حضورتاج الشریعہ کا فتویٰ نسبندی

مولانا منورحسین رضوی علیمی ، کولکاتا، انڈیا


۷۷-۱۹۷۶ء بالخصوص مسلمانان ہند کے لئے تاریکی دور رہا۔ یہ ایمرجنسی کازمانہ تھا کانگریس پارٹی کی جابر و ظالم لیڈر اندرا گاندھی ہندستان کی حکمراں تھی۔ مسلمان ظلم و استبداد کی چکی میں پسے جارہے تھے ۔ علماء کرام کو سلاخوں کے پیچھے ڈال دیاگیا اورستم بالائے ستم ہندستانی معیشت کوبہتر سے بہتر بنانے کے لئے نسل کشی کاقانون نافذ کردیاگیا۔ مسلمانوں میںاضطرابی کیفیت پیداہوگئی چونکہ حکومت کی طرف سے یہ قانون تھا اس لئے اس عظیم طوفان میں بڑے بڑے جبہ و دستار والوںکے قدم ڈگمگائے اوراس تیزو تند آندھی میں علماء دیوبند بھی ثابت قدم نہ رہ سکے اورمارے ڈر کے حکومت وقت کے سامنے سپر انداز ہوگئے اور حکومت کی حمایت میں نسبندی کے جوا ز میں مولوی قاسم نانوتوی کاپوتے مولوی قاری طیب قاسمی سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند نے علماء دیوبند کی تصدیقات کے ساتھ فتویٰ جاری کردیا۔
لیکن واہ رے امام احمد رضا کاراج دلارا اورسنیوں کی آنکھوں کاتارا سرکار سیدنا حضور مفتی اعظم ہند علامہ مصطفی رضاخاں نوری علیہ الرحمہ (متوفی ۱۴۰۱ھ)نے بلاخوف لومۃ لائم پاسبان شریعت بن کر اسلامی قانون کی حمایت میں فتویٰ صادر فرمادیاکہ نسبندی حرام ہے ، اس فتویٰ کو اخبارات میں بھیجا گیا لیکن حکومت کے ڈرسے اخبارات نے شائع نہیں کیا بالآخر آپ نے سائیکلو اسٹائل کے ذریعہ اپنے اس فتویٰ کو مختلف شہروں میں شائع کرایا۔
اس وقت کے حالات کی نباضی کرتے ہوئے حضرت علامہ مفتی سیدشاہد علی رضوی صاحب قبلہ (رامپور) رقم طراز ہیں۔
’’۷۷/۱۹۷۶ء کادوراسلامیان ہند کے لئے ایک بھیانک طوفان کا دور تھا۔حکومت نے نسبندی کے جوازکے لئے مفتیان کو ترغیب و ترتیب سے مائل کرنے کی مہم شروع کی ، کانگریسی مفتیان نے اس کے جواز کافتویٰ جاری کردیا۔ ریڈیو اوراخبارات کے ذریعہ ان فتاویٰ کی خوب تشہیر کی۔ ہندستان کامسلمان اب ایسے نازک موڑ پر آچکا تھا جہاں ہر طرف تاریکی ہی تاریکی تھی۔ پوری قوم ایسے میرکارواں کی تلاش میں تھی جو اسے سہارا دے، ایمان و اعتقاد کی اجڑتی ہوئی کھیتی کو لالہ وزار بنادے۔ اس حال میں پاسبان ناموس رسالت ، ملت اسلامیہ کے عظیم مجاہد، تاجدار اہلسنت حضرت مفتی اعظم اپنے علمی وروحانی وقار سے جابر حاکم کے سامنے کلمہ حق کہنے کھڑے ہوئے آپ نے بے باکی اورحق گوئی سے کام لیتے ہوئے فتویٰ جاری کیا۔
’’نسبندی حرام ہے، نسبندی حرام ہے‘‘
چونکہ ذرائع ابلاغ پر حکومت کے آہنی پنجوں کامضبوط قلعہ تھا۔ان کو اشاعت کا ذریعہ بنانا ممکن نہ تھا۔ آپ نے حکومت کے خلاف فتویٰ عدم جواز نسبندی کو سائیکلو اسٹائل کراکے ملک کے گوشہ گوشہ میں پھیلادیا۔ اندیشہ، سودوزیاں سے بے نیاز ہوکر حضرت مفتی اعظم کاجرأت مندانہ اقدام ’’دین مصطفی‘‘ کی حفاظت کاذریعہ بن گیا اورظالم و جابر حاکم ایمرجنسی کے دور میں آپ کے فتویٰ کے مقابل بے بس ہوکر رہ گیا۔ نسبندی کے خلاف فتویٰ جاری کرنے اوراسے شائع کرنے کی بناء پر ضلع کلکٹر نے مسلح فورس کے ساتھ حضرت مفتی اعظم کی محبوسی کے لئے سخت ہدایات جاری کردیں ، لیکن ایک صوبائی وزیراورسابق اسپیکرنے مرکزی حکومت سے رابطہ قائم کرکے صورت حال سے آگاہ کیااورکہاکہ اگرحضرت مفتی اعظم کو گرفتار کیاگیا تو پورے ملک میں بے چینی اورتشدد کے واقعات رونما ہوں گے۔ دیگر ذرائع نے بھی یہی خبر دی کہ حضرت مفتی اعظم کی گرفتاری سے حالات مزید ابتر ہوجائیں گے اس لئے کہ وہ کسی حال میں بھی اپنا فتویٰ واپس نہیں لیں گے۔ اس پر مرکزی حکومت نے مداخلت کی اورانتظامیہ کو ہدایت کی کہ گرفتاری کے احکام ختم کردئیے جائیں کچھ دنوں کے بعدحکومت خود بخود ختم ہوگئی۔(مفتی اعظم اوران کے خلفاء جلداول ص۹۱)
۷؍ ستمبر۱۹۷۶ء کو نسبندی کے تعلق سے ایک تفصیلی فتویٰ سیدنا حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کے حکم پر حضور تاج الشریعہ علامہ مفتی محمداختر رضا خاں قادری ازہری مدظلہ العالی نے اس کے عدم جواز پر قرآن واحادیث کی روشنی میں تحریر فرمایاتھا جس سے حضور تاج الشریعہ کی فقہی بصیرت اورقرآن واحادیث پر دسترس کااندازہ لگایاجاسکتاہے اس کومن وعن نظرقارئین کرنے کی سعادت حاصل کررہاہوں۔
(واضح رہے کہ اس فتوی کی نقل کاپی حضرت علامہ عبدالمبین نعمانی مدظلہ العالی کے توسط سے ملی ہے میں ان کا شکر گزار ہوں)
سوال: کیااسلام کے نزدیک نسبندی حرام ہے؟
الجواب:بعون الملک الوھاب نسبندی شرعاً حرام ہے۔ اوریہ ایسی حرام بین ہے کہ جس کی حرمت میں عالم تو عالم کسی جاہل غبی کو بھی ادنیٰ شک نہیں اولاً کون نہیں جانتا کہ بلاضرورت شرعیہ ننگا ہونا حرام ہے اور بے حیائی کاکام ہے اوراس امر کی قباحت نہ صرف اسلام میں بلکہ دیگر مذاہب میں بھی ثابت ومقرر ہے پھر اس پر آدمی کادوسرے کے عضو غلیظ کو چھونا قباحت بالائے قباحت ہے۔ ثانیاً یہ تغیر خلق اللہ ہے اورتغیر خلق اللہ شرعاً حرام ہے اورشیطانی کام ہے اور شیطان نے خداسے یہی کہاتھاکہ

