حضرت امین شریعت ایک مختصر تعارف
حضرت امین شریعت،براور اعلیٰ حضرت استاذ زمن حضرت علامہ حسن رضا خاں علیہ الرحمہ کے پوتے اور داماد اعلیٰ حضرت،حضرت علامہ حسنین رضاخاں علیہ الرحمہ کے تین شہزادوں میں سب سے بڑے شہزادے تھے علامہ حسنین رضا خاں علیہ الرحمہ کا پہلا عقد اعلیٰ حضرت قدس سرہٗ کی بیٹی کنیز حسنین سے ہوا تھا جن سے صرف ایک بیٹی شمیم بانو تولد ہوئیں تھیں مگر جب ان کا وصال ہو گیا تو ان کی وفات کے بعد حضرت علامہ حسنین رضا خاں نے عالیجناب عبدالغنی خاں کی بیٹی منوری بیگم سے دوسرا عقد فرمالیا۔جن سے تین فرزند (۱)امین شریعت حضرت مفتی سبطین رضا خاں(۲)صدرالعلماء حضرت علامہ تحسین رضاخاں علیہ الرحمہ(۳) حضرت مفتی حبیب رضاخاں جو علامہ حسنین رضا خاں (۴)ایک بیٹی(زوجہ حضور تاج الشریعہ حضرت علامہ مفتی اختررضاخاں ازہری علیہ الرحمہ ) تولد ہوئیں۔
تاریخ پیدائش و جائے پیدائش :
آپ رضا نگر محلّہ سوداگران بریلی شریف کی سرزمین عشق و محبت پر مؤرخہ ۲؍ نومبر ۱۹۲۷ء کو پیدا ہوئے۔
تعلیم و تربیت و تسمیہ خوانی :
خاندانی رسم و رواج کے مطابق جب آپ کی عمر شریف چار سال چار ماہ چار دن ہوئی تو آپ کے والد بزرگوار حضرت علامہ حسنین رضا خاں علیہ الرحمہ نے آپ کے ماموں جان مرحوم مولانا عبدالہادی صاحب کے مکان پر رسم تسمیہ خوانی کی ایک تقریب کا انعقاد کیا جس میں آپ کے چھوٹے دادا،سرکار مفتی اعظم ہند کے خسر محترم اور سیدنا سرکار اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چھوٹے بھائی حضرت علامہ مفتی محمد رضا خاں علیہ الرحمہ نے آپ کو بسم اللہ شریف پڑھا کر آپ کی رسم تسمیہ خوانی کی ادائیگی فرمائی۔ آپ بچپن ہی سے تقویٰ شعار اور صوفی صفت انسان تھے۔ابتداًاکبری مسجد جو پرانہ شہر کے محلّہ گھیر جعفر خاں میں واقع اور مرزائی مسجد کے نام سے مشہور ہے وہاں چلنے والے مکتب میں آپ نے ابتدائی تعلیم حاصل کی پھر درس نظامیہ کی اعلیٰ تعلیم کے لیے آپ کو دارالعلوم مظہر اسلام مسجد بی بی جی میں داخل کرایا گیا۔جہاں آپ نے درس نظامیہ کی مروجہ کتابوں کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنے رفیق درس مولانا فیضان علی رضوی بیسل پوری کے ساتھ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی تشریف لے جا کر داخلہ لیا۔
نکاح :
گھریلو ماحول تو آپ کو علمی وروحانی ملاہی تھا خوش قسمتی سے سسرال بھی آپ کو علمی اور روحانی ہی ملی چنانچہ ۱۸؍شعبان المعظم ۱۳۷۶ھ مطابق ۲۸؍مارچ ۱۹۵۷ء بروز جمعرات بعد نماز عصر بڑی مسجد آم والی محلّہ جہاں گیرآباد بھوپال میں آپ کا نکاح تسہیل المصادر کے مصنف،ناشر مسلک اعلیٰ حضرت فقیہ اعظم حضرت علامہ مفتی عبدالرشید فتح پوری علیہ الرحمہ کی صاحبزادی کے ساتھ ہوا،مفتی مالوہ حضرت علامہ مفتی رضوان الرحمٰن صاحب نے آپ کا نکاح پڑھایا۔آپ کی اہلیہ بے انتہا نیک،پارسا،صوم و صلٰٰوۃ کی پابند تقویٰ شعار اور پردے کا سختی کے ساتھ التزام کرنے والی خاتون ہیں۔آپ کا پردہ پورے خاندان اعلیٰ حضرت میں مشہور ہے۔
اولاد :
ان نیک خاتون سے آپ کی سات اولاد ہوئیں جن میں سے دو شہزادوں کا انتقال ہوگیا اور اس وقت دو صاحبزادے حضرت مولانا سلمان رضاخاں صاحب،حضرت نعمان رضا خاں صاحب۔اور تین صاحبزادیاں بقید حیات ہیں۔حضرت مولانا سلمان رضا خاں تاج الشریعہ حضرت علامہ مفتی محمد اختررضا خاں ازہری میاں مدظلہ النورانی کے داماد بھی ہیں۔
بیعت و خلافت :
حضرت علامہ حسنین رضاخاں علیہ الرحمہ نے اپنی تمام تر علمی و روحانی خوبیوں کے باوجود اپنے بڑے شہزادے حضرت امین شریعت کوتا جدار اہل سنّت شہزادۂ اعلیٰ حضرت سیدنا سرکار مفتی اعظم ہند رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دست حق پر بیعت کرایا۔سرکار مفتی اعظم ہند رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی سے آپ کو اجازت و خلافت بھی حاصل تھی۔
زیارت حرمین شریفین :
آپ نے اپنی زندگی میں ۶؍ مرتبہ حج بیت اللہ اور زیارت حرمین شریفین کی سعادت حاصل فرمائی۔
دینی خدمات :
علوم دینیہ اور عصر ی تعلیمات حاصل کرنے کے بعد آپ نے سب سے پہلے دارالعلوم مظہر اسلام میں تدریس خدمات انجام دیں۔پھر آپ ہلدوانی اتراکھنڈ مدرسہ اشاعت الحق میں تین سال تک علوم وفنون کے موتی بکھیرتے رہے اور طالبان علوم نبویہ انہیں اپنے دامن علم وفن میں سمیٹتے رہے۔۱۹۵۸ء میں آپ ناگپور کی عظم الشان درسگاہ جامعہ عربیہ اسلامیہ تشریف لائے،یہاں کے ناظم اعلیٰ بنائے گئے۔تین سال تک اس عہد ے پر فائز رہے۔یہاں کی مجلس شوریٰ کے آپ رکن بھی رہے۔۱۹۶۳ء میں چھتیس گڑھ کے ایک خطہ کا نکیر تشریف لائے۔سر زمین کا نکیر پر قدم رکھتے ہی آپ کی زبان فیض ترجمان سے اچانک یہ جملہ نکلا کہ ’’ارے یہ تو وہی سر زمین ہے جسے میں نے عالم خواب میں دیکھا تھا ‘‘ اسی سر زمین کو آپ نے مسلک اعلیٰ حضرت کی نشر و اشاعت کے لیے منتخب فرمایا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ بنجر زمین علوم و فنون اور روحانیت و عرفانیت کے ماحول کے حوالے سے رشک جناں بن گئی۔آپ نے نہایت تکلیفیں اور مصائب و آلام برداشت کر کے بے انتہا استقامت کے ساتھ یہاں روحانی وعرفانی ماحول پیدا کیا۔آج بھی یہ خطہ آپ کی مخلصانہ جدوجہد کی مونھ بولتی تصویر ہے۔چھتیس گڑھ کے بہت سے علاقوں اور خطوں میں آپ نے مساجد،مدارس اور دینی اداروں کو قائم فرمایا۔کیشکال میں مدرسہ فیض الاسلام،رائے پور میں مدرسہ ’’ ادارۂ شرعیہ دارالعلوم انوار مصطفی ‘‘ قائم فرمایا۔کانکیر میں دارالعلوم امین شریعت کی بنیاد ڈالی۔
قلمی خدمات :
آپ ایک بے مثال فقیہ، مفتی،مدرس،شاعر،پیر طریقت،مبلغ مسلک اعلیٰ حضرت اور خطیب و واعظ ہونے کے ساتھ ایک بہترین قلمکار اور مضمون نگار بھی تھے۔ آپ کے مضامین جماعت اہل سنّت کے مشہور ومعروف رسالوں کی زینت بنتے رہتے تھے۔ آپ کے مضامین میں سے ’’لائوڈاسپیکر،آئینہ قیامت کے سرقہ کی پُراسرار داستان، ٹی وی کے مضر اثرات،صدر العلماء پیکر علم وبردباری،یک از مردان حق،براور زادۂ اعلیٰ حضرت استاذ العلما ء مولانا حسنین رضا خاں صاحب علیہ الرحمہ،ماہ محرم اور مفتی اعظم، منفرد شخصیت، ہمارا قومی اتحاد اخلاق محمدی کے آئینے میں،کائنات کا دولہا،مراسم محرم اور مسلمان، نماز پڑھنے سے کیا ہوتا ہے؟‘‘ جیسے مضامین آپ کے قلمی شاہکار ہیں۔ ان تمام مضامین کو حضرت امین شریعت کے خادم خاص مولانا اشرف رضاقادری صاحب نے ’’مضامین امین شریعت ‘‘ کے نام سے کتابی شکل میں جمع فرمادیا ہے۔
