سب مدینے چلیں

علامہ پرفیسر سید خرم ریاض رضوی ،لاہور،پاکستان


بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
صلی اللّٰہ علی النبی الامی والہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم صلاۃً وسلاماً علیک یا رسول اللہ

سب مدینے چلیں

اس صدائے عشق نوا کی حلاوت وہی دل پا سکتے ہیں جو دیار یار کے تذکار پر مچل مچل اٹھتے ہیں ؎

ہر گھڑی وجد میں رہے اخترؔ
کیجئے اس دیار کی باتیں

سب مدینے چلیں

اس ندائے الفت فزا کی راحت سے وہی جانیںآشنا ہوتی ہیں جو کوچۂ جاناں کی خاک میں خاک ہونے کے لیے تڑپ تڑپ جاتی ہیں ؎

خاک طیبہ کی طلب میں خاک ہو یہ زندگی
خاک طیبہ اچھی اپنی زندگی اچھی نہیں

سب مدینے چلیں

اس آواز محبت ساز کی شیرینی انہی روحوں میں اترتی ہے جو در محبوب کے انتظار میں پل پل گن گن کر بتاتی ہیں ؎

ترا دل شکستہ اخترؔ اسی انتظار میں ہے
کہ ابھی نوید وصلت تیرے در سے آرہی ہے

سب مدینے چلیں

یہ زمزمہ انہی سینوں میں ہلچل مچاتا ہے جو مدینہ کی آرزو میں پگھل پگھل جاتے ہیں اور ہر نفس زبان شوق پر یہی مدعا لاتے ہیں ؎

یا رسول اللہ از رحمت نگر
در بقیع پاک خواھم مستقر

اے خوشا بخت رسائے اخترت
باز آوردی گدا را بر درت

سب مدینے چلیں

یہ ایک سندیس بھی ہے اور اک تمنا بھی، اس میں نغمگی بھی ہے اور کچھ درد اور کسک بھی، ایک لگن اور دھن بھی ہے اور جذب دروں بھی قصد و ارادہ بھی ہے اور وارفتگی و والہانہ پن بھی۔عاشق صادق کو جب در محبوب کی چٹھی مل گئی تو اس کا غنچۂ دل کھل گیا، اور وہ نسیم عطر گرداں کی طرح گلشن میں گل و بلبل سے نازشیں کرتا ہوا گنگنانے لگا ؎

تم چلو ہم چلیں سب مدینے چلیں
جانب طیبہ سب کے سفینے چلیں

اس نغمۂ جانفزا میں ڈوبا ہوا جنوں اور سوز دروں اس طور پر ہے کہ ابھی عاشق زار اس انتظار میں ہے کہ کب دل کی بے کلی مٹے، آرزو کی کلی کھلے اور راہ طیبہ ملے ؎

اے نسیم کوئے جاناں ذرا سوئے بد نصیباں
چلی آ کھلی ہے تجھ پہ جو ہماری بے کسی ہے

حضور فیض گنجور تاج الشریعہ بدرالطریقہ زینت بزم سخن مخزن ہر علم و فن حضرت مفتی اختر رضا خاں الازھری قدس اللہ تعالیٰ سرہ العزیزکی سفینہ بخشش کا یہ کلام حلاوت نظام مشتاقان رسول ﷺ اور طالبان مدینہ زادھا اللہ شرفاً و تعظیما کے لیے بجائے خود ایک سفینہ ہے۔ ایسا سفینہ کہ جس میں حرماں نصیب سوار ہو کر دیار یار کے ساحل کی طرف رواں دواں رہتے ہیں۔ عشق کے چپو چلاتے ہوئے، آنکھوں سے آنسو بہاتے ہوئے، زبان حال سے یوں دہائی مچاتے ہوئے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔

کشتیٔ زندگی مری اب تو کنارے آ لگی
کہتی ہے تم سے زندگی اب تو مئے دوام دو

حضور ازھری میاں قبلہ علیہ الرحمہ کی یہ نظم عشق بزم اک ترانہ بھی ہے اور نعرۂ مستانہ بھی ، اس کشتیٔ محبت کے ان کھیون ہاروں کیلئے جو الفت کے ساگر میں اٹھتی موجوں کو دیکھ کر مضبوط ارادوں کے لنگر اٹھا دیتے ہیں۔ باد بان شوق کھول کر آرزو مندان دید کو نوید وصل سناتے ہیں۔

