ہے اور شرق و غرب میں امت کا اس پر عمل بھی ہے۔
باوضو ہو کر اور تازہ گلاب (یا دوسرے پھول) لے کر قبرستان جائیں،عزیز و اقارب اور دیگر مسلمانوں کے لئے فاتحہ کریں۔ قبروں کے آداب لحاظ رکھیں اور خصوصًاقبروں کے سرہانے لوح پر لکھی آیاتِ قرآنی کا احترام کریں، قبروں پر نہ چلیں، قبروں پر آگ نہ جلائیں یعنی روشنی کے لیے موم بتی یا چراغ جلانا منع ہے، بعض نادان حضرات ایسا کرتے ہیں جو شرعاً منع ہے، خوشبو کے لیے اگر بتی جلا کر قبر سے ایک فٹ دور رکھیں۔ اپنی موت کو بھی یاد رکھیں، خواتین قبرستان میں نہ جائیں۔ قبرستان میں داخلہ کے وقت یہ دعا پڑھیں:
اَلسَّلامُ عَلَیْکُمْ یَا اَہْلَ الْقُبُورِ الْمُسْلِمِیْنَ اَنْتُمْ لَنَا سَلَفٌ وَّ اَنَا اِنْشَاءَ اللہُ بِکُمْ لَاحِقُوْنَ نَسْاَلَ اللّٰہَ لَنَا وَلَکُمُ الْعَفْوَ وَ الْعَافِیَۃِ
دیگر نوافل:
صلوۃ خیر سے چار ہزار نو سو (۴۹۰۰) حاجتیں پوری ہوتی ہیں:
حضرت خواجہ حسن بصری رحمہ اللہ الرضوان فرماتے ہیں کہ ’’مجھے تیس صحابہ علیہم الرضوان نے بیان کیا ہے کہ اس رات جو شخص یہ نماز خیر پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف ستر مرتبہ نظر رحمت فرماتا ہے ایک نظر میں ستر حاجتیں پوری فرماتا ہے جن میں سب سے ادنیٰ حاجت گناہوں کی مغفرت ہے اس طرح کل چار ہزار نو سو حاجتیں پوری ہوتی ہیں۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ دو دورکعت کر کے صلوٰۃ خیر مستحب کی نیت باندھیں، ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد دس بار سورۃ اخلاص پڑھیں۔ پچاس نمازوں کی سو رکعتوں میں ایک ہزار مرتبہ سورۃ اخلاص پڑھیں گے۔
تمام صغیرہ و کبیرہ گناہوں کی معافی:
آٹھ رکعت نفل دو دو کرکے پڑھیے، ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد ۲۵ مرتبہ سورۃ اخلاص پڑھ کر خلوص دل سے توبہ کریں اور درج ذیل دعا کھڑے ہوکر بیٹھ کر اور سجدے میں ۴۴ مرتبہ پڑھیں۔ گناہوں سے ایسے پاک ہوجائیں گے جیسے کہ آج ہی پیدا ہوئے ہوں۔
اَللّٰہُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ کَرِیْمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ یَا غَفُوْرُ یَا غَفُوْرُ یَا غَفُوْرُ یَا کَرِیْمُ
رزق میں برکت اورکاروبار کی ترقی کے لیے:
دورکعت نماز ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد آیت الکرسی ایک مرتبہ، سورۃ اخلاص پندرہ مرتبہ پڑھیں۔ سلام کے بعد سو مرتبہ درود شریف پڑھیں پھر تین سو تیرہ مرتبہ
یَاوَہَّابُ یَا بَاسِطُ یَارَزَّاقُ یَا مَنَّانُ یَا لَطِیْفُ یَا غَنِیُّ یَا مُغْنِیُّ یَا عَزِیْزُ یَا قَادِرُ یَا مُقْتَدِرُ
کا وظیفہ پڑھنے سے کاروبار میں برکت اور رزق میں وسعت ہوجاتی ہے۔
موت کی سختی سے نجات اور عذابِ قبر سے حفاظت:
چار رکعت پڑھیں ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد سورۃ تکاثر ایک مرتبہ اور اخلاص تین دفعہ پڑھ کر سلام کے بعد سورۃ ملک اکیس مرتبہ اور سورۃ توبہ کی آخری دو آیتیں اکیس دفعہ پڑھنے سے ان شاء اللہ عزوجل والرسولﷺ موت کی سختیوں اور قبر کے عذاب سے محفوظ رہیں گے۔
صلوۃ التسبیح:
