حضورتاج الشریعہ کے مرشدان اجازت

حافظ یاسین خان نوری ،صدر سنی علماء کونسل مغربی بنگال ،کولکاتا، انڈیا


اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے پیارے محبوب دانائے غیوب صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل مقبولان بارگاہ کوجوعظمتیں، رفعتیں اورمراتب علیا سے سرفراز فرمایا ہے یہ حقائق اپنی جگہ مسلم ہیں ۔یہ نفوس قدسیہ ان انعامات الٰہیہ سے خداوند قدوس کے اطاعت گزار بندوں کو مالامال فرماتے رہتے ہیں تاکہ فیوض وبرکات کادائرہ وسیع سے وسیع ترہوتاچلاجائے۔
ان پاکیزہ ہستیوں میں حضور مفتی اعظم ہند علامہ مصطفی رضاخاں نوری (۱۴۰۱ھ) ،حضور برہان ملت علامہ مفتی برہان الحق رضوی (م ۱۴۰۵ھ)،حضور سیدالعلماء علامہ سید آل مصطفی برکاتی (م ۱۳۹۴ھ)، حضور مفسراعظم ہند مفتی ابراہیم رضاخان رضوی (م ۱۳۸۵ھ ) اور حضور احسن العلماء علامہ شاہ مصطفی حیدرحسن برکاتی (م۱۹۹۵ء) علیہم الرحمہ کے اسماء گرامی آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔
یہ قدسی صفات شخصیات علم وعمل ، روحانیت وعرفانیت کے تاجدار ہیں جن کے دامن کرم سے وابستہ ہوکر بے شمار خلق خدا نے گمراہیت ، ضلالت ، بے دینیت ، خرافات ، لامذہبیت سے توبہ کرکے اسلام کے سایہ کرم میں پناہ لی۔
ان بزرگان دین نے حضور تاج الشریعہ علامہ شاہ مفتی محمداختر رضاخاں قادری برکاتی نوری رضوی مد ظلہ العالی پر خاص کرم فرمایا اوراپنے فیوض و برکات سے مالامال فرمایا یہی سبب ہے کہ آج حضور تاج الشریعہ عالم اسلام کے ایک عظیم روحانی پیشوا کی حیثیت سے متعارف نظر آرہے ہیں اوربندگان خداکے مرجع و ماویٰ بن کر چمک رہے ہیں ۔
ان خاصان خداکی عبقریت ، عالمگیریت اورآفاقیت پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے اوران کی منورومؤ ثر زندگیوں کے شب وروز سے اپنے قلوب کو مستیز کیاجائے۔حضور مفتی اعظم ہند اور حضور مفسر اعظم کے حیات پاک کے گوشوں سے اس تاریخ ساز کتاب کے مختلف اوراق مزین ہیں۔ بقیہ بزرگوں کے حالات زندگی نذرقارئین ہیں۔

حضور برہان ملت علیہ الرحمہ
(ولادت:۱۳۱۰ھ/۱۸۹۴ء وصال:۱۴۰۵ھ۱۹۸۵ء)

