حضورتاج الشریعہ بحیثیت عالم ربانی
قاری دلشاد احمد رضوی،بنارس،انڈیا
العلماء ورثۃ الانبیاء اسلامی نظام کی نشرو اشاعت، روحانی اقدر کو سینہ بسینہ امت مصطفی تک پہنچانا، صحابۂ کرام سے لیکر آج تک کے مشائخ صوفیہ وعلماء کاطریقہ کار رہا ہے انہیں خوش نصیب افراد کے سروں پر مصطفیٰ جان رحمت ﷺ نے نیابت کا زریں تاج رکھا ہے اس لئے کہ قرآن و سنت کی تبلیغ ہی ایک ایسا ذریعہ ہے جو امت کو معرفت الٰہی کا راستہ دکھاتی ہے ہر نائب مصطفیٰ پر دوذمہ داریاںہوتی ہیں۔ اول۔ وہ ازخوداطیعوااللہ واطیعوا الرسول کاپابند ہو۔ دوم پھر اطاعت خدا ور رسول کا جو مفہوم اس نے قرآن و سنت کی روشنی میں سمجھا ہے اسے امت مصطفیٰ تک پہنچائے اور اسی پر عمل پیرا ہونے کی تعلیم و ترغیب دے۔
اس لئے کہ ایک نائب پیغمبر کے پیش نظر تمام احکامات شرعیہ اور ارشادات مصطفویٰ مثل آئینہ روشن رہتے ہیں وہ خوف خدا اور عشق رسول میں ایسا گم ہوتا ہے کہ وہ وہی کرنا چاہتا ہے جس کا حکم خدانے دیا اور وہ وہی سننا چاہتا ہے جس میں مصطفیٰ پیارے کی رضاہو۔ آئیے اب ان اصول و ضوابط کی میزان پر ایک طرف شریعت کے احکام اور دوسری طرف حضور تاج الشریعہ کی شخصیت کورکھ کر دیکھاجائے کہ ان کی حیات مبارکہ میںکسی قدر ہم آہنگی ہے۔
تاج الشریعہ اس دور کی پیداوار ہیں جبکہ فقاہت اور روحانیت وطریقت میں جانشین اعلیٰ حضرت سیدی سرکار مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کاڈنکابج رہا تھا۔ اور تاجدار اہلسنّت حضور مفتی اعظم ہند نے اپنے وصال کے قبل ہی سے حضور تاج الشریعہ کو افتاء و درس حدیث کی ذمہ داریاں دیکر اپنی خلافت اور روحانیت کاامین بنادیا تھا۔ ایک ایسی شخصیت جو اہلسنّت کیلئے مرکزی حیثیت رکھتی ہو اور علماء عرب و عجم کا مرجع ہو اس کی نظر انتخاب ہی حضور تاج الشریعہ کیلئے سند کی حیثیت رکھتی ہے۔
آفتاب ولایت کاغروب کیا ہونا تھا کہ پس خاک حضور تاج الشریعہ کی ذات میں اپنی جوت جگا ڈالی مرشد کامل عالم ربانی کو مرجع سنیت ہونے کیلئے کسی تحریک کی ضرورت نہ پڑی بلکہ حضور تاج الشریعہ کا تبحر علمی، فقہی انفرادیت اور مسلک اعلیٰ حضرت پر پوری دیانت کے ساتھ استقامت نے صرف برصغیر ہی نہیں پوری دنیا کے سنیوں کو اہلسنّت کا قائد اعظم تسلیم کرنے پر مجبور کردیا۔
حضور تاج الشریعہ کی زندگی میں اہلسنّت و جماعت کی شیرازہ بندی، افتاء کے تعلق سے اٹھنے والے بحران کی پیش بندی اور طریقت کی زنجیروں میں نئی کڑیوں کا اضافہ ہی مشغلۂ صبح و شام ہے۔ حضور تاج الشریعہ کی غلامی نے جسے ہندو بیرون ہند میں روشناس کیا خود کو اس شعر کا مصداق پاتاہے۔
سراسرمن ہمہ عیبم بدیدی و خریدی تو