اوصاف جمیلہ :
حضرت امین شریعت مسائل ضروریہ شرعیہ پر گہری نگاہ رکھتے تھے، فرائض وواجبات کے ساتھ اور ا\دوظائف اور سنن و مستحبات پر سختی سے عامل تھے۔تقویٰ شعار زندگی آپ کا نشان امتیاز تھی،خلق خدا کو اور ادووظائف اور مسائل شرعیہ کے ذریعہ نفع پہنچاتے۔ کثرت کے ساتھ سرکار مفتی اعظم ہند کی حیات طیبہ کے گوشوں پر روشنی ڈالتے، لوگوں کو مسلک اعلیٰ حضرت پر گامزن رہنے کی تلقین فرماتے،اصاغروا کابر ہر ایک سے نہایت ہی منکسر انہ انداز اور خندہ پیشانی کے ساتھ ملاقات فرماتے۔مدارس کے طلبہ کو بزرگوں کے واقعات سناکر مسلک و مذہب کی خدمت کرنے پر بے لوث اور مخلصانہ انداز میں اُبھارتے۔دور دراز سے آنے والے پریشان حال لوگوں کو تعویذ ات وعملیات کے ذریعے فائد ہ و نفع پہنچاتے۔
انتقال پر ملال:
محرالحرام ۱۴۳۷ھ کی ۲۶؍ تاریخ ہے اورنومبر ۲۰۱۵ء کی ۹؍ تاریخ ہے، پیر کے دن تقریباًایک بج کر پینتالیس منٹ پرآپ کا وصال ہوا۔
نمازِ جنازہ اور تدفین:
ویسے تو آپ کے مریدین و متوسلین اس بات پر مصر تھے کہ وہ آپ کے جسد خاکی کو کا نکیر کی سر زمین یعنی چمتیس گڑھ لے جائیں مگراہل خانہ کے مشورے کے بعد آخر میں یہی طے پایا کہ آپ کی نماز جنازہ بھی سر زمین اعلیٰ حضرت پر ہو اور آخری آرام گاہ بھی اسی مقدس سر زمین پر بنائی جائے۔چنانچہ ۲۸؍محرم ۱۴۳۷ھ ـ / ۱۱؍نومبر۲۰۱۵ء بروز بدھ تقریباً ۱۱؍ بجے دن میں آپ کا جنازہ غسل و تکفین کے بعد ایک گاڑی پر رکھ کر آپ کے کاشانۂ اقدس محلّہ کانکر ٹولہ پرانہ شہر بریلی سے جلوس کے ساتھ روانہ ہوا۔کسی بھی گلی میں پاؤں رکھنے تک کی جگہ نہ تھی،بے پناہ اور بے شمار اژدہام تھا، روہیل کھنڈ کے علاوہ ہندوستان کے متعدد صوبوں خاص کر چھتیس گڑھ، اڑیسہ، کرناٹک، مہاراشٹر،مدھیہ پردیش اور گجرات کے متعدد اضلاع اور خطوں سے عقیدت مندوں اور مریدین کے جھنڈ کے جھنڈ سر زمین بریلی شریف پر آئے ہوئے تھے وہ زار و قطار رو رہے تھے،آنسوئوں سے داڈھیاں بھیگ رہی تھیں،تسبیح و تہلیل کی صدائوں اور
کعبہ کے بدرالدجیٰ تم پہ کروڑوں دُرود
طیبہ کےشمس الضحیٰ تم پہ کرڑوں دُرود
اور
وہ سوئے لالہ زار پھر تے ہیں
تیرے دن اے بہار پھرتے ہیں
یہ کلام والہانہ انداز میں پڑھتے ہوئے جنازہ کے ساتھ چل رہے ہیں۔تقریباً ساڑھے بارہ بجے یہ جلوس جنازہ اسلامیہ گراؤنڈ پہنچا جہاں جماعت اہلسنّت کے اکابرو اصاغر علما، خاندان اعلیٰ حضرت کے تمام شہزادگان موجود تھے۔تقریباً۱؍ بجے حضور تاج الشریعہ حضرت علامہ الحاج الشاہ مفتی محمد اختررضاخاں ازہری میاں علیہ الرحمہ نے نماز جنازہ ادا کرئی۔ اسلامیہ گرائونڈ پورا بھرا ہوا تھا۔کہیں بھی تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ نماز جنازہ کے بعد محلّہ کانکر ٹولہ آپ کے مکان کے سامنے ایک پلاٹ خرید کر تقریباً شام ۳ بجے آپ کی تدفین عمل میں آئی۔ دیررات تک مٹی دینے والوں کا سلسلہ جاری رہا۔
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نور ستہ اس گھر کی نگہبانی کرے