ولادت مبارکہ:حضور برھان ملت علامہ مفتی عبدالباقی محمد برھان الحق قادری رضوی بن خلیفہ اعلیٰ حضرت عیدالاسلام علامہ مفتی عبدالسلام بن مولانا شاہ عبدالکریم کی ولادت باسعادت جمعرات ۲۱؍ ربیع الاول شریف۱۳۱۰ھ؁/ ۱۳؍اکتوبر ۱۸۹۴ء بعدنماز فجر شہر جبل پور (ایم پی) میں ہوئی۔
تعلیم:حضور برھان ملت نے تعلیم کاآغاز ۱۳۱۵ھ میںبسم اللہ خوانی سے فرمایااعلیٰ تعلیم کے لئے بارگاہ اعلیٰ حضرت میں حاضر ہوکر منتہی کتب پڑھیں اور ۱۳۲۹ھ؁ میں تمام علوم عقلیہ و نقلیہ میں مہارت وکمال پیداکرلیا۔ فتویٰ نویسی کی ابتداء ۱۳۲۹ھ؁ سے کی اور سیدنا اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے ۲۶ جمادی الآخرہ ۱۳۳۷ھ کو ۴۵؍ علوم وفنون کی سند عطافرمائی ۔ آپ نے امام احمدرضا کی بارگاہ میں تین سال رہ کر مختلف فنون کو پڑھا۔
اجازت و خلافت: سیدنا حضور برھان ملت علیہ الرحمہ ۱۳۳۵ھ میں سیدنا امام احمد رضامحدث بریلوی علیہ الرحمہ سے مرید ہوئے اور ۱۳۳۷ھ میں جبل پور کے جلسہ عام میں گیارہ سلسلوں کی اجازت مرحمت فرمائی۔ آپ کو حضور حجتہ الاسلام مفتی حامد رضاخان برکاتی (م۱۳۶۲ھ) اوروالدگرامی حضور مفتی شاہ عبدالسلام قادری رضوی (م۱۳۷۱ھ) سے بھی اجازت و خلافت حاصل تھی۔
سجادہ نشینی: جمادی الاولیٰ ۱۳۷۱ھ میں والد گرامی شاہ عبدالسلام قادری رضوی کے وصال کے بعد ان کے سوئم کے دن آپ مسندسجادگی پرجلوہ افروز ہوئے اورخانقاہ عالیہ قادریہ برکاتیہ رضویہ سلامیہ کے متولی نامزد ہوئے۔
حج و زیارت:حضور اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی بارگاہ سے حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا جو جذبہ ملاتھا وہ ہر وقت موجزن رہاکرتا تھا۔ قسمت کاستارہ جگمگایا اورسرکارصلی اللہ علیہ وسلم نے کرم فرمایا چنانچہ دررسول صلی اللہ علیہ وسلم کوبوسہ دینے کے لئے ۱۳۴۱ھ میں پہلی بار والدگرامی علیہ الرحمہ کے ہمراہ رخت سفر باندھا اورحج و زیارت سے مشرف ہوئے۔ دوسری بار ۱۳۷۶ھ میں حرمین شریفین کی زیارت کے لئے تشریف لے گئے۔
ملی و مسلکی خدمات: آپ کے دل میں ملت اسلامیہ اورمسلک سے ہمدردی حد درجہ زیادہ تھی۔ یہی سبب ہے کہ آپ نے کئی تنظیموں سے اپنے آپ کو منسلک کرکے قوم وملت کی خدمتیںکی ہیں۔ ۱۳۷۷ھ میںسنی جمعیۃ العلماء کے آل انڈیا صدر منتخب ہوئے ، ۱۳۷۹ھ میں کل ہند جماعت رضائے مصطفی کے صدرمنتخب ہوئے ، ۱۳۷۸ھ میں بہارمیں صوبائی کانفرنس میںصدارت فرمائی اوراس وقت کے ملی اورملکی حالات سے قوم کو روشناس کرایااورملت کے مفاد کے حق میں حکومت سے مطالبات کئے ۔۱۳۸۵ھ میںمسلم متحدہ محاذ۳۶ گڑھ کے صدرمنتخب ہوئے اورعوامی مسائل کے حل کے لئے جدوجہد کی۔
