طوطیٔ ہند حضرت جواجہ ابوالحسن امیر خسرو چشتی دہلوی رحمۃ اللہ علیہ

اسمِ گرامی:ابوالحسن۔
لقب:ترک اللہ،یمین الدین۔
تخلص: خسرو۔
دہلی کی نسبت سے “دہلوی” کہلائے۔والد کاا سمِ گرامی امیر سیف الدین لاچین اور نانا کا نام عمادالملک ہے۔آپ کے والدِ بزرگوار “بلخ” کے سرداروں میں سے تھے۔ہندوستان میں ہجرت کرکے آئے اور شاہی دربار سے منسلک ہوگئے۔حضرت امیر خسرو کے والد اور نانا اپنے وقت کے عظیم بزرگ تھے۔
تاریخِ ولادت: آپ 653ھ بمطابق1255ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔
تحصیلِ علم: آپ نے ابتدائی تعلیم سے لیکر تمام علوم کی تحصیل وتکمیل اپنے نانا عماد الملک سے کی،جوکہ ایک زبردست عالم اور بےنظیر بزرگ تھے،اور خواجہ نظام الدین اولیاء کے مرید تھے۔انہوں نے اپنے نواسے کی تربیت میں کوئی کسر باقی نہ رکھی۔امیر خسرو علیہ الرحمہ نےبہت جلد تمام علوم میں کمال حاصل کیا،اوراور اپنے وقت کے فضلاء میں شمار ہونے لگے۔
بیعت وخلافت: آپ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء علیہ الرحمہ کے مرید اور خلیفہ تھے۔
سیرت وخصائص: معدنِ صدق وصفاء،کان عشق ووفاء،فنافی الشیخ،سلطان الشعراء،برہان الفضلاء،طوطیِ ہند،وادیِ خطابت وسخن کے فردِ وحیدحضرت خواجہ ابوالحسن امیر خسرو ،محبوب حضرت محبوب الہٰی رحمۃ اللہ علیہ۔آپ سلطان الشعراء برہان الفضلا وادی خطابت و سخن کے عالم فرید و وحید نوع انسانی کے دونوں جہان میں منتخب اور بے پایاں تھے۔ مضمون نگاری اور معنی پہنانے کے لیے شعر گوئی اور تمام اقسام سخن میں آپ کو وہ کمال حاصل تھا جو متقدمین و متأخرین شعراء میں سے کسی کو بھی نصیب نہیں ہوا، انہوں نے اپنے اشعار کو اپنے پیر کے فرمان و ارشاد کے مطابق اصفہانی طرز اور نہج پر کہا ہے، لیکن اس کے باوجود آپ صاحب علم و فضل تھے ۔ آپ تصوف کے اوصاف اور درویشوں کے احوال سے متصف تھے۔اگرچہ آپ کے تعلقات ملوک سے تھے اور امراء اور ملوک سے خوش طبعی اور بطور ظرافت میل جول تھا، لیکن قلبی طور پر ان تمام کی طرف میلان نہ تھا اس کی ایک واضح دلیل یہ ہے کہ آپ کے اشعار اور کلام میں جو برکات ہیں وہ تمام تر مشائخ ہی کا فیض معلوم ہوتاہے کیونکہ فساق و فجار کے قلوب برکات سے محروم ہوتے ہیں اور ان کے کلام کو قبولیت اور تاثیر قلبی میسر نہیں ہوتی۔
امیر خسرو علیہ الرحمہ ہر شب کو تہجد میں قرآن کریم کے سات پارے ختم کیا کرتے تھے۔ایک دن شیخ نظام الدین اولیاء علیہ الرحمہ نے آپ سے دریافت کیا۔ اے ترک! تمہاری مشغولیات کا کیا حال ہے؟ عرض کیا یاسیدی!رات کے آخری حصہ میں اکثر و بیشتر آہ و بکا اورگریہ و زاری کا غلبہ رہتا ہے۔شیخ نے فرمایا !الحمدللہ کچھ اثرات ظاہر ہو رہے ہیں۔ آپ کو شیخ نظام الدین اولیاء سے بے انتہا عقیدت اور محبت تھی اور شیخ بھی آپ پر نہایت درجہ شفیق اور عنایت کنندہ تھے ۔شیخ کی خدمت اور حضور میں اور کسی کو اتنی رازداری اور قربت حاصل نہ تھی جتنی امیر خسرو کو تھی۔ صاحب سیرالاولیاءآپ کے بارے میں فرماتے ہیں :کہ ایک مرتبہ شیخ نظام الدین اولیاء نے امیرخسرو کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا !کہ میں تمام دنیا سے تنگ آجاتا ہوں مگر تم سے تنگ نہیں ہوتا۔ ایک مرتبہ شیخ نے آپ سے اللہ کو درمیان میں رکھ کر یہ وعدہ فرمایا تھا کہ جب جنت میں جائیں گے تو تجھے بھی ان شاء اللہ عزوجل ساتھ لیکر جائیں گے۔
