حضورتاج الشریعہ ایک نادر دہر شخصیت
ڈاکٹر غلام مصطفیٰ نجم القادری، ممبئی،انڈیا
مدت کے بعدہوتے ہیں پیدا کہیں وہ لوگ
مٹتے نہیں ہیں دہر سے جن کے نشاں کبھی
اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے بندوں کی فلاح وبہبود ، ہدایت ورہنمائی ، جادۂ حق پراستقامت اوردین وسنیت کی توسیع واشاعت کے لئے ہر دور میں اپنے کرم کریمانہ، نوازش فیاضانہ سے اپنے کسی خاص بندے کو مبعوث فرماتارہا ہے، وہ شخصیتیں حکمت و دانائی ، طہارت و پاکیزگی، بلندی کردار ، اوراخلاق و اخلاص کا پیکر مجسم بن کر اس طرح ظہور ونمود فرمائی ہیں کہ نگاہیں ان کے دیدار کو ترسنے لگتی۔ دل بخودان کی طرف کھینچنے لگتے۔ اورقلوب ان کی یاد میںمچلنے لگتے ہیں ۔ وہ روئے زمین کے لئے اللہ کی بڑی امانت اورعظیم نعمت ہوتی ہیں ۔ ان کی رفاقت کے چشمہ ٔ صافی میں جو بھی غوطہ لگالیتا ہے ، برسوں کاپاپ دھل کر زاویہ حیات نکھرنکھراٹھتا ہے۔ تھوڑی دیر کے لئے ان کی صحبت میسر آجائے تو صدسالہ طاعت بے ریا پر یہ چند لمحے بھاری ہوجاتے ہیں۔ نورونجات کی ایسی ہی ضامن شخصیتوں میںایک عظیم شخصیت دور حاضر میںحضور تاج الشریعہ حضرت علامہ مفتی الشاہ محمد اختر رضاخان صاحب قادری ، جانشین حضور مفتی اعظم کی شخصیت ہے۔
رچ بس گیا ہے ذہن میں ناصر کسی کاروپ
اب کیاکریں گے پھر کوئی شہکار دیکھ کر
وہ عظیم خانوادے کے عظیم چشم و چراغ ہونے کے ساتھ ساتھ ذاتی اوصاف وکمالات سے ایسے مزین ہیں کہ اگرانہیں علم و فضل کانیر تاباں کہیں تو عقیدت تشنہ رہ جاتی ہے۔ شریعت و طریقت کاسنگم کہیں توالفاظ ، حق تو یہ ہے کہ حق ادانہ ہوا کا گلہ کرتے ہیں۔ حقیقت ومعرفت کامجمع البحرین کہیں، تو جملے احساس کمتری کاشکار نظر آتے ہیں۔ مگروجدان یہ کہہ کر خلجان کو تسلی دے لیتے ہیں کہ
الفاظ کے پیچوں میں الجھتے نہیں دانا
غواص کومطلب ہے صدف سے کہ گہرسے
انہیں اعلیٰ حضرت کی ذات سے نسبت پدری اورنسبت مادری دونوں کاشرف حاصل ہے،اگر باپ کی طرف سے انہیں حضور حجۃ الاسلام کافیض پہنچ رہا ہے تو ماں کی طرف سے حضور مفتی اعظم کی نوری برکات ۔ یہ نسبتیں سونے پرسہاگہ کی بہار دکھارہی ہیں۔ ان نسبتوں نے انہیں وہ بلندی بخش دی ہے کہ ان کی بلندی کوجھانکنے کے لئے سربلندوں کی سربلندیاں خم ہوجاتی ہیں۔
تم ساکوئی سادہ ، کوئی شہزادہ نہیں ہے
کیا چیز ہو تم خود تمہیں معلوم نہیں ہے