تم چلو ہم چلیں سب مدینے چلیں
جانب طیبہ سب کے سفینے چلیں

قاضیٔ عشق، مفتیٔ محبت، حضرت تاج شریعت بخششوں کے سفینہ میں سوار عاشقان زار کو نوید مدینہ کے ساتھ مئے شبینہ کی لذتیں بھی دلانے لگے۔ شراب عشق کے جام بھر بھر کے پلانے لگے اور مدینے کے نخلستانوں کی جانب اشارہ کر کے فرمانے لگے۔

میکشو! آ ؤ آؤ مدینے چلیں
بادۂ خلد کے جام پینے چلیں

حسن مطلع میں حسن کے پیکر حضرت اختر کس قدر حسیں انداز میں، محبت کی طرب اور عشق کے ساز میں اپنا مدعا بیان کرتے ہیں۔ بقول بلبل شیراز

غزل گفتی و در سفتی بیاو خوش بخواں حافظ
کہ بر نظم تو افشاند فلک عقد ثریا را

کہ اے حافظ تو نے غزل کہی یا چمکتے موتی چنے۔ اے حافظ آ اپنے خوشگوار لہجہ میں یہ غزل گنگنا، اپنی حسن بیانی کا جادو جگا، کیونکہ تیری اس چمکتی غزل کے حسن نظم پر تو فلک ثریا کے چمکتے ستارے لٹا رہا ہے۔

اور چمکتی سی غزل کوئی پڑھو اے نوریؔ
رنگ اپنا ابھی جمنے شعرا نے نہ دیا

تو حضرت تاج الشریعہ کا یہ حسن مطلع پڑھ کے دل پکار اٹھے گا۔۔ اے تاج الشریعہ تشریف لائیے اپنا نغمۂ عشق سنائیے، مدینہ کا جلوہ دکھائیے اور چمکتی آنکھوں سے بادۂ خلد کے چھلکتے جام پلائیے۔ اے تاج الشریعہ آئیے، خدارا لطف فرمائیے، مدینے کے مرغزاروں میں بسائیے اور نوری دیوان سے کوئی چمکتی غزل سنائیے۔

گوش بر آواز ہوں قدسی بھی اس کے گیت پر
باغ طیبہ میں جب اختر گنگناتئے خیر سے

تاج الشریعہ ! للہ رخ زیبا سے پردہ ہٹائیے، جاں بخش تبسم کی پھبن دکھائیے، وہ حامدی ضیاء، وہ نوری ادا، وہ جیلانی ضیاء، وہ تحسینی جلا، رضا و نقی کا آئینہ بارے سامنے لائیے،رخ کام جاں دکھائیے۔۔۔ع

مہر نے چھپ کر کیا خاصا دھند لکا نور کا

اے تاج الشریعہ، اے رضوی دولہا، اے برکاتی نوشہ، اے مارہرہ کی امانتوں کے امیں، اے کالپی فلک کے ماہ مبیں، اجمیری ساغر میں قادری بادہ چھلکا دیجیے،تشنگی مٹا دیجیے۔۔۔ع

شربت نہ دیں، نہ دیں تو کریں بات لطف سے

اے مہرباں ساقی! زبان کرم کو جنبش دیجیے، دامن کرم میں لیجئے۔نغمہ قم سنا دیجئے اور دست طلب میں دست ناز سے بغدادی پیمانہ تھما دیجئے ؎

وھمو و اشربو انتم جنودی
فساقی القوم بالوافی ملال

کا سوز مے اور ساز عشق سنا دیجئے ؎

ملے لب سے وہ مشکیں مہر والی دم میں دم آئے
ٹپک سن کر قم عیسیٰ کہوں مستی میں قلقل کو

حضرت تاج الشریعہ رحمتہ اللہ تعالیٰ و تبارک علیہ کا یہ بادہ بار کلام، بزم عشق کا یہ خوشگوار جام مرنے والوں میں جینے کی امنگ جگاتا ہے۔ راہ عشق میں جاں لٹا نے کا ڈھنگ سکھاتا ہے، حقیقی زندگی کی ترنگ دکھاتا ہے۔

جی گئے وہ مدینے میں جو مر گئے
آئو ہم بھی وہاں مر کے جینے چلیں

زندگی اب سر زندگی آ گئی
آخری وقت ہے اب مدینے چلیں

حضرت تاج الشریعہ کی کہی ہوئی یہ نعت شیریں تر از قندو نبات فیض رضا کی چمکتی ہوئی سوغات من میں مدینے کی لگن لگاتی ہے۔ دل میں طیبہ کی جوت جگاتی ہے۔ گلزار مدینہ کی مہکتی یادوں سے روح کو بساتی ہے۔ دیار حبیب کا ایسا شوق دلاتی ہے کہ بے سہارا بھی کشاں کشاں چلتا ہے ناتواں بھی دیوانہ وار بڑھتا ہے۔اور جھوم جھوم کر پڑھتا ہے۔

