حضورتاج الشریعہ پر احسن العلماء کی نوازشات

ڈاکٹر سید اشرف میاں برکاتی ، مارہرہ شریف، انڈیا


عزیزی مولانا شاہد القادری صاحب نے بذریعہ خط اورپھربذریعہ فون مطلع کیا کہ وہ تاج الشریعہ علامہ مفتی محمد اختر رضاخاں قادری برکاتی مدظلہ العالی کی شخصیت اورخدمات پرایک ضخیم کتاب شائع کرنے کا ارادہ کررہے ہیں۔ دل خوش ہوا۔ اس لیے بھی کہ دنیا میں عموماً اوراہلسنّت و جماعت کے افرادمیں خصوصاً اپنے مرکزعقیدت پر کتاب تب شائع کرتے ہیںجب وہ شخصیت دنیا سے اٹھ جاتی ہے۔ اس بارے خاص میں مثتثنیات بھی ہیں۔ مثلا مفتی اعظم راجستھان حضرت علامہ الحاج محمداشفاق حسین صاحب مدظلہ کی حیات وخدمات پران کی زندگی میں ہی کتاب منظر عام پرآگئی ۔اللہ تعالیٰ جل جلالہ محترم مفتی صاحب کی حیات ایمان وصحت کے ساتھ قائم رکھے۔ آمین بجاہ الحبیب الامین صلی اللہ علیہ وسلم۔
عزیزی مولانا شاہدالقادری کا اصرارہے کہ راقم سطور حضرت ازہری میاں کے بارے میں کچھ لکھے۔ میں اپنی مصروفیات کا عذرکرتا رہا مگروہ ثابت قدمی سے جمے رہے۔ تاخیر پہ ان کا اصرار مزیدبڑھا ۔اب انہوں نے مجھے ایک عنوان بھی دے دیا۔’’حضوراحسن العلماء کی نوازشات حضرت علامہ ازہری میاں پر‘‘انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ راقم سطور اگرچاہے توعلامہ موصوف کی شاعری پربھی لکھ سکتا ہے۔ سوچا کہ شاعری پرلکھنے والے توبہت سے ذی علم اصحاب ذوق ہیںلیکن حضوراحسن العلماء قدس سرہ کی نوازشات پرحددرجہ یقین واعتماد کے ساتھ حضرت امین ملت پروفیسر سید محمدامین میاں مدظلہ صاحب سجادہ خاندان برکاتیہ لکھ سکتے ہیں یا یہ راقم حروف یاخود ازہری میاں مدظلہ ۔
گرمیوں کی چاندنی رات ہے۔ میں ان کے ساتھ لیٹا ہوں۔ہواکچھ سنکی توخانقاہ میں ایک صدی سے زیادہ ایستادہ کجھورکے درخت کی ڈالیاں دھیمے دھیمے ہلنے لگیں۔ رات کے دس گیارہ بجے کا عمل ہوگا( گرمیوں میں ۱۰۔۱۱بجے آدھی رات جیسے سناٹا ہوجاتا ہے) میرے ربِ مجازی اورمرشد اجازت(خلافت تومیری نوجوانی کے اوئل میں حاصل ہوئی) کچھ پڑھ رہے ہیں۔ میں نے کان لگائے۔ میں چھ سات برس کا تھا اورحمد،نعت اورمنقبت کے فرق سے ناواقف تھا۔لیکن اتنا اندازہ ضرور ہوگیا کہ جوکچھ پڑھا جا رہا ہے دنیاوی معاملات سے نہیں ہے۔وہ کلمات اورپڑھنے والے کی سرخوشی کی کیفیت بتاتی تھی کہ پڑھا جانے والا کلام ایک روحانی متن ہے۔’’روحانی‘‘ اور’’متن‘‘ ان دونوں الفاظ سے چھ سال کا بچہ ناآشناتھا لیکن اس کے ننھے سے ذہن میں اس وقت جوآیا اس کا اظہار اب ان ہی دولفظوں سے ہوسکتا ہے۔
’’عرب کا مہمان کون ہے اوراس کے پاس کیا کیا سامان ہے؟ میں نے غنودگی سے ابھرتے ہوئے پوچھا تھا۔ ممکن ہے الفاظ کچھ اورہوں۔
’’عرب کے مہمان ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اورشاعر ان کے سامان کے بارے میں نہیں کہہ رہا بلکہ جب وہ معراج کی رات اللہ تعالیٰ سے ملنے اوپر گئے تواللہ تعالیٰ جل جلالہ نے اپنے محبوب مہمان کے واسطے یہ سب انتظام کیے تھے۔
’’شاعرکون؟‘‘ ننھے بچے نے پوچھا۔
’’میرے اعلیٰ حضرت ‘‘ مختصر جواب ملا۔
’’کہاں ہیں‘‘
’’بریلی میں آرام فرماہیں۔‘‘
’’عرس میں آئیں گے‘‘؟ بچے کی جستجو بڑھ رہی تھی۔
’’نہیں بیٹا، انہیں وصال کئے بہت برس گزر چکے،عرس میں ان کے بیٹے آئیں گے۔
ہمیں کیسے معلوم ہوگا کہ ان کے بیٹے کون سے ہیں؟
جوسب سے اچھے کپڑے پہنے ہوں، گورے گورے ہوں اورصافہ باندھے ہوں اورمدرسے کے اندر والے حصے میں قیام ہو، وہی مفتی اعظم ہوں گے۔
وہ رات گزر گئی۔اس رات کے بعدجتنے دن آئے اوران دنوں میں جب جب محفل وعظ یا محفل میلاد ہوئی، والد محترم نے اعلیٰ حضرت ہی کا کلام پڑھا۔ وہ حدائق بخشش دیکھ کر نہیں پڑھتے تھے۔ انہیں یہ مقبول ومعروف کتاب ازبر تھی۔ حدائق بخشش کے اشعار پڑھتے وقت ان پرایک جوش کی سی کیفیت ہوتی تھی ۔کبھی کبھی کیفیت کے عالم میں امام کے شعرمیں تصرف کرکے پڑھنے لگتے تھے۔ حضورغوثِ پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی منقبت میں کیا دبے جس پہ حمایت کا ہو پنجہ تیرا کواس طرح پڑھتے۔ کیوں دبے جس پہ حمایت کا ہوپنجہ تیرا۔ پھریہ بھی فرمادیتے کہ اصل کلام میں لفظ یوں تھا۔ لیکن اعلیٰ حضرت کا کلام توہماری ملک ہے، ہماراپشتینی ورثہ ہے ہم اس لفظ کو یوں پڑھیں گے۔عام حالات میں وہ مجددِ دین وملت کے کلام میں ذرا سی غلطی بھی برداشت نہیں کرتے تھے۔ ایک بارایک بہت متقی اوربڑے عالم کوپڑھتے سنا:

رب سلم کہنے والے غمزَدہ کے ساتھ ہو

توجلسے کے بعدان کے ایک قریبی تعلق والے سے فرمایا کہ مولانا صاحب سے کہنا کہ یہ اعلیٰ حضرت سے بعیدہے کہ وہ رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو غم زَدہ یعنی غم کا ماراہوا لکھیں۔ یہ لفظ دراصل غم زُدہ ہے۔یعنی غم سے پاک۔ بعد کی تحقیقات سے ثابت ہواکہ وہ لفظ دراصل غم زُدہ ہی ہے۔محدثِ کبیرحضرت ضیاء المصطفے صاحب مدظلہ نے بھی اپنے ادارے کے رسالے کے دوشماروں میں اس بحث پرلکھا اوردوسرے شمارے میں اس کا اعتراف کیا کہ اصل لفظ غم زُدہ ہی ہوگا۔
اس واقعے سے صرف یہ ہی نہیں معلوم ہوتا کہ حضور احسن العلماء قدس سرہ کو اعلیٰ حضرت کے کلام پرکتنا عبور تھا بلکہ اس بات کا بھی اندازہ ہوجا تاہے کہ وہ ایک عالم کی اصلاح اس طرح کرتے تھے کہ عالم کوذرہ برابر خجالت کا احساس نہ ہو۔بلکہ یہ اصلاحی پیغام ان کے سب سے قریبی دوست کے ذریعے کہلایا کہ عالمِ موصوف ذرہ برابر بھی شرمندہ نہ ہوں۔ حق تویہ ہے کہ حضور احسن العلماء کے توجہ دلانے سے پہلے ۹۹فیصد افراد اس لفظ کوغم زُدہ کے بجائے غم زَدہ ہی پڑھتے تھے۔ اب جاڑے آئے اورعرس آیا اورہمیں یاد آیا کہ عرس میں ایک گورے گورے صاحب آئیں گے۔ صافہ باندھے ہوں گے اوربدن پربہت اچھا لباس ہوگا۔میں پہلی ہی نظرمیں پہچان گیا۔ پہچانتا کیسے نہیں۔اول تووہ بہت عمدہ کپڑے زیب تن کیے ہوئے تھے۔ دوسرے یہ کہ ان کا قیام مدرسے کے اندرونی حصے میں تھا۔ جب وہ کھانا کھا رہے تھے تب ان کے پاس مجمع ختم ہوا۔بس ایک خادم نما شخص رہ گیا۔میں سلام کرکے ان کے پاس جاکربیٹھ گیا۔وہ چھوٹے چھوٹے لقمے بنا کرکھانا کھاتے رہے۔ بیچ بیچ میںمیری طرف بھی دیکھ لیتے۔ان کے چہرے پرشفقت اورنوربرس رہاتھا۔ کھانا کھاچکے توخادم نے سلپچی میں ہاتھ دھلائے۔ ان کا دل نہیں مانا وہ مدرسے کے صحن تک گئے اورنیچی نیچی منڈیر پربیٹھ کرکئی کلیاں کیں۔ واپس آئے توخادم نے بتایا۔ حضوراحسن العلماء کے چھوٹے بیٹے ہیں۔ وہیں سے آگے بڑھ کرانہوں نے میرے دونوں ہاتھوں کوآنکھوں سے لگالیا۔پوچھا، کیا پڑھتے ہیں؟‘‘
میں کچھ ہی دن پہلے مکتب میں حافظ عبدالرحمن صاحب مرحوم ومغفور اورمنشی نصیرالدین مرحوم کے حکم کے مطابق سکھنے سکھانے کے نقطۂ نظرسے نمازِ جنازہ پڑھا چکا تھاجس کے دوران میت بنا میرا ساتھی مصنوعی کفن کے نیچے مستقل ہنستا رہاتھا اورمیں صغیرنا وکبیر نا پراٹک گیا تھا۔یہ غالبا پہلی نمازِ جنازہ ہوگی جس کے بعد میت اورامام دونوں نے حافظ جی کی قمچی کھائی۔ اس زمانے میں نماز جنازہ کومیں مکتبی تعلیم کی انتہا سمجھتاتھا۔ بس میں نے فوراً کہا۔
’’مکتب میں پڑھتے ہیں اورنمازجنازہ پڑھا چکے ہیں اورمیت کے ہنسنے پرمیت کوپٹوا بھی چکے ہیں حضورمفتی اعظم پوری بات سمجھ گئے۔دیر تک تبسم کیا۔مدرسے کے باہر شورہوا۔ والد محترم تشریف لارہے تھے، میں کچھ سہم گیا۔حضوراحسن العلماء اندرداخل ہوئے مجھے دیکھا اورپوچھا۔
’’تم یہاں کیا کررہے ہو؟
’’حضور یہ مجھے اپنی تعلیمی مصروفیات کے بارے میں تفصیل سے بتا رہے تھے۔‘‘مفتی اعظم نے سنجیدگی سے کہا۔ والدِ صاحب اپنے بیٹے سے خاصے متاثر ہوئے۔
دوسرے دن میری پیرانی صاحبہ یعنی زوجہ حضرت تاج العلماء قدس سرہ نے مجھ سے کہا۔
جاؤ! مصطفے رضاکو دروازے پربلالاؤاس کے گھرکی خیریت معلوم کرنا ہے۔
یہ جملے سن کرمجھ پربجلی سی گرپڑی۔ جواتنے عمدہ کپڑے پہننے ہیں۔جن کی اتنی بڑی سفیدداڑھی ہے جواتنے گورے گورے ہیں، جن کے چاروں طرف انسانوں کا مجمع رہتا ہے، انہیں ہماری ددّا اس انداز سے کیو ںبلا رہی ہیں۔
میں نے والدِ محترم کے پاس جاکر ڈرتے ڈرتے شکوہ کیا وہ تبسم ریز ہوئے۔فرمایا۔
بیٹا ہمارے مفتی اعظم اورتمہاری ددّا دونوں بریلی کے ہیں۔ وہ بریلی کی بڑی سیدانی کی بیٹی ہیں۔ مفتی اعظم ان سے عمرمیں بہت چھوٹے ہیں۔بچپن میں مفتی اعظم کا بریلی کے گھرمیں آنا جانا تھا۔ تمہاری ددّالاڈپیارمیں اس طرح پکارتی ہیں۔ تم عصر کی نماز کے بعدمفتی اعظم کے پاس جاکر انہیں بتا دینا کہ ہماری بریلی والی ددّا یاد کررہی ہیں۔ میں نے باہر جاکر سبق سنادیا۔ فوراً اٹھ کھڑے ہوئے۔
’’ارے سیدانی صاحبہ نے بلایا ہے۔‘‘
ڈیوڑھی میں آخری دروازے کے پاس حضورمفتی اعظم کے لیے مونڈھا پڑا تھا اوراندردروازے سے ملا ہوا ددّا کا مونڈھا ،دروازے کی آڑسے حضورمفتی اعظم نے سلام کیا۔
ددّا نے جواب دیا،دعائیں دیں،حضورمفتی اعظم ہاتھ باندھے نظریں نیچے کیے کھڑے رہے۔ دروازے کے ادھر سے ددّا نے اندازہ لگالیا۔
’’ مونڈھے پر بیٹھ جاؤ مصطفے رضا‘‘
کچھ تردد کے بعدحضور مفتی اعظم بیٹھے۔
میں ددّا کے پاس کھڑا باتیں سنتا رہا۔ تھوڑی دیر بعدوہ دونوں بریلی کی باتیں کرنے لگے۔ مختلف عزیزوں اوررشتہ داروں کی باتیں۔ اسلامیہ اسکول اورمیدان کی باتیں۔ کچھ مکانات اوران کے کرایوں کی باتیں۔ ددّانے بریلی کے اپنے مکانوں کے کرایہ داروں کو حضورمفتی اعظم کے ذریعے کرایے کے سلسلے میں کوئی پیغام بھی بھیجا تھا۔ پھرسبز رنگ کی کشمیری چائے کا پیالہ کشتی میں رکھ کرلایا گیا اورمفتی اعظم کومیرے ہاتھوں پیش کردیا گیا، حضورمفتی اعظم نے چائے نوش کی۔پھرددانے چھوٹا ساپان بنا کرتھالی میں رکھ کر مجھے دیا اورکہا کہ اسے دے دوں۔ میں نے پان پیش کیا۔ قبول کیا گیا۔ لیکن ہاتھ میں لیے رہے۔
’’تمہاری زوجہ کیسی ہے؟ ددا نے پوچھا، بخیر ہیں بفضلہ تعالیٰ،سلام عرض کیا ہے۔
’’وعلیکم السلام، دعائیں کہنا۔ اچھا!اب قیام گاہ پر جاؤ، لوگ انتظار کرتے ہوں گے۔یہ سارے منظر اورمکالمے ایسے یاد ہیں جیسے کل ہی دیکھے اورسنے ہوں۔ اس درمیان نہ اندرسے کوئی باہر گیا نہ باہرسے کوئی اندرآیا۔ حضورمفتی اعظم باہرآئے تومیری انگلی پکڑے ہوئے تھے اوران سے ملنے کے مشتاق دسیوں علماء کرام اوراحباب منتظرتھے۔
حضورمفتی اعظم سے یہ پہلی ملاقات تھی اوراس ملاقات کا جوتاثر تھا زندگی بھرذہن پرجما رہا ۔عرس کی محفل میں وہ عموما قل کی محفل میں تشریف لاتے تھے۔ بازارسے پاپیادہ ہوجاتے تھے۔ حضورسید العلماء حضوراحسن العلماء اورحضرت چھما میاں بڑی محبت سے ان کا استقبال کرتے تھے اورانہیں علماء کرام کے تخت کے بجائے زمین پراپنی مسند کے ساتھ بٹھاتے تھے۔مجھے اچھی طرح یادہے کہ ایک بار قل کے وقت دعا بھی حضورمفتی اعظم نے کی تھی۔ اپنی اپنی مختصر تقریر میں جب سیدالعلماء اوراحسن العلماء ’’میرے اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں‘‘کہتے توحضور مفتی اعظم آب دیدہ سے ہوجاتے تھے۔ وہ خوب جانتے تھے کہ سیدین مارہرہ سال کے بارہ مہینے اعلیٰ حضرت کومیرے اعلیٰ حضرت اورہمارے اعلیٰ حضرت ہی کے نام سے یا د کرتے ہیں۔ عرس ووعظ کی محفلوں میں آج بھی صاحب زادگان خاندان، مجدددین وملت کومیرے اعلیٰ حضرت اورہمارے اعلیٰ حضرت کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ حضور مفتی اعظم ہندبرادر محترم حضرت امین ملت سے بہت محبت فرماتے تھے۔ حضرت امین ملت بھی اکثر عرس رضوی میں شرکت کرنے جاتے تھے، حضورمفتی اعظم ہند نے ایک بارعرس کے موقع پرحضرت امین ملت کوتمام سلاسل کی اوروظائف اورتعویذات کی اجازت مرحمت فرمائی اوریہ اہتمام کیا کہ اپنا سب سے عمدہ جبہ اورعمامہ بھی عطا کیا اوراس بات کا اعلان ایک ہی دن میں تین بارکیا۔ قیام گاہ پر ڈیوڑھی میں اورعرس رضوی کے ممبررسول پر۔اتنے اہتمام کے ساتھ شاید ہی انہوں نے کسی کواجازت وخلافت عطا کی ہو۔ خلافت عطا کرتے وقت فرمایا۔ جوکچھ آپ کے یہاں سے ملا ہے وہ سب آپ کے لیے حاضر کررہا ہوں۔‘‘میں سول سروس کے امتحان میں بیٹھنے کی تیاری کررہا تھا۔ کامیابی کے لیے والدِ محترم سے تعویذ مانگا۔ انہوں نے ایک مختصر سا وظیفہ بتایا۔ تعویذ نہیں دیا۔ وظیفہ پڑھتا رہا۔ تعویذ کی موجودگی ہمہ وقت مطمئن رکھتی ہے۔اس لیے برادرِ محترم سے گزارش کی بریلی جا کرحضور مفتی اعظم سے میری کامیابی کے واسطے تعویذ لے کرآئیں توبڑی مہربانی ہو۔وہ گئے اورمدعابیان کیا۔مسکرائے اوراسی وقت ایک تعویذ عنایت کیا اورفرمایا کہ دعا کر رہا ہوں۔ وہ انشاء اللہ تعالیٰ ضرور کامیاب ہوں گے۔
میں پہلی بار مقابلے کے امتحان میں شریک ہواتھا۔ تیاری بس یوں ہی سی تھی۔ رزلٹ آیا تومعلوم ہوا کہ میں نے مقابلے کا امتحان پاس کرلیا ہے۔جی چاہتا تھا کہ حضورمفتی اعظم کے پاس جاکر دست بوسی کروں کہ دلی کے اخبار میں ان کے وصال کی خبر چھپ گئی۔ میں نے تعویذ کی طرف دیکھا توتعویذ بھی غائب ہوچکاتھا۔ حضورمفتی اعظم اورحضور احسن العلماء دونوں بتاتے تھے کہ جب کام ہوجاتا ہے توموکل تعویذ لے جاتے ہیں۔
ایک مرتبہ عرس میں تشریف لائے جلسے میں تشریف لائے۔حضور احسن العلماء نے مسلک اعلیٰ حضرت کانعرہ لگایا جووہ ہرتقریر میں لگاتے تھے۔حضور مفتی اعظم کی آنکھیں نم ہوگئیں۔ غالباً یہی سوچاہوگا کہ جہاں سے ان کے محترم والد کوساری روحانی دولتیں ملیں، اسی پیرخانے کے معززافراد اپنے خاندان کے ایک مرید اورخلیفہ کے نام سے مشہور مسلک کانعرہ لگوارہے ہیں۔
اسی دورے میں حضور مفتی اعظم نے حضورسید العلماء اورحضور احسن العلماء کوبتایا کہ کبھی میں کسی مرید کے گھرقیام کیا تھاتو کچھ لوگوں نے اس میزبان کے بارے میں ایسا کچھ کہہ دیا کہ تب سے دل مکدر ہے۔اس دن حضورمفتی اعظم کچھ اداس سے تھے۔ دونوں بھائیوں یعنی حضورسیدالعلماء اورحضوراحسن العلماء میں مشورہ ہوا۔ حضور احسن العلماء نے فرمایا۔ ’’میری زوجہ آپ سے بیعت ہونا چاہتی ہیں۔ ‘‘حضورمفتی اعظم کا تذبذب دیکھ کرفرمایا۔’’وہ صرف آپ سے بیعت ہوں گی۔‘‘ محل سرائے خانقاہ میں پردہ کرایا گیا حضورمفتی اعظم ہندکے ساتھ ہم لوگوں کا قافلہ گھرکے اندرتک گیا۔وہاں صدردالان اورہری کوٹھی کے درمیانی دروازے کے دونوں طرف کرسیاں رکھی گئیں۔ حضور مفتی اعظم ہند نے بیعت فرمایا۔ والد محترم نے ایک لفافے میں روپیے رکھ کر والدہ ماجدہ کی طرف سے نذرکیے۔حضور مفتی اعظم نے اپنی جیب سے کچھ بڑے نوٹ نکال کر ان میں شامل کیے اورفرمایا کہ یہ میری طرف سے بی بی صاحبہ کے لیے نذرانہ ہے۔
باہر تشریف لائے تووالد محترم نے برادرِ محترم سید محمدافضل سلمہ اورسید نجیب حیدرسلمہ کوان کے سامنے بٹھاکرکہا۔ یہ میرے دوبچے ہیں۔ انہیں بھی آپ بیعت فرمالیں۔ حضورمفتی اعظم ہندنے نم دیدہ آنکھوں سے ان دون وں بچوں کو بیعت کیا۔دل میں جواداسی تھی وہ ان آنسوؤں نے دھودی تھی۔ اب چہرے پر خوشی اوراطمینان کی لہرتھی کہ میرے پیر خانے والے، میرے پیرزادے،’’اپنے اعلیٰ حضرت‘‘ کے جانشین پرکتنا اعتماد رکھتے ہیں۔ حضرت ازہری میاں کوسب سے پہلے عرس مارہرہ میں ہی دیکھا۔ سفید عمدہ کپڑے کا کرتا، سفید پاجامہ، سرخ و سفید رنگت۔ نظریں نیچے کیے وہ حضورمفتی اعظم کے پاس بیٹھے رہے، حضور احسن العلماء نے تقریبات کے بعد ہمیں بتا یا کہ یہ حضـور مفتی اعظم کے نواسے ہیں اورانہوں نے مصر کی مشہور یونیورسٹی الازہر میں تعلیم پائی ہے۔اس زمانے میں ہمارے اعراس میں آنے والے علماء کرام میں وہ واحدعالم تھے جوالازہر سے تعلیم حاصل کرکے آئے تھے۔ مجھے یا دہے کہ میرے والدِ ماجد علیہ الرحمۃ والرضوان حضورمفتی اعظم قدس سرہ کی طرح حضرت ازہری میاں کوبھی ممبررسول کے بجائے اکثر اپنے پاس فرش پر ہی بٹھا لیتے تھے۔ درگاہ معلی برکاتیہ میں جب بھی کوئی تقریب ہوتی ہے، علماء کرام تخت پربنے ممبررسول پربیٹھتے ہیں اوربزرگان خاندان برکات اورصاحب زادگان خانقاہ برکاتیہ ہمیشہ زمین پربچھے فرش پربیٹھتے ہیں۔حضور احسن العلماء کی اس خاص ادانے میرے بچپن کے ذہن کویہ شعور دیا کہ حضوراحسن العلماء خاندانِ اعلیٰ حضرت کے صاحب زدگان کوخاندان برکات کے صاحب زدگان کے قرب میں بیٹھا دیکھنا چاہتے تھے۔ نوازشات احسن العلماء کے یہ اولین نقش ہیں جو یادداشت میں محفوظ ہیں۔
حضورمفتی اعظم ہند کا وصال ہوا تودنیائے سنیت میں غم کے بادل چھاگئے۔ چہلم کے موقع پر حقوق کے تصیفے کا معاملہ درپیش تھا۔ حضرت ریحان رضا خاں قدس سرہ اورحضرت ازہری میاں کی خواہش کے مطابق حضوراحسن العلماء حکم کی حیثیت سے تشریف لے گئے۔ دوسرے حکم تھے حضور برہان ملت قدس سرہ ۔حضور احسن العلماء سے صاحب زادگا ن خاندان رضویہ نے اصرار کیا کہ وہ ان کے گھرقیام کریں لیکن حضوراحسن العلماء نے یہ کہہ کرانکار فرمادیا کہ میں حکم ہوں اورمجھے فریقین میں سے کسی ایک کے یہاں بھی قیام کرنا مناسب نہ ہوگا۔وہ اپنے احباب (برکاتی مرشدان اپنے مریدوں کواسی پیارے نام سے یاد کرتے ہیں) یعنی حافظ محمدخاں مرحوم کے صاحب زادگان کے مکان پرقیام پذیر رہے۔ حضورمفتی اعظم ہندکے چہلم کے موقع پر حقوق ومناصب کے سلسلے میں جواہم اعلان حضوراحسن العلماء کی زبان مبارک نے ہی بیان کیا تھا اوراسی پربریلی شریف کے معتقدین ومتوسلین نے آمنّا صدّقنا کہا اوراسی پر آج تک عمل ہے۔اسی دن حضوراحسن العلماء قدس سرہ نے حضرت ازہری میاں کے سرپرحضورمفتی اعظم قدس سرہ کے منصب کی جانشینی کی دستارباندھی۔ حضوراحسن العلماء کی دلی خواہش تھی کہ بریلی شریف کی علمی وروحانی نمائندگی میں کبھی کوئی کمی نہ رہے۔ حضوراحسن العلماء نے عرس قاسمی کے موقع پرحضرت ازہری میاں کوسلسلہ قادریہ برکاتیہ کی خلافت واجازت سے نوازا۔وہ منظربہت دلنشیں تھا۔ یہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے حضرت احسن العلماء نے مولانا سبحان رضا خاں صاحب خانقاہ رضویہ اورمولانا جمال رضا خاں صاحب نبیرۂ حضورمفتی اعظم ہند کوبھی خلافت واجازت سے نوازا۔حضور احسن العلماء اپنی علالت کے باوجود عرس رضوی میں تشریف لے جاتے تھے۔
