تاج الشریعہ عکس جمیل مفتی اعظم ہند

مفتی شبیہ القادری پوکھریروی، سیوان ،انڈیا


بیااے خامہ گرداری زبانے
بمد ح شاہ سرکن داستانے

تاج الشریعہ مہبط انوار قدسی، مورد فیض ازل وابد ، روح تصوف ، میزان شریعت اورعکس جمیل حضور مفتی اعظم ہند حضرت علامہ شاہ مولانا اختررضاخان قبلہ مدظلہٗ العالی کی حیات طیبہ پرقلم فرسائی کے لئے بیٹھ گیا ہوں۔ یہ منہ اورمسور کی دال۔ ہم ذرہ ہائے خاک ہیںاوروہ آفتاب عالم تاب ہیں۔اس سند افتخار عالم کی ہم کون سی خوبی او ر حسن عمل کولکھیں پڑھیں جس کاسراپا معجزات سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک حسین معجزہ سے ہے۔ بقول حافظ شیرازی۔

بمشک چین و چگل نیست حسن گل محتاج
کہ نافہاش زبند قبائے خویشتن اوست
بیاور ید گرایں جابو زباں دانے
غریب شہر سخن ہائے گفتنی دارد

غالباً ۱۹۵۱ء یا ۱۹۵۲ء کی بات ہے کہ مہرچرخ ولایت حضور تاج الشریعہ اپنے آبائی مسکن محلہ خواجہ قطب کے محور سے گزرتے ہوئے دارالعلوم منظراسلام میںاردو کی پہلی کتاب دست مبارک میں لئے ہوئے جلوہ بار ہوتے تھے۔ ان کے ساتھ ان کے ایک بڑے بھائی تنویر رضا ہوتے۔ دونوں کی عمر میںایک دوسال کافرق تھا غرض دونوں آفتاب وماہتاب کی طرح ہوتے اس کی مصداق حضرت سعدیؔ کایہ شعر ہے۔

دو پاکیزہ پیکر چوحور و پری
چو خورشید وماہ ازسہ دگربری

اور نہایت ہی سنجیدگی سے کتاب لے کر دفتر میں منشی جی کے پاس بیٹھ جاتے بعد میں سنا گیا کہ ان کے برادر بزرگ تنویر رضا صاحب مفقودالخبرہوگئے۔ اس زمانے میںراقم السطور بھی میزان الصرف وغیرہ دارالعلوم منظراسلام ہی کی ابتدائی درس گاہ میں پڑھتاتھاْ ۔ حضرت کے چہرے پرنظر پڑجاتی تو ایسامحسوس ہوتاکہ چہرہ عالم تاب سے نور ولایت چھن چھن کر ساری فضا کونور بار کررہا ہے۔

بالائے سرش زہوشمندی
می تافت ستارۂ بلندی

گویا تاج الشریعہ کی ذات صدر رشک قمر اور رنگ رخ آفتاب ہے جہاں سے شعور و آگہی کاچشمہ پھوٹتا ہے جس کی ترجمانی حافظ شیرازی کایہ شعر کررہاہے۔

اے نو بہار مارخِ فرخندہ مآل تو
مشروح کآں نامہ وخوبی جمال تو

غالباً۱۹۶۱ء کاوقوع زار ہے کہ سیف اللہ المسلول رازیٔ وقت حضرت علامہ شاہ مولانا محمد ابراہیم رضاخان عرف جیلانی میاں رضی اللہ تعالیٰ عنہ مفسر اعظم ہند کاوصال پرملال ہوا۔ اناللہ واناالیہ راجعون۔
اس وقت حضور مفتی اعظم ہند اپنے رشدوہدایت کے محبوب اسفار پر مظفر پوربہار کے دارالعلوم کنہواں میں تھے۔ حضرت کے پابوسوں اورعقیدت کیشوں میں ایک میں بھی دریوزہ گرکرم حضور مفتی اعظم ہند تھا جیسے ہی حضرت جیلانی میاں رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وصال کی خبر سرکار مفتی اعظم ہند کی زیرسماعت آئی ایسا محسوس ہوا کہ غم والم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ہوں۔ حضور مفتی اعظم ہند نے اناللہ وانا الیہ راجعون کی تلاوت فرمائی اورفوراً کھڑے ہوگئے اورنماز عصر ادافرمائی اورزاد سفر بندھوا کر فوراً بریلی شریف کے لئے روانہ ہوگئے۔غم کی شدت بھی کہنے کی نہیں اورخدا کی یاد بھی بھولنے کی نہیں، اویس قرنی کی شمع محبت سے جس کادل روشن ہوجائے اس کے سامنے دنیاکاکوئی غم ،غم نہیں ہے بلکہ اس کے نفس نفس سے اللہ اللہ کی صدانکلتی ہے۔ جس کوحافظ شیرازی نے یوں پیش فرمایاہے۔