زھے کالائے پر عیب زھے لطف وخریدارے
طالب علمی کا دور تھا جمشیدپور میں قائد اہلسنّت علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ کی قیادت میں شہر کے۔ گولموری۔ محلہ میں امام احمد رضاکانفرنس میں حضور تاج الشریعہ کی آمد ہوئی۔ ہم لوگ مرشد گرامی کی خدمت پر مامور کئے گئے، بیعت وارشاد کا سلسلہ شروع تھا۔ ذہن میں ایک بات کھٹکتی تھی کہ بغیر والدین کی اجازت کیسے بیعت ہوجائوں قلبی کیفیت میں ایک ابال تھا جسے لفظوں میں بیان نہیں کیاجاسکتا قائد اہلسنّت نے میری پریشانی محسوس کی جیسے پیشانی کی لکریں پڑھ لیں ہو۔ ارشاد فرمایا کیا کوئی پریشانی ہے۔ آنکھیں بھیگ گئیں عرض کیا حضور بیعت ہوناچاہتا ہوں کیا والدین کی اجازت کے بغیر ممکن ہے۔ قربان جائیے قائد اہلسنّت کے الفاظ پر جو میری زندگی کا سب سے قیمتی اثاثہ ہیں ارشاد فرمایا نادان جنت کا سودا والدین سے پوچھ کرنہیں کیا جاتا اور میں بھی توتمہارا باپ ہوں یہ کہتے ہوئے مجھے تاج الشریعہ کے قدموں میں ڈال دیا حضور یہ بچہ رشیدی صاحب کا ہے جو اہلسنّت کے علم بردار ہیں اور نعت کے زورگو شاعر بھی ہیں ان کا بچہ آپ کی خدمت میں ہے اسے غوث اعظم تک پہنچا دیجئے۔ مرشد ربانی نے میرا ہاتھ پکڑا سلسلہ قادریہ میںداخل کیا دعائوں سے نوازا ارشاد فرمایا۔ فارغ ہوکر مسلک اعلیٰ حضرت کی نشر و اشاعت کرنا یہی قرآن و سنت کا راستہ ہے۔ یہ جملہ کیا تھا پوری زندگی کا نصب العین سامنے رکھ دیا۔ مجھے حضور تاج الشریعہ کی زندگی کے اس حصے کو ضبط تحریر کرنا ہے جس کا تعلق صرف قرآن و سنت سے ہے۔
حضور تاج الشریعہ مسند حدیث پر
میں ایک بار بریلی شریف حاضر ہوا شہزادۂ تاج الشریعہ علامہ محمدعسجد رضا خاں کی وساطت سے بعد نماز مغرب ملاقات کیلئے حضرت کے حجرے میں داخل ہوا اس وقت مفتیان کرام موجود تھے چند لمحے میں حضور تاج الشریعہ اندرون خانہ سے اپنے حجرہ شریف میں تشریف لائے بعد سلام و قدم بوسی کے میں بھی صف کے کنارے بیٹھ گیا۔ ایک مفتی صاحب نے عبارت پڑھی اور حضرت نے حدیث مبارک کے ختم ہوتے ہی پر سوز لہجے میں اللہ اکبر فرمایا۔
اور چہرۂ مبارک مثل آفتاب ہوگیا۔ رقت آمیز لہجے میں فرمایا کیا شان ہے سرکار کی شفا شریف کی وہ حدیث یاد آگئی جسے حضرت سیدنا قاضی عیاض مالکی اندلسی رحمۃ اللہ علیہ نے سلف صالحین اور عمل بالسنہ کے باب میں بیان فرمایا ہے۔
حدیث: حضرت عمروبن میمون رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں تھا ایک دن انہوں نے آقا ﷺ کی حدیث بیان کی اور قال قال رسول اللہ ﷺ کہتے ہوئے ان پر عجیب کیفیت طاری ہوگئی اور چہرہ مبارک عرق آلود ہوگیا۔
(شفاشریف باب اول۔ تیسری فصل صفحہ ۹۲)
