مسلک اعلیٰ حضرت کے سچے داعی و ترجمان

الحاج محمد سعید نوری، چیئر مین رضااکیڈمی، (ممبئی) انڈیا


جانشین حضور مفتی اعظم ، تاج الشریعہ قاضی القضاۃ فی الہند حضرت علامہ مفتی اختر رضا خاں ازہری دام ظلہ علینا میرے حضرت، حضور مفتی اعظم کی یادگار ہیں ۔ آپ حضور اعلیٰ حضرت اور حضور مفتی اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے علمی و عملی وراثت کے سچے اور حقیقی امین ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کے ذریعے سیدنا سرکار اعلیٰ حضرت و حضور مفتی اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے سلسلے کی بڑی زبردست اشاعت کی ہے ۔ زمانۂ حال اور ماضی قریب جس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔
مَیں نے کئی مرتبہ حضرت کی رفاقت کا شرف حاصل کیا ہے اور خدمت کے بھی کئی مواقع میسر آئے ہیں ۔ سرکارِ مدینہ میں حاضری اور عمرے کی سعادتوں سے مَیں کئی مرتبہ حضرت کی معیت میں بہرہ اندوز ہوا ۔ مکہ معظمہ، مدینہ منورہ اور پاکستان وغیرہ میں حضرتِ تاج الشریعہ کی خدمت کا زرّیں موقع ملا ۔ مَیں نے ان مقامات پر بھی حضرت کے ارد گرد عوام و خواص کا وہی ہجوم دیکھا ہے جو ہندوستان میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آپ ملک و بیرون ملک علما و عوام کے درمیان یکساں طور پر مقبول ہیں ۔
شہر ممبئی میں محرم الحرام ، ربیع الاوّل شریف اور ربیع الآخر کے دس ، گیارہ اور بارہ روزہ پروگرام ایک ہی اسٹیج پر ہوا کرتے تھے۔ ان جلسوں میں حضور مفتی اعظم کے وصال کے بعد حضور تاج الشریعہ شرکت فرماتے۔ اُن میں حضرت کا وہ علمی بیان ہوتا تھا کہ علما و خواص عش عش کر اُٹھتے تھے ، افسوس اس کی ریکارڈنگ موجود نہیں ہے ورنہ یقیناً یہ بہت بڑا علمی سرمایہ ہوتا۔
۱۹۸۶ء میں جب حضور جانشینِ مفتی اعظم حج و زیارت کے لیے تشریف لے گئے اس سفر میں امی جان (اہلیہ محترمہ) بھی آپ کے ساتھ تھیں ۔ حضرت کو مکہ مکرمہ میں گرفتار کرلیا گیا اور گیارہ روز تک قید و بند میں رکھا گیا۔ اس وقت رضا اکیڈمی ممبئی نے حضرت کی رہائی کے لیے ملک گیر تحریک چلائی تھی اور زبردست احتجاجی سلسلہ شروع کیا تھا۔ اس وقت کی فائل کو شاید دیمک نے کھا لیا ہے ورنہ اس تحریک کی پوری تفصیل پیش کی جاتی۔ اس وقت کے تقریباً تمام اخبارات میں حضرت کی گرفتاری کے خلاف بیانات دیے جارہے تھے۔ اس موقع پر رضا اکیڈمی ممبئی کے دو رکنی وفد نے اس وقت کے سعودی کونسل سے ملاقات کرکے حضرت کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔ اس وفد نے کونسل سے کہا تھا کہ آخر ان کا جرم کیا ہے ؟ ان کو گرفتار کیوں کیا گیا ہے ؟ سعودیہ گورنمنٹ نے انہیں شاید اس لیے گرفتار کیا ہے کہ وہ امامِ اہلِ سُنّت امام احمد رضا بریلوی قدس سرہٗ کے پر پوتے ہیں اور ہندوستان کے ایک زبردست عالم دین اور اہلِ سنت و جماعت کے قائد و رہبر ہیں۔ اس وقت سعودیہ حکومت کے اہل کاروں کو فیکس کے ذریعے احتجاجی مراسلات جاری کیے جارہے تھے ۔ برصغیر کے سُنیوں میں ایک عجیب سی بے چینی پائی جارہی تھی۔ ا س زمانے میں حج کمیٹی آف انڈیا کے چیئرمین امین کھنڈوانی صاحب تھے۔ مَیں نے اُن سے بھی ملاقات کی اور اُن سے بھی یہی کہا کہ وہ اپنے طور پر حضرت کی رہائی کی کوشش کریں ۔ انہوں نے یقین دلایا۔ وہاں پر ایک مولوی صاحب سے ملاقات ہوئی بولے کہ مَیں علامہ اختر رضا خاں کی رہائی کا مطالبہ اس لیے کروں گا کہ وہ ایک سُنی عالم ہیں ۔ مَیں نے کہا کہ وہ صرف سُنی عالم ہی نہیں بلکہ مقتدائے اہلِ سنت ہیں اور ہمارے پیرزادہ ہیں اس لیے ہماری کوششیں اور زیادہ ہونی چاہئیں۔
رضا اکیڈمی نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ مختلف تنظیموں کو ساتھ لے کر ابراہیم رحمت اللہ روڈ مینارہ مسجد کے پاس ایک احتجاجی جلسے کا اعلان بھی کیا ۔ یہاں احتجاج کی تیاریاں شروع ہوگئیں کہ مکہ مکرمہ سے فون پر اطلاع موصول ہوئی کہ حضرت کو حکومت سعودیہ نے رہا کرکے مکہ مکرمہ سے جدہ روانہ کردیا ہے اور وہ کل جدہ سے ممبئی پہنچ جائیں گے۔
حضرت کے استقبال کے لیے کئی گاڑیاں اور بسیں جس میں دارالعلوم حنفیہ رضویہ قلابہ ممبئی کے طلبہ اور اساتذہ تھے اور بھی دیگر حضرات تھے، بسوں اور گاڑیوں کے ساتھ ایئرپورٹ پہنچ گئے۔ ان کے علاوہ دیگر پیر بھائی اور احبابِِ اہلِ سنت بھی کثیر تعداد میں پہنچ چکے تھے ۔ حضرت موصوف صبح کی فلائٹ سے ممبئی پہنچے تھے۔ چونکہ اخبارات وغیرہ کے ذریعے یہ خبر عام ہوچکی تھی کہ حکومت سعودیہ نے حضرت کو رہا کردیا ہے اور حضرت فلاں وقت پر ممبئی پہنچ رہے ہیں اس لیے عوام میں سے بھی کثیر تعداد میں لوگ پہنچ گئے تھے۔
حضرت جب ممبئی پہنچے تو ان کا ایک شاندار استقبال کیا گیا۔ میرے لیے یہ باعثِ فخر ہے کہ حضرت میرے غریب خانے پر تشریف لائے ۔ حضرت بہت تھکے ہوئے تھے اور سعودی گورنمنٹ نے حضرت کے ہاتھوں میں ہتھکڑی بھی ڈال دی تھی۔ اس لیے اُن کو آرام کی سخت ضرورت تھی۔ حضرت سے ملاقات کے لیے سب سے پہلے حضرت مولانا سید حامد اشرف صاحب قبلہ علیہ الرحمۃ و الرضوان اور حضرت مولانا ظہیر الدین خاں خطیب و امام اسمٰعیل حبیب مسجد پھولوں کا ہار لے کر تشریف لائے مگر چونکہ حضرت آرام فرما رہے تھے، اس لیے ان کے آرام میں خلل اندازی مناسب نہ سمجھی گئی۔ مَیں نے ان حضرات سے کہا کہ حضرت کو بیدار نہ کیا جائے۔ اس لیے یہ حضرات ہار میرے حوالے کرکے واپس ہوئے۔
ممبئی ۱۳؍ستمبر ۱۹۸۶ء / ۱۴۰۷ھ کو ابراہیم رحمت اللہ روڈ ممبئی ۳ پر مینارہ مسجد کے پاس رضا اکیڈمی کے زیر اہتمام ایک احتجاجی جلسہ منعقد کیا گیا۔ بلکہ یوں کہہ لیجئے کہ ایک جشن کا انعقاد ہوا جو حضرت کی رہائی کی خوشی میں منعقد ہوا۔ جس میں محدث کبیر حضرت علامہ ضیاء المصطفیٰ صاحب قبلہ مدظلہ العالی اور خطیب الہند حضرت مولانا عبیداللہ خاں اعظمی اور دیگر علمائے کرام شریک تھے ۔ حضرت نے اس جلسے میں خصوصی خطاب فرمایا۔ جب حضرت نے خطاب شروع کیا تو مجمع میں بالکل سکوت طاری تھا۔
