تاج الشریعہ کے اساتذہ کرام
از:مولانا غلام ربانی فریدی، مہتمم مدرسہ انوار مصطفی مٹیابرج،کولکاتا
اللہ کے رسول ﷺنے ارشاد فرمایا ’’العلم نور‘‘ اس مہتم بالشان درس سے ایک عقل و خرد والے کو وہ روشنی ملتی ہے جس کے ذریعہ عروج و ارتقاء کی منزل طالب مقصود طے کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے خانوادۂ رضویہ کے شہزادگان کو علم و عرفان کی عظیم دولت سے سرفراز فرمایا ہے ان میں ایک نمایاں شخصیت حضور تاج الشریعہ مدظلہٗ العالی افق علم پر جلوہ گرہیں۔ کہتے ہیں قابل اساتذہ کرام کی پہچان ان کے طلباء کی صلاحیت و لیاقت سے کی جاسکتی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ حضور تاج الشریعہ مدظلہٗ العالیٰ کی علمی، فقہی، تصنیفی صلاحیت اپنی جگہ مستحکم ہے آپ کے فتاویٰ اور تصانیف کا جائزہ لیاجاتا ہے تو ایک قاری یہ برملاکہہ اٹھتا ہے آپ کے فتاویٰ میںحضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کی تحریر کا عکس نظر آتا ہے اور تصانیف میںدلائل وبراہین سے حضور مفسر اعظم ہند، حضرت بحرالعلوم علامہ مونگیری کا جلوہ جھلکتا ہے۔
اختصاراً ایک نظر علوم شریعہ کے ان آفتاب و مہتاب پر ڈالیں جن کی بارگاہ میںحضور تاج الشریعہ زانوئے ادب تہہ کرکے علوم و معارف کے تاجدار بن کے چمک رہے ہیں۔
حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ
ولادت وتعلیم:
حضور مفتی اعظم ہند حضرت مفتی مصطفیٰ رضا خاں آل رحمن علیہ الرحمہ کی ولادت باسعادت ۲۲؍ذی الحجہ ۱۳۱۰ھ/ ۷؍جولائی ۱۸۹۳ ء بروز جمعہ صبح صادق کے وقت چودہویں صدی کے مجدد کے گھر ہوئی۔ اصلی نام’’ محمد‘‘رکھاگیا اور اسی نام پر عقیقہ ہوا آپ کی ولادت کے وقت سیدنا اعلیٰ حضرت مارہرہ مطہرہ میں تھے عارف باللہ حضورنوری سرکار علیہ الرحمہ نے سرکار اعلیٰ حضرت کو شہزادے کی ولادت کی خوشخبری دی۔ حضور سراج السالکین نوری میاں علیہ الرحمہ نے حضور مفتی اعظم ہند کو اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی اجازت سے عالم شیرخوارگی میں داخلہ سلسلہ فرمایا اور اعلیٰ حضرت نے خوشی کا اظہار فرمایا۔
حضور حجۃ الاسلام نے اپنے والدگرامی کے حکم پر مفتی اعظم ہند کو پڑھانا شروع کیا آپ نے تین سال کی عمر میں ناظرہ قرآن کریم ختم فرمایا۔حضور اعلیٰ حضرت نے مفتی اعظم سے فرمایا آج سے آپ مولانا رحم الٰہی منگلوری اور مولانا بشیر احمد علی گڑھی سے کتابیں پڑھیں گے۔
علامہ رحم الٰہی منگلوری فرماتے ہیں:
’’میں اپنے لئے یہ بڑا اعزاز سمجھتا ہوں کہ آپ نے مستقبل کے مجدد کی تعلیم کیلئے مجھے منتخب فرمایا ہے۔ لیکن مجھے یہ بھی یقین ہے کہ حقیقی تعلیم و تربیت آپ ہی فرمائیں گے کیونکہ صاحبزادے صاحب میں جو آثار بزرگی میں ابھی سے دیکھ رہاہوں وہ حیرت انگیز ہے۔
حضور مفتی اعظم نے۱۳۲۸ھ /۱۹۱۰ء میں بعمرا ٹھارہ سال دارالعلوم منظر اسلام بریلی شریف سے فراغت حاصل کی۔
اساتذہ کرام:
(۱) حضور حجۃ الاسلام علامہ حامد رضا خاں بریلوی (م ۱۳۶۲ھ/۱۹۴۳ء)
