حضورتاج الشریعہ وارث علم رضا

مولانا قمرالزماں رضوی مظفرپوری،چھتیس گڑھ ،انڈیا


قدرت کی فیاضی جب کسی پراپنے فیض کی تجلی برساتی ہے تواسے کمال بلندیوں تک پہنچنے میں دیر نہیں لگتی۔ اسی تناظر میںجانشین مفتی اعظم تاج الشریعہ حضرت علامہ اختررضاخاں صاحب قبلہ قادری ازہری زیدمجدہ کی قدآور اورآفاقی شخصیت خدائے لم یزل کی بیکراںنوازشوں کی انوکھی مثال نظرآتی ہے۔ آپ اپنی ذات میں ایک انجمن اورایک جہان حیرت ہیں۔ ژرف نگاہی، فکر کی بالیدگی، علم کی بلندی، فقہی بصیرت ، علمی ثقاہت، فنی لیاقت ، ادبی نزاکت ،تنقیدی صلاحیت ، تقویٰ و طہارت اورعظمت کردار کی لطافت ہر لمحہ آپ کا طواف کرتی نظرآتی ہے۔ آپ کی ہمالیائی شخصیت بلاشبہ اعلیٰ حضرت ، مجدد دین وملت امام احمد رضاقادری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علمی اور فقہی فیضان کازندہ ٔ جاوید نمونہ ہے ۔ اس علمی و فکری انحطاط میں چراغ رخ زیبا لے کر ڈھونڈ لیجئے ایسی نورپاش شخصیت نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہے۔جہاں پہنچ جائیں بہاروں کے قافلے اترنے لگیں۔ جدھر سے گزر جائیں دیوانوں کی بھیڑلگ جائے۔ آپ کی ذات ہر نگاہ کی آرزو، ہرلب کی صدا، ہر فرد کے لئے تمنائے شوق اورہر دل کی دھڑکن بنی ہوئی ہے۔ جن کی فکری عظمتو ںکے نغمے ہر زبان پر ہیں۔جن کی محراب رفعت کے سامنے ہرایک کی پیشانی علم وآگہی سجدہ ریزہے جن کے تقویٰ و طہارت کی شمع سے سنیت کے بام و در مجلیٰ ہیں اورآج بھی جن کے فضل و کمال کی ضیائیں ہرشعبے میں جماعت اہلسنت کی قیادت کرتی نظر آرہی ہیں۔

فتویٰ نویسی:

یہ ایک سچائی ہے کہ تاج الشریعہ کاخاندان ایک طویل عرصہ سے فتویٰ نویسی کے ذریعہ دین متین کی خدمتیں انجام دے رہاہے۔یہ مقدس اورپرنور سلسلہ مجاہد آزادی حضرت علامہ رضا علی خاں صاحب قدس سرہ سے ۱۸۳۱ء؁سے شروع ہوا اورابھی تک جاری ہے اورانشاء اللہ تاقیام قیامت جاری رہے گا۔
حضرت تاج الشریعہ نے تدریس کے ساتھ فتویٰ نویسی بھی شروع کردی تھی ۔ تاجداراہلسنت سیدی سرکارمفتی اعظم وحضرت علامہ سید افضل حسین مونگیری کی نگہ تربیت نے آپ کی فقہی بصیرت میںمزید نکھار پیداکردیا ۔ خود تاج الشریعہ کی زبانی سنئے۔
’’شروع شروع میں مفتی افضل حسین صاحب علیہ الرحمہ اوردوسرے مفتیان کرام کی نگرانی میں یہ کام کرتارہا اورکبھی کبھی حضرت کی خدمت میں حاضر ہوکرفتویٰ دکھایاکرتاتھا کچھ دنوں بعد اس کام میں میری دلچسپی زیادہ بڑھ گئی اور پھر میں مستقل حضرت کی خدمت میں حاضر ہونے لگا ۔حضرت کی توجہ سے مختصرمدت میں مجھے وہ فیض حاصل ہواکہ جوکسی کے پاس مدتوں بیٹھنے سے بھی نہ ہوتا‘‘۔
میں آج ہرجگہ حضور مفتی اعظم کاعلمی وروحانی فیض پاتاہوں آج جو میری حیثیت ہے وہ انہیں کی صحبت کیمیا اثر کاصدقہ ہے‘‘ (حیات تاج الشریعۃ ۱۹-۲۰)