خلیفۂ اعلیٰ حضرت سید سلیمان شرف بہاری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: کہ خسرو علیہ الرحمہ کو کو جو جامعیت مبدأ فیاض سے عطا ہوئی ہے اس طرح کی بخششیں صفحاتِ تاریخ میں بہت کم اور نایاب ونادرہیں۔خصوصاً سرزمینِ ہند کے لئےتو ان کی ذات ایک بےمثل مایۂ نازوفخرہے۔مختلف پہلؤوں سےان کی ذات باکمالوں کی صف میں صدرنشیں پائی جاتی ہے۔”اگرصوفی کی حیثت سے دیکھو توفانی فی اللہ،ندیم کی حیثیت سے دیکھو تو ارسطوءِ زمانہ،عالم کی حیثیت سے دیکھوتومتبحّر علامہ،موسیقی کی حیثیت سے دیکھو توامام المجتہد،مؤرخ کی حیثیت سے دیکھوتوبےنظیرمحقق،شاعر کی حیثیت سے دیکھوتوملک الشعراء۔ان کے ہرکمال کادامن نہایت وسیع ہےاور اپنےبیان میں نہایت طوالت پذیر!سچ ہے:
لیس علی اللہ بمستنکر
ان یجمع العالم فی واحد
(مقدمہ مثنوی ہشت بہشت،ص:61)
شاعر ی:حضرت امیر خسرو نے ہر صنف شعر ، مثنوی ، قصیدہ ، غزل ، اردو دوہے ،پہیلیاں ، گیت وغیرہ میں طبع آزمائی کی۔ غزل میں پانچ دیوان یادگارچھوڑے۔ دنیا میں اردو کا پہلا شعر حضرت امیرخسرو ہی کی طرف منسوب ہے ۔ّ(یعنی آپ اردو زبان کے پہلے شاعر ہونے کا اعزاز بھی رکھتے ہیں)۔اردو کے ابتدائی موجدین میں ان کا نام نمایاں ہے ۔
فارسی کلام کی مثالیں:۔
اگر فردوس بر روے زمین است
همین است و همین است و همین است
کافر عشقم، مسلمانی مرا در کار نیست
هر رگ من تار گشته، حاجت زُنار نیست
از سر بالین من برخیز ای نادان طبیب
دردمند عشق را دارو به جز دیدار نیست
ناخدا بر کشتی ما گر نباشد، گو مباش!
ما خدا داریم ما ناخدا در کار نیست
خلق می‌گوید که خسرو بت‌پرستی می‌کند
آری! آری! می‌کنم! با خلق ما را کار نیست
اردو میں دوہے:۔
خسرو دریا پریم کا، اُلٹی وا کی دھار
جو اترا سو ڈوب گیا، جو ڈوبا سو پار
خسرو دریا پریم کا، اُلٹی وا کی دھار
جو اترا سو ڈوب گیا ، جو ڈوبا سو پار
سیج وُہ سونی دیکھ کے رووُوں میں دن رین
پیا پیا میں کرت ہوں پہروں، پل بھر سکھ نا چین
سیج وہ سونی دیکھ کے روؤں میں دن رین
پیا پیا میں کرت ہوں پہروں، پل بھر سکھ نہ چین
تصانیف:تحفۃ الصغر،وسطالحیات،غرۃالکمال،بقیہ نقیہ،قصہ چہار درویش،نہایۃالکمال،ہشت بہشت،قران السعدین،مطلع الانوار، مفتاح الفتوح،مثنوی ذوالرانی-خضرخان،نہ سپہر،تغلق نامہ،خمسہ نظامی،اعجاز خسروی،خزائن الفتوح،افضل الفوائد،خالق باری،جواہر خسروی،لیلیٰ مجنوں،آئینہ سکندری،ملا الانور،شیریں خسرو(شعر العجم، شبلی، جلد 2 صفحہ 107،)
وصال:18جمادی الآخر 725ھ کو جبکہ حضرت نِطام الدین اولیاء (رح) اس جہانِ فانی سے رحلت فرما گئے تو امیر خسرو اس وقت غیاث الدین تغلق کے ہمراہ بنگال گئے ہوئے تھے اپنے پیر و مُرشد کی وفات کی خبر سُن کر فوراً دہلی پہنچے اور مدفن کے سرہانے کھڑے ہو کر یہ شعر پڑھا۔
گوری سووے سیج پر مُکھ پر دھارے کھیس
چل خسرو گھر اپنے رین بھئ سب دیس
حضرت نِظام الدین اولیاء کی وفات کے ٹھیک 6 ماہ بعد 18 شوال المکرم 725ھ کو امیر خسرو نے اس جہانِ فانی کو الوداع کہا اور راہی مُلکِ عدم ہو گئے انھیں حضرت نِظام الدین اولیاء کے مزار کے پاؤں کی جانب دفن کیا گیا۔

 

Menu