سیاست: آپ ملکی سیاست میں بھی دلچسپی رکھتے تھے مگرملت اورمسلک کو کبھی بھی دائو پرنہیں لگایا بلکہ عوامی مسائل اورملکی مفاد کی خاطر ہمہ تن مصروف رہے۔ ۱۳۳۸ھ/۱۹۲۰ء میںبریلی شریف میں جمعیۃ العلماء ہند کا جلسہ ابوالکلام آزاد کی صدارت میںہوا۔ حضور حجتہ الاسلام، حضور صدرالافاضل ، حضور صدرالشریعہ ،حضرت علامہ سیدسلیمان اشرف بہاری اورحضور برھان ملت اس جلسہ میں ابوالکلام آزاد اور ارکان جمعیۃ العلماء کے حقائق اور مسلم دشمنی کو اجاگرکرنے کے لئے تشریف لے گئے جب ابوالکلام دوران تقریر کذب بیانی سے کام لینے لگا تو اسی مجمع عام میں حضور برھان ملت نے ٹوکا اوراس کی گفتگو کو جھوٹ کاپلندہ قراردیا۔ آپکی جرأت دیکھ کروہ ہکا بکارہ گیا۔
۱۹۴۰ء میں قرارداد پاکستان کی منظوری کے بعد ملک کے طول وعرض میں دورے کئے۔ سرحد پنجاب، سندھ میں تقریریں کیں اورپاکستان کے لئے سخت جدوجہد کی قائد پاکستان محمد علی جناح نے آپ کی کوششوں کو بہت سراہا اورشکریہ کاخط بھی بھیجا باضابطہ پاکستان بن جانے کے بعد اس کی طرف نظراٹھاکر بھی نہ دیکھا۔۱۹۴۴ء میں سی پی لیگ پارلیمنٹری بورڈ کے ممبر رہے۔ صوبائی اسمبلی کے جداگانہ انتخاب میں جبل پور اورمنڈلہ سے الیکشن لڑکر کامیاب ہوئے اورمسلسل پانچ سال تک ایم ایل اے رہے۔
فضائل وکمالات: حضور برھان ملت علامہ شاہ مفتی عبدالباقی برھان الحق قادری برکاتی رضوی علیہ الرحمہ ایک جلیل القدر عالم دین ، فکر وفن کے تاجدار ، بہترین مفکر اورمدبر اور فن فقہ کے ماہر تھے آپ کو یہ اعزاز حاصل تھا کہ جب مفتی شرع کی ضرورت پڑی تو سیدنامجدداعظم محدث بریلوی علیہ الرحمہ نے ۱۳۳۹ء میں بریلی شریف میں مفتی شرع کے منصب پر آپ کی تقرری فرمائی مرشد برحق حضوراعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ سے بے حد عشق فرمایاکرتے تھے اورمرشدبرحق بھی آپ کے والد گرامی اور آپ سے بے حد انسیت رکھتے تھے اورکئی کئی دنوں تک جبلپور میں قیام فرماتے ، حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ فرماتے تھے کہ میرادوسرا مکان جبلپور میں ہے۔ آپ کاسلسلہ نسب خلیفۃ المسلمین سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے جاملتاہے۔
وصال: جماعت اہلسنت کے فکروفن کے تاجدار نے ۲۶؍ ربیع الاول ۱۴۰۵ھ/۲۰دسمبر۱۹۸۵ء شب جمعہ ہمیشہ ہمیش کے لئے محبین اورمتعلقین کو چھوڑ کر داعیٔ اجل کو لبیک کہا۔(برھان ملت کی حیات و خدمات)