آشنایان رہ عشق دریں بحر عمیق
غرقہ گشتند و نہ کشتند بآب آلودہ

ٹھیک بارہ بجے شب میں مسجد رضا بریلی شریف پہنچ گئے۔ نوافل و فرائض اداکرنے کے بعد مسجد ہی میں شب زندہ داری کی صبح نماز فجر کے بعدمحلہ خواجہ قطب میںجاکر تعزیت کی۔ اسی دوران میں خبر پرسی کرتے ہوئے کسی نے تذکرہ کیاکہ وارث علوم اعلیٰ حضرت حضرت علامہ اختررضا خان مد ظلہٗ العالیٰ کو حضور جیلانی میاں رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے علمی اوردینی سارے اثاثہ کاامین ووارث بناکر سارے سلاسل کی اجازت وخلافت بھی تفویض فرمادی ہے۔ حضور مفتی اعظم ہند کے دل کی بات تھی حضرت نے ارشاد فرمایا الحمدللّٰہ۔
گرچہ اس زمانہ میں حضرت تاج الشریعہ مصر میں رفعت علوم کی منزلیں طے کررہے تھے۔ کسی نے خوب کہا ہے۔

دور رہ کر بھی پاس ہے کوئی

اہتمام نظر کوکیا کہئے گویا حضور مفتی اعظم ہند نے الحمدللہ فرماکر حضور تاج الشریعہ کے مرجع عالم ، فقیہہ اعظم شیخ الانام اہل زہد و تقویٰ ، خلوص و للہیت و دین متین کے پیکر، پاسدار شرع، اسلاف کے عکس جمیل ہونے پر مہر لگادی اورتاج الشریعہ کے سارے صفحات حیات پرایسا صاف وشفاف رنگ و روغن چڑھادیا جو تاحشر مشک بار رہے گا۔ بس حضور تاج الشریعہ کے فضل و کمال کی مشاطگی کے لئے حضور مفتی اعظم ہند رضی اللہ عنہ کی کنہواں مظفرپور سے بریلی شریف واپسی کا تذکرہ میرے قلم کشی میںاس لئے آیا تاکہ باران فیض سے فصل بہار کااتصال ہوجائے۔ حضور تاج الشریعہ ۲۴؍ ذیقعدہ ۱۳۶۲ھ بمطابق ۲۳؍ نومبر ۱۹۴۳ء بروز منگل محلہ سوداگران (رضانگر) بریلی شریف کے مطلع انور پر طلوع ہوئے اوراپنی نورانی شعاعوں سے عالم کو جگمگانے کے لئے حضرت مفسر اعظم ہند رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے چارسال چار ماہ چار دن کی عمر شریف میں رسم بسم اللہ خوانی کی ایک عظیم الشان تقریب منعقد فرمائی جس میں تمام اساتذہ منظراسلام کی موجودگی میں تاجدار اہلسنت حضور مفتی اعظم ہند رضی اللہ عنہ نے رسم بسم اللہ خوانی ادافرمائی۔ سبحان اللہ اس کا فیض اتنی سرعت سے پھیلا کہ تاج الشریعہ کی ذات ایک مقناطیسی طاقت بن کر برصغیر ہندوپاک کے علماء ، صلحا،اولیاء اوردنیا کے بڑے بڑے دانشوروں مفکروں اورمدبروں سے صدہزار تحسین و مرحبا حاصل کرنے لگی۔