شوق طیبہ نے جس دم سہارا دیا
چل دیئے ہم کہا بے کسی نے چلیں

شوق طیبہ نے بے سہارا کو ایسا سہارا دیا۔ بے کسی مٹا کر ایسا یارا دیا کہ جسم ہی نہیں جاں بھی عازم مدینہ ہوئی۔ تن بدن ہی نہیں روح بھی سوئے طیبہ رواں ہوئی۔ قالب ہی نہیں قلب بھی شہر دلبر کی طرف دوڑنے لگا۔

یہ بحثیں ہو رہی ہیں میرے دل میں پہلو و برمیں
کہ دیکھیں کون پہنچے آگے آگے شہر دلبر میں

میرے آقائے نعمت بدر طریقت تاج شریعت حضرت تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کے اس جام خوش کام سے مشتاق مدینہ کے دل پر ایسی مستی چھائی کہ وہ حیات و ممات سے بیگانہ، فنا و بقا سے بے نیاز ہو کر سوئے طیبہ پرواز کرنے لگا۔

طائر جاں مدینے کو جب اڑ چلا
زندگی سے کہا زندگی نے چلیں

جان نو راہ جاناں میں یوں مل گئی
آنکھ میچی کہا بیخودی نے چلیں

فخر از ھر اھلسنت کے دلبر حضرت تاج الشریعہ عشق مدینہ کی چاشنی لٹا رہے ہیں اور مدینہ کی راہ کو راہ بقا بتا رہے ہیں۔ فرما رہے ہیں کہ یاد مدینہ میں مرنا ہی حقیقت میں جینا ہے۔ مدینہ طیبہ کی محبت ہی حیات جاودانی کا سفینہ ہے۔ طائر جاں دم واپسی اڑا تو کدھر کو چلا؟ سوئے مدینہ۔ قفس عنصری سے روح نکلی تو کدھر گئی؟ گلزار مدینہ کی ڈالیوں پر جا بیٹھی ؎

بلبل بے پرپہ ہو جائے کرم
آشیانش دہ بہ گلزار حرم

وقت رخصت عاشق مدینہ کی جان اس پھبن سے نکلی کہ زندگی اسے ہمیشہ کی زندگی کا مثردہ سناتے ہوئے جانب مدینہ لے چلی۔ گویا طالب مدینہ کے حسن طلب نے ایسا رنگ جمایا، محبت مدینہ کی مے نے بیخودی کا ایسا نشہ چڑھایا کہ شمع مدینہ کا پروانہ آنکھ میچ کر محو دیدار ہوا اور اپنی جان سو جان سے مدینے پہ قربان کر کے جان نو کی سرمدی لذتوں سے سرشار ہوا۔

واروں قدم قدم پہ کہ ہر دم ہے جان نو
یہ راہ جانفزا میرے مولاکے در کی ہے

اگر راہ طیبہ میں ناتوانی ناتوانوں کے آڑے آنے لگی۔ بے کسی انہیں رلانے لگی۔ بے مائیگی تڑپانے لگی تو حب مدینہ نے ایسا جذبہ جگایا کہ بے کلی دل کی کلی بن کے مسکرانے لگی اور دل کوکھینچ کر خاک مدینہ میں بس جانے کی خوشخبری سنانے لگی۔

راہ طیبہ میں جب ناتواں رہ گئے
دل کو کھینچا کہا بے کلی نے چلیں

خاک طیبہ میں اپنی جگہ ہو گئی
خوب مژدہ سنایا خوشی نے چلیں

وارث علوم امام احمد رضا حضرت تاج الشریعہ علیہ الرحمہ مدینہ کا گیت گاتے۔ سوئے مدینہ بلاتے ۔ مدینہ کی راہ پہ چلاتے اور ہم ناتوانوں کے سفینے جانب مدینہ بڑھاتے ہوئے سرکار مدینہ ،سرور قلب و سینہ، مہبط وحی و سکینہ،شہ دوجہاں، خاتم مرسلاں صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کریمی بتانے لگے۔ رحمت عالم کے لطف و کرم کی ادائیں دکھانے لگے فرمانے لگے کہ وہ ایسے شفیق و مہرباں آقا ہیں کہ ان کا کوئی نام لیوا۔ انکے در کا گدا، کوئی فقیر و بینوا ، کوئی خاک نشیں ، کوئی مضطرب، کوئی حزیں، کوئی بے نشاں ،کوئی بے آشیاں، کوئی عاجزی سے سادگی کے ساتھ ان کا ہاتھ تھام کر اپنے ساتھ لے چلے تو وہ چل دیتے ہیں۔ وہ ہاتھ جھٹکتے نہیں دامن چھڑاتے نہیں۔

بے تکلف شہ دو جہاں چل دیئے
سادگی سے کہا جب کسی نے چلیں

سیدہ اماں خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنھا بھی تو یہی فرماتی ہیں:

انک لتصل الرحم صلہ رحمی کرنا رسول خدا کی شان ہے۔

و تحمل الکل ضعیف اور ناتواں کا بوجھ اٹھا لینا ان کا دستور ہے۔

و تکسب المعدوم اور مفلس و قلاش کا دامن بھر دینا ان کا معمول ہے

و تقری الضیف مہمانوں اور ناداروں کے لیے خوان نعمت بچھانا انکی عادت کریمہ ہے۔

و تعین علی نوائب الحق اور لوگوں کی مدد و دستگیری کرنا محتاجوں کی اعانت و دلجوئی فرمانا آپکا خلق حسن ہے۔

آتا ہے فقیروں پہ انہیں پیار کچھ ایسا
خود بھیک دیں اور خود کہیں منگتا کا بھلا ہو

طائر جاں مدینے کو اڑ چلا۔ زندگی زندگی میں مل چکی جان مضطر راہ جاناں میں جان نو کی راحت پا گئی، آنکھ میچی تو بیخودی چھا گئی،ناتوانی رخصت ہوئی تاب و تواں مل گئی، بے کلی مٹ کے رہی، دل کی کلی کھل گئی اور مثردہ یہ سنا کہ خاک طیبہ میں اپنی جگہ ہو گئی۔ الحمداللہ رب العالمین
اب مرحلہ ہے آخرت کا، عرصہ ہے قیامت کا، گھڑی ہے محشر کی دن ہے حشر کا۔ یوم یفرا المرء من اخیہ اس دن آدمی بھاگے گا اپنے بھائی و امہ و ابیہ اور ماں اور باپ و صاحبتہ و بنیہ اور جورو اور بیٹوں سے لکل امری منھم یومئذشان یغنیہ ان میں سے ہر ایک کو اس دن ایک فکر ہے کہ وہی اسے بس ہے۔ وہ جانکاہ عالم کیا وقت دکھائے گا۔ وہ جاں گسل گھڑیاں کیا ساعت لائیں گی۔ ہر طرف نفسی نفسی کی دہائی خدا کو یاد کر پیارے وہ ساعت آنے والی ہے۔
لیکن حضرت تاج الشریعہ بدر الطریقہ از ھری میاں قبلہ علیہ الرحمہ بے چین جانوں کی بے چینی مٹا رہے ہیں۔ عصیاں شعاروں کو مغفرت کی سبیل بتا رہے ہیں۔ شفاعت مصطفیٰ علیہ التحیۃ والثناء کا جلوہ تاباں دلوں میں بسا رہے ہیں۔ فرما رہے ہیں۔

اگلے پچھلے سبھی خلد میں چل دیئے
روز محشر کہا جب نبی نے، چلیں

سبحان اللہ! کیا بانکپن ہے۔ کیسا جوبن ہے۔ کیا نفاست کلام ہے، سخنوری کا چھلکتا ہوا جام ہے۔ کس قدر دلکشی ہے، کیسی نغمگی ہے عشق رسول کی سر مستی ہے۔ جس سے عیاں راز ہستی ہے ۔ محبت حبیب میں عجب وارفتگی ہے۔ جس سے عاشقوں کی د ل بستگی ہے ۔ گویا فرما رہے ہیں کہ مصطفیٰ کریم ﷺکے لب پاک سے اقرار شفاعت ہی جنت کی بشارت ہے۔ ان کا اشارۂ ابرو مغفرت کی ضمانت ہے۔ جان کرم کا مسکرا کے کہہ دینا’’چلیں‘‘گرفتاروں کی بیڑیاں کاٹ دے گا۔ جنت کے دروازے کھلوا دے گا۔ غفران و بخشش کا دریا بہا دے گا۔ گنہگاروں کو فردوسی باغات میں بسا دیگا۔

