کاتب وحی ، صحابیٔ رسول ﷺ،امیر المؤمنین حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ

 آپ کا نام ،معاویہ ،کنیت،ابو عبد الرحمن ہے۔آپ کا شجرہ نسب والد اور والدہ دونوں کی طرف سےپانچویں پشت میں سرورِ عالم ﷺمل جاتا ہے۔
صحیح قول کےمطابق آپ نے خاص صلح حدیبیہ کے دن 7ھ میں اسلام قبول کرلیا تھا ۔مگر مکہ والوں کے خوف سے اپنا اسلام چھپائے رہے،جیسے حضرت عباس رضی اللہ عنہ ۔(حضرت امیرِ معاویہ پر ایک نظر:ص،36)۔اسی طرح بعض مؤرخین نے آپکو مؤلفۃ القلوب میں شمار کیا ہے یہ صحیح نہیں ہے۔(ایضا)
 
حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت ابوسفیان بن حرب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیٹے تھے۔ آپ کی والدہ کا نام ہندہ تھا۔ ظہورِ اسلام سے قبل ابوسفیان کا شمار رؤسائے عرب میں ہوتا تھا۔ جبکہ ابوسفیان اسلام کے بڑے دشمنوں میں شمار ہوتے تھے۔ فتح مکہ کے بعد جب نبی کریم ﷺ نے عام معافی کا اعلان کیا تو ابوسفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت ہندہ اور ان کے تمام خاندان نے اسلام قبول کر لیا۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ان میں شامل تھے۔ پھر قبولِ اسلام کے بعد ساری زندگی اسلام کی ترقی کیلئے کوشاں رہے۔ہجرت مدینہ سے تقریباًً 8 برس قبل مکہ میں آپ کی پیدائش ہوئی۔ جب اسلام لائے تو زندگی کے پچیسویں برس میں تھے۔ فتح مکہ کے بعد نبی اکرم ﷺ نے ان لوگوں کے تالیف قلب کے لیے ابوسفیان کے گھر کو ’’بیت الامن‘‘ قرار دیا۔ یعنی جو شخص ان کے گھر چلا جائے وہ مامون ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کاتبِ وحی مقرر کیا۔ اس کے علاوہ بیرون علاقوں سے آئے ہوئے لوگوں اور ملاقاتیوں کی مہمان نوازی اور دیکھ بھال کا کام بھی آپ کے سپرد تھا۔ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کے بھائی یزید بن ابوسفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شام کے محاذ پر بھیجا تو حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ان کے ہمراہ تھے۔ عہد فاروقی میں حضرت یزید بن ابو سفیان کی وفات کے بعد آپ کو ان کی جگہ دمشق کا حاکم مقرر کیا گیا۔ رومیوں کے خلاف جنگوں میں سے قیساریہ کی جنگ آپ کی قیادت میں لڑی گئی جس میں 80 ہزار رومی قتل ہوئے تھے ۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کو دمشق ،اردن ، اور فلسطین تینوں صوبوں کا والی مقرر کیا اور اس پورے علاقہ کو شام کا نام دیا گیا۔ والیِ شام کی حیثیت سے آپ کا سب سے بڑا کارنامہ اسلامی بحری بیڑے کی تشکیل اور قبرص کی فتح ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔آپ پر بہت اعتماد کرتے تھے اور آپ کا شمار عرب کے چار نامور مدبرین میں ہوتا تھا۔
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خوارج سے مقابلہ کیا، مصر، کوفہ، مکہ، مدینہ میں باصلاحیت افراد کو عامل و گورنر مقرر کیا۔ آپ کے دور حکومت جوبیس سال کو محیط ہے۔ سجستان، رقہ، سوڈان، افریقہ، طرابلس، الجزائر اور سندھ کے بعض علاقے فتح ہوئے۔ ان کا دور حکومت ایک کامیاب دور تھا، ان کے زمانہ میں کوئی علاقہ سلطنت اسلامیہ سے خارج نہیں ہوا، بلکہ اسلامی سلطنت کا رقبہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا گیا۔
 ایک قول کےمطابق آپکاوصال 04رجب المرجب60 ھ میں ہوا ۔ آپ نے وصیت فرمائی کہ میر ےپاس رسول اللہ ﷺ کے کچھ ناخن شریف ہیں ۔وہ میری آنکھوں میں رکھ دینا۔حضور ﷺ کی قمیص اور تہبند میں مجھے لپیٹ دینا۔اور آپ کے بال شریف میرےمنہ اور ناک میں رکھ دینا ۔پھر مجھے ارحم الراحمین کے سپرد کردینا۔(حضرت امیرِ معاویہ پر ایک نظر :ص،39)
شان سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بزبان مصطفیﷺ
۱۔ ایک روایت میں ہے کہ حضورﷺ نے اپنے ہاں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو کسی کام مشورے کے لئے طلب فرمایا مگر دونوں حضرات کوئی مشورہ نہ دے سکے تو آپ نے فرمایا ادعوا معاویہ احضرروہ امرکم فانہ قوی امین۔ یعنی معاویہ رضی اللہ عنہ کو بلاؤ اور معاملہ کو ان کے سامنے رکھو کیونکہ وہ قوی اور امین ہے۔
۲۔یبعث اللّٰہ تعالیٰ معاویۃ یوم القیمۃ و علیہ