 وَ لَاٰمُرَنَّہُمۡ فَلَیُبَتِّکُنَّ اٰذَانَ الۡاَنۡعَامِ وَ لَاٰمُرَنَّہُمۡ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلۡقَ اللّٰہِ ؕ۔۔۔۔الایۃ۔

یعنی میں لوگوں سے کہوں گا تو وہ چوپایوں کے کان کاٹیں گے اورخداکی بنائی ہوئی چیز کو بدل ڈالیں گے۔ اس آیت کریمہ سے تغیر خلق اللہ کاہر فرد ناجائز وممنوع ہوگیا۔ مگر وہ جس پر شرعاً دلیل قائم ہو وہ اس دلیل شرعی سے جائز ہوگامثلاً ختنہ کرنا شرعاً مطلوب ہے لہٰذا نسبندی کو ختنہ پر قیاس کرناجائز نہیں۔بایں وجہ کہ وہ دلیل شرعی سے جائز ہوا ۔ ایسی ہی دلیل اس کے لئے مطلوب جو اس کوتغیر خلق اللہ کے عموم سے خاص کرکے نکال دے اوروہ یہاں مفقود ہے پھر یہ کہ ختنہ اصلاً تغیر خلق اللہ ہے ہی نہیں کہ جب وہ شرعاً مطلوب ہے تو معلوم ہوا کہ اس کھال کو رب العزت نے کٹنے کے ہی لئے پیدا فرمایا اورپھر اس کے کاٹنے میں فائدہ نظافت عضو ہے اورنظافت شرعاً وعرفا محمود ومقصود ہے تو معلوم ہوا کہ تغیر خلق اللہ ایسے جزو بدن کوکاٹنا ہے جس کاشرع مطہر نے حکم نہ فرمایا۔ نہ اس کے کاٹنے میں فائدہ ہو نہ ضرورت کاٹنے کی شرعیہ ہو۔ اورنسبندی کایہی حال ہے کہ اس میں کوئی فائدہ نہیں۔ بلکہ قطع رگ سے ضرر ہے جومعلوم ومحسوس ہے نہ شرع مطہر نے اس کا حکم دیا ہے نہ ضرور ت شرعیہ ہے بالجملہ اسے ختنہ پر قیاس کرناباطل یونہی یہ امر بھی اس کی دلیل جواز نہیں بن سکتا کہ فقہا نے عورت کو بہ ضرورت شرعیہ اپنے رحم کامنہ بند کرنے کی اجازت دے دی ہے اوروہ بھی بہ طور بحث فرمایا ہے جس سے ظاہر کہ مذہب حنفی کی اس باب میںکوئی روایت نہیں بس بعض فقہا کی ایک بحث ہے تواگر اسے اجازت مان لیں تو وہ بربنائے ضرورت ہے اوریہاں ضرورت نہیں اورفقر و فاقہ کاخوف موہوم ہرگز ضرورت شرعیہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے لاتقتلو ا اولادکم خشیۃ املاق الاٰیۃ فاقہ کے خوف سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو بلکہ فقر حاضر بھی ضرورت شرعیہ اور جواز اس فعل کی نہیں بن سکتاقال تعالیٰ لاتقتلوا اولادکم من املاق الاٰیۃ ۔ فقر کی وجہ سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو اورحضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زیادہ بچے جننے والی عورت سے شادی کرنے کاحکم فرمایا حدیث میں ہے۔شوہر سے محبت کرنے والی زیادہ بچے جننے والی سے نکاح کرو کہ میں کل تمہاری کثرت سے اگلی امتوں پر غالب آئوں۔ یہاں سے ظاہر ہوا کہ یہ مقصد شرع کے مخالف ہے پھر سد فم رحم بغیر دوسرے مرد کے سامنے ننگے ہوئے خودیاشوہر کے ذریعہ بھی ممکن اورنسبندی بغیر ننگے ہوئے ناممکن ظاہر کہ اس پر بھی قیاس کرناباطل ہے وللہ الحمد اوراز انجا کہ ضرورت شرعیہ جس کے بغیر چارہ نہ ہو اور جوبہ ضرورت مباح ہوگا اسی ضرورت کے بمقدار مباح ہوگااس سے آگے نہیں الاشباہ والنظائر میں فرمایا وماابیح للضرورۃ تیقد ر بقدر ھا اس کا مقتضی یہ ہے کہ سد فم رحم اسی صورت میں جائز ہو کہ عزل وغیرہ ادویہ فرزچہ کی تدبیر نہ بنے اورنیز یہ کہ اتنی ہی دیر تک اس کی اجازت ہوجب تک ضرورت قائم ہو یہاں سے ظاہر ہوا کہ سدفم رحم وغیرہ تدابیر عارضی ہیں نہ کہ دوامی اورنسبندی منع حمل کی دائمی تدبیر ہے اورہماری شرع مطہر میں ایسی تدبیر کی ہرگز اجازت نہیں جس کا انجام تعقیم اورہمیشہ کے لئے پیدائش نسل کارک جانا ہو اسی لئے حدیث میں حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لاخصاء فی الاسلام اسلام میں خصی ہوناجائز نہیں۔ اس سے یہ سمجھنا کہ حدیث میںصرف خصیوں کو نکالنے سے ممانعت فرمائی گئی ہے۔ قصور فہم ہوگا ہرگز ایسا نہیں بلکہ وہی ہے جو ہم نے کہا کہ تعقیم ہماری شریعت مطہرہ میںامر ممنوع و مذموم ہے اوریہ قباحت جس طرح خصی ہونے میں ہے اس طرح نسبندی میں بھی موجود ہے تو نسبندی حرمت میں خصاء کی بلاشبہ نظیر ہے اس پر یہ معاو ضہ کرنا کہ نسبندی خصاء نہیں ہے۔خصے کاٹ دئیے جاتے ہیں اوراس میںایسا نہیںہوتا جہالت بے مزہ ہے اس کامدعی ہی کون ہے۔ یہ بعینیہ خصاء ہے۔ مزید براں بعض ڈاکٹروں کے بیان سے معلوم ہوا ہے کہ اس میں خصئے کے اندر کی رگوں کوکاٹ کرباندھ دیاجاتاہے تو یہ اس بناپر حسّاً خصا ہے اس لئے کہ یہ بہ اعتبار مصداق کے کل خصئے کو یااس کے کسی جزو کوکاٹنے میںتفاوت نہیں ہے۔ خصیہ بریدن دونوںصورتوں پرصادق ہے یہ اوربات ہے کہ اس کانام نسبندی خواہ کچھ اوررکھاجائے اوراس فعل کو عزل پرقیاس کرنا محض باطل ہے ۔ اولاًعزل اپنی منکوحہ سے جائز ہے اس میں شرعاً و عقلاً کوئی بے حیائی نہیںاورنسبندی بے حیائیوں کاارتکاب واللہ لا یامر بالفحشاء ثانیا عزل بے ضرر ہے اوراس میں ضرر ہے تو اگرضرورت بھی ہوتو جائز و بے ضرر طریقہ موجود ہوتے ہوئے ایک حرام و مضر طریقے کی شرعاً اجازت نہیں ہوسکتی۔ ثالثاً عزل عارضی تدبیر ہے اوریہ تعقیم ہے جو دائمی ہے اوریہ شرعاً حرام ہے۔ رابعاً عزل کو بھی حدیث میں ناپسند فرمایاگیا ہے اوراس کے متعلق ارشاد ہوا ذٰلک الؤاد الخفی یہ خفیہ طور پر اولادکشی ہے گو اس میں ناپسندیدگی اس طریقہ ٔ مروجہ سے کم ہے تو جب عزل ہی کو شرع مطہر نے ناپسند فرمایا اوراسے ذٰلک الوادٔ الخفی کہہ کر مقصد شرع جو نکاح کے ذریعہ افزائش نسل ہے اور اسی لئے شرع مطہر نے نکاح کی ترغیب فرمائی اوراس سے بیزاری پر وعید سنائی کہ النکاح من سنتی فمن رغب عن سنتی فلیس منی کہ نکاح میری سنت ہے تو جو میری سنت سے اعراض کرے وہ مجھ سے نہیں اوراسی لئے عیسائیوں کی رہبانیت کو جوتجرد کی زندگی سے عبارت تھی۔