ادیان عالم میںاسلام ہی تنہا وہ مذہب ہے جوکل جیسا تھا آج بھی ویسا ہی ہے اورپھرکل بھی ویساہی رہے گا اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ اس کی حفاظت وہ ذات کریم فرمارہی ہے جو حی، ہے، دائم ہے، باقی ہے، قائم ہے، اسی لئے ہرقرن میں جب اورجیسی ضرورت اسلام کوپڑتی ہے فیاض ازل اپنے نظام قدرت سے ایساہی اس کے لئے انتظام فرمادیتا ہے، کبھی کسی جانباز مجاہد کو بھیج کر زمین محبت کولالہ زار کرکے، کبھی کسی امام و مجتہد کوبھیج کر آفاق علم وخرد کوضیاء بارکرکے۔ کبھی کسی مجدد و مصلح کوبھیج کرفضائے فکر وعمل کو نو بہار کرکے اورکبھی غوث، کبھی خواجہ کو بھیج کرادائے کفر وبدعت تار تار کرکے-کبھی کسی فقیہہ و محدث کو بھیج کر مسند علم و عشق باوقار کرکے، حضرت شیخ الاسلام کے معنی خیز لفظوں میں ’’ جب منکرین زکوٰۃ نے دین میںارتداد کاراستہ نکالنا چاہاتو خدانے صدیق اکبر کے ذریعہ پیغام رسول کی حفاظت فرمائی، قیصر و کسریٰ کی مغرور طاقتوں نے اسلام کو چیلنج کیا تو خدا نے اس کی حفاظت فرمائی فاروق اعظم کے ذریعہ ، یونہی جب خوارج نے قرآنی آیات کے مفاہیم کو بدلنے کی شرمناک کوشش کی خدانے پیغام مصطفوی کی حفاظت فرمائی مولائے کائنات کے ذریعہ اسی طرح جب یزید نے سرکشی کاسر اٹھایا تو خدانے اپنا دین بچایا حسین ابن علی کے ذریعہ ایسے ہی جب اعتزال کے فتنوں کاپانی سر سے اونچا ہونے کو آیا تو خدا نے اپنا دین بچایا مجدد الف ثانی کے ذریعہ، اسی طرح جب وہابیت وقادیانیت نے اپنی فتنہ سامانیوں کامظاہرہ کیا تو خدا نے اپنا دین بچایا امام احمد رضا کے ذریعہ ، ایمر جنسی کے دور میں ظالم و جابر حاکموں نے جب ظلم وجور کی انتہاکردی تو ایسے خوف وہراس کے عالم میں خدانے اپنا دین بچایا حضور مفتی اعظم ہند کے ذریعہ ‘‘ میںایک قدم آگے بڑھ کر یہ اظہار حقیقت کردوں کہ اورحضور مفتی اعظم کے بعد جب افراتفری کے ماحول نے پوری ملت کو مایوسی کی کیفیت میںمبتلا کردیا- جب خانقاہیں اپنا مقصد اصلی فراموش کربیٹھیں۔ ذمہ دار شخصیتیں اپنا کعبہ الگ بنانے لگیں۔ جب درسگاہیں اپنی بولی الگ بولنے لگیں تو ایسے ناگفتہ بہ حالات میں خدا نے اپنادین بچایا حضور تاج الشریعہ کے ذریعہ، تاج الشریعہ کی خاموشی بول رہی ہے۔
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
حضور مفتی اعظم کے بعد جب کہ قیادت کی بساط سمٹ چکی ہے۔ آزاد خیالی اورکسمپرسی کادور دورہ ہے ۔ اپنا قبلہ الگ بنانے کابھوت سوار ہے۔ اچھے اچھے قدم پھسل رہے ہیں۔ مسائل میں اباحت پسندی آرہی ہے۔ نظریات میں جدت طرازی کارنگ نمایاں ہورہا ہے۔ کون کب تک ، اور کس وقت اپنے افکار کہنہ سے رجوع کرے گا کہنا مشکل ہے۔ ایسے زہرہ گداز ماحول میںصراط مستقیم پر ، مستقیم رہنا۔ طوفان بلاخیز میں بھی پائے استقلال میںذرہ بھر لغزش نہ آنا- افکار سلف کادامن اسی مضبوطی سے تھامے رہنا مخالف فضا میں بھی حالات سے سمجھوتہ نہ کرنا- سب وشتم سننا ، سہنا اوراپنے استحکام پرمسکرانا – بعض رفقائے مجلس کابھی ساتھ چھوڑدینا مگر بے نیاز رہنا، یہ وہ اوصاف و کمالات ہیں جس نے کل کے مولانااختر رضا کو آج کا حضرت تاج الشریعہ بنادیا ہے۔