اللہ تعالیٰ قیامت کے دن معاویہ رضی اللہ عنہ کو اٹھائے گا تو ان پرنور کی چادر ہوگی۔
۳۔اہلم من امتی (تطہیر الجنان)
ترجمہ: میری امت میں سے معاویہ رضی اللہ عنہ سب سے زیادہ بردبار ہے
اللھم املاہ علماء (ابن حجر الاصابہ ج 3ص 413)
اے اللہ معاویہ رضی اللہ عنہ کو علم سے بھر دے
یامعاویہ ان ولیت الامر فاتق اللّٰہ (بخاری جلد 1ص 409)
اے معاویہ رضی اللہ عنہ تمہارے سپرد امارت کی جائے تو تم اللہ سے ڈرتے رہنا
اول جیش من امتی یغزو البحر فقد اوجیو (بحوالہ بخاری)
میری امت کا سب سے بڑا لشکر جو بحری لڑائیوں کا آغاز کرے گا اس پر جنت واجب ہے۔ ابن اثیر اور تمام تاریخوں کے مطابق حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ واحد شخص ہیں جنہوں نے سب سے پہلے بحری بیڑے کا آغاز کیا اور مسلمان قوم سب سے پہلی مرتبہ بحری جہاد سے سرفراز ہوئی۔
وعن ابی الدرداء قال مرائیت احد لعبد رسول اﷲ اشبہ صلاہ برسول من احدکم ہذا یعنی معاویہ (مجمع الزوائد للعلامہ نورالدین)
حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضورﷺ کے بعد حضورﷺ سے زیادہ سے زیادہ مشابہت رکھنے والی نماز پڑھانے والا امیر معاویہ کے سوا کوئی نہیں دیکھا۔
وعن عبداللّٰہ بن عمران معاویہ کان یکتب بین یدی رسول اللہ(منبع الفوائد)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ حضورﷺ کے سامنے بیٹھ کر لکھا کرتے تھے۔
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی قیام گاہ یعنی آپ کے والد حضرت سیدنا ابو سفیان رضی اللہ عنہ کا مکان آنحضرتﷺ کے لئے مشرکین مکہ کی ایذا رسانی سے پناہ گاہ ثابت ہوتا تھا چنانچہ حافظ ابن حجر عسقلانی نے طبقات ابن سعد کے حوالہ سے نقل کیا ہے۔(الاصابہ ج 2ص 179،المتقی ص 253)
اور نبی کو جب مشرکین مکہ اذیت و تکلیف پہنچاتے تو آپ حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ کے گھر پناہ لیا کرتے تھے اسی احسان کا بدلہ اور شکریہ حضورﷺ نے فتح مکہ کے موقع پر یہ اعلان فرمایا ’’من دخل دار ابی فہو امن‘‘ یعنی ابتدائے اسلام کی عسرتوں اور پریشانیوں میں جو مکان پناہ گاہ رسولﷺ بنا‘ آج جو شخص بھی اس میں پناہ حاصل کرے گا اسے امان دے دی جائے گی (مسلم شریف)
رسول کریمﷺ نے فرمایا معاویہ میں تم سے ہوں اور تم مجھ سے ہو (لسان المیزان) لوگوں کو خبر دی جائے کہ امیر معاویہ جنتی ہیں (بحوالہ طبرانی)
حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بارہ خلفاء میں شامل ہیں جن کی بشارت رسول کریمﷺ نے دی (تطہیر الجنان ص 15)
خود امیر معاویہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول کریمﷺ نے فرمایا۔ وضو کرو جب ہم وضو کرچکے تو آپ نے فرمایا اے معاویہ! اگر تو خلیفہ بنایا جائے تو اللہ تعالیٰ سے ڈرنا عدل کرنا (تطہیر الجنان)
رسول کریمﷺ نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو نصیحت فرمائی‘ اے معاویہ جب تو ملک کا والی ہوجائے تو رعایا سے حسن سلوک کرنا (تطہیر علی العواصم ص208)
حضرت شاہ ولی اللہ رحمتہ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ رسول کریمﷺ نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو ہدایت یافتہ اور ذریعہ ہدایت فرمایا اس لئے کہ انہوں نے مسلمانوں کا خلیفہ بننا تھا اور نبی امت پر شفیق ہے (از الۃ الخلفاء ‘ ج 1ص 573)
نبی کریمﷺ نے فرمایا ! اے اللہ معاویہ کو ملکوں کی حکومت عطا فرما۔(کنز العمال‘ ج 1‘ ص 19)
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور رسول خداﷺ کی ملاقات جنت کے دروازہ پر ہوگی (لسان المیزان ص  25)
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر جبرئیل امین علیہ السلام نے سلام بھیجا (البدایہ والنہایہ)
سیدنا امیر معاویہ کے بارے میں جبرئیل امین نے خیر کی وصیت کی (البدایہ والنہایہ)
معاویہ کے لشکر کو بشارت جنت خود رسول خدا نے دی (مجمع الزوائد‘ ج 9 ص 357)
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی نظرمیں
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب امت میں تفرقہ اور فتنہ برپا دیکھو تو سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی اتباع کرو (بحوالہ البدایہ)