اور ایک روایت کے مطابق ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے روایت کرتے وقت گلے کی رگیں پھول جاتیں آنکھیں آشکبار ہوجاتیں۔ اور چہرہ کا رنگ متغیر ہوجاتا۔
حضور تاج الشریعہ درس حدیث دیتے وقت صحابہ کرام کے مظہر نظر آرہے تھے۔ جیسے سرکار کا سراپا سامنے ہو اور جلوۂ زیبا کے دیدار کی دولت حاصل ہورہی ہے اور دل اعتراف حقیقت کررہاہے۔ یہی وہ آثار ہیں جس عشق رسالت مآب ﷺ کی جلوہ گری تاج الشریعہ کی ذات میں جلوہ فگن نظر آتی ہے ایک عالم ربانی کی ذات میں جتنی خوبی ہونی چاہئے حضو تاج الشریعہ کی صبح و شام اور ان کی محفل کے شب و روز میں دیکھنے کے بعد من وعن ویسی ہی نظر آتی ہے جیساکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے قول وفعل میں ہم آہنگی برقرار رکھنے کی تعلیم دی ہے۔ قول و فعل کی ہم آہنگی علم و تقویٰ کی یک جہتی شریعت و طریقت کا حسین سنگم، جلوت و خلوت میں یکسانیت دیکھ کر دل کو اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ حضور تاج الشریعہ ہرجہت ہر زاوئیے سے عالم ربانی ہی نظر آتے ہیں تاج الشریعہ کے علمی فیضان سے صرف برصغیر ہی نہیں بلکہ پوری دنیائے سنیت اس وقت مالا مال نظر آرہی ہے۔ اس دور پرفتن میں دین کی نشر و اشاعت کرنے والوں کیلئے ایک ایسے امرکا سامنا ہے جسے ضبط تحریر کرنا ضروری سمجھتا ہوں تاکہ تاج الشریعہ کی شخصیت استقامت فی الدین کی حیثیت بھی اجاگر ہوجائے۔ یورپ وایشیا کے دیگر ممالک میں بھی تصویر کشی ایک عام چلن بن کر رہ گئی ہے جسے چاہ کر بھی بیشتر علماء اس سے بچ نہیںپاتے۔ اجلاس دینیہ میںپورے پروگرام کی منظر کشی ہوتی ہے۔ علماء کے منع کرنے کے باوجود لوگ باز نہیں آتے۔ مگر تاج الشریعہ کا موقف اس مسئلے پر جوناجائز ہونے کا ہے۔ یہ صرف آپ کے فتوے کے حصار تک محدود نہیں ہے۔ بلکہ تصویر کشی اگر وہ قلم سے ناجائز گردانتے ہیں۔ تو اپنے عمل سے بھی ثابت کر دیکھاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تاج الشریعہ جس محفل میں موجود ہوتے ہیں چاہے وہ ایشیا کی کوئی کانفرنس ہویا یوروپ کا کوئی اجلاس ان کی ہیبت لوگوں پر کچھ اسطرح طاری رہتی ہے کہ بڑے بڑے جریح بھی غیر شرعی حرکت کی ہمت نہیںکرپاتے۔ یہ بھی تاج الشریعہ کی استقامت فی الدین کی نظیر ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ نے بندے کا ان پر ایسا رعب طاری کردیتا ہے کہ عاشق مصطفی تامرون بالمعروف کے ساتھ وینھون عن المنکرر کی تفسیر و تنویر نظر آتا ہے۔ اس مقام پر دل یقین کرلیتا ہے کہ ایسا شخص جو دین پر سختی کے ساتھ کاربند رہنے والاتھے وہ خداکا سچا بندہ اور عالم ربانی ہے۔