مبارک باد کن آں پاک جاں را
کہ زاید آں امیر کارواں را

ابھی ماضی قریب میںعلماء عرب سے ایک محدث ،محدث مکتہ الکرمہ حضرت علامہ شیخ الشیوخ سید محمدابن علوی حسنی عباسی مالکی قدس سرہ السامی ۲۵؍اپریل ۲۰۰۴؁ء میںجامعہ رضا مرکز نگر بریلی شریف میںتشریف لائے شیخین یعنی حضور تاج الشریعہ اورمحد ث مکتہ المکرمہ سید محمدابن علوی مد ظلہما کی ملاقات ہوئی اورمصافحہ اورمعانقہ کے بعد دونوںبزرگوں نے ایک دوسرے کی دست بوسی کی پھر مزاج پرسی کے بعد گھنٹوں عربی زبان میںگفتگو ہوتی رہی حضرت کو عربی گفتگو پر اس قدر قدرت حاصل ہے کہ بولتے ہیں توایسامحسوس ہوتا ہے کہ مظفر پور کی لیچی تناول فرمارہے ہیں۔
تاج الشریعہ کے علم وفضل سے بے حد متاثر ہوکر بے پناہ محبت کااظہار فرماتے ہوئے مفتی اعظم عالم کے گراں قدر لقب سے سرفراز فرمایا اورارشاد فرمایا کہ میںحضرت تاج الشریعہ کو اس مقام پر فائز محسوس کرتاہوں جس سے الفاظ و حروف کی تعبیر آشنا نہیں۔ اے ماشاء اللہ

کس کو یاراہے کہ خورشید کے آگے چمکے
شمع گل ہوتی ہے سورج کی ضیاء سے پہلے

حضور تاج الشریعہ نے اپنے کثیر اسفار رشد وہدایت کے باوجود تصنیف وتالیف کاسلسلہ ہنوز جاری رکھا ہے۔ حضرت کے فتاوے زیرتدوین وترتیب ہیں۔ انشاء اللہ بہت جلد پانچ جلدوں پر مشتمل چھپ کر منظر عوام وخواص پر آئے گا۔
حضرت کثیر التالیف وتصنیف بھی ہیں جس میں سے چند کتابیں یہ ہیں الحق المبین(عربی) (۲) ٹی وی ،ویڈیو کاشرعی آپریشن(۳) تصویروں کاشرعی حکم(۴) فضیلت نسب(۵) فضیلت صدیق اکبر(۶) مراۃ النجدیہ (۷) ہجرت رسول ﷺ (۸)طلاق کاشرعی حکم (۹) ٹائی کامسئلہ (۱۰) آثار قیامت (۱۱) حاشیہ بخاری (۱۲) جشن عید میلاد النبیﷺ (۱۳) ازہر الفتاویٰ دو حصے انگریزی میں(۱۴) نعتیہ دیوان مسمیٰ سفینۂ بخشش جسے حمد ونعت کاحسین گلدستہ کہاجائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔ حضرت عربی ، فارسی، اردو جس زبان میں چاہیں بدایۃً نعت گوئی فرماتے ہیں ، ایسامعلوم ہوتا ہے کہ ستھری اردو دست بستہ کھڑی ہے کہ مجھے نعت شریف میں پرودیاجائے۔

مانہ بودیم دریں مرتبہ راضی غالبؔ
کہ شعر خود خواہش آں کرد کہ گرد دفن ما

جو حضور مفتی اعظم ہند کے کرم تلے اورحضرت مفسراعظم ہند کے زیرتعلیم و تربیت پروان چڑھا ہواسے تاج الشریعہ فقیہہ اعظم اورمفتی عالم ہونے سے کون روک سکتاہے۔