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا ذکر کرو تو خیر سے کرو (ترمذی)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ وہ یقینا فقیہہ ہیں (البدایہ)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ملکی حکومت کو زینت دینے والا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے زیادہ کوئی نہیں دیکھا (بحوالہ تاریخ بخاری)
فاتح عراق و ایران حضرت سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے بعد اس دروازے والے (معاویہ) سے زیادہ حق فیصلہ کرنے والا کسی کو نہیں دیکھا (البدایہ والنہایہ‘ ج 7‘ص 123)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے خدا کی قسم کھا کر فرمایا‘ حضرات خلفائے راشدین معاویہ رضی اللہ عنہ سے افضل تھے اور معاویہ رضی اللہ عنہ سرداری کی صفت میں ان حضرات سے بڑھ کر تھے (استعیاب ج 2‘ ص 263)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا رسول کریمﷺ کے بعد حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے زیادہ سردار کوئی نہیں د یکھا (استعیاب ج 2‘ ص 262)
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اورحضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا میرا حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اختلاف صرف حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قصاص کے مسئلہ میں ہے اور اگر وہ خون عثمان رضی اللہ عنہ کا قصاص لے لیں تو اہل شام میں ان کے ہاتھ پر بیعت کرنے والا سب سے پہلے میں ہوں گا (البدایہ و النہایہ ج 7‘ص 259)
حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔ میرے لشکر کے مقتول اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے لشکر کے مقتول دونوں جنتی ہیں (مجمع الزوائد ‘ ج 9‘ ص 258)
حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے جنگ صفین سے واپسی پر فرمایا۔ امارات معاویہ رضی اللہ عنہ کو بھی خزانہ سمجھو کیونکہ جس وقت وہ نہ ہوں گے تم سروں کو گردنوں سے اڑتا ہوا دیکھو گے (بحوالہ شرح عقیدہ واسطیہ)
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو جب شہادت حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو خبر ملی تو سخت افسردہ ہوگئے اور رونے لگے (البدایہ ج 8 ص 130)
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو صاحب فضل کہا (البدایہ‘ ج 8ص 131)
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا حضرت امیر معاویہ و عمر بن عبدالعزیز میں سے افضل کون ہے؟ آپ نے فرمایا ہم اصحاب مسجد کے برابر کسی کو نہیں سمجھتے‘ افضل ہونا تو کجا ہے (بحوالہ الروضہ الندیہ‘ شرح العقیدہ الواسطیہ ص 406)
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایک قتل کے مسئلہ پر حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے رجوع کیا (بحوالہ موطا امام مالک)
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے روم کے بادشاہ کو جوابی خط لکھا تو اس میں یہ لکھا حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ میرے ساتھی ہیں اگر تو ان کی طرف غلط نظر اٹھائے گا تو تیری حکومت کو گاجر مولی کی طرح اکھاڑ دوں گا (تاج العروس ص 221)
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ’’اے نصرانی کتے اگر حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا لشکر تیرے خلاف روانہ ہوا تو سب سے پہلے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے لشکر کا سپاہی بن کر تیری آنکھیں پھوڑ دینے والا معاویہ ہوگا۔(بحوالہ مکتوب امیر معاویہ البدایہ)
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ
حضرت امام باقر نے کہا کہ امام حسن رضی اللہ عنہ نے جو کچھ کیا وہ اس امت کے لئے ہر اس چیز سی بہتر تھا جس پر کبھی سورج طلوع ہوا (بحارا الانوار‘ ج 10ص 1641)
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ مشاہیر اسلام کی نظر میں
حضرت امام مالک رضی اللہ عنہ نے کہا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو برا کہنا اتنا بڑا جرم  ہے جتنا بڑا جرم حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہم کو برا کہنا ہے۔(صواعق محرقہ ص 102)
حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے ساتھ اگر جنت میں ابتدا کی تو صلح میں بھی ابتدا کی۔(صواعق محرقہ ص 105)
حضرت امام شافعی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اسلامی حکومت کے بہت بڑے سردار ہیں (صواعق محرقہ ص 105)
امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں تم لوگ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے کردار کو دیکھتے تو بے ساختہ کہہ اٹھتے بے شک یہی مہدی ہیں۔(صواعق محرقہ ص 106)
حضرت امام اعمش رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر تم معاویہ رضی اﷲ عنہ کا زمانہ دیکھ لیتے تو تم کو معلوم ہوتا کہ حکمرانی اور انصاف کیا چیز ہے‘ لوگوں نے پوچھا کیا آپ ان کے حلم کی بات کررہے ہیں تو آپ نے فرمایا نہیں! خدا کی قسم ان کے عدل کی بات کہہ رہاہوں (العواصم ص 333‘ اور المتقی ص 233)
حضرت عوف بن مالک مسجد میں قیلولہ فرما رہے تھے کہ خواب میں ایک شیر کی زبانی آواز آئی جو منجانب اللہ تھی کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو جنتی ہونے کی بشارت دے دی جائے (بحوالہ طبرانی)
حضرت مجاہد نے کہا کہ اگر تم حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو دیکھتے تو کہتے یہ مہدی ہیں (البدایہ)
قاضی عیاض رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ آنحضرتﷺ کے صحابی‘ برادر نسبتی‘ اور کاتب وحی ہیں جو آپ کو برا کہے اس پر لعنت ہو (البدایہ)
امام ابن خلدون نے فرمایا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے حالات زندگی کو خلفائے اربعہ کی ساتھ ذکر کرنا ہی مناسب ہے کیونکہ آپ بھی خلیفہ راشد ہیں۔(تاریخ ابن خلدون‘ ج 2‘ص 1141)
حضرت ملا علی قاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے امام برحق ہیں ان کی برائی میں جو روایتیں لکھی گئی ہیں سب کی سب جعلی اور بے بنیاد ہیں (موضوعات کبیر ص 129)
امام ربیع بن نافع فرماتے ہیں کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اصحاب رسول کے درمیان پردہ ہیں جو یہ پردہ چاک کرے گا وہ تمام صحابہ رضی اﷲ عنہما پر طعن کی جرات کرسکے گا (البدایہ ج 8‘ ص 139)
علامہ خطیب بغدادی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ مرتبے میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے افضل ہیں لیکن دونوں رسول اللہﷺ کے صحابی ہیں بلکہ مملکت اسلامیہ کے دوستوں میں سے ہیں ان کے باہمی اختلافات کے فتنہ کا تمام گناہ سبائی فرقہ پر ہے (البدایہ)
ابن کثیر نے لکھا ہے کہ آپ کی سیرت نہایت عمدہ تھی اور آپ بہترین عفو کرنے والے تھے اور آپ سب سے بہتر درگزر کرنے والے تھے اور آپ بہت زیادہ پردہ پوشی کرنے والے تھے (البدایہ ج 8‘ ص 126)
حضرت عمر بن عبدالعزیز نے خود اس شخص کو کوڑے مارے تھے جو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر سب و شتم کیا کرتا تھا (الصارم المسلول)
حضرت معانی بن عمران سے سوال کیا گیا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ افضل ہیں یا حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ؟ انہوں نے کہا کیا تم ایک تابعی کا صحابی سے مقابلہ کرتے ہو (البدایہ)
حضرت ابن عمران نے کہا کہ جو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہے اس پر اللہ تعالیٰ کے فرشتوں کی لعنت ہو اور اس پر تمام مخلوقات کی لعنت ہو (البدایہ)
حضرت قیصہ بن جابر اسدی فرماتے ہیں کہ میں نے ان سے بڑھ کر محبوب دوست اور ظاہر اور باطن کو یکساں رکھنے والا کسی کو نہیں دیکھا(تاریخ طبریٰ مترجم ج 5ص 175)
حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حقوق اﷲ اور حقوق العباد کے پورا کرنے میں خلیفہ عادل ہیں (مکتوبات دفتر اول ص 441)
حضرت شاہ ولی اللہ علیہ الرحمہ نے لکھا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں کبھی بدظنی نہ کرنا اسی طرح حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی بدگوئی کرکے ضلالت کا ورطہ نہ لینا۔
جو شخص حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر طعن کرے‘ وہ جہنمی کتا ہے ایسے خنزیر شخص کے پیچھے نماز حرام ہے (ملفوظات اعلیٰ حضرت بریلوی رحمتہ اللہ علیہ)

متعلقات

Menu