حضرت نے اپنے اس خطاب میں اپنی گرفتاری کی روداد بیان فرمائی تھی اور اپنا ایک شعر بھی پڑھا تھا ۔

عرض طیبہ ہے کس قدر دل رُبا
مجھ سے پہلے میرا دل حاضر ہوا

روداد اسیری:
’’۳۱؍اگست ۱۹۸۶ء شب میں تین بجے اچانک سعودی حکومت کے سی ۔ آئی ۔ ڈی اور پولیس کے لوگ میری قیام گاہ پر آئے اور مجھے بیدار کرکے پاسپورٹ طلب کیا اور پھر میرے سامان کی تلاشی کا مطالبہ کیا ۔ میرے ساتھ میری پردہ نشین بیوی تھیں۔ مَیں نے انہیں باتھ روم میں بھیجا ۔ پھر سی ۔ آئی۔ ڈی نے باتھ روم کو باہر سے مقفل کردیا ۔ اور وہ لوگ سپاہیوں کے ساتھ میرے کمرے میں داخل ہوئے۔ مجھے ریوالور کے نشانے پر حرکت نہ کرنے کی وارننگ دی ۔ میرے سامان کی تلاشی لی ۔ میرے پاس حضرت مولانا سید علوی مالکی رضوی مدظلہٗ کی دی ہوئی چند کتابیں اور کچھ کتابیں اعلیٰ حضرت کی اور دلائل الخیرات تھی ۔ ان تمام کتابوں کو اپنے قبضے میں لیا ۔ مجھ سے ٹیلی فون کی ڈائری مانگی ۔ جو میرے پاس نہ تھی۔ میرا ، میری بیوی کا اور میرے ساتھیوں کے پاسپورٹ ٹکٹ اور وہ کتابیں ہمراہ لے کر مجھے سی ۔ آئی ۔ ڈی آفس لائے ۔ اور یکے بعد دیگرے میرے رفقا محبوب اور یعقوب کو بھی اُٹھا لائے۔ مجھ سے رات میں رسمی گفتگو کے بعد پہلا سوال یہ کیا کہ آپ نے جمعہ کہاں پڑھا۔ مَیں نے کہا کہ مَیں مسافر ہوں میرے اوپر جمعہ فرض نہیں ۔ لہٰذا مَیں نے اپنے گھر میں ظہر پڑھی ۔ مجھ سے پوچھا کہ تم حرم میں نماز نہیں پڑھتے ہو؟ مَیں نے کہا۔ مَیں حرم سے دور رہتا ہوں ، حرم میں طواف کے لیے جاتا ہوں اس لیے مَیں حرم میں نماز نہیں پڑھ سکتا ۔ مجھ سے کہا کہ آپ کیوں اپنے محلّے کی مسجد میں نماز نہیں پڑھتے؟ مَیں نے کہا کہ بہت سے لوگ ہیں جنہیں مَیں دیکھتا ہوں کہ وہ محلّے کی مسجد میں نماز نہیں پڑھتے اور بہت سے لوگوں کے متعلق مجھے محسوس ہوتا ہے کہ وہ سرے سے نماز ہی نہیں پڑھتے، تو مجھ سے یہ کیوں باز پرس کرتے ہیں؟ مجھ سے پھر بھی اصرار کیا گیا تو مَیں نے کہا کہ میرے مذہب میں اور آپ لوگوں کے مذہب میں اختلاف ہے۔ آپ حنبلی کہلاتے ہیں اور مَیں حنفی ہوں اور حنفی مقتدی کی رعایت غیر حنفی امام اگر نہ کرے تو حنفی کی نماز صحیح نہ ہوگی۔ اس وجہ سے مَیں نماز علیحدہ پڑھتا ہوں ۔ مجھ سے حضرت علامہ سید علوی مالکی مدظلہٗ کی کتابوں کے متعلق پوچھا کہ یہ تمہیں کیسے ملیں ؟ مَیں نے کہا کہ یہ کتابیں مجھے انہوں نے چند روز پہلے دی ہیں ، جب مَیں ان سے ملنے گیا تھا ۔ مجھ سے سوال کیا کہ یہ پہلی ملاقات تھی ۔ مَیں نے کہا ہاں ، یہ پہلی ملاقات تھی۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی کی چند کتابیں دیکھ کر جو نعت اور مسائل حج کے متعلق تھیں، پوچھا ان سے تمہارا کیا رشتہ ہے ؟ مَیں نے کہا کہ وہ میرے دادا تھے ۔ اس مختصر سی انکوائری کے بعد مجھے رات گزر جانے کے بعد فجر کے وقت جیل بھیج دیا گیا۔ دس بجے پھر سی آئی ڈی سے گفتگو ہوئی ۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ ہندوستان میں کتنے فرقے ہیں۔ مَیں نے شیعہ ، قادیانی وغیرہ چند فرقے گنائے اور مَیں نے واضح کیا کہ امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی نے قادیانیوں کا ردّ کیا ہے اور اس کے ردّ میں چھ رسالے جزاء اللّٰہ عدوہ قھرالدیان ، السوء العقاب وغیرہ لکھے ہیں ۔ ہم پر کچھ لوگ یہ تہمت لگاتے ہیں اور آپ کو یہ بتایا ہے کہ ہم اور قادیانی ایک ہیں ، یہ غلط ہے اور وہی لوگ ہمیں بریلوی کہتے ہیں۔ جس سے یہ وہم ہوتا ہے کہ بریلوی کسی نئے مذہب کا نام ہے ۔ ایسا نہیں ہے ۔ بلکہ ہم اہلِ سنت و جماعت ہے۔
سی ۔ آئی ۔ ڈی کے پوچھنے پر مَیں نے بتایا کہ امام احمد رضا فاضل بریلوی نے کسی نئے مذہب کی بنیاد نہیں ڈالی بلکہ ان کا مذہب وہی تھا جو سرکار محمد مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اور صحابہ و تابعین اور ہر زمانے کے صالحین کا مذہب ہے اور یہ کہ ہم اپنے آپ کو اہل سنت و جماعت کہلوانا ہی پسند کرتے ہیں۔ اور ہمیں اس مقصد سے بریلوی کہنا کہ ہم کسی نئے مذہب کے پیرو ہیں ہم پر بہتان ہے ۔ سی ۔ آئی ڈی کے پوچھنے پر میں نے وہابی اور سنی کا فرق مختصر طور پر واضح کیا ۔ میں نے کہا کہ وہابی حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کے علم غیب اور ان کی شفاعت اور ان سے توسل اور استمداد اور انہیں پکارنے کے منکر ہیں۔ اور ان امور کو شرک بتاتے ہیں جبکہ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے توسل جائز ہے اور انہیں پکارنا بھی اور یہ کہ وہ سنتے بھی ہیں اور اللہ کے بتائے سے غیب کو بھی جانتے ہیں ۔ اور اللہ نے ان کو شفاعت کا منصب عطا فرمایا ، اور علم غیب پر سی آئی ڈی کے پوچھنے پر آیات قرآن سے میں نے دلیلیں قائم کیں اور یہ ثابت کیا کہ نبوت اطلاع علی الغیب ہی کا نام ہے اور نبی وہی ہے جو اللہ کے بتانے سے علم غیب کی خبر دے ۔ اور یہ کہ نبی کے واسطے سے ہر مومن غیب جانتا ہے جیسا کہ قرآن مقدس میں منصوص ہے ۔ سی آئی ڈی کے پوچھنے پر میں نے بتایا کہ سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو بعد وصال بھی غیب کی خبر ہے ۔ اس لیے کہ سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی نبوت باقی ہے اور نبوت غیب جاننے ہی کو کہتے ہیں ۔ پھر یہ کہ آیتوں میں ایسی قید نہیں ہے جس سے یہ ظاہر ہوکہ بعد وصال سرکار صلی اللہ علیہ وسلم علم غیب نہیں جانتے ہیں ۔ ایک اور نشست میں سی آئی ڈی کے مطالبے پر میں نے توسل کی دلیل میں وابتغو الیہ الوسیلۃ آیت پڑھی اور بتایا کہ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم سے توسل منجملہ اعمال صالحہ ہے اور یہ کہ کسی عمل کا صلاح ہونا اور وسیلہ ہونا اس شرط پر موقوف ہے کہ وہ مقبول ہو اور سرکار رسالت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بلا شبہ مقبول بارگاہ الوہیت ہیں بلکہ سید المقبولین ہیں تو ان سے توسل بدرجۂ اولیٰ جائز ہے اور توسل شرک نہیں۔