اس زندگی کے حسن کی تابندگی نہ پوچھ
جو حادثوں کی دھوپ میں تپ کرنکھر گئی
میں انہیں دور سے نہیں بہت قریب سے جانتاہوں- آج سے نہیں ۱۹۷۵ء سے پہچانتاہوں ، یہی وہ سن ہے جس میں بریلی شریف فیضان رضا کے گل بوٹوں سے اپنی حیات کاخاکہ سجانے حاضر ہواتھا، میں تقریباً دو سال حضرت کے پرانے مکان محلہ خواجہ قطب کے بالاخانہ میں مقیم رہاہوں، بازار سے سودا سلف لاتااورحضرت کے دسترخوان سے نوع بہ نوع ریزے چنتارہاہوں۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب حضرت عسجد میاں لڑکھڑاتے قدموں سے چلنے کی مشق کررہے تھے۔ حضور تاج الشریعہ دارالعلوم منظر اسلام کے صدرالمدرسین کے منصب پرفائز تھے، مجھے ان کی شاگردی کاشرف حاصل ہے۔ میںبڑے فخر سے کہتاہوں کہ میں نے ان سے دو کتابیں (۱) ازہار العرب (۲) نخبۃ الفکر پڑھی ہیں ، مجھے خوب یاد ہے جب وہ ازہارالعرب پڑھاتے تو پہلا تاثر یہ ابھرتاتھا کہ ہم کسی ہندی عالم سے نہیں ، خالص عرب نژاد عالم سے مصری لہجے میں درس لے رہے ہیں اور معاًیہ خیال سطح ذہن پرابھرتا کہ ان کے اسلوب میں اتنی کشش ہے ۔اتنی مٹھاس- اتنی دلکشی اوراتنی مقناطیسیت ہے تو افصح العرب والعجم ، جو امع الکلم حضور سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسلوب بیان، طرز ادا میں کتنی تاثیر و دلگیری ہوگی۔ اوردوسرا تاثر یہ سامنے آتا کہ انہیں نادر الفاظ کے معانی کے لئے کتب لغت کی حاجت نہیں ہے ، عربی الفاظ کے معانی مختلف تعبیر کے ساتھ جیسے منتظر ہوںکہ یہ لب کھولیں اورہم برسیں۔ اورجب نخبۃ الفکر پڑھاتے ہیں تو چودھویں صدی ہجری کے عبقری العصر ، اسلامی فکر و حنفی فقہ کے امام اعلیٰ حضرت امام احمد رضا کی یا د افق خیال پر چلتی پھرتی ، نازک خرامی کرتی محسوس ہوتی اوردل پکار اٹھتا کہ زبان ان کی فیضان احمد رضا کا ہے۔ یہ اب سے ۳۵ برس پہلے کا واقعہ ہے ۔ یہ حضور تاج الشریعہ کی ابتدائی علمی زندگی کی باتیں ہیں، اس پینتیس سال کے مختلف النوع، تلخ و شیریں دورانئے نے متنوع علمی معرکہ آرائیوں نے-زمانے کی سردوگرم تجربات نے عالم اسلام کے سب سے بڑے اورمعتمد علیہ مفتی ،حضور مفتی اعظم کی جانشینی کی نازک ہمہ گیرذمہ داریوں نے جدید حالات کے بطن سے جنم لینے والے نت نئے مسائل کی تحقیق و تنقید نے – عالمی سطح پر منعقد ہونے والی فقہی سمینار کی مجلسوں نے انہیں علمی اعتبار سے کتنا پختہ، فقہی اعتبار سے کتنا گہرا، اور فکری اعتبار سے کیسا وسیع النظر اورباریک بیں بنادیا ہے حقائق زمانہ کی نظروں کے سامنے ہیں۔ اسلام کاوہ کون ساعنوان اور فقہ کاوہ کون سا باب ہے جو ہروقت پیش نظر نہیں ہے۔ خدائے علیم و خبیر نے علمی حضوری کی دولت سے ایسا مالا مال کردیا ہے کہ سوال کیجئے اورجواب حاضر۔ ؎