(۲) استاذ الاساتذہ علامہ رحم الٰہی منگلوری (۱۳۶۱ھ)
(۳) شیخ الاسلام علامہ شاہ بشیر احمد علی گڑھی
(۴) شمس العلماء علامہ ظہور الحسن رام پوری (۱۳۴۲ھ)
تدریسی خدمات :
دارالعلوم منظر اسلام بریلی شریف سے فراغت کے بعد آپ نے ۱۳۲۸ھ /۱۹۱۰ء تا ۱۳۵۶ھ/۱۹۳۷ء جامعہ رضویہ منظر اسلام میں درس وتدریس سے تشنگان علوم نبویہ کی پیاس بجھائی۔ رضوی دارالافتاء کی ذمہ داریوں کے سبب آپ مخصوص طلباء کو پڑھانے لگے حضور شیربیشہ اہلسنّت علامہ حشمت علی خاںعلیہ الرحمہ نے آپ سے بخاری شریف پڑھی۔محدث اعظم پاکستان علامہ سردار احمد رضوی علیہ الرحمہ نے آپ سے منیہ، قدوری، کنزالدقائق اور شرح جامی، مولانا معین الدین شافعی نے میزان، نحومیر محدث کبیر علامہ ضیاء المصطفیٰ قادری نے تعطیل کلاں میں ابودائود شریف ،ابن ماجہ شریف، علامہ نعیم اللہ خاں رضوی نے ہدایہ، مسلم الثبوت مولانا عبدالحمید رضوی افریقی اور مولانا احمد مقدم رضوی افریقی نے میزان نحومیر اور شرح عقائد پڑھی شارح بخاری مفتی شریف الحق رضوی نے گیارہ سال ۲؍ماہ تک علمی استفادہ کیا حضور تاج الشریعہ مدظلہٗ العالیٰ نے جامع ازہر شریف سے فراغت کے بعد فتوی نویسی کا علم حضور مفتی اعظم ہند سے حاصل کیا۔
تلامذہ:
٭ محدث اعظم پاکستان علامہ سردار احمد رضوی
٭فقیہ عصر علامہ اعجاز ولی خان بریلوی
٭ شیربیشۂ اہلسنّت علامہ حشمت علی خان لکھنوی
٭ استاذ العلماء علامہ حاجی مبین الدین امرہوی
٭شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی اعظمی
٭ریحان ملت علامہ ریحان رضا خاں بریلوی
٭ حضور تاج الشریعہ علامہ اختر رضا خاں ازہری مدظلہٗ العالیٰ
٭ محدث کبیر علامہ ضیاء المصطفیٰ امجدی مدظلہٗ العالیٰ
٭ فقیہ ملت مفتی جلال الدین امجدی۔
خلفاء :
(۱) حضور مفسر اعظم ہند علامہ ابراہیم رضا خاں بریلوی۔
(۲) غزالی دوراں علامہ احمد سعید کاظمی
(۳) حضور تاج الشریعہ مفتی اختر رضاخاںبریلوی
(۴) رئیس القلم علامہ ارشد القادری
(۵) بحرالعلوم مفتی افضل حسین مونگیری
(۶) امین ملت ڈاکٹر امین میاں برکاتی
(۷) صدرالعلماء علامہ تحسین رضابریلوی
(۸) حضور مجاہد ملت علامہ حبیب الرحمان اڑیسوی
(۹) حضور شیر بیشۂ اہلسنّت علامہ حشمت علی خاں لکھنوی۔
(۱۰)علامہ ریحان رضا خاں بریلوی
(۱۱)محدث اعظم پاکستان علامہ سردار احمد رضوی
(۱۲) حضور حاجی سید مبین الدین امرہوی
(۱۲) علامہ عبدالمصطفیٰ ازہری
(۱۳) علامہ سید علوی مالکی
(۱۴)مولانا سردار احمد رضوی پوکھریروی
(۱۵)علامہ مشتاق احمد نظامی الہ آبادی
خصوصیات وکمالات:حضور مفتی اعظم ہند عظیم خصوصیات وکمالات کے حامل تھے۔ تدریسی صلاحیت میں آپ نمایاں حیثیت کے مالک تھے طلباء کے ساتھ شفقت کرنا آپ کا طرۂ امتیاز تھا فارغ التحصیل طلبہ کی دعوت کرتے۔ اچھے اچھے کھانے کھلاتے۔ ان کے کپڑے، علاج، کھانا اور اخراجات کا بھرپور خیال رکھا کرتے تھے۔