سی آئی ڈی کے کہنے پر میں نے مزید کہا کہ کسی سے اس طور مدد مانگنا کہ اللہ کے سوا اس کو مستقل اور فاعل سمجھے شرک ہے اور ہم اس طور پر کسی سے مدد مانگنے کے قائل نہیں ہیں ۔ ہاں اللہ کی مدد کا وسیلہ جان کر کسی مقبول بارگاہ سے مدد مانگنا ہرگز شرک نہیں ہے ۔ سی آئی ڈی کے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہم میں اور وہابیوں میں یہ فرق ہے کہ وہ ہمیں توسل وغیرہ امور کی بنا پر کافر و مشرک بتاتے ہیں ۔ لیکن ہم ان کو محض اس بنا پر کافر و مشرک نہیں کہتے (یعنی اس کی وجوہات اور ہیں) دوسرے دن میرے ان بیانات کی روشنی میں سی آئی ڈی نے میرے لیے ایک اقرار نامہ اس نے خود لکھ کر مجھے سنایا جو یوں تھا ۔ ’’میں فلاں بن فلاں بریلوی مذہب کا مطیع ہوں۔‘‘ میں نے اعتراض کیا کہ میں بارہا یہ کہہ چکا ہوں کہ بریلوی کوئی مذہب نہیں ہے ۔ اورا گر کوئی نیا مذہب بنام بریلوی ہے تو میں اس سے بری ہوں ۔ آگے اقرار نامے میں اس نے یوں لکھا کہ میں امام احمد رضا کا پیرو ہوں اور بریلویوں میں سے ایک ہوں اور ہمارا عقیدہ ہے کہ سرکار سے توسل ، استغاثہ اور ان کو پکارنا جائز ہے ۔ اور سرکار صلی اللہ علیہ وسلم غیب جانتے ہیں ۔ اور وہابی ان امور کو شرک بتاتے ہیں اور یہ کہ میں ان کے پیچھے اس وجہ سے نماز نہیں پڑھتا ہوں کہ ہم سنیوں کو مشرک بتاتے ہیں ۔ اقرار نامے کے آخر میں میرے مطالبے پر اس نے یہ اضافہ کیا کہ بریلویت کوئی نیا مذہب نہیں ہے اور ہم لوگ اپنے آپ کو اہلسنت و جماعت کہلوانا ہی پسند کرتے ہیں ۔ پھر مختلف نشستوں میں بار بار وہی سوالات دہرائے بعد میں مجھ سے میرے سفر لندن کے بارے میں پوچھا اور یہ کہا کہ کیا وہاں آپ نے کسی کانفرنس میں شرکت کی ہے ۔ میں نے جواب دیا کہ کانفرنس حکومت کے پیمانے پر اور سیاسی سطح پر ہوتی ہے ہم لوگ نہ سیاسی ہیں نہ کسی حکومت سے ہمارا رابطہ ہے۔
سی آئی ڈی کے پوچھنے پر میں نے بتایا کہ لندن کے اس اجلاس میں جس میں شریک تھا ۔ بنام بریلویت مسائل پر مباحثہ نہ ہوا بلکہ اتحاد ِ اسلامی اور تنظیم المسلمین پر تقاریر ہوئیں اور اس جلسہ کا خرچ وہاں کے سنی مسلمانوں نے اٹھایا اور اس میں یہ مطالبہ کیا گیا کہ امام احمد رضا فاضل بریلوی کے پیر و اہلسنت و جماعت کو رابطہ عالم اسلامی میں نمائندگی دی جائے۔ جس طرح ندویوں وغیرہ کو رابطہ میں نمائندگی حاصل ہے ۔