لو وہ آیا میرا حامی میرا غم خوار امم
آ گئی جاں تن بے جاں میں یہ آنا کیا ہے

جان جاناں کا اتنا فرما دینا’’چلیں‘‘ہزار رکاوٹیں دور کر دے گا۔ محشر کی کلفتیں کافور کر دے گا۔ جان شفاعت کی آواز’’چلیں‘‘پائے کوباں کیلئے مژدۂ جانفزا ہو گی۔ حرماں نصیبوں کے لیے فرحت افزا ہو گی۔۔۔ع

پژ مردہ جانوں کے لیے دلکش و دلکشا ہو گی

جان محبوبی کی صدا’’چلیں‘‘تو باغ شفاعت کی وہ ہوا ہے جو گلزار ارم کو بسا دے گی۔ شان محبوبی کی ندا’’چلیں‘‘تو جلوہ زار کن کی موجِ صبا ہے، جو فردوسی پھولوں کو مہکا دے گی، قصردنیٰ کا دولہا، باغ قدس کی بہار، ملک شفاعت کا نوشاہ، دست قدرت کا شاہکار ، میرے اللہ کا نگار ’’چلیں‘‘کیا فرمائے گا۔ میدان حشر میں جنت کو کھینچ لائے گا، خاک افتادہ کو دست کرم سے اٹھائے گا، دل شکستہ کو سینے سے لگائے گا، غموں کی دھوپ میں جلتی جانوں کو دامن اقدس کی ٹھنڈی ہوا سے جِلائے گا، خلق خدا ان کےگنہگار کا ناز دیکھے گی، چشم جہاں انکی شفاعت کے انداز دیکھے گی ؎

ہر نظر کانپ اٹھے گی محشر کے دن خوف سے ہر کلیجہ دہل جائے گا
پر یہ ناز ان کے بندے کا دیکھیں گے سب تھام کر ان کا دامن مچل جائے گا

موج کترا کے ہم سے چلی جائے گی رخ مخالف ہوا کا بدل جائے گا
جب اشارہ کریں گے وہ نامِ خدااپنا بیڑا بھنور سے نکل جائے گا

یوں تو جیتا ہوں حکم خدا سے مگر میرے دل کی ہے ان کو یقیناًخبر
حاصل زندگی ہو گا وہ دن مرا ان کے قدموں پہ جب دم نکل جائے گا

رب سلم وہ فرمانے والے ملے کیوں ستاتے ہیں اے دل تجھے وسوسے
پل سے گزریں گے ہم وجد کرتے ہوئے کون کہتا ہے پائوں پھسل جائے گا

اخترؔ خستہ کیوں اتنا بے چین ہے تیر آقا شہنشاہ کونین ہے
لولگا تو سہی شاہ لولاک سے غم مسرت کے سانچے میں ڈھل جائے گا

حامدی حسن کی ادا، جیلانی دلربا ، حضرت تاج الشریعہ مفتی اختر رضا رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ مدینہ طیبہ کا مژدہ جانفزا سناتے ہوئے ۔ مئے مدینہ کے پیمانے چھلکاتے ہوئے، راہ طیبہ میں ملنے والی جان نو کا گیت گنگناتے ہوئے اور عرصہ گاہ محشر میں شفاعت مصطفی ﷺ کے نغمات گاتے ہوئے۔ عشق کے نفحات سے غم زدوں کا غم مٹاتے ہوئے۔ زخمی دلوں پر ذکر عطائے رسول کا مرہم لگاتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں۔

ان کی شان کرم کی کشش دیکھنا
کاسہ لے کر کہا خسروی نے چلیں

حضرت تاج الشریعہ مفتی اختر رضا علیہ الرحمہ رسول کو نین شاہ حرمین مالک کل سید الرسلﷺ کی نوازشوں کا۔ آپکی عنایتوں کا بندہ پروری کاشان دستگیری کا کیا پر لطف بیان فرما رہے ہیں۔ مصطفیٰ جان رحمت کے لطف و کرم کا بہتا دھارا دکھا رہے ہیں۔ بزم سخن کو چار چاند لگا رہے ہیں۔ ذوق نعت کی نفاست و سلاست اورحدائق بخشش کی لطافت و حلاوت چھلکا رہے ہیں۔ فرما رہے ہیں۔