یہ فیضان نظرتھا یا مکتب کی کرامت تھی
سکھا ئے کس نے اخترکویہ سارے علم مشرق کے

کشور علم و فضل کے شہنشاہ اعظم اوراقلیم روحانیت کے برصغیر میںواحد نا خدا کی حیثیت سے جانے پہچانے جانے والے کانام حضرت علامہ مولاناشاہ اختر رضا خان ازہری میاں قبلہ ہے۔جنہوں نے دین متین کی حفاظت کے لئے اپنے مال و زر اورصحت و تندرستی راہ خدا میںنثار کرڈالے۔

جان تجھ پہ نثار کرتا ہوں
میں نہیں جانتا مدعا کیا ہے

حضور تاج الشریعہ کوحضور مفتی اعظم ہند سے بیس سال کی عمر میںشرف بیعت حاصل ہوا اورپندرہ جنوری ۱۹۶۲ء؁ میںایک میلادشریف کی متبرک محفل کے اندرحضور تاج الشریعہ کو حضور مفتی اعظم ہند نے جملہ سلاسل کی اجازت و خلافت سے سرفراز فرمایا۔ جس سرفرازی نے دنیا کے لاکھوں مسلما نوں کو سرفراز اور فیض رساں بنادیا حضور تاج الشریعہ کاحلقہ بیعت اورمریدین ان تمام ملکوں میںپھیلے اورچھائے ہوئے ہیں۔ ہندستان ، پاکستان ، بنگلہ دیش، سری لنکا، ماریشش، ہا لینڈ ، لندن اورسائوتھ افریقہ وغیرہ ان میں علماء فضلاء ،شعرا ء ادباء، مشائخ ، فصحا، مفکرین، محققین، مصنفین،ریسرچ اسکالر، ڈاکٹر اورپروفیسر وغیرہ کی کثرت ہے سب سے بڑی بات یہ ہے کہ حضور مفتی اعظم ہند کے وصال کے بعد ہمارے مذہبی اوردینی کازکے سب کچھ حضور تاج الشریعہ مفتی اعظم عالم ہیں جنہیں اکابر علمائے کرام وصوفیائے عظام اوردین سے آشنائی رکھنے والے دانشوروں نے قائم مقام حضور مفتی اعظم بناکر ہم اہلسنت پر بڑا احسان کیا۔ بقول حافظ شیرازی۔

روشن ازپرتو رویت نظرے نیست کہ نیست
منت خاک درت بر بصر نیست کہ نیست

حضور مفتی اعظم ہند کے جلسہ عرس چہلم میں تاحد نگاہ لاکھوںلاکھ کاٹھاٹھے مارتا ہوامجمع تھا اسٹیج صرف علماء ، مشائخ اور صوفیاء سے کھچاکھچ بھراہواتھا حضور حسن میاں وبرہان ملت رضی اللہ عنہما میر مجلس کی حیثیت سے حاضر تھے جن کی تصدیقی مہر سے ہر فیصلہ تشنہ تکمیل محضر نامہ اپنے انجام اورتتمے کو پہنچتا ہے۔ ان ہی حضرات کافیصلہ شدہ مسودہ پڑھا جارہا تھا۔جہاں سارے مجمع پرسناٹا ہی چھایا ہواتھا لیکن جب حضور تاج الشریعہ حضرت علامہ مولانا شاہ اختر رضاخان صاحب کااسم مبارک قائم مقام حضور مفتی اعظم ہند کے آیا تو بلامبالغہ پندرہ منٹ تک نعرہ تکبیر اورنعرہ رسالت مجمع میں گونجتارہا جس سے معلوم ہوا کہ ساری دنیا کے سنی صحیح العقیدہ مسلمانوں نے حضور تاج الشریعہ کوقائم مقام حضور مفتی اعظم ہند ہونے کی تائید کردی ہے۔ اس موقع پر مجھے جناب ابراہیم ذوق کا یہ شعر کیف ومستی میں جھومنے کی دعوت دے رہا ہے۔

بھلا کہے جسے دنیا اسے بھلا سمجھو
زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو

اور بس انشاء اللہ باقی آئندہ

بحرف می تواں گفتن تمنائے جہانے را
من از ذوق حضور طول دادم داستانے را

 

Menu