حضور سیدالعلماء علیہ الرحمہ
(ولادت : ۱۳۳۲ھ/۱۹۱۴ء وصال:۱۳۹۴ھ/۱۹۷۴ء)

حضور سیدالعلماء حضرت علامہ سید شاہ مفتی آل مصطفی اولاد حیدرسید میاں حسینی زیدی قادری برکاتی نوری علیہ الرحمہ ۱۳۳۲ھ/۱۹۱۴ء میںمدینۃ الاولیاء مارہرہ مطہرہ میں پیداہوئے ۔ آپ کے والد محترم حضرت سید شاہ حیات النبی آل عبا بشیرحیدر ، ماموں جان حضور تاج العلماء علامہ سیدشاہ مفتی اولاد رسول محمدمیاں اورناناجان سراج السالکین حضرت سید ابوالقاسم محمد اسماعیل حسن مارھروی علیہم الرحمہ سے ابتدائی تعلیم حاصل کی اورآپ ہی کی تربیت میں رہے اعلیٰ دینی تعلیم کے حصول کے لئے حضور صدر الشریعہ علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں زانوئے ادب تہہ کرکے علم دین سے بہرہ ور ہوکر دارالعلوم معینیہ عثمانیہ، اجمیر شریف سے دستار فضیلت سے سرفرازہوئے ۔ طب وحکمت کی تعلیم مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے حاصل کی۔
مسلمانان اہلسنت کے عقائدو ایمان کے تحفظ کی خاطر اورایک پلیٹ فارم پرلاکر ان کی ملی وسیاسی قوت اوران کی اجتماعیت کے اظہار کے لئے آپ نے ۱۹۵۸ء میںآل انڈیا سنی جمعیۃ العلماء کی تشکیل کی۔ جلوس محمدی اورجشن غوثیہ کے انعقادکابھی ممبئی میںآغاز کیا۔
حضور مجاہدملت علامہ حبیب الرحمن قادری علیہ الرحمہ کی گرفتاری پر ۱۹۶۳ء میں آپ نے زبردست احتجاج کیاتھااوراس وقت کے وزیراعظم ہند پنڈت جواہر لال نہرو کو بہت سخت خط لکھا۔
آپ مخدوم زادہ ہونے کے باوجود خانوادۂ رضویہ کے شہزادوں حضور مفتی اعظم ہند، حضوررحمانی میاں، حضور تاج الشریعہ سے بے حد محبت فرمایاکرتے تھے۔ ہرمحفل میں حضور اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کاذکر کرنااپنے لئے سعادت مندی سمجھتے تھے۔
حضرت امین ملت مدظلہ ٗ العالی فرماتے ہیں کہ ’’عم محترم حضورسیدالعلماء نے اپنی پوری زندگی مسلک اعلیٰ حضرت کی اشاعت کے لئے وقف کردی۔ خاندان برکاتیہ کابچہ بچہ اعلیٰ حضرت کاشیدائی ہے۔
۱۹۷۱ء میںمبارکپور کی پہلی تعلیمی کانفرنس اور الجامعۃالاشرفیہ مبارکپور کے سنگ بنیاد کے موقع پرسرکار مفتی اعظم ہند کے ساتھ حضور سیدالعلماء نے بھی شرکت کی۔
اس کانفرنس میں آپ نے اپنی ولولہ انگیز تقریر میںفرمایا ’’اگرضرورت پیش آئی تو سلسلہ برکاتیہ کے مریدین ومعتقدین کوحافظ ملت کے قدموں میں لاکرڈال دوںگا‘‘آپ حضور حافظ ملت اورالجامعۃ الاشرفیہ کو بہت زیادہ عزیز رکھتے تھے۔ آپ نے اپنی پوری زندگی خدمت علم دین میںگزاردی اوربرسوں کھڑک مسجد ممبئی میںخطابت وامامت کافریضہ انجام دیا۔
آپ کاوصال مبارک ۱۲؍ جمادی الآخرہ ۱۳۹۴ھ/ ۱۹۷۴ء میںہوا حضور مخدوم برکات علیہ الرحمہ کے مزار شریف کے احاطہ میں سپرد خاک ہوئے۔

حضور احسن العلماء علیہ الرحمہ
(ولادت: ۱۹۲۷ء وصال: ۱۹۹۵ء)

