حضورتاج الشریعہ اور تعلیقاتِ زاہرہ

مولانا سلمان ازہری ، فیض آباد ، انڈیا


سرزمین ہند ایک زمانہ سے علم وفضل وحکمت ودانائی اورعلم ومعرفت کاسرچشمہ رہی ہے اس کی چھاتی پرعلم وآگہی کے عیون جاریہ اپنے فیضان علمی سے تشنگان علم کو سیراب کرتے رہے ، اس نے حکمت ومعرفت کے ایسے ایسے آفتاب و ماہتاب پیدا کئے جن کی شعاع تیزتاب نے ضلالت و گمراہی کی گھٹاٹوپ تاریکیوں کو نور ہدایت میں تبدیل کردیااورجن کی دودھیا کرنوں نے منزل حق و صداقت کے مسافروںکو، ’’کنز الایمان ‘‘کی جانب رہبری ورہنمائی کی۔ انہیں کواکب ونجوم اورمہ درخشاں و خورشید تاباں میں تاج الشریعہ ، فقیہ اسلام، جانشین مفتی اعظم ہند حضرت علامہ مولانا مفتی محمداختر رضاخاں قادری ازہری۔ دامت برکاتہم القدسیہ کی ذات والا صفات ہے۔

خانوادہ رضا کی دینی خدمات کازریں سلسلہ

حضور تاج الشریعہ مد ظلہ النورانی، ایسے گلستان علم و حکمت کے گل رعنا ہیں جس کی عطربیز خوشبوئیں ۱۲۴۶ھ/۱۸۳۱ء سے لے کر تادم تحریر امت مسلمہ کے مشام جاں کو معطر کررہی ہیں ، آپ ایک ایسے خانوادہ کے چشم وچراغ ہیں جومدت مدیدہ سے ملت اسلامیہ کو اس کے مختلف شعبہ ہائے حیات میں پیش آمدہ مسائل کے سلسلہ میں شرائع واحکام اورعقائد اسلامیہ حقہ سے روشناس کرارہاہے، بدعات ومنکرات کے ردوابطال میں وہ عظیم کارنامہ انجام دیا ہے جسے امت مرحومہ فراموش نہیں کرسکتی ہے۔ چنانچہ مولانا یونس رضا مونس صاحب اپنے ایک وقیع اورمعلوماتی اداریہ میں خانوادہ رضا کی دینی خدمات کے سلسلہ زریں کو بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ:
’’ہندستان کے بعض سلاطین خوداسلامی دانشور تھے ، یہاں بھی بہت سے فقہائے کرام پیداہوئے اورامت کی قیادت فرمائی مگرشہر بریلی میںخانوادہ رضا اس عظیم دولت کے حامل ہوکر ۱۲۴۶ھ/۱۸۳۱ء سے اب تک امت مسلمہ کی قیادت سنبھالے ہوئے ہے۔ چنانچہ اس کی قدرے تفصیل یہ ہے۔
امام الفقہا حضرت علامہ مفتی محمد رضا علی خاں قادری بریلوی قدس سرہ العزیز نے فتویٰ نویسی کاآغاز ۱۲۴۶ھ/۱۸۳۱ء میں فرمایا اورتادم واپسی یعنی ۱۲۸۲ھ/۱۸۶۵ء تک ۳۴ سال یہ خدمات جلیلہ نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دیتے رہے۔ خاتم الفقہا حضرت علامہ مفتی محمد نقی علی خاں قادری بریلوی قدس سرہ العزیز نے فتویٰ نویسی کی شروعات اپنی تعلیم و تربیت سے فراغت کے بعد تقریباً۱۸۴۷ء میں فرمائی اوراپنی زندگی کے آخری لمحات تک یعنی ۱۲۹۷ھ/۱۸۸۰ء تک قریب ۳۳ سال اس عظیم الشان کام کو بحسن وخوبی انجام دیتے رہے۔ امام اہل سنت اعلیٰ حضرت مجدد دین و ملت امام احمد رضا خاں قادری فاضل بریلوی قدس سرہ العزیز نے فتویٰ نویسی کاآغاز ۱۲۸۶ھ/۱۸۶۹ء میں بعمر ۱۳؍ سال مسئلہ رضاعت سے فرمایا اورتاحیات یعنی ۱۳۴۰ھ/۱۹۲۱ء تک۵۲ سال یہ اہم ذمہ داری بے لوث انجام دیتے رہے۔ شیخ الانام ، حجت الاسلام حضرت علامہ مفتی محمد حامد رضاخاں قادری بریلوی قدس سرہ العزیز نے فتویٰ نویسی کاآغاز ۱۳۱۲ھ/۱۸۹۵ء میں فرمایا اورتاحین حیات یعنی ۱۲۶۲ھ/۱۹۴۳ء تک ۴۸ سال یہ خدمت خالص لوجہ اللہ انجام دیتے رہے۔ تاجدار اہل سنت ، شبیہ غوث اعظم مفتی اعظم حضرت علامہ مفتی محمد مصطفی رضاخاں قادری بریلوی قدس سرہ العزیز نے فتویٰ نویسی کاآغاز ۱۳۲۸ھ/۱۹۰۱ء میں فرمایا اورتادم آخری یعنی ۱۴۰۲ھ/۱۹۸۱ء تک ۷۱ سال یہ عظیم ذمہ داری بطریق احسن انجام دیتے رہے۔ اس کے بعد حضور تاج الشریعہ کا دور شروع ہوتاہے، آپ نے فتویٰ نویسی کاآغاز۱۹۶۷ء میں فرمایا اور۳۹ سالوں سے یہ سلسلہ زریں آج بھی جاری وساری کئے ہوئے ہیں۔ گویاخاندان رضا میںفتاویٰ نویسی کی یہ ایمان افروز روایت ۱۷۵؍ سالوں سے مسلسل چلی آرہی ہے۔‘‘ (ماہنامہ سنی دنیا ، اکتوبر ۲۰۰۶ء ص/۵۰۴)

تاج الشریعہ کو منصب افتا تفویض

اس اقتباس سے نہ صر ف خاندان رضا کی عظمت وبڑائی کااندازہ اچھی طرح لگایاجاسکتاہے بلکہ اس کی خدمات جلیلہ کو بھی محسوس کیاجاسکتاہے ،اس میںذرہ برابربھی شک نہیں کہ اس خانوادہ نے ملت اسلامیہ کی رہبری ورہنمائی کو غیرمعمولی کارنامہ انجام دیا ہے وہ لائق صدافتخار بھی ہے اورقابل تقلید بھی ۔ اس پر جتنا رشک کیاجائے اوراس کی بارگاہ میں جتنا ہدیہ تشکر پیش کیاجائے کم ہے۔ علاوہ ازیںمذکورہ تحریر سے یہ بھی واضح ