حضورتاج الشریعہ ، کشف و کرامات کے آئینے میں
مولانامنصور فریدی رضوی ، بلاسپور ، انڈیا
مصدر علم وحکمت ، پیکر جام الفت، سراج بزم طریقت، تاج الحکمت ، نیر برج ولایت، واقف سر شریعت، پیر طریقت ، وارث علم مصطفی ،مظہر علم رضا، میر بزم اصفیا، صاحب زہد و تقویٰ، عاشق شاہ ہدیٰ، غلام خیرالوریٰ، حامل علم نبویہ، سیدی آقائی حضور تاج الشریعہ حضرت علامہ مولانا مفتی الحاج الشاہ محمد اختر رضاخاں ازہری مدظلہ النورانی اس عظیم حامل شخصیات کانام ہے جن کی زندگی کے کسی ایک گوشے پر اگرسیر حاصل گفتگو کی جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ ہزاروں صفحات کی ضرورت ہے اوروہ صلاحیت مجھ کم علم میں نہیں البتہ اپنے پیرومرشدجنہوں نے اپنے دامن کرم میں لے کر نہ صرف مجھ کو قادری رضوی برکاتی بنایا بلکہ میر ی زندگی میں ایک نئی روشنی دے کر جگنوؤں سے مقابلے کی صلاحیت بھی بخشی ، میں آج کچھ حقائق پرمبنی عینی مشاہدات کے حوالے سے کچھ سپر د قرطاس کررہاہوں۔
دراصل تاج الشریعہ علامہ اختر رضا خان ازہری ایک ایسا نام ہے اوراس نام میںاتنی برکت اوراپنائیت ہے کہ زمانہ صرف نام سن کر ہی آپ کے اوصاف وکمالات حسنہ کو اپنے ذہن ودل پر ترتیب دینا شروع کردیتا ہے یہ سب فضل خداوند کریم اور رسول علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی خصوصی عنایت اوررحمت بیکراں ہے جس نے حضور اختر رضا ازہری کو اپنے دامن کرم میں رکھ لیا ہے۔ آپ کے خصوصی امتیازات کچھ اس طرح سے ہیں، آج ہندستان میں بے شمار فاضل ازہر موجود ہیںمگر جب بھی لفظ’’ازہریؔ‘‘ بولا گیایابولاجاتا ہے تو پردۂ ذہن پرصرف ایک تصویر ابھرتی ہے صرف ایک شخصیت کاجمال جہاں آرا نگاہوں کے سامنے موجود ہوتاہے اوروہ حضور ازہری ؔ میاں کی ذات اقدس ہے۔
اسی طرح علمائے کرام اورفضلائے عظام کی ایک فہرست ہے مفتیان کرام کی ایک طویل لسٹ ہے خلفائے سرکار حضور مفتی اعظم وعالم کی بھی ایک طویل فہرست اورمعتبر نام نگاہوں کے سامنے ہے مگرعالم کی بات کی جائے تو علماء کے درمیان آفاقیت کے حامل اگرکسی فرد کوتسلیم کیاجاتاہے تو دنیائے علم و فن اور دانشوران وقت مفکر ان ملت انہیںازہریؔ میاں کہتے ہیں، درمیان فضلا آپ کی فضیلت مسلم الثبوت ہے، مفتیان کرام کے درمیان آپ کی بات قول فیصل کی حیثیت رکھتی ہے، معتبر اورتاج الشریعہ کے حوالے سے جانے مانے اورپہچانے جاتے ہیں ان تمام فضائل و کمالات کے درمیان جہاں اپنی ذاتی کوششوں کی شمولیت ہے اس سے کہیں زیادہ اوربے پناہ فضل ربی کی تائید ہے اورتائید غیبی ہی کی برکت ہے کہ آج آسمان علم وفن پر آفتاب وماہتاب کی مانند درخشاں و تاباں ہیں وہیں شریعت کے رازداں اورطریقت کے پاسباں اس طرح نظر آتے ہیں، کہ مسند شریعت و طریقت پہ بیٹھ کر اپنی ضیابار کرنوں سے لوگوں کے دلوں کومنور ومجلیٰ اورمستفیض و مستنیر فرمارہے ہیں۔
آج پیران عظام کی حالت و کیفیت کچھ اس طرح ہے کہ اپنے حلقہ کی توسیع کے لئے تابڑ توڑ محنتیں اور کوششیں کی جارہی ہیں۔ اپنے مریدین کی تعداد بڑھانے کی فکر یں ہمہ دم دامن گیر ہیں اگرہم اس تناظر میںسرکارازہری میاں کاجائزہ لیں تو پوری دنیا میںتنہا آپ کی شخصیت انفرادی نوعیت کی حامل نظر آتی ہے، جن کے پیچھے زمانہ دوڑ رہا ہے جب کہ اکثر پیروں کے حالات برعکس ہیں آپ جس علاقہ یادیار میں تشریف لے جاتے ہیں اس پورے علاقے کے مسلمانوں کے ایمان کی حفاظت کاذریعہ بن جاتے ہیں ، دراصل اس عہد قحط الرجال میںقدسی صفات بشر کی کمی ہے، اگرکسی میں کچھ خوبی ہے بھی تو وہ انانیت خود نگر کے شکار نظر آتے ہیں۔ الحمدللہ ان تمام تراخلاق سوز حرکات و سکنات اورعادات قبیحہ سے حضورتاج الشریعہ کی شخصیت دوراور کوسوں دور نظر آتی ہے۔
آپ اعلائے کلمتہ الحق اورابطال باطل میں کسی بھی فرد سے رورعایت کبھی نہیں کرتے بلکہ احکام شرع فوراً بیان کردیتے ہیں اوربوقت ضرورت سختی سے عمل پیراہونے کی ترغیب بھی دیتے ہیں آپ کی اسی پابندی ٔ شریعت اوراعلائے کلمتہ الحق کانتیجہ ہے کہ آپ کواللہ اوراس کے رسول ﷺ کی رضاحاصل ہے اوراسی رضائے خداوندی کاثمرہ ہے کہ کروڑوں کے درمیان آپ کو انفرادیت حاصل ہے، آپ کے اندر صدق مقال کاعالم یہ ہے کہ صداقت صدیقی کاپرتو نظرآتے ہیں عدل میں فاروقی تیور جہاں نظر آتا ہے ، وہیں حیائے عثمانی کاعکس آپ کی شخصیت سے نمایاں ہے توایک طرف علم وحکمت میںباب العلم حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کافیضان نظرآتے ہیں۔
مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے جب میں جامعہ فیض العلوم جمشید پور میں زیرتعلیم تھا، آپ کی تشریف آوری ’’گنبد خضریٰ کانفرنس‘‘ گاندھی میدان میںشرکت کی غرض سے ہوئی تھی اس وقت مسلمانان جمشید پور کی خوشی عید کی خوشی سے کم نہیں تھی بھیڑ کے منظرسے ایسامعلوم ہوتاکہ رجال الغیب کی آمد آمد ہے۔ پوراشہر اس جانب دیوانہ وار دوڑ رہاتھا جس جانب سرکارازہریؔ میاں کی سواری چل رہی تھی جب گاڑی دارالعلوم غوثیہ نظامیہ ذاکر نگر کی طرف چلنے لگی تو میں بھی چل پڑا۔حضرت قاری فضل حق عزیزی نے نماز مغرب پڑھانے کی اوردارالعلوم کے معائنہ کی دعوت دی تھی بعد نمازمغرب لوگوں نے حلقہ میںشامل ہونے کی خواہش کااظہار کیا تو آپ اسی جگہ تشریف فرماہوگئے حلقہ ارادت میںشامل ہونے والوں میں ایک صاحب جن کانام سلطان احمد تھا جب قریب پہنچے تو حضور تاج الشریعہ نے اپنے ایک ہاتھ سے ان کاہاتھ پکڑ لیا اب کیاتھا تمام حاضرین کے چہرے پر ہوائیاں اڑی اڑی سی نظرآ نے لگیں کہ اب کیاہوگا پتہ نہیں ان سے کیاغلطی ہوگئی ابھی ہم تمام لوگ اسی کشمکش میں تھے کہ حضرت کادوسراہاتھ سلطان صاحب کے چہرے اورداڑھی کی طرف اٹھا اورنہایت مشفقانہ انداز میں محبت بھرے لہجے سے آپ نے فرمایارخسار سے داڑھی کابال اتنا نہیںاتاراجاتا یہ بھی داڑھی کے حکم میں ہے اس کو آئندہ تراش خراش نہ کرنا ، میں حیرت میں تھا کہ آپ کہ جاہ و جلال اوررعب کایہ عالم کہ زمانہ آپ کے قریب آنے سے گھبراتاہے، مگر شریعت کاحکم نافذ کرنے کے لئے آپ کاجمال اورآپ کی شفقت کاوہ منظر میںاپنی زندگی کے کسی بھی موڑ پر نہیں بھول سکتا۔
اسی وقت میں نے بھی اپنے ہاتھوں کو آپ کے ہاتھوں میں دے کر غلامی کاپٹہ گلے میں ڈالاتھا بیعت سے پہلے کاعالم یہ تھا کہ میں کبھی مائک پر کچھ بولنے کی صلاحیت نہیں رکھتاتھا کھڑا ہوتے ہی پورے بدن پر رعشہ طاری ہوجاتا تھا بولناکچھ چاہتاتھا اورزبان سے کچھ نکلتاتھا مگرمیری قسمت نے آپ کو پاکرخود کوتابناک کرلیاتھا بیعت ہونے کے ٹھیک تیسرے دن میرا ایک دوست بضد ہوکر اپنی سسرال کے ایک میلاد میں شرکت کی غرض سے لے گیا اور جب میں نے اپنے پیرومرشد کو تصور میں لاکر تقریر شروع کی تو اپنی زندگی میں پہلی بار ڈھائی گھنٹے کی تقریر کی نہایت کامیاب تقریر کی اور تب سے اب تک بحمدہ تعالیٰ اپنے پیرومرشد کے کرم سے لاکھوں کامجمع بھی مجھے مرعوب نہیں کرسکتا۔
۱۹۹۵ء دارالعلوم فیض الرضا بلاسپور کارسم سنگ بنیاد کے لئے حضور تاج الشریعہ تشریف لائے آپ کی تشریف آوری سے قبل حاسدین میںسے کسی نے راستے میں گٹی ڈال دیا تاکہ اس راہ سے گاڑی نہ نکل پائے اوراس طرح ہم کامیاب ہوجائیں کہ دارالعلوم کی بنیاد کے لئے تاج الشریعہ تشریف نہ لاسکیں مگرجب عزم جواں ہوتاہے اوربزرگوں کافیضان جاری ہوتا ہے توخالد و طارق ساجانباز بھی اللہ بھیج دیتاہے اوراس سے اپنے دین کاکام لے لیتاہے اس منظر کو دیکھ کرحضرت مولانا جہانگیر رضانوری پریشان ہوجاتے ہیں مگر چونکہ آپ عزم وارادہ کے پختہ چٹان ٹھہرے اتنی جلد ی ہمت کیسے ہارتے آپ نے مکمل تدبر جہانگیری کو اپناتے ہوئے ایک مزدور سے بات کی کہ اس گٹی کوکتنی دیر میںہٹا سکتے ہو چونکہ گٹی کی تعداد بے شمار تھی یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ ایک دوگھنٹہ میں راستہ صاف کیاجاسکتاہے مگراس مزدور نے صرف اتنا کہاکہ آپ کے حضرت کے آنے سے پہلے ہم راستہ صاف کردیں گے آپ ادھر کی فکر چھوڑدیں اوراپناکام کریںاور اس بندے نے یہ طے کئے بغیرکہ آپ کتنا دیں گے کام شروع کردیاجب حضرت کی گاڑی پہنچی اس سے قبل پوراراستہ صاف ہوچکاتھا اورآپ دارالعلوم فیض الرضارسم سنگ بنیاد کے لئے تشریف لے آئے آپ کی گاڑی کے پیچھے پیچھے حاسدین جو بدنیتی لئے ہوئے آگے بڑھ کر حضرت کوروکنا ہی چاہ رہے تھے کہ مگرآپ کے چہرہ ٔ پرانوار سے عیاں رعب و جلال کی تاب نہ لاسکے اورفوراً الٹے پائوں لوٹ گئے اوراس طرح سے دارالعلوم فیض الرضا کی بنیاد حضور تاج الشریعہ کے مقدس ہاتھوں سے رکھی گئی الحمد للہ آج یہ وہی فیض الرضا اپنے دامن میں ۸۵ مہمان رسول کی میزبانی کاشرف حاصل کررہا ہے جہاں سے حفظ وقرأت کے علاوہ درجہ رابعہ تک کی تعلیم و تربیت کامعقول انتظام ہے۔
کبھی ننھے پرندے جھیل کے اس پار جاتے ہیں
کبھی کاغذ کی کشتی تیرتی رہتی ہے پانی پر
ہے ان کاحوصلہ اکثر یہ میداں مار جاتے ہیں
اوراس کے عزم کامل سے سمندر ہار جاتے ہیں
کامصداق بن گئے اوراس طرح سے ایک دیوانے نے عقل کے پجاری کو مات دے کر عمر بھر کے لئے روتا چھوڑ دیا۔
اسی سفر کاواقعہ ہے کہ محب مکرم حضرت حافظ وقاری محمدصادق حسین فرماتے ہیں کہ حضورتاج الشریعہ کی خدمت کے لئے میں معمور تھا اورآپ الحاج غلام سرور کے گھر آرام فرماتھے میں حضرت کے سر میں تیل مالش کررہاتھا اوراپنے مقدر پر نازکر رہا تھا کہ ایک ذرۂ ناچیز کو فلک کی قدمبوسی کاشرف حاصل ہورہاتھا اچانک میری نگاہ حضور والا کی ہتھیلیوں پہ پڑی میںایک لمحہ کے لئے تھراگیا آخر یہ کیاہورہا ہے میری نگاہیں کیادیکھ رہی ہیں مجھے یقین نہیں ہورہا ہے، آپ تو گہری نیند میں ہیں پھر آپ کی انگلیاں حرکت میںکیسے ہیں؟میںنے مولانا عبدالوحید فتحپوری جواس وقت موجودتھے اوردیگرافراد کو بھی اس جانب متوجہ کیا تمام کے تمام حیرت واستعجاب میںڈوب گئے تھے، معاملہ یہ ہے کہ آپ کی انگلیاںاس طرح حرکت کررہی تھیں گویا آپ تسبیح پڑھ رہے ہوں اوریہ منظر میںاس وقت تک دیکھتارہا جب تک کہ آپ بیدار نہیںہوگئے ان تمام ترکیفیات کو دیکھنے کے بعد دل پکار اٹھتاہے کہ ؎
سوئے ہیں یہ بظاہر دل ان کاجاگتاہے
۲۰۰۳ء میں عرس حضور مفتی اعظم کے موقع پر دہانور روڈ ممبئی میںایک سرائے کی بنیاد رکھی جانی تھی جس میں حضورتاج الشریعہ، اورمولانا شعیب رضا مدعو تھے بحیثیت سامع راقم الحروف بھی موجود تھا اچانک دل میںخیال آیا کہ کاش حضورتاج الشریعہ کے ساتھ ایک دسترخوان پربیٹھنے کاموقع مل جاتا تو قسمت سنور جاتی اسی تصور میں غرق قیام گاہ کے دروازہ پر کھڑاتھا میری طرح سیکڑوں مشتاقان دید قلب و جگر فرش راہ کئے ہوئے تھے اچانک دروازہ کھلا اورایک صاحب نے آواز لگائی منصور فریدی کون ہے اندرآئیے مجھے اس وقت اپنی سماعت پریقین نہیں ہورہاتھا کہ وہ تمہیں ہوجسے آواز دی جارہی ہے مگردل کہہ رہاتھا کہ ہاں ہاں تمہیں ہو اورپھر کیاتھا فرط مسرت سے میری آنکھیں بھیگ چکی تھیں آنسو پوچھتے ہوئے میں اندر گیا سلام و مصافحہ سے سرفراز ہوکر گھنٹوں حضرت کی خدمت میں لگارہا، آج بھی تصور کرتاہوں تو اس کیف زاکیفیت سے قلب و روح کوٹھنڈک کااحساس ہوتاہے میری تمنا کیاپوری ہوئی میرے اعتقاد کی دنیا نے ایک ٹھوس اورمستحکم قلعے کو گویا تسخیر کرلیاتھا جہاں سے آج بھی تصور شیخ میری رہنمائی کرتانظرآتاہے۔ یہ جتنی باتیں لکھی گئی ہیں حقائق پرمبنی ہیں اس کے علاوہ بھی بے شمار آپ کی کرامتیں اورتصرفات کاذکرملتاہے جس کااحاطہ اس مضمون میں ممکن نہیں رب کریم اپنے لبیب حبیب کے صدقے و طفیل اس مضمون کوشرف قبولیت کاتمغہ عطافرمائے اورحضورتاج ا لشریعہ کی عمر اورصحت میں برکتیں عطافرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ۔