ایک کنکر پھینک کر دیکھو ذرا تالاب میں
کس قدر موجیں اٹھیں گی سینہ ٔ بیتاب میں
کامنظر نظر کے سامنے آجاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وقت کے بحرالعلوم ، دور کے فقیہ النفس، زمانے کے محقق عصر بھی ان کی بارگاہ میں تشنہ کام حاضر ہوتے اورفائز المرام لوٹتے ہیں۔ خدا نے ان کی ذات کو اسلام و سنیت کی ڈھال بنادیا ہے۔ حضرت مفتی محمد مطیع الرحمان صاحب مضطر پور نوی راوی ہیں کہ ایک بار شافعی المسلک کے کچھ علماء کیرالا سے حضرت سے ملنے بریلی شریف آئے۔ وہ حضرات چوں کہ عموماً اجلی شرٹ اورتہ بند استعمال کرتے ہیں۔ تہ بند بھی ٹخنے سے نمایاں اوپر پہنتے ہیں۔ نماز میں رفع یدین کرتے ہیں۔ بالجہر آمین کہتے ہیں۔ یہ علامتیں شمالی ہند میں وہابیوں کی ہیں۔ اس لئے رضامسجد بریلی میں جب ان لوگوں نے نماز پڑھی تو ہر طرف یہ سرگوشیاں ہونے لگیں کہ کچھ وہابی آئے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ حضور تاج الشریعہ سے ملنا چاہتے ہیں۔ پڑھے لکھے زیرک و فہیم لوگ تھے حالات کاچہرہ ان لوگوں نے بھی پڑھ لیا کہ ہم لوگوں کو وہابی خیال کیاجارہاہے۔ حضور تاج الشریعہ تک خبر پہنچی کہ کچھ وہابی علماء آئے ہوئے ہیں ملناچاہتے ہیں۔ انہیں آنے دیاجائے کہ نہیں!!! مفتی مطیع الرحمان صاحب نے مخبر سے کہا کہ تم یہ فیصلہ کیوں کررہے ہوکہ آنے دیاجائے یانہیں۔ اورپھر حضور تاج الشریعہ سے عرض کیا حضور اگرکچھ وہابی علماء ہی آئے ہیں اورملناچاہ رہے ہیں تو انہیں موقع دیاجائے ہوسکتاہے حضور سے تبادلہ خیال کے بعد انہیں ہدایت نصیب ہوجائے ۔ ان لوگوں کوجیسے ہی اجازت ملی اورحاضرہوئے ۔ شاید عافیت اسی میںسمجھا کہ پہلے رفع اوہام کردیاجائے ۔ اس لئے باریاب ہوتے ہی عرض کیا کہ حضور ہم بھی حسام الحرمین پر یقین رکھتے ہیں۔مسلک اعلیٰ حضرت کے ماننے والے ہیں، لوگ جیسا سمجھ رہے ہیں ہم قطعی ایسے نہیں ہیں ہم شافعی المسلک کے ذمہ دارعلماء ہیں ۔ اب تو ماحول کاپورا رنگ بدل گیا، ان حضرات کے لئے اعلیٰ و عمدہ قسم کاناشتہ آیا۔ اوراپنائیت کے ماحول میں خیالات کاعلمی لین دین شروع ہوگیا۔ دوران گفتگو ان حضرات نے فقہ امام اعظم پر، فقہ امام شافعی کی برتری ثابت کرنی چاہی اور یہ کہہ کر فقہ امام اعظم کو کمزور ، عقل و قیاس کاملغوبہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ فقہ امام اعظم کی اساس عقل و قیاس پر ہے۔ جب کہ فقہ امام شافعی کی اساس حدیث مصطفیٰ پر ، شافعی مسلک میں حدیث کاعمل دخل غالب ہے، اور حنفی مسلک میں عقل وخرد کاعمل دخل غالب ہے، لہٰذا فقہ شافعی کو فقہ حنفی پر برتری حاصل ہے اوریہی تقاضائے عدل و انصاف ہے۔ یہ سن کرحضرت نے فرمایا آپ کا یہ خیال باطل ہے، فقہ امام اعظم کاہرجز یہ حدیث مصطفیٰ کی تجلیات و برکات سے مزین ہے ، ہراصل کاماخذ کوئی نہ کوئی حدیث ضرور ہے، یقین نہ ہوتو آپ فقہ امام اعظم کاکوئی جزئیہ پیش کریں ہم اس کو حدیث سے ثابت کریں گے ۔ ہراصل کاماخذ ہم حدیث مصطفیٰ قرار دیں گے۔ وہ حضرات جزئیات پیش کرتے جارہے ہیں اورحضرت اس کا ماخذ حدیث مصطفیٰ بیان کرتے جارہے ہیں۔ وہ جوبھی جزیہ جو بھی اصل پیش کرتے حضرت فوراً اسے حدیث سے مدلل کردیتے، ان حضرات نے جتنے جزئیات پیش کئے حضرت نے سب کو حدیث سے ثابت کردکھایا اورحاضرین وسامعین کو حیران و ششدر کردیا۔ مفتی محمد مطیع الرحمن فرماتے ہیں کہ اس وقت ایسا لگ رہاتھا کہ حضرت کی زبان سے اعلیٰ حضرت کاعلم اورمفتی اعظم کاعرفان بول رہا ہے۔
شاعر و نغمہ گرو سنگ تراشو دیکھو
اس سے مل لو تو بتاناکہ حسیں تھا کوئی
ہرفقہی جزئیے کو حدیث سے ثابت کرنے کی ہمت وہی کرسکتاہے جسے علم حدیث میں کامل درک و مہارت ہو۔جس کی نگاہ علوم پناہ میں ایک طرف فقہ حنفی کے جزئیات کاٹھاٹھیں مارتا سمندر ہو، تو دوسری طرف حدیث کی سینکڑوں کتابوں میں پھیلے ہوئے ایک ایک حدیث مصطفیٰ پر عقابی گرفت۔ پھر شاہین سی چستی و پھرتی کہ جزئیہ پیش ہواور حدیث حاضر۔ اورحدیث بھی ایسی جو جرح و قدح سے پاک ہو، اگراپنی کوتاہ نظری سے کوئی اس پر تنقید کی انگلی رکھنا چاہے تو اس کی تنقیح کی بھرپور صلاحیت ہو چوں کہ سائل خالی دامن نہیں ہے گوہر مطالعہ سے مرصع ہے ، بنابریں سائل جزیات کی پیش کشی میں کوئی تنگی محسوس نہیں کررہا ہے ، مگر مجیب کے وفور علم کا یہ عالم ہے کہ توخود محدث بریلوی کے بحر حدیث کے ہنر کاعالم کیاہوگا۔ جو فقہ حنفی کی ماخذ حدیثوں پر ایسا علمی استحضا ررکھتاہو اسے بجاطور پر اپنے زمانے کاممتاز المحدثین کہئے دورحاضر کامحدث اعظم کہئے۔
بلاغت جھومتی ہے ان کے انداز تکلم پر
لب اعجاز پر ان کے فصاحت ناز کرتی ہے