نام ونسب: حضوراحسن العلماء حضرت علامہ حافظ وقاری مفتی سید مصطفی حیدرحسن میاں قادری برکاتی علیہ الرحمہ کی ولادت مبارکہ ۱۰؍ شعبان المعظم ۱۳۴۵ھ/۱۳؍ فروری ۱۹۲۷ء کو ہوئی آپ کے والد گرامی حضورسیدآل عباقادری علیہ الرحمہ باکمال بزرگ تھے۔ آپ والدبزرگوار اوروالدہ ماجدہ یعنی طرفین سے حسینی زیدی سادات میں سے تھے۔
تعلیم وتربیت:آپ نے ابتدائی تعلیم والدہ اورحضور تاج العلماء علیہ الرحمہ کی اہلیہ محترمہ سے حاصل کی سات سال نوماہ کی عمر میں حفظ کی تکمیل کی۔ علوم اسلامیہ کے لئے برادراکبر حضور سیدالعلماء مارھروی(م۱۳۹۴ھ)حضور شیربیشۂ اہلسنت علامہ حشمت علی خاں رضوی (م۱۳۸۰ھ) حضور شیخ العلماء علامہ غلام جیلانی اعظمی (م۱۳۹۷ھ) استاذ العلماء علامہ خلیل احمدخان برکاتی (م ) کی بارگاہ میں زانوئے ادب تہہ فرمایا، عربی،فارسی اور اردو کے قواعد وضوابط میںمہارت تامہ حاصل تھی۔
بیت وخلافت:حضورتاج العلماء علیہ الرحمہ کی کوئی صلبی اولاد نہ تھی۔ ایک صاحب زادے تھے جن کا ایام طفولیت میںانتقال ہوچکا تھا۔ آپ نے حضور احسن العلماء کو بچپن ہی میں گود لے لیاتھا اور تاحیات ان کی سرپرستی فرماتے رہے۔ آپ کے ناناجان حضرت نورالعارفین سید شاہ ابوالقاسم الحاج اسماعیل حسن علیہ الرحمہ نے ۱۴؍ ماہ کی عمر میں مریدکرلیاتھا۔ آپ حضور تاج العلماء کے خلیفہ اورجانشین مقررہوئے۔
خلفاء عظام: حضرت سید ملت سیدنظمی میاںمارھروی ،حضرت سید شاہ ضیاء الدین کالپوی،حضور تا ج الشریعہ مفتی اختررضاخان ازھری بریلوی، حضرت شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی، حضرت بحرالعلوم مفتی عبدالمنان اعظمی،حضرت فقیہہ ملت مفتی جلال الدین احمد امجدی، حضرت صوفی نظام الدین بستوی،حضرت مولانا سید اصغرامام امجھروی ۔
محاسن وکمالات:حضور احسن العلماء،ممتازعالم،مایہ نازفقیہ ، تصوف وسلوک کے تاجدار علم وعرفاں کے درنایاب اور اخلاق و محبت کے پیکر تھے۔ خانوادۂ رضویہ سے محبت آپ کاطرہ امتیاز تھا۔آپ علماء، طلباء شفقت فرمانے میں ممتاز ومنفرد المثال تھے۔ تقویٰ وطہارت ،اللہ ورسول کی اطاعت گزاری ، شب وروز عبادت وریاضت ، نماز پنجگانہ کی پابندی اورنصیحت آموز خطابت میںبے نظیر تھے۔
حضور تاج الشریعہ مدظلہ العالی پرآپ کے بے حد احسانات ونوازشات ہیںحضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کے عرس چہلم شریف کے موقع پر آپ نے ان کے سرپر جانشینی کاعمامہ باندھا اوریہ کہہ کراعلان کیاکہ ’’اخترمیاں‘‘حضورمفتی اعظم کے جانشین منتخب ہوئے۔ ایک ولی کامل کی زبان سے نکلا ہوا جملہ آج بھی ہرخاص وعام کے زبان زد ہے۔
شہزادگان: حضرت امین ملت ڈاکٹر سید شاہ امین میاں مدظلہ العالی (سجادہ نشین) حضرت شرف ملت سید شاہ ڈاکٹراشرف میاں مدظلہ العالی ، حضرت افضل ملت سید شاہ افضل میاں مدظلہ العالی، حضرت رفیق ملت، سید شاہ نجیب حیدر مدظلہ العالی (نائب سجادہ نشیں)
ان عالی مرتب شہزادگان کی شان میں حضورتاج الشریعہ مدظلہ العالی نے چنداشعار پیش کئے ہیں ملاحظہ فرمائیں۔

خوب صورت ، خوب سیرت وہ امین مجتبیٰ
اشرف وافضل،نجیب ظاہرہ ملتانہیں
وہ امین اہل سنت رازدار مرتضیٰ
اشرف و افضل ، نجیب باصفا ملتانہیں
سوگواروں کو شکیبائی کاساماں کم نہیں
اب امین قادریت بن گیا تیرا امین
اخترخستہ ہے بلبل گلشن برکات کا
دیرتک مہکے ہراک گل گلشن برکات کا

وصال: تاجدار علم وفن ، مرجع علماء ومشائخ حضور احسن العلماء علامہ سید شاہ مصطفی حیدرحسن میاں مارہروی قادری برکاتی زیدی حسینی نے ۱۵؍ ربیع الآخر ۱۴۱۶ھ/۱۱؍ستمبر ۱۹۹۵ء شب سہ شنبہ (منگل) داعی اجل کو لبیک کہا۔برادراکبر حضور سیدالعلماء کی پائنتی آخری آرام گاہ بنی۔
حضور تاج الشریعہ مد ظلہ العالی آپ کی بارگاہ عالیہ میں یوں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔

حق پسند و حق نوا و حق نما ملتا نہیں
مصطفی حیدرحسن کاآئینہ ملتا نہیں
مرد میدان رضا وہ حیدر دین خدا
شیر سیرت شیردل حیدرنما ملتا نہیں
سنیوں کی جان تھا وہ سیدوں کی شان تھا
دشمنوں کے واسطے پیک رضا ملتا نہیں
یاد رکھنا ہم سے سن کر مدحت حیدر حسن
پھر کہوگے اختر حیدرنما ملتا نہیں

 

Menu