فتویٰ نویسی میں یکتائے روزگار تھے۔ اپنے وقت کے فقیۂ عصر، فقیہ النفس، فقیہ ملت، شارح بخاری، محدث کبیر، تاج شریعت، شیخ الحدیث، شیخ الفقہاء نے زانوئے ادب تہہ کرکے شرف تلمذ حاصل کیا۔ جب آپ حج بیت اللہ کے لئے تشریف لے گئے توحجاز، مصر، شام، عراق اور ترکی وغیرہ کے علماء کرام نے آپ سے استفادہ کیا آپ کے پاس عرب، افریقہ، ماریشس، انگلینڈ، امریکہ، سری لنکا، ملیشیا، بنگلہ دیش اور پاکستان سے استفتاء آتے تھے۔
۲۹؍جولائی ۱۹۳۵ء کو مسجدشہید گنج کی بازیابی کے لئے مفتی اعظم ہند نے فتوی صادر فرمایا کہ سکھوں کے قبضہ سے مسلمانوں کو مسجد آزاد کرانی ضروری ہے۔ ۱۳۹۷ھ/۱۹۷۷ ءمیں حکومت ہند نے نسبندی کا قانون نافذ کیا تھا اس کے خلاف آپ نے حکومت ہند کے قانون کی مذمت کرتے ہوئے فتویٰ صادر فرمایا کہ ’’نسبندی حرام ہے، حرام ہے حرام ہے‘ ‘
آپ نے دارالعلوم مظہر اسلام قائم فرمایا۔ علماء کے مرجع تھے حضور مفتی شریف الحق فرماتے تھے۔ جب تک مفتی اعظم ہند حیات ظاہری میں رہے۔ علماء کے مرجع کی حیثیت رکھتے تھے تمام معاملات میں خواہ فقہی مسائل ہو یا علمی مباحثہ یا حالات حاضرہ پر گفتگو علماء آپ کی طرف رجوع کرتے تھے۔ آپ کے وصال کے بعد ہم ایک عظیم علمی مرجع سے محروم ہوگئے۔
آپ سے استفادہ کرنیوالوں میں۔ حضور مجاہد ملت، حضور حافظ ملت، امین شریعت، صدرالعلماء میرٹھی، شیخ العلماء گھوسوی، حاجی عبدالمبین امروہوی قاضی شمس العلمائ، سید العلمائ، احسن العلمائ، ریحان ملت کے اسماء قابل ذکر ہیں۔
تصنیفات:
چند مشہور تصنیفات یہ ہیں:
آپ کی تصنیفات کی تعداد تقریبا۴۵ہے۔
٭ وقعات السنان
٭ نورالفرقان
٭ ادخال السنان، سیف القہار
٭الموت الاحمر
٭ نہایۃ السنان
٭ ملفوظات اعلیٰ حضرت
٭ الطاری الداری
٭ القول العجیب
٭ سامان بخشش
٭فتاویٰ مصطفویہ
٭ نورالعرفان
٭ سل الحسام الہندی۔
وصال مبارک:
آپ کا وصال محرم الحرام ۱۴۰۱ھ/ ۱۲؍نومبر ۱۹۸۱ء بانوے سال کی عمر میں مختصر علالت کے بعد رات ایک بجکر چالیس منٹ پر کلمہ پڑھتے ہوئے ہوا۔ آپ کی نماز جنازہ حضور سرکار کلاں سید مختار اشرف صاحب علیہ الرحمہ نے پڑھائی جنازے میں پچیس لاکھ افراد شریک تھے۔ حضور مفتی اعظم کی آخری آرام گاہ گنبد اعلیٰ حضرت کے سائے میں ہے۔
♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦
حضرت مفسر اعظم ہند علیہ الرحمہ
(ولادت:۱۳۲۵ ھ ۔۔۔وصال ۱۳۸۵ء)
ولادت و تعلیم :
حضور مفسر اعظم ہندحضرت علامہ مفتی ابراہیم رضا خاں بریلوی بن حضور حجۃ الاسلام مفتی حامد رضا خاں بریلوی کی ولادت باسعادت ۱۰؍ ربیع الآخر ۱۳۲۵ھ مجدد اعظم امام احمد رضا کے گھر ہوئی۔ امام احمد رضا نے محمد نام رکھا اور والد گرامی نے ابراہیم رضانام تجویز فرمایا اور دادی جان نے پیار سے پکارنے کیلئے جیلانی میاں نام رکھا۔ محمد نام پر عقیقہ ہوا۔