ان علمی فکری تناظر میںاگر میں یہ کہوں تو بجا ہوگا کہ مجدد اعظم کے علم ، مفسر اعظم کے حلم، اورمفتی اعظم کی فکر کے حسین مجموعہ کانام ہے ازہری میاں، مجدد اعظم کی تحریر ، مفسر اعظم کی تقریر، اورمفتی اعظم کی تنویر کانام ہے ازہری میاں۔ مجدد اعظم کی بیباکی، مفسر اعظم کی گویائی، اورمفتی اعظم کی خاموشی کانام ہے ازہری میاں، ان فیوضات و نوازشات نے وہ کرم فرمائی کی ہے جس بزم میں جاتے ہیں چھاجاتے ہیں۔ جس محفل میں ہوتے ہیں جان محفل اور میر مجلس ہوتے ہیں۔شخصیت عظیم کب اور کیسے ہوتی ہے اس تعلق سے دانشوروں کے بہت سے اقوال ہیں، مگر ایک قول جس پراکثر دانشوروں کااتفاق ہے وہ یہ ہے کہ ’’کسی فرد کو عظیم شخصیت ، یامقتدائے زمانہ ہونے یاقرار دینے کے لئے ضروری ہے کہ اس میں یہ چار بنیادی خوبیاں ہوںاور یہ خوبیاں جس قدر زیادہ ہوں گی بحیثیت مقتدر اس کامقام اتناہی بلند اورعظیم تر ہوگا۔(۱) جوہر ذاتی (۲) خلوص(۳) ایثار (۴) جہد مسلسل حضور ازہری میاں کی شخصی عظمت کوجاننے کے لئے ان نکات کی میزان پر اب انہیں تولنے کی ضرورت نہیں ہے ، ان کی قبولیت عامہ، ان کی قیادت مطلقہ، قدموں میںدیوانوں کا جمگھٹ اردگرد فرزانوں کا مجمع رات و دن پروانوں کاہجوم اعتماد کی بے پناہ دولت ، قول و قرار پر اعتبار ، کسی اہم دینی مہم میں ان کے فیصلے کاانتظار، یہ ساری چیزیں اعلان کررہی ہیں کہ سارے نکات عظمت نوروسرور بن کر فطرت کی سیرت و حیات میںایسے سماچکے ہیں کہ اب ان کا ہرقول و فعل بجائے خود نشان عظمت بن چکا ہے۔
بے نشانوں کانشاں مٹتا نہیں
مٹتے مٹتے نام ہوہی جائے گا
یہ علم ہی کی برکت تھی جس نے فطرت آدم علیہ السلام کو مسجود ملائک بنادیا اوریہ فیضان فطرت آدم ہے جس نے آپ کو مقبول خلائق بنادیا ہے۔ ان کے منزل فی الارض کی کیابات کی جائے زمانہ حیران ہے۔جہاں چلے جاتے ہیں خلق خدا کی بھیڑ لگ جاتی ہے۔ جہاں ٹھہر جاتے ہیں آبادی کادامن تنگ ہوجاتاہے۔ جلسے جلوس میں حضرت کی شرکت پر لوگوں کے جم غفیر کایہ عالم کہ مجمع کنٹرول سے باہر ہوجاتاہے۔ کرناٹک میں کئی جگہ انتظامیہ کو مجبوراً پولس کاسہارا لینا پڑا تب لوگوں کے جذبات پر قابو پایاجاسکا، اور اب تو ہر جلسے میں یہی منظر دیکھنے کو مل رہاہے۔ آپ کی اس ہردلعزیزی نے آپ کومحسودی بنادیا ہے، وہ جو حدیث شریف میں ہے ’’کل ذی نعمۃ محسود ‘‘ ہر صاحب نعمت محسود ہے۔ اس حدیث کی چلتی پھرتی تفسیر دیکھنی ہوتو حضور ازہری میاں کو دیکھ لیجئے میں نے جب سے انہیں دیکھا ہے ۔ مخالفت کی باد صر صر میں گھرا ہی پایا ہے مگراللہ اوراس کے پیارے رسول پر توکل ایسا کہ طوفان آتا ہے گزر جاتاہے۔ آندھی آتی ہے چلی جاتی ہے۔ استقامت علی الشریعۃ کی کرامت ایسی کہ نہ مادح کی مدح سن کراتراتے ہیں، اورنہ قادح کی قدح سے گھبراتے ہیں – یہ وہ چراغ رضا ہے جوماحول کے تقاضے سے بے پرواہ جل رہاہے۔ یہ موافق مخالف شبستاں میںیکساں تجلی بکھیر رہا ہے۔ شمع کی ضرورت کسے نہیں ہے کہاں نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا متمنی رہتی ہے۔ یہ ملک ان کی جولانگاہ ہے۔ جہاں جاتے ہیں اختر رضا بن کرجاتے ہیں گوہر رضالٹاتے ہیں۔ اورصفدر رضا بن کر واپس آتے ہیں۔