عربی زبان وادب پر درک:

خدائے قدیر نے آپ کو عربی زبان پر ہے بے پناہ درک اورملکہ بخشا ہے تحریر وتقریر پریکساں دسترس حاصل ہے اعلیٰ حضرت امام احمد رضاقادری علیہ الرحمہ کے سات رسائل کوعربی زبان میں منتقل فرمایا ہے خود آپ کی ذاتی تصنیفات بھی عربی زبان میں موجود ہیں جن کی تعداد پانچ ہیں اور بخاری شریف پر بھی حاشیہ چڑھایا ہے۔
اردو میں بھی آپ نے بہت سارے رسائل تحریر فرمائے ہیں اورسرکار اعلیٰ حضرت امام احمد رضاقادری قدس سرہ کے عربی رسائل کاترجمہ بھی فرمایا ہے جس میں اکثر زیور طباعت سے مزین ہوکر مطالعہ کی دہلیز پر علم و شعور کی بہاریں لٹارہے ہیں۔ آپ ہی کی نگرانی میں فتاویٰ حامدیہ بھی شائع ہوئے ہیں۔مزید مرکز الدراسہ کے شعبہ تصنیف وتالیف سے علمی کارنامے انجام پارہے ہیں جو آپ کی علمی وفقہی صلاحیتوں کامکمل غماز ہیں۔

شعر و شاعری:

اس میں کوئی شک نہیں کہ نعت نگاری نازک صنف ہونے کے ساتھ بہت قدیم بھی ہے۔ اس میں فن کی طہارت کے ساتھ شریعت کی چاندنی بھی نہایت ضروری ہے اورعشق کا جذبہ فراواں بھی رفیق سفر ہو،کیوں کہ نعت کہنا دراصل حرف تمنا کو کشکول عقیدت میں سجاکر دیار حبیب کی گلیوں میںآواز لگانا ہے ۔ عقیدت جب خضریٰ سے چاندنی سمیٹتی ہے تو فکر وخیال اشعار کے ڈھانچے میںڈھلنے لگتے ہیں الفاظ موتیوں کی طرح چمکنے لگتے ہیں اورنعت کاچمن لہلہانے لگتاہے۔
حضرت تاج الشریعہ کو نعت گوئی کاسابقہ بھی سچ پوچھئے تو ان کاپورا دیوان سفینۂ بخشش پڑھ جائیے نہ فنی سقم نظر آئے گا اور نہ ہی شرعی خامی نظرآئے گی بلکہ آپ اگران کی محراب نعت میں جھانک کر دیکھیں گے تو تقدیس خیال ، فکرکاجمال، جذبے کی صداقت ،سخن آفرینی، اخلاص کی گرمی، زوربیان اورعشق نبوی کی شمع فروزاں نظر آئے گی۔ محبت اس قدر کامل کہ حرف حرف لودے رہاہواور شعر کاہرلفظ باوضو ہوکر محبوب کے آستانے پر سجدہ ریز ہو۔ وقت کی تنگی دامن گیر ہے ورنہ ان کے دیوان کاایک تجزیاتی مطالعہ پیش کرتا اگرفرصت کے ایام میسر آئے توان کی نعت گوئی کے حوالے سے کچھ لکھنے کی سعادت حاصل کروں گا۔ ان کی ایک نعت کے چند اشعار پراپنے مضمون کااختتام کررہاہوں۔

داغ فرقت طیبہ قلب مضمحل جاتا
کاش گنبد خضریٰ دیکھنے کو مل جاتا
موت لیکے آجاتی زندگی مدینے میں
موت سے گلے مل کر زندگی سے مل جاتا
دل پہ جب کرن پڑتی ان کے سبز گنبد کی
اس کی سبز رنگت سے باغ بن کے کھل جاتا
میرے دل میں بس جاتا جلوہ زار طیبہ کا
داغ فرقت طیبہ پھول بن کے کھل جاتا
٭٭٭٭

 

Menu