خاندانی روایت کے مطابق ۴؍سال ۴ماہ ۴دن کی عمر شریف میں مجدد اعظم علیہ الرحمتہ نے اور معززین کی موجودگی میں رسم بسم اللہ خوانی کرائی۔ والدہ ماجدہ سے ناظرہ قرآن اور اردو کی کتابیں پڑھیں سات سال کی عمر میں دارالعلوم منظر اسلام کے اساتذہ کرام سے ازاول تا آخر درس نظامی کی کتابیں تکمیل فرمائی۔ مسلسل بارہ سال تک تعلیمی سلسلہ برقرار رہا انیس سال چار ماہ کی عمر میں ۱۳۴۴ھ میں دستار فضیلت سے سرفراز کئے گئے، حضور حجۃ الاسلام نے اکابر علماء کی موجودگی میں سر پر دستار رکھا اوراپنی نیابت و خلافت سے مالا مال فرمایا۔ حضور قطب مدینہ علامہ ضیاء الدین مدنی۔ حضور ملک العلماء علامہ ظفر الدین رضوی۔ اور حضور مجاہد ملت سے قرآن اور احادیث کی اسنادبھی حاصل کیں۔
مشہور اساتذہ کرام :
(۱)حضور حجتہ الاسلام مفتی حامد رضاخان قادری برکاتی
(۲) حضور مفتی اعظم ہند علامہ مصطفی رضا خاں نوری بریلوی
(۲) محدث جلیل علامہ احسان علی مظفر پوری
(۳) محدث اعظم پاکستان علامہ سردار احمد رضوی
درس وتدریس: حضرت مفسر اعظم ہند علیہ الرحمہ نے دارالعلوم منظر اسلام بریلی شریف میں ۱۳۷۲ھ سے درس و تدریس کا آغاز فرمایا آپ بالخصوص کافیہ، قدوری، شرح جامی، مسلم شریف، ترمذی شریف، شفاشریف، مشکوٰۃ شریف کا درس دیا کرتے تھے عربی ادب میں کمال درجہ کا عبورحاصل تھادوران درس عربی زبان میں گفتگو فرمایا کرتے تھے۔ مسلم شریف اور شفاشریف پڑھاتے وقت عموماً وجدانی کیفیت طاری ہوجاتی تھی۔
تلامذہ:
علامہ ریحان رضا خاں بریلوی
حضورتاج الشریعہ مدظلہٗ العالیٰ
حضرت مفتی عبدالواجد قادری
علامہ ابراہیم خوشتر صدیقی رضوی
مولاناسید عارف نانپاری
بیعت و خلافت:
حضرت مفسر اعظم ہند علیہ الرحمہ امام احمد رضا محدث بریلوی علیہ الرحمہ کے مرید تھے۔ آپ کو حضرت مجدد اعظم علیہ الرحمہ ،والد گرامی حجۃ الاسلام،مفتی اعظم ہند، قطب مدینہ علامہ ضیاء الدین مدنی سے خلافت حاصل تھی۔
خلفاء:
علامہ رحمانی میاں
حضور تاج الشریعہ
مفتی عبدالواجد قادری
علامہ ابراہیم خوشتر صدیقی
مولانا عبدالحلیم انگس، بنگال
وصال مبارک:
حضور مفسر اعظم ہند تین سال کی طویل علالت کے بعد ۶۰سال کی عمر میں صبح ۱۱؍صفر المظفر ۱۳۸۵ھ/ ۱۲؍جون ۱۹۶۵ءسنیچر کے دن اوراد وظائف پڑھتے ہوئے اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔
تصانیف:
ترجمہ الدرالسنیہ
ذکر اللہ
نعمت اللہ
فضائل درود شریف
تفسیر سورۂ بلد
تشریح قصیدۂ نعمانیہ
معارف القرآن
معارف الحدیث
انتخاب مثنوی
مقالات مفسر اعظم ہند
فضائل و کمالات:
حضرت مفسر اعظم ہند علامہ ابراہیم رضا خاں بریلوی علیہ الرحمہ بہت سی خصوصیات و کمالات کے جامع تھے۔ زبان پُر تاثیر تھی۔ آخری ایام تک ذکر و اذکار، اوراد و وظائف کے پابند رہے۔ فالج کے اثر سے زبان میںحد سے زیادہ لکنت آئی گئی تھی پھربھی نماز وغیرہ میں قرآنی آیات کو ترتیل سے پڑھنے کا اہتمام فرماتے۔
سیر و سیاحت کے دلدادہ تھے گھوڑ سواری اور جنگلوں میں شکارکرناآپ کو پسندتھا۔ لیکن نماز ووظائف کی پابندی میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں ہوتی۔
دارالعلوم منظر الاسلام ان ایام میں پستی کا شکار ہوگیا تھا آپ نے سیر وتفریح کو ترک کرکے دارالعلوم منظر الاسلام کو بام عروج تک پہونچانے کا عزم مصمم کیا اور ترقی کی راہ پر گامزن کیا۔ طلباء سے بے حد محبت فرمایا کرتے تھے۔ ان کے کھانے کا انتظام وانصرام اپنے ذمہ لے رکھا تھا۔ ایک مرتبہ دارالعلوم مالی بحران کا شکار ہوا تو آپ نے اپنی اہلیہ محترمہ کا زیور فروخت کرکے مدرسہ کے فنڈ کو مستحکم کیا۔