پہلے کردار پھولوں سا پیدا کرو
لوگ چاہیں گے پھر خوشبوں کی طرح
مستجاب الدعوات ایسے کہ جس کو جوکہہ دیتے ہیں ہوجاتا ہے۔ دعا دیتے ہیں نصیبہ چمکتا ہے، چھودیتے ہیں وجود ناز کرتاہے، باوجود یکہ آپ میں جمال کی خنکی نہیں جلال کی گرمی ہے، مگر عقیدت مندوں کی وارفتگی ایسی جوجمال و جلال کی حدبندیوں سے آزاد ہے۔ جلال کو جمال کا آب ِزلال سمجھ کر لوگ بہمہ حال شاد کام ہورہے ہیں ۔ لولگی ہے تو انہیں سے۔ آس بندھی ہے توانہیں سے ، فریاد کرنی ہے توانہیں سے مرید ہوناہے توانہیں سے ، مراد پانا ہے توانہیں سے ، اس جذبۂ خودی کو کوئی کچھ نہیں کرسکتا، یہ خدائی دین ہے۔ یہ مصطفائی عطا ہے، یہ غوثیہ صدقہ ہے، لوگوں کی یہ ازخووارفتگی بلاوجہ نہیں ہے تجربات کانچوڑ ہے۔ مشاہدات کاعطر ہے۔ پیش آمدہ حالات کی صدا ہے۔میسور میںحضرت کے ایک مرید کی دکان کے بازو میں کسی متعصب ماڑواری کی دکان تھی ، وہ بہت کوشش کرتاتھا کہ دکان اس کے ہاتھ سے بیچ کر یہ مسلمان یہاں سے چلاجائے، اپنی اس جدوجہد میں وہ انسانیت سوزحرکتیںبھی کر گزرتا، اخلاقی حدو ں کو پارکرجاتا، مجبور ہوکر حضرت کے اس مرید نے حضرت کوفون کیا، حالات کی خبر دی، معاملات سے مطلع کیا، حضر ت نے فرمایا ، میں یہاں تمہارے لئے دعاگوہوں، تم وہاں ہر نماز کے بعد خصوصاً اورچلتے پھرتے ، اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے عموماً یاقادر کاورد کرتے رہو- اس وظیفے کے ورد کو ابھی پندرہ ہی دن ہواتھا کہ نہ معلوم اس مارواڑی کو کیا ہوا، وہ جو بیچارے مسلمان کو دکان بیچنے پر مجبور کردیا تھا کہ اب خود اسی کے ہاتھ اپنی دکان بیچنے پر اچانک تیار ہوگیا۔ مارواڑی نے دکان بیچی ، مسلمان نے دکان خریدی، جوشکار کرنے چلاتھا خود شکار ہوکر رہ گیا۔آج وہ حضرت کامرید باغ وبہار زندگی گزاررہاہے۔ ہبلی میںایک صاحب نے کروڑوں روپئے کے صرفے سے عالیشان محل تیارکی، مگرجب سکونت اختیارکی تویہ غارت گر سکون تجربہ ہوا کہ رات میں پورے گھر میں تیز آندھی چلنے کی آواز آتی ہے۔ گھبراکر مجبوراً اپنا گھر چھوڑ کرپھر پرانے گھر میں مکین ہوناپڑا۔اس اثناء میں جس کو بھی بھاڑے پر دیا سب نے وہ آواز سنی اورگھر خالی کردیا۔ ایک عرصے سے وہ مکان خالی پڑاتھا کہ ہبلی میں حضرت کاپروگرام طے ہوا ، صاحب مکان نے انتظامیہ کواس بات پر راضی کرلیا کہ حضرت کاقیام میرے نئے کشادہ مکان میں رہے گا، مہمان نوازی اور دیگرلوازمات کی بھی ذمہ داری اس نے قبول کرلی، حضرت ہبلی تشریف لائے اوررات میںصرف چند گھنٹہ اس مکان میں قیام کیا، عشا اورفجر دووقت کی نماز باجماعت ادافرمائیں، اس مختصر قیام کی برکت یہ ہوئی کہ کہاں کہ آندھی اورکہاں کا طوفان ، کہاں کی سنسناہٹ اورکہاں کہ گڑگڑ اہٹ سب یکسرمعدوم ، آج تک وہ مکان سکون واطمینان کاگہوارہ ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ جہاں آپ قیام کرلیتے ہیں وہاں سے بلائیں بھاگ جاتی ہیں ۔ پریشانیاں دور ہوجاتی ہیں۔ صوفیاء اس صفت کونائب غوث اعظم کی صفت بتاتے ہیں ، پتہ چلا کہ دورحاضر میں آپ نائب غوث اعظم بھی ہیں۔ صوری جمال ایسا ہے کہ منگلور ضلع کے کائی کمبا گائوں میںحضرت کاپروگرام تھا۔ قیام گاہ سے طعام گاہ کی طرف بذریعہ کار جارہے تھے راستہ جام ہونے کی وجہ سے گاڑی رکی ہوئی تھی۔ کنارہ سڑک پر کھڑے ، ہاتھ میں ترشول لئے، گیروالباس پہنے چند پنڈتوں کی نظر اچانک حضرت کے چہرے پر پڑی، پہلے تو دور ہی سے وہ سب بغور دیکھتے رہے، جب دل نہ مانا تو قریب آگئے۔اورحیرت زدہ مسلسل حضرت کی زیارت کرتے رہے، کسی نے پوچھا کیادیکھ رہے ہیں جواب دیا ایسی موہنی صورت پہلی بار دیکھا ہے۔ اتنا خوبصورت روپ بھی دنیا میں نہیں یہ پہلی بار مشاہدہ ہوااس لئے آنکھ کے راستے سے دل کی مسند پر ان کو بیٹھارہاتھا۔
خوبصورت کو سنورنے کی ضرورت کیا ہے
سادگی میں بھی قیامت کی اداہوتی ہے
یہ وقت کابہت بڑا المیہ ہے کہ آج جس قدر لوگ ان سے جلتے ہیں شاید ہی کسی سے جلتے ہوں گے ، لوگ ان کی شخصی عظمت سے جلتے ہیں ۔ ان کی حیثیت عرفی سے جلتے ہیں۔ ان کے نام اورپروگرام سے جلتے ہیں۔ شہرت و مقبولیت سے جلتے ہیں۔ ان کے استقلال و استقامت سے جلتے ہیں۔
جب بھی آتا ہے میرانام تیرے نام کے بعد
جانے کیوں لوگ میرے نام سے جل جاتے ہیں
غرض ان کی ہرادا میںندرت ان کی ہر صدا میں بانکپن ان کی ہر روش میںاچھوتا پن اوران کے ہرانداز میں انفرادیت ہے۔ وہ محبت کرنے کی چیز ہیں ان پر عقیدت نچھاور کئے جائیں۔ وہ اپنانے کی چیزہیں،انہیں اپنابنایاجائے،وہ حق و صداقت کی آواز ہیں ان کاساتھ دیاجائے۔ وہ مسلک حق کے علمبردار ہیں ان کی صف میں جگہ بنائی جائے۔ وہی اسلام و سنیت کاصیقل آئینہ ہیں۔ لہٰذا اپنی اپنی تصویر جگمگائی جائے۔ ان کی علمی جلالت عالمانہ، طمطراق کو سلام، ان کی شان استغناء اورجرأت اظہار کو سلام ، ان کی استقامت علی الشریعت اورفکری استحکام کو سلام، ان کے دعائیہ کلمے اورفقہی ایک ایک جملے کو سلام۔
یرے ہونٹ جن سے مہک اٹھے
میرے دشت داغ میں دور تک کوئی باغ جیسے لگاگئے
٭٭٭