لارھبانیت فی الاسلام کہہ کر باطل فرمایا تویہ عمل عزل کی اگر نظیر ہے تو ناپسندیدگی اورمنافات مقصد شرع میں ہے بلکہ اس سے کئی گنازائد ہے۔
یہاں ہم یہ بھی بتاتے چلیں کہ بعض کتابچوں نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ فقہا نے بہ ضرورت ۱۲۰ دن کا حمل گرانے کی اجازت دی ہے تو وہ بہتا ن ہے فقہا نے بضرورت حمل گرانے کی اجازت دی ہے جب کہ وہ ۱۲۰ دن کانہ ہوا اوربلاضرورت شرعیہ یہ بھی ناجائز فرمایا اور ۱۲۰ دن کی مدت کاحمل گرانے کو مطلقاً حرام فرمایا اوریہ تصریح فرمائی کہ اس صورت میں عورت پر قتل ولد کا گناہ ہوگا۔ اورعورت پر دیت لازم آئے گی۔ درمختار میں منظومہ وھبانیہ سے ہے ویکرہ ان تسقی لاسقاط حملھا وجاز لعذر حیث لا یتصور وان اسقطت منتا ففی السقط غرۃ لوالدہ من عاقل الامرٔ تحضر۔ رد المختار میں ہے وفی الذخیرۃ وارادت القاء الماء بعد وصولہ الی الرحمہ قالو اان مضت مدۃ ینفخ فیہ الروح لایباح لھارقبلہ اختلف المشائخ فیہ والنفخ مقدر بمائۃ وعشرین یوماً بالحدیث ام قال فی الخانیۃ ولااقول بہ نعمان المحرم بیض الصیدلانہ اصل الصید فلااقل من ان یلحقھا اثم وھٰذا لوبلاعذرھ
بالجملہ نسبندی کی مذہب اسلام میں کوئی وجہ جواز نہیں دیگر طریقے شخصی طو رپر بہ ضرورت وبہ قدر ضرورت جائز ہیں مسلمانوں کوچاہئے کہ وہ اپنے رب کریم پر توکل کریں کہ اس نے اپنے ذمہ کرم پر ہرجاندارکارزق لیاہے اوراس فعل سے بچیں۔ ہم حکومت ہند سے یہی کہیں گے کہ وہ مسلمانوں کے مسئلہ شرعیہ کااحترام کرے اورانہیں مجبور نہ کرے۔ واللہ تعالیٰ اعلم وصل للہ تعالیٰ علی سیدنا محمدالہ وصحبہ وبارک وسلم۔

فقیر محمداختر رضاخاں ازہری قادری غفرلہٗ

نسبندی کے جواز پر جو کچھ اساسی دلائل ہیں اس مختصر فتویٰ میںحضرت علامہ ازہری صاحب نے ان سب کا بہت ہی منقح جواب مرحمت فرمادیا اورنسبندی کے عدم جواز پر جوکچھ ٹھوس دلیلیں تھیں قائم کردی ہیں۔ فالحمدللہ علی ذالک ونفع اللہ بہ المومنین واللہ تعالیٰ اعلم

کتبہ
ضیاء المصطفیٰ قادری
صح الجواب، واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
ریاض احمد سیوانی، دارالافتاء منظر اسلام، بریلی شریف

الجواب الجواب واللہ تعالیٰ اعلم
فقیر مصطفیٰ رضا قادری غفرلہٗ

الجواب صحیح
قاضی عبدالرحیم بستوی غفرلہٗ القوی
دارالعلوم منظر اسلام۔ بریلی شریف
٭٭٭

 

Menu