تبلیغ اسلام وسنت اور مسلک اعلیٰ حضرت کے فروغ کیلئے آپ نے پورے ہندوستان کا دورہ کیا اور امام احمد رضا علیہ الرحمہ کی یہ پیشن گوئی صادق آئی کہ میرا یہ پوتا ثانی احمد رضا ہے۔ آخری ایام تک سخت علیل ہونے کے باوجود قرب وجوار کا دورہ جاری رہا۔
ماہنامہ اعلیٰ حضرت آپ کی عظیم یادگار ہے۔ ابتداء اجراء سے آج تک تسلسل سے نکل رہا ہے۔
علم تفسیر میں اللہ تعالیٰ نے ملکہ عطاء فرمایاتھا، علماء کرام نے اس فن میں مہارت تامہ کی وجہ سے مفسر اعظم ہند کے خطاب سے سرفرازفرمایا۔
♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦
بحرالعلوم مفتی افضل حسین مونگیری علیہ الرحمہ
(ولادت :۱۳۳۷ھ /۱۹۱۹ء۔۔۔وصال:۱۴۰۲ھ/۱۹۸۲ء )
ولادت و تعلیم :
حضرت بحرالعلوم مفتی سید محمد افضل مونگیری علیہ الرحمہ کی ولادت باسعادت ۱۴؍رمضان المبارک ۱۳۳۷ھ /۱۳؍جون ۱۹۱۹ء جمعہ صبح صادق کے وقت ہوئی آپ نے ابتدائی تعلیم فیض الغرباء ضلع آرہ (بہار) اور مدرسہ شمس العلوم (بدایوںشریف) میں حاصل کی منتہی کتب پڑھنے کیلئے جامعہ رضویہ منظرا سلام تشریف لے گئے اورعلوم شرعیہ ومعقولات کے ماہرین کی بارگاہ میں زانوئے ادب تہہ فرمایا شعبان ۱۳۵۹ھ/ستمبر ۱۹۳۰ء میں جامعہ رضویہ منظر اسلام سے سند فراغت سے سرفراز کئے گئے۔
اساتذہ کرام :
مولانا محمد اسماعیل آروی
علامہ محمد ابراہیم آروی
مفتی محمد ابراہیم سمستی پوری
مفتی ابرار حسین صدیقی تلہری
علامہ احسان علی مظفرپوری شیخ الحدیث
مفتی نور الحسین مظفر پوری۔
درس وتدریس:
جامعہ رضویہ منظر اسلام بریلی شریف سے فراغت کے بعد اسی مدرسہ میں منصب افتاء پر فائز ہوئے جامعہ رضویہ میں شیخ الحدیث، صدر المدرسین اور مفتی کی حیثیت سے آپ نے خدمات انجام دی۔
ہندوستان سے ہجرت کے بعد جامعہ قادریہ رضویہ فیصل آباد میں تشریف لائے مفتی معین الدین شافعی نے منصب شیخ الحدیث و افتاء پر فائز فرمایا پھر جامعہ غوثیہ رضویہ سکھر میں اعلیٰ منصب پر فائز رہے پھر جامعہ قادریہ رضویہ تشریف لائے اور تاحیات درس و تدریس میں لگے رہے، آپ نے لائق و فائق طلبا پیدا کئے چندکے اسماء یہ ہیں۔
(۱) علامہ رحمانی میاں
(۲)حضور تاج الشریعہ
(۳) مولانا صابرالقادری
(۴)مولانا بدرالدین رضوی گھورکھپوری
(۵) مولانا غلام مجتبیٰ
(۶)علامہ ابراہیم خوشتر
(۷)مولانا جلال الدین (بغداد شریف)
(۸)مفتی غلام سرور رضوی
تصانیف:
توضیح افلاک
مصباح السلم
بدایۃ المنطق
دراستہ النحو
مرقاۃ الفرائض
رویت ھلال
منظر الفتاویٰ
الجواہر الصافیہ
علاوہ ازیں ۴۰ کتابیں تصنیف کی ہیں۔
بیعت وخلافت:
جمادی الآخرۃ ۱۳۶۷ھ/اپریل ۱۹۴۸ء میں حضور مفتی اعظم مولانا مصطفی رضانوری علیہ الرحمہ سے سلسلہ عالیہ قادریہ برکاتیہ نوریہ رضویہ کے دست حق پرست پرمرید ہوئے اور ۱۳۷۲ھ/۱۹۵۳ء میں حضور مفتی اعظم نے جمیع سلاسل اور اوراد و وظائف کی اجازت اور خلافت سے سرفرازکیا۔