سی ۔ آئی ۔ڈی کے پوچھنے پر میں نے بتایا کہ یہ تجویز بالاتفاق رائے پاس ہوگئی تھی ۔ تیسری نشست میں جب دو نشستوں کی تفتیش ختم ہوچکی اور میرا اقرار نامہ خود تیار کرچکے تو مجھ سے ایک بڑے سی آئی ڈی آفیسر نے کہا کہ میں آپ کے علم ، عمر اور شخصیت کی وجہ سے احترام کرتا ہوں اور آپ سے مخصوص اوقات میں دعاؤں کا طالب ہوں ۔ گرفتاری کا سبب میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ آپ کا کیس معمولی ہے ۔ ورنہ اس وقت جب سپاہی ہتھکڑی ڈال کر آپ کو لایا تھا میں آپ کی ہتھکڑی نہ کھلواتا ۔
مختصر یہ کہ مسلسل سوالات کے باوجود میرا جرم میرے بار بار پوچھنے کے بعد بھی مجھے نہ بتایا بلکہ یہی کہتے رہے کہ میرا معاملہ اہمیت نہیں رکھتا ۔ لیکن اس کے باوجود میری رہائی میں تاخیر کی اور بغیر اظہار جرم مجھے مدینہ منورہ کی حاضری سے موقوف رکھا ۔ اور گیارہ دنوں کے بعد جب مجھے جدہ روانہ کیا گیا تو میرے ہاتھوں میں جدہ ایئرپورٹ تک ہتھکڑی پہنائے رکھی اور راستے میں نماز ظہر کے لیے موقع بھی نہ دیا گیا اس وجہ سے میری نماز ظہر قضا ہوگئی‘‘۔
اس جلسے میں اس قدر مجمع تھا کہ اسمٰعیل حبیب مسجد سے تاج آفس تک اژدحام تھا بڑی عمر کے لوگوں کا کہنا ہے کہ اتنا بڑا مجمع ہم نے اس مقام پر کبھی نہیں دیکھا اس جلسے میں اعلان کیا گیا کہ سعودی حکومت کے خلاف احتجاجی جلوس نکالا جائے۔
ان کی گرفتاری کے احتجاج میں جلوس نکالا گیا یہ جلوس رضا اکیڈمی کی جانب سے نکالا گیا تھا اسی روز میری چھوٹی بہن رخسانہ کا انتقال ہوا تھا چونکہ اس جلوس کا اعلان رضا اکیڈمی کی جانب سے کیا گیا تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے صبر دیا اور اس جلوس میں شرکت کی سعادت بخشی۔
حضور غوث اعظم کے توشۂ مبارک کی فاتحہ میں اس شعر کو میں اکثر پڑھا کرتا تھا

پہونچوں جب میں حضورِ حبیبِ خدا
مفتیٔ اعظم ساتھ ہوں اور حامد رضا
دیکھ کر جالی اور پڑھوں برملا
مجھ سے خدمت کے قدسی کہیں ہاں رضا
مصطفیٰ جان رحمت پہ لاکھوں سلام
شمع بزم ہدایت پہ لاکھوں سلام

میں سمجھتا ہوں کہ رب تعالیٰ نے حضور غوث اعظم کے صدقے میں یہ دعا قبول فرما لی اور حضرت علامہ ازہری صاحب کے ساتھ میری پہلی حاضری سرکار ابد قرار صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بارگاہ میں ہوئی ۔ حضرت جہاں حجۃ اسلام کے پوتے ہیں وہیں حضور مفتی اعظم کے نواسے ہیں اس طرح ان کو دونوں سے نسبت ہے ۔ اس پہلے سفر میں حضرت نے اس اسیر مفتی اعظم محمد سعید نوری کو مدینہ طبیہ میں سلسلہ عالیہ قادریہ برکاتیہ رضویہ نوریہ کی اجازت سے سرفراز فرمایا ۔ حضرت نے فرمایا کہ مجھے حضور مفتی اعظم سے جو اجازتیں حاصل ہے میں سعید نوری کو دیتا ہوں۔
حضرت کے ساتھ مہاراشٹر اور گجرات کے ان علاقوں کے دورے میں مجھے حضرت کی خدمت کا موقع ملا بھیونڈی ، اورنگ آباد ، جالنہ ، ناندیڑ ، پورنیہ ، راجکوٹ ، دھورا ، اہلیہ جام ، جودھپور ، سورت وغیرہ۔
حضرت کے ساتھ میں نے بہت سے یادگار لمحات گزارے ہیں ۔ یہ پورا مضمون ایک ہی نشست میں تحریر کیا گیا ہے۔انشاء اللہ مجھے موقع ملا تو ان یادگار لمحات پر تفصیل سے لکھوں گا۔

٭٭٭

 

Menu