حضوراحسن العلماء علیہ الرحمۃ والرضوان کے پیرومرشد تاجدار خانقاہ برکاتیہ ابوالقاسم حضرت سیدشاہ اسمعیل حسن عرف شاہ جی میاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ اورمجددِ دین وملت اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خاں رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ میں بڑی یگانگت تھی اوراعلیٰ حضرت اس بات پر بہت نازکرتے تھے۔اعلیٰ حضرت کے وصال کے بعدان کے صاحب زدگان حجۃ الاسلام علامہ حامد رضا خاں اورمفتی اعظم حضرت علامہ مصطفے رضا خاں رحمۃ اللہ علیہم آپس کے معاملات کے فیصلے کے لیے حضرت شاہ جی میاں کے صاحب زادے یعنی تاج العلماء حضرت سید محمد میاں رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پاس مارہرہ شریف تشریف لاتے تھے اورحضور تاج العلماء جوفیصلہ فرمادیتے تھے اسی پر وہ دونوں حضرات عمل فرماتے تھے۔ اگلی نسل میں جب حضرت ریحان رضا خاں صاحب قدس سرہ اورازہری میاں میں حقوق ومناصب کے سلسلے میں کبھی عدم اتفاق ہوتا تویہ دونوں برادران بھی حضرت شاہ جی میاں اورحضور تاج العلماء کے سجادہ نشین یعنی حضور احسن العلماء کے پاس تشریف لاتے۔ کبھی کبھی توایسا ہوتا کہ بہت رات گئے خانقاہ میں کسی کی آمد کی ہلچل ہوئی۔معلوم ہوا کہ حضرت ریحان ملت اورعلامہ ازہری میاں صاحب تشریف لائے ہیں۔حضور احسن العلماء علالت کی وجہ سے خانقاہی مکان سے باہر نہ آپاتے تودونوں کوسوا ان کے ساتھیوں کے اندرون مکان بلالیتے اورہری کوٹھی میں دونوں برادران اورساتھیوں کوبٹھا کر پہلے توناشتہ کراتے پھرتوجہ سے ان کی بات سنتے اورمناسب فیصلہ سنا کر رخصت کرتے۔
ایک بار حضوراحسن العلماء بہت علیل تھے، عرس رضوی کا زمانہ قریب آگیا۔ سبحانی میاں صاحب کوعلم ہوا کہ حضوراحسن العلماء تشریف نہ لا سکیں گے توخودمارہرہ تشریف آکر عرض کیا کہ اس بار عرسِ رضوی کے انعقاد کے سلسلے میں بہت الجھنیں ہیں۔آپ کا وہاں موجود ہونا میرے لیے بہت ضروری ہے۔ حضوراحسن العلماء نے اپنے گلے کا تعویذ اتارکر سبحانی میاں کودیا اورفرمایا کہ آپ بے فکر ہوکرسارے کام انجام دیں۔اللہ تعالیٰ اپنے حبیب پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے صدقے سب مدد فرمائے گا۔ سبحانی میاں صاحب مطمئن ہوکرخوش خوش واپس گئے اورعرس شریف کی تقریبات بہت عمدہ انداز میں منعقد ہوئیں۔ پرانی رو ایتوں پرعمل کرتے ہوئے آج سے کئی برس پہلے حضرت امین ملت پروفیسر سیدمحمد امین میاں قادری برکاتی صاحب سجادہ خانقاہ برکاتیہ نے عرس قاسمی برکاتی کے قل میں شرکت کرنے کے واسطے حاضر ہوئے،حضرت ازہری میاں اوران کے صاحب زادے عزیزی عسجد رضا خاں سلمہ کوممبر رسول پرقریب بلا کر بٹھایا اور عزیزی عسجد رضاخاں سلمہ کوبلا طلب سلسلہ عالیہ قادریہ برکاتیہ کی خلافت واجازت سے نوازااورعمدہ عمامہ عطا کیا۔
مولانا شاہدالقادری سلمہ نے مجھے موضوع میں قید کردیا ہے اورموضوع ہے حضوراحسن العلماء کی نوازشات سے متعلق اس لیے میں نے اب تک جوکچھ لکھاوہ حضوراحسن العلماء اوران کے سلسلے کی نوازشات سے متعلق تھا۔ میرا دل چاہتا ہے کہ میں اس موقع پراس تعلق خصوصی کا ذکرکروں جوحضرت ازہری میاں کو حضور احسن العلماء اوران کے متعلقین سے ہے۔1996میں سردیوں کے دن تھے میں خانقاہ میں موجودتھا۔ اطلاع ملی کہ حضرت ازہری میاںصاحب آئے ہیں۔ میں نے باہر جاکر ملاقات کی ۔حضرت ازہری میاں جب حضوروالد ماجد قدس سرہ کی حیات میں تشریف لاتے توپُرتکلف ناشتے کا انتظام ہوتا۔ میں نے بھی انتظام کرنا چاہا لیکن حضرت ازہری میاں نے کہا کہ میں تکلف نہ کروں ایک لفافے میں نذرانہ دے کر فرمایا کہ یہ والدۂ ماجدہ کی خدمت میں پیش فرمادیں اورفوراً رخصت ہوگئے۔بمشکل چائے پی۔ جب وہ چلے گئے تب مجھے خیال آیا کہ اس دن میری والدہ ماجدہ کی عدت کی مدت پوری ہونے کا دن تھا قدیم خاندانوں میں رواج ہے کہ عدت کے خاتمہ پر قریبی اعزہ غم گساری کے لیے آتے ہیں تبھی مجھے اس بات کا اندازہ ہوا کہ آج حضرت ازہری میاں ناشتہ کے بغیرکیوں چلے گئے۔ دراصل وہ چاہتے تھے اس دن گھر کی خواتین ان کی وجہ سے کوئی تکلیف نہ کریں ۔
حضور احسن العلماء قدس سرہ کے وصال پربھی حضرت ازہری میاں صاحب کوبہت رنج ہواتھا۔ حضوراحسن العلماء کووہ ایک گھنے درخت کی مانند سمجھتے تھے جوکڑی دھوپ میں اپنا سایہ شفقت دراز کردیتاہے۔

تھا جو اپنے درد کی حکمی دوا ملتا نہیں
چارہ سازِ دردِ دل درد آشنا ملتا نہیں

حضوراحسن العلماء قدس سرہ کے وصال پرحضرت ازہری میاں صاحب نے ایک سہ لسانی منقبت لکھی جوان کے جذبات دلی کی آئینہ دار ہے۔

اے نقیبِ اعلیٰ حضرت مظہر حیدر حسن
اے بہار باغ زہرا میرے بر کاتی چمن
اے تماشا گاہ عالم چہرۂ تابان تو
تو کجا بہر تماشا می روی قربان تو
استقامت کا وہ کوہ محکم وبا لا حسن
اشرف و افضل نجیب عترت زہرا حسن
طور عرفان وعلو وحمد وحسنیٰ وبہا
زندہ باد اے پر تو موسیٰ وعکس مصطفی
عالم سوز دروں کس سے کہوں کس سے کہوں
دل شدہ زار چناں وجاں شدہ زیر چنوں
تھا جو اپنے درد کی حکمی دوا ملتا نہیں
چارہ ساز درد دل درد آشنا ملتا نہیں
غبت فی ما ر ہرہ مصباح الدنیٰ شمس الانام
یا نکانا مصطفا نا بعد ک الدنیا ظلام
یا سماء المجد دمتم ما یدا نیکم سما
ذل من عز علیکم من لکم ذل السما
جو دکم فاق الجوادی وبکم جارت سما
خیر کم ملأ البوادی میتکم عم الوری
انما المیت جھول ذو ھوی الا انتم
قد فنیتم عن ھو اکم للخلود نلتم
قبل موت متم وبعد موت دمتم
جسر موت جزتم قبل الوصال فزتم
عون بین المصطفیٰ یا محض یا جون الرضا
جدعلینا یا سماء الجود یا جود الندی
ایک شمع انجمن تھی جو بالا خر بجھ گئی
اب اجالے کو ترستی ہے یہ بزم آگہی
سوگواروں کو شکیبائی کا ساماں کم نہیں
اب امین قادریت بن گیا تیرا امین
علم واہل علم کی تو قیر تھا شیوہ ترا
جا نشیں میں ہو نمایاں جلوۂ زیبا ترا
علم کا اس آستانے پر سدا پہرہ رہے
صورت خورشید تا باں میرا مار ہرہ رہے
اخترؔ خستہ ہے بلبل گلشن بر کا ت کا
دیر تک مہکے ہر اک گل گلشن بر کات کا

ستمبر ۲۰۰۳ء میں ایک دن حضرت ازہری میاں صاحب کا فون آیا، فرمایاکہ حضور احسن العلماء علیہ الرحمۃ والرضوان کی منقبت میں چند اشعار ہوئے ہیں آپ نوٹ فرماکر اس سال کے ’’اہلسنت کی آواز‘‘ کے شمارے میں شائع کرادیں۔میں نے فون پر وہ اشعار نوٹ کیے اور’’اہلسنت کی آواز‘‘ کے ۱۴۲۴ھ مطابق ۲۰۰۳ء کے شمارے میں شائع کردیے۔قارئین کے لیے وہ اشعار حاضر کررہا ہوں۔

حق پسند وحق نوا وحق نما ملتا نہیں
مصطفے حیدر حسن کا آئینہ ملتا نہیں
خوب صورت خوب سیرت اے امین مجتبٰی
اشرف وافضل نجیب ظا ہرہ ملتا نہیں
خوش بیان وخوش نوا وخوش ادا ملتا نہیں
دل نوازی کرنے والا دلربا ملتا نہیں
مرد میدان رضا وہ حیدر نما ملتا نہیں
حا جتیں کس کو پکار یں کس کی جانب رخ کریں
حا جتیں مشکل میں ہیں مشکل کشا ملتا نہیں
سنیوں کی جان تھا وہ سیدوں کی شان تھا
دشمنوں کے واسطے پیک رضا ملتا نہیں
اے امین اہل سنت راز دار مرتضیٰ
اشرف وافضل نجیب با صفا ملتا نہیں
کوئی مانگے یا نہ مانگے ملنے کا در ہے یہی