حضور اکرم نور مجسمﷺ نے حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا: اے چچا! کیا میں تم کو عطا نہ کروں، کیا میں تم کو بخشش نہ کروں، کیا میں تم کو نہ دوں، کیا میں تمہارے ساتھ احسان نہ کروں، دس فوائد ہیں کہ جب تم یہ کرو تو اللہ تعالیٰ تمہارے گناہ بخش دے گا۔ اگلا، پچھلا، پرانا، نیا، جو بھولے سے کیا جو قصدًا کیا، چھوٹا ہو، بڑا ہو، پوشیدہ ہو یا ظاہر ہو۔ اس کے بعد صلوۃ التسبیح کی ترکیب تعلیم فرمائی، پھر فرمایا کہ اگر تم سے ہو سکے تو ہر روز ایک بار پڑھا کرو یا پھر جمعہ کے دن ایک بار یا ہر ماہ میں ایک بار یا سال میں ایک بار یہ بھی نہ ہوسکے تو زندگی میں ایک بار ضرور پڑھو۔ طریقہ یہ ہے کہ نیت کے بعد تکبیر تحریمہ کہہ کر ثنا پڑھیں، پھر تسبیح :
سُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُلِلّٰہِ وِلَا اِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ
پندرہ بار پھر تعوذ، تسمیہ،سورۃ فاتحہ اور کوئی بھی سورۃ پڑھ کر رکوع میں جانے سے پہلے دس بار یہی تسبیح پڑھیں پھر رکوع میں دس بار، رکوع سے سر اٹھا کر قومہ میں تحمید کے بعد دس بار پھر سجدہ میں دس بار دونوں سجدوں کے درمیان جلسے میں دس بار، دوسرے سجدہ میں دس بار اس طرح چاروں رکعت میں پڑھیں ہر رکعت میں پچھتر(۷۵) بار چاروں رکعتوں میں تین سو (۳۰۰) بار تسبیح پڑھی جائے گی۔ یہ واضح رہے کہ دوسری، تیسری اور چوتھی رکعتوں کے شروع میں فاتحہ سے پہلے پندرہ بار اور رکوع سے پہلے دس بار یعنی قیام میں پچیس (۲۵) بار اور رکوع و سجود میں’’سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم‘‘ اور ’’سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلیٰ‘‘ تین مرتبہ پڑھ کر پھر تسبیح دس دس بار پڑھیں گے۔
روز محشر اللہ تعالیٰ کا دیدار اور اس کی نظر کرم:
اس نعمت کے وہ مستحق ہوں گے جو پندرہ شعبان کا روزہ رکھیں اور بعد نماز ظہر چار رکعت دو دو کرکے اس طرح پڑھیں کہ پہلی رکعت میں فاتحہ کے بعدسورۃزلزال اک بار،سورۃ اخلاص دس بار، دوسری رکعت میں سورۃ تکاثر ایک بار، سورۃاخلاص دس بار، دوسری نماز کی پہلی رکعت میں سورۃفاتحہ کے بعد سورۃ کافرون تین دفعہ،سورۃ اخلاص دس بار اور آخری رکعت میں آیت الکرسی تین دفعہ، سورۃاخلاص پچیس بار، جو یہ عمل کریں گے تو روز محشر اللہ تعالیٰ کے دیدار سے مشرف ہوں گے۔ نیز اللہ تعالیٰ بھی ان کی طرف نظر کرم فرمائے گا۔
نوٹ: یاد رکھیں نوافل سے پہلے فرض نمازوں کی قضا کی ذمہ داری پوری کرنی ہوگی۔
شعبان المکرم اور روزے:
۱۔نسائی شریف میں حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا، اے اللہ کے رسولﷺ! میں آپ کو اس قدر روزے رکھتا نہیں دیکھتا جس قدر کہ شعبان میں آپ روزوں کا اہتمام کرتے ہیں، آپ نے فرمایا یہ وہ مہینہ ہے جس سے لوگ غافل ہیں یہ رجب اور رمضان کے درمیان وہ مہینہ ہے کہ جس میں لوگوں کے اعمال رب العالمین کے حضور پیش ہوتے ہیں، میں پسند کرتا ہوں کہ میرا عمل جب پیش ہو تو میں روزے کی حالت سے ہوں۔‘‘
(جامع الصغیر، جلددوم، صفحہ۳۰۱)
۲۔اُم المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے محبوب خداﷺ کو رمضان المبارک کے علاوہ کسی مہینے میں مکمل روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا اور شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزے رکھتے نہیں دیکھا۔‘‘
(بخاری شریف جلد اول صفحہ۲۶۴)
۳۔ام المؤمنین سیدہ عائشہ الصدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو تمام مہینوں میں شعبان کے روزے زیادہ پسند تھے، پھر اسے رمضان سے ملادیا کرتے۔
(جامع الترمذی جلد اول، صفحہ ۲۷۵)