فضائل وکمالات :
آپ حسینی سادات کے چشم وچراغ تھے۔ بے شماررفیوض وبرکات سے مالامال تھے۔تفسیر وحدیث وفقہ میں یہ یدطولیٰ حاصل تھا آپ اپنے وقت کے مفسر، محدث، محقق، متکلم، اور فقیہ تھے۔ حضور تاج الشریعہ مدظلہٗ العالیٰ نے علم تفسیر و حدیث حضرت بحرالعلوم علیہ الرحمہ سے خصوصی طور پر پڑھا۔
وصال :
آپ کا انتقال ۲۱؍رجب المرجب ۱۴۰۲ھ /۱۹۸۲ء سکھر میں ہوا ہزاروںکی تعداد میں علمائ، فضلائ، مفتیان عظام تلامذہ اور مریدین و معتقدین شریک جنازہ تھے۔
♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦
مفتی محمد احمد جہانگیر خاں اعظمی
ولادت وتعلیم:
استاذالاساتذہ فقیہ النفس مفتی محمد احمد جہانگیر خاں اعظمی رضوی ابن فصا حت حسین خان مرید حضور اشرفی میاں کچھوچھوی علیہ الرحمہ کی ولادت با سعادت ۱۰؍محرم الحرام ۱۳۵۱ھ میں ہوئی محمد نام رکھا گیا اور جہانگیر کے نام سے مشہور ہوئے۔
چار سال چار ماہ چار دن کی عمر میں محفل بسم اللہ خوانی منعقد کی گئی ابتدائی تعلیم حضرت مولانا حافظ علیم اللہ نقشبندی سے حاصل کی حفظ کی تکمیل مدرسہ انوارالعلوم جین پور میںکی۔ دارالعلوم مظہراسلام (بریلی شریف) الجامعۃ الاشرفیہ (مبارکپور) میں تعلیمی سلسلہ چلا اور ۱۳۷۳ھ میں دارالعلوم شاہ عالم احمد آباد گجرات سے سند فراغت سے مالا مال ہوئے۔
اساتذہ کرام:
o حضور صدرالشریعہ علامہ امجد علی اعظمی
oحضور مفتی اعظم مصطفی رضا خاں بریلوی
o بحرالعلوم مفتی سید افضل حسین مونگیری
o حافظ ملت علامہ عبدالعزیز مرادآبادی
oشیخ العلماء علامہ غلام جیلانی اعظمی
o استاذ العلماء علامہ عبدالرؤف بلیاوی
oشیخ التفسیرعلامہ عبدالمصطفیٰ اعظمی
o شیخ المعقولات علامہ سلیمان بھاگلپوری
درس و تدریس :
آپ نے ایام طالب علمی میں جامعہ اشرفیہ مبارکپور میں صاحب لیاقت طلباء کو پڑھایا اور دارالعلوم شاہ عالم احمد آباد میں بھی حضرت مفسر اعظم ہند علیہ الرحمہ کے حکم پر ۱۲سال تک نائب صدر مدرسین اور نائب مفتی کے منصب پر فائز رہے، ایک سال دارالعلوم شاہ عالم (احمد آباد)، دوسال مدرسہ انوارالعلوم (جین پور) تقریباً پانچ سال مفتی راجستھان کی حیثیت سے اودے پور میں رہے۔ایک سال مدرسہ تدریس الاسلام (بستی) میں اور ایک سال کے لئے علامہ رحمانی میاں علیہ الرحمہ کے ایماء پر دارالعلوم منظر اسلام تشریف لائے اور ۱۳۹۹ھ سے ۱۴۰۱ء تک مینارہ مسجد ممبئی میں مفتی اعظم ممبئی کی حیثیت سے مقرر رہے۔
تلامذہ:
oحضور رحمانی میاں
o حضور تاج الشریعہ
oمحدث کبیر علامہ ضیاء المصطفیٰ امجدی
o مفتی غلام مجتبیٰ اشرفی
oمولانا منظرالاسلام (بہار) o
مولانا عبدالحلیم رضوی (ناگپور)
oمفتی سید عارف رضوی (نانپارہ)
o مفتی سید شاہد علی رضوی (رامپور)
بیعت و خلافت:
آپ حضور صدرالشریعہ بدرالطریقہ علیہ الرحمہ کے مرید تھے اور ۱۳۷۰ھ میںسرکار مفتی اعظم ہند نے خلافت اوراجازت اور اوراد و وظائف سے سرفراز فرمایا اور مدینہ طیبہ میں حاضری کے موقع پر حضور قطب مدینہ علامہ ضیاء الدین مدنی علیہ الرحمہ نے خلافت عطا فرمائی۔