بے عطا ئے مصطفا ئی مدعا ملتا نہیں
یا د رکھنا ہم سے سن کر مدحت حیدر حسن
پھر کہو گے اختر ؔ حیدر نما ملتا نہیں

حسن اتفاق کہ یہ شمارہ اہلسنت کی آواز کاوہ شمارہ ہے جوتاجدارِ مسند برکاتیہ خاتم اکابر ہندسیدنا شاہ ابوالحسین احمدنوری کے صدسالہ یوم وصال پرشائع ہواتھا اورجس کانام رکھاگیاتھا ’’قصیدہ نورکا‘‘اوریہ قصیدہ نور وہی ہے جس میں حضرت ازہری میاں کے جدِامجد مجدددین وملت اعلیٰ حضرت قدس سرہ نے یہ شعر کہاتھا۔

تیری نسل پاک میں ہے بچہ بچہ نورکا
توہے عین نور تیرا سب گھرانہ نورکا

حضرت ازہری میاں صاحب نے یہ منقبت لکھ کر اپنے جدامجد کی اسی روایت پرعمل کیاتھا۔
حضرت ازہری میاں صاحب مدظلہ کی نسبت پرجوروحانی اورعلمی روایت ہے وہ بہت درخشندہ ، متصل اورمستحکم ہے۔ان تینوں صفات کومسلسل رکھنے کے لیے حضرت ازہری میاں کے پاس صبرواستقلال، علمی استحضار، خلوص واخلاق،تصلب ورواداری، جہاں گیری وجہاں بانی کے مضبوط اورلچک دار ہتھیار ہونا اوران کا ہمہ وقت تیار رہنا بیحد ضروری ہے اوراس سے بھی زیادہ ضروری ہے کہ یہ صفات اگلی نسل کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتی رہیں۔ روایات کے یہ چراغ نسلاً بعدنسلٍ روشن رہیں اوررفتار زمانہ پرگہری نظررکھتے ہوئے مزید روشنی حاصل کرکے دوسروں کوبھی روشن کرتے رہیں۔
حضوراحسن العلماء علیہ الرحمۃ والرضوان کے غلام اورفقیربرکاتی کی حیثیت سے میری فہم مجھے یہ شعور دیتی ہے کہ میں دعا گو رہوں کہ خانوادۂ رضویہ میں حضرت ازہری میاں خصوصا اوردیگر اخلاف عموما اہلسنت وجماعت کی علمی قیادت کے اس منصب کومضبوطی سے تھام لیں جس کا علم ہمارے اعلیٰ حضرت اورہمارے مفتی اعظم نے نہ صرف یہ کہ اٹھایا تھا بلکہ ہمیشہ بلند رکھاتھا۔ایک بارحضوراحسن العلماء علیہ الرحمۃ والرضوان سے کسی نے دریافت کیا کہ حضورآپ کی خانقاہ کے بزرگوں کی کون کون سے کرامات ہیں۔ جواب عطا کیا گیا کہ ہمارے خاندان میں اپنے بزرگوں کی کرامتوں کا زیادہ بیان نہیںکیا جاتا ہے کیوں کہ ہمارے بزرگ ہمیں سبق دے گئے ہیں کہ دین پراستقامت کسی کرامت سے زیادہ بلند ہوتی ہے۔ وہ صاحب پھرجب بضد رہے توحضور احسن العلماء علیہ الرحمۃ والرضوان نے فرمایاسنیے!ماضی قریب میں میری خانقاہ کی دوکرامتیں ہیں۔ایک احمدرضا اوردوسری مصطفے رضا۔ وہ صاحب یہ سن کر ششدر رہ گئے۔جب مفتی شریف الحق امجدی رضوی برکاتی قدس سرہ یہ واقعہ سناتے تھے توآب دیدہ ہوجاتے تھے۔
زندگی ایک بے حد پیچیدہ نظام کا نام ہے۔ دینی افکار ،دنیا کی رفتار ،روایات کی پاس داری، علم سے حاصل شدہ تصلب اورروحانیت سے کشیدکردہ رواداری، اپنی جڑوں سے وابستگی اوراپنے شجر کی ایستادگی یک درگیر ومحکم گیرپرعمل درآمد اورخوداپنے دریچوں کووا رکھ کرتازہ ہواکی آمد،اسلاف کی دانش سے فیض اٹھانا اوراخلاف کی تربیت کرنا، احباب کی ہمہ جہت ترقی کے لیے ان میں جوش بھرنا اورخود ہر موقع پرباہوش رہنا جوبظاہر دوررہتے ہیں ان میں خلوص وللہیت تلاش کرنا اورجوہمہ وقت قریب رہتے ہیں ان کے افعال کی نگرانی کرنا، جمیعت کومربوط رکھنے کے لیے تصلب کوکام میں لانا اورفتنوں سے دوررہنے اورفتنوں کودور کرنے کے لیے ضروری لچک پیداکرنا۔ یہ ان گوناگوں امیدوں میں سے چند ہیں جنہیں میں حضرت کی ذات سے وابستہ رکھتا ہوں اوردعا گو رہتا ہوں کہ کاش ایسا ہوکہ ہماری خانقاہ برکات کی اگلی پیڑھیاں اپنے زمانے کے پودے والے سے کہہ سکیں کہ سنو ماضی قریب میں ہماری خانقاہ کی تین کرامتیں ہیں۔احمدرضا،مصطفے رضا اوراختررضا۔
وما علینا الا البلاغ

 

Menu