ان کی شان کرم کی کشش دیکھنا
کاسہ لے کر کہا خسروی نے چلیں

مطلب یہ کہ حضور اقدس ﷺکی سخا کا کیا کہنا کہ بڑے بڑے سخی بھی آپکے منگتا ہیں۔ سرکار دو عالم ﷺ کے جود دو عطا کا کیا کہنا کہ شاھان زمانہ بھی آپکے در کے گدا ہیں۔ آپکے لطف و کرم کی ادا ایسی پر کشش ادا ہے کہ سلاطین دھر دامن پھیلائے کھنچے چلے آتے ہیں اور منہ مانگی مرادیں پاتے ہیں۔

یہ کس شہنشہ والاکا باڑا بٹتا ہے
کہ خسرووں میں پڑی ہے پکار ہم بھی ہیں

ان کی شان کرم کی کشش دیکھنا ذرا تاج الشریعہ کے اس جاذب نظر بیان کی بھی کشش دیکھنا کیسا نفیس و سلیس پیرا یہ ہے۔ حضرت اختر کا قلم کس لطیف ادا سے جاذبیت ، سخن و کشش کلام کھینچ لایا ہے۔ حضرت رضا کے پختہ خامہ کی سحر طرازی کا رنگ دکھایا ہے اور استاذزمن کا جام تغزل چھلکایا ہے۔

سن کلام رضا طوطیٔ اصفہاں
بے زباں بے زباں بے زباں ہو گیا

مقناطیس کی مقناطیسیت فدا اے اختر رضا تیرے کلام کی کشش و دلکشی پر ۔ شیریں لحن، میٹھا لہجہ، حسن آہنگ، شوکت الفاظ، کمال تلفظ کیا کیا نثار کروں اے جان عنا دل تیرے نغموں پر۔ منظر نگاری اور پرکاری تو کنیزیں ہیں ترے قصر سخن کی ، اے اختر رضا ،اے خوشنوا۔ تشبیہ و استعارہ تیرے خزینہ حروف سے معانی مستعار لیتے ہیں، اے اختر رضا اے شیریں ادا ، تطبیق و تلمیح تو نمکخوار ہیں تیرے خوان بیان کے ، اے اختر رضا، اے گلوں کی صدا نظم و غزل، ربط و چاشنی کا کاسہ لیے حاضر ہیں تیری چوکھٹ پر، اے اختر رضا، اے مہ لقا غزال تیری غزل سن کر نافے بسائیں۔ طائران جناں تیرے گیتوں کی دھومیں مچائیں، اے اختر رضا۔پیکر عشق و وفا شیراز کے بلبل اور اصفہان کے طوطی آئیں تیری منڈیر پر چہچہائیں۔

بلبل باغ مدینہ ترا کہنا کیا ہے۔

تو حضرت تاج الشریعہ علیہ الرحمہ نے کس خوبصورت انداز میں کریم دو جہاں سلطان کون و مکاں صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کرم کی کشش کا نقشہ آنکھوں میں جما دیا کہ ۔۔۔ع

کاسہ لے کر کہا خسروی نے چلیں

محبوب رب رحمان سید انس و جان ﷺ کی جھولیاں بھر دینے کی دل کو موہ لینے والی ادا کا نظارہ تو کیجئے۔ خدا توفیق دے تو سرکار تاج الشریعہ کی حق بیں نظر سے دیکھیے۔ حسن مطلق پر فدا ان دیدہائے نور سے روشنی لے کر دیکھئے تو سہی کہ جانثاروں کے جلو میں چار یاروں کی جھرمٹ میں ماہ نبوت مہر رسالت کس شفقت و مہربانی اور تسلسل و فراوانی کے ساتھ تہی دامنوں کی جھولیاں بھر رہا ہے۔ بینوائوں، بے کسوں کی دلجوئی کر رہا ہے، چاک گریبانوں، ناتوانوں کو دامن کرم کے سایہ میں بٹھا رہا ہے۔ روتوں ، بلکتوں، سسکتوں اور سلگتوں کو لب شاداب پر مسکراہٹ لالاکر، شانِ تبسم کا نور چھلکا کر ٹھنڈے میٹھے جام پلا رہا ہے۔

ٹھنڈا ٹھنڈا میٹھا میٹھا
پیتے ہم ہیں پلاتے یہ ہیں

کہہ دو رضا سے خوش ہو خوش رہ
مژدہ رضا کا سناتے یہ ہیں

یہ پیار بھری ادائیں دیکھ کر ، سخاوتوں، عنایتوں کی نوری ردائیں دیکھ کر، خلق کریمانہ و انداز خسروانہ کی یہ چلتی ہوائیں دیکھ کر خسروی کا دل بھی باغ باغ ہو گیا۔ تاجوری کی تمنا بر آئی، شہنشہی تاج شہی کو کاسہ بنائے در مصطفی کے ٹکڑے لینے چلی آئی۔

تاج خود را کاسہ کردہ گوید ایں جا تاجور
ان کے در کی بھیک اچھی سروری اچھی نہیں

خسروی تاج شہی کو کاسہ بنائے مصطفیٰ کریمﷺ کی چوکھٹ سے خیرات پانے چلی آئی۔ خسروی، شان سخا جان عطا، خسروِ دنیٰ علیہ التحتہ و الثناء کی شان کرم کی کشش دیکھ کر خسروی کھینچتی چلی آئی اور دامن دل پھیلائے ہوئے تاج شہی چمکائے ہوئے، آنکھیں بند اور لب و اکئے ہوئے نغمہ زن ہوئی۔

کیوں تاج دار و خواب میں دیکھی کبھی یہ شے
جو آج جھولیوں میں گدایان در کی ہے

ہم شبیہ غوث اعظم سیدی تاج الشریعہ علیہ الرحمہ ذکر مدینہ کی دلکشی لٹاتے ہوئے۔ بزم ثنائے یار میں عشقی رنگ جماتے ہوئے۔ آرزو مندان مدینہ کے جذبات کوجِلاتے ہوئے۔ بادہ خلد کے جام چھلکاتے ہوئے، ملک ازل کے سرور، سب نبیوں کے افسر، شافع محشر ﷺ کا اختر منور انہی کے دامن کی لامحدود نورانی وسعتوں میں جا چمکا۔ شہباز لامکانی میراں محی الدین جیلانی کے فیضان سے کون و مکاں کی سرحدوں سے وراء، نور مصطفیٰ علیہ التحیتہ و الثناء کی ناختم ہونے والی تابشوں میں جا بسا۔ جلوہ زار مصطفیٰ کی بہار نگاہ انتظار میں سجا کر دل کو رخ محبوب کا مجلیٰ آئینہ بنا کر اختر برج قادری منزل بقا میں جا روشن ہوا۔

’’دل مکانِ شہ عرشیاں ہو گیا‘‘
’’لامکاں لامکاں لامکاں ہو گیا‘‘

دامن مصطفیٰ میں ترا ازھری
’’آشیاں آشیاں آشیاں ہو گیا‘‘

باغ خلد نبی میں ترے چہچہے
شاد و فرحاں ہر اک نغمہ خواں ہو گیا

تیری آمد پہ بزم جناں سج گئی
طالب طیبہ جنت رواں ہو گیا

باد رحمت سنک بلبلوں کی چہک
سارا گلشن تر ا ہم زباں ہو گیا

تیری شیریں مقالی کا اعجاز ہے
ہر سخن شکر داں شکر داں ہو گیا

تیرے نغمات کی ایسی مہکار ہے
ہمنوا جو ہوا عطر داں ہو گیا

ایک نوری جھلک ایک شیریں ڈھلک
تلخ و تاریک سا ہے سماں ہو گیا

وصل کے نور سے مجھ کو خیرات دو
ورنہ تاریک میرا جہاں ہو گیا

تیرا نقش قدم رہبری کے لیے
اہلسنت کا روشن نشاں ہو گیا

تیرے جانے سے اے ازھری دلربا
دیکھ کیسا سماں ہے یہاں ہو گیا

اشک رکتے نہیں دل سنبھلتا نہیں
تیرے جانے سے سونا جہاں ہو گیا

یاد تیری رلاتی ہے اختر پیا
دل تپاںدل تپاں دل تپاں ہو گیا

’’خرم میاں‘‘پکارو مجھے پھر ذرا
تفتہ جاں تفتہ جاں تفتہ جاں ہو گیا

میں کہاں اور بہر رضا ہے کہاں
’’امتحاں امتحاں امتحاں ہو گیا‘‘

ان کے نغموں کو سن طوطی اصفہاں
’’بے زباں بے زباں بے زباں ہو گیا‘‘

خرمؔ قادری کو تیری جستجو
جانب طیبہ وہ تو رواں ہو گیا

’’اختر خستہ بھی خلد میں چل دیا‘‘
’’جب صدا دی اسے مرشدی نے چلیں‘‘

’’یٰۤاَیَّتُہَا النَّفۡسُ الۡمُطۡمَئِنَّۃُ ‘‘کی تسلی بخش صدا سن کر بطیب خاطر حسن اطمینان کے ساتھ ’’ اِرۡجِعِیۡۤ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرۡضِیَّۃً‘‘ سے سرمدی خوشنودی کے موتی چن کر شکر و امتنان کے ساتھ’’ فَادۡخُلِیۡ فِیۡ عِبٰدِیۡ‘‘کے ظل رحمت کے سایہ ’’وَ ادۡخُلِیۡ جَنَّتِیۡ‘‘ کے ابدی گلزاروں میں ہمیشہ کی زندگی جینے دست ساقی کوثر سے مئے دوام پینے اختر برج رضا کشاں کشاں رواں دواں ہوا۔ ۔۔ع

جب صدا دی اسے مرشدی نے چلیں

کروڑوں عاشقوں کو روتا چھوڑ کر ۔ دنیائے فانی سے منہ موڑ کر یاد خدا کا گلشن بسا کر ذکر الہٰ کی دھومیں مچا کر، لَہُمُ الۡبُشۡرٰی فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَ فِی الۡاٰخِرَۃِ ؕ کے ہنستے مسکراتے انوار لٹاتا، لَا تَبۡدِیۡلَ لِکَلِمٰتِ اللّٰہِ ؕ کے جگمگاتے اسرار سے دلوں کو آگاہ فرماتا۔ خستہ جانوں کی خستگی مٹاتا۔ درماندہ جانوں کی درماندگی ہٹاتا۔ راہ بقا دکھاتا۔۔۔ع

اختر قادری خلد میں چل دیا

وہ اختر قادری جو طریقت کے آسمان پر بدر تمام اور شریعت کے فلک پر مہر منور بن کر چمکتا رہا۔ وہ اختر قادری جو حقائق کے دیپ جلاتا رہا۔ دقائق کی گھتیاں سلجھاتا رہا۔ وہ اختر قادری جس کا حسن کبھی ماند نہیں پڑا۔ جس کی دلکشی میں کبھی کمی نہیں آئی، وہ حسن مطلق کا مشتاق وہ حبیب کبریا کی طلعتوں پر فدا، نغمہ سرا، ہست و بود سے بے پرواہ، رازہستی آشکار کرتا، وہ اختر پرضیا نور و نکہت کی قبا پہنے ہوئے باغ بقا روانہ ہوا۔ اور چلتے چلتے کوتاہ بینوں کی بے نور آنکھوں میں بصیرت کا سرمہ اس طرح لگا گیا۔

اب پس مرگ ابھرتے ہیں یہ دیرینہ نقوش
ہم فنا ہو کے بھی ہستی کا نشاں دیتے ہیں

مرشد گرامی کا دست کرم تھام کر حضرت اختر رضا آقائے نعمت تاج شریعت جنت کی بہاروں میں تو جا بسے لیکن ان کا گلشن آج بھی لہلہا رہا ہے۔ سدا لہلہاتا رہے گا۔ ان کا پھریراآج بھی لہرا رہا ہے۔ ہمیشہ لہراتا رہے گا۔ ان کا سکہ آج بھی چل رہا ہے۔ دائما چلتا رہے گا۔ ان کا عسجد آج بھی جگمگا رہا ہے تا ابد جگمگاتا رہے گا۔ ان کے ہمام و حسام صبح و شام مہکتے ہیں تا دوام مہکیں گے۔ باغ رضا کے گل تر رہیںگے۔ دین کی سپر رہیں گے۔ اعدائے دین کے سر رہیں گے، یہ شمشیر بے نیام دو۔
حضرت اختر رضا کی شفقتیں اور عنایتیں بھلائی نہیں جا سکتیں۔ ان کی طلعتیں اور نکہتیں مٹائی نہیں جا سکتیں۔ دل حق آگاہ سے پوچھو۔ نگاہ حق بیں سے دیکھو۔ وہ کل بھی زندہ تھے وہ آج بھی زندہ ہیں۔

خاک ہو کر عشق میں آرام سے سونا ملا
جان کی اکسیر ہے الفت رسول اللہ کی

کیا قرآن کا فرمان ابد نشان سنا نہیں کان حقیقت سے یہ سرمد عسجد چنا نہیں۔ فَلَنُحۡیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً ۚ        کہ ایسی پاک جانوں کے لئے ہمیشہ کی زندگی کا مژدہ ربانی ہے۔ انہی کے لئے کامرانی ہے اور حیات جاودانی ہے۔

ہرگز نہ میرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق
ثبت است برجریدئہ عالم دوام ما

اختر خستہ بھی خلد میں چل دیا
جب صدا دی اسے مرشدی نے چلیں

تقبل اللہ تعالیٰ بحق نبیہ الکریم ﷺ

Menu