تصانیف :
خطبات جہانگیری، نسیم الوردہ، اصول حدیث، ترجمہ سورۂ فاتحہ، انباء الاذکیا، نورالعین ، قرۃ العین۔
فضائل وکمالات:
حضرت فقیہ الامت، تاج الفقہاء علامہ مفتی محمد احمد جہانگیر اعظمی رضوی علیہ الرحمہ بے شمار خوبیوں کے مالک تھے، اللہ تعالیٰ نے علمی صلاحیت میں اعلیٰ مقام عطاء فرمایا تھا درسی کتابوں میں اس قدر درک حاصل تھا کہ طالب علمی ہی کے زمانے میں طلبہ کو درسی کتابوں کا تکرار کرانا، اساتذہ کی جگہ نصابی کتابوں کو پڑھانا آپ کا طرۂ امتیاز تھا۔ حضرت مفتی بدرالدین رضوی علیہ الرحمہ نے آپ کو فارسی کی پہلی اور دوسری پڑھائی اور آپ نے بحیثیت معین المدرس کے مفتی بدرالدین رضوی علیہ الرحمہ کو جامعہ اشرفیہ میں شرح جامی اور تجوید وقرأت پڑھائی مفتی جہانگیر علیہ الرحمہ فرماتے تھے کہ وہ مجھے سیدی کہتے جبکہ میں انہیں استاذی سے خطاب کرتا۔
آپ حضرت مفتی بدرالدین رضوی علیہ الرحمہ کے علاوہ اشرف العلماء سیدحامد اشرف کچھوچھوی (ممبئی)، شہزادۂ شیر بیشۂ اہلسنّت مفتی مشاہد رضا حشمتی (پیلی بھیتی) حضرت مولانا سیداظہار اشرف کچھوچھوی (گدی نشیں) مولانا سید اجمل حسین کچھوچھوی وغیرہ کو شرح جامی اور کافیہ پڑھایا۔
فتویٰ نویسی کی ابتداء آپ نے حضور بحرالعلوم مفتی سیدافضل حسین مونگیری علیہ الرحمہ سے کی آپ فرماتے کہ حضرت نورالایضاح پڑھانے ہی کے زمانے سے فتاویٰ عالمگیری اور درمختار سے استخراج کا طریقہ بتایا کرتے تھے۔ حضور مفتی اعظم ہند اور حضور حافظ ملت سے بھی افتاء میں آپ نے تربیت حاصل کی ہے۔
بیکانیر کے مقام پر دیوبندیوں نے یہ سمجھ لیا کہ سنیوں کے مولانا حشمت علی خاں کا انتقال ہوگیا اور مولانا ابراہیم رضا خاں بیمار ہیں اس لئے بریلی میں مناظرہ کرنے والا کوئی نہیں رہ گیا اس لئے ۲۳؍مارچ ۱۹۶۳ءکیلئے تاریخِ مناظرہ طے کردی گئی سنی حضرات پریشان ہوئے۔ حضورمفتی اعظم ہند نے بریلی شریف سے مفتی جہانگیر علیہ الرحمہ کو بھیجا، مناظرہ میں دیوبندیوں کی وہ درگت بنی کہ پیشاب کرتے ہوئے بھاگے۔ کاٹھیاواڑا میں خوب جشن فتح منایا گیا اور سنیوں نے سکون کی سانس لی۔
شعر وشاعری میں بھی ملکہ حاصل تھا تخلص احمد فرماتے۔
نمونہ کلام :
یارسول اللہ دل ناشاد ہے
آپ سے فریادہے فریاد ہے
نفس نے برباد کر ڈالا ہے
آہ کتنا ظالم وجلاد ہے
موت آئے آپ کے قدموں تلے
سب کہیں احمدؔ دل اب شاد ہے
♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦
علامہ ریحان رضا خاں رحمانی میاں علیہ الرحمہ
(ولادت: ۱۹۳۴ء -وصال: ۱۹۸۵ء)
نام و نسب:
ریحان ملت مولانا شاہ مفتی ریحان رضا خاں قادری رضوی بن مفسر اعظم ہند مفتی ابراہیم رضا خاں رضوی بن حجۃ الاسلام مفتی حامد رضا خاں رضوی بن امام احمد رضا خاں قادری برکاتی بریلوی۔
تعلیم و تربیت:
ابتدائی تعلیم والدہ ماجدہ سے گھر میں حاصل کی۔ پھر دارالعلوم منظراسلام بریلی شریف میں داخلہ لیا۔ کتب متوسطات پڑھنے کے بعد والد گرامی حضرت مفسر اعظم ہند کی اجازت سے حضرت محدث اعظم ہند پاکستان علامہ سردار احمد رضوی کی بارگاہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کیلئے پاکستان تشریف لے گئے۔ تین سال تک منتہی کتب بڑی مستعدی کے ساتھ آپ نے پڑھی اور جامعہ رضویہ منظراسلام بریلی شریف سے جمادی الاولیٰ۱۳۷۵ ھ ؍مارچ ۱۹۵۵ء میں باضابطہ دستار فضیلت اور سند فراغت سے نوازے گئے۔
اساتذہ کرام:
حضور مفتی اعظم ہند شاہ مصطفی رضاخاں بریلوی، حضور مفسر اعظم ہندشاہ ابراہیم رضا خاں بریلوی، حضرت محدث اعظم پاکستان علامہ سردار احمد رضوی لائلپوری، حضرت بحرالعلوم محدث احسان علی مظفرپوری۔
بیعت و خلافت :
آپ کے جد امجد حضرت حجۃ الاسلام (۱۹۴۳ءم) نے صرف پانچ سال کی عمر میں داخل سلسلہ فرماتے ہوئے خلافت بھی عطا فرما دی تھی۔ والد گرامی حضرت مفسر اعظم ہند، نانا جان حضرت مفتی اعظم ہند، قطب مدینہ حضرت مولانا شاہ ضیاء الدین مدنی (۱۴۰۱ھ) سے بھی اجازت و خلافت حاصل تھی۔
تدریسی خدمات :
آپ نے جامعہ رضویہ منظراسلام میں تدریسی خدمات انجام دی ہے۔ طلبا کو بڑے ذوق وشوق سے پڑھایا کرتے تھے۔ طلباء آپ کے درس سے مطمئن رہا کرتے تھے۔ آپ کی بارگاہ سے تعلیمی زیورسے آراستہ ہوکر علوم نبویہ کے طالبان اس وقت مشرق و مغرب میں خدمت دین ومسلک میں مصروف عمل ہیں۔ جن میں چند کے اسماء گرامی یہ ہیں:
حضور تاج الشریعہ علامہ مفتی اختر رضا خاں بریلوی
حضرت قاضی عبدالرحیم بستوی
علامہ سید محمد عارف رضوی نانپاروی
حضرت مولانا منان رضا خاں منانی میاں
مولانا راشد القادری
مولانا شاہ صوفی عبدالصمد رضوی وغیرہ۔
خلفاء:
علامہ عبدالحکیم شرف قادری (پاکستان)
مولانا توصیف رضا خاں بریلوی
مولانا سبحان رضا خان بریلوی
سید ضیاء الحسن جیلانی (پاکستان)
سید اسدعلی رضوی
مولانا مختار احمد بہیڑی (بریلی شریف)
محاسن وکمالات:
حضور مفسر اعظم ہند علیہ الرحمہ کے وصال کے بعد نہ صرف سجادہ عالیہ رضویہ کی زینت اور جائداد موقوفہ کے متولی بنے بلکہ جامعہ رضویہ منظر اسلام کے شیخ الحدیث اور مہتمم بھی بنے۔ آپ کی شخصیت سیاسی دنیا میں بھی ممتاز رہی۔ صوبہ اترپردیش کی مجلس قانون ساز کے ممبر بھی رہے۔ مگر اپناتصلب و تشخص ہر طرح سے برقرار رکھا۔ جامعہ جب مالی بحران کاشکارہواتو آپ نے اپنے گھر کے ساز وسامان کوفروخت کرکے اساتذہ کی تنخواہیں اورطلباء کاخرچ چلایا جب گھریلو سامان بک گئے تولوگوں سے قرض لے کر مدرسہ کی ضروریات کی تکمیل فرماتے تھے ۔ مالی خستہ حالی کے سبب فتح گنج فیکٹری میں ملازمت کرنی پڑی۔جب مالی پریشانیوںسے نجات ملی تو پھر جامعہ میں درس وتدریس کاسلسلہ شروع کیا۔ سلسلہ رضویہ کو فروغ دینے کے لئے غیرملکی اسفار کئے جن میں پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا ،نیپال ، افریقہ، ہالینڈ،برطانیہ قابل ذکر ہیں۔
وصال:
۱۸؍ رمضان ۴۰۵اھ /۱۹۸۵ء میںانتقال ہوا۔ حضور اعلیٰ حضرت اورحضور حجۃ الاسلام کے مزار کے درمیانی حصہ میں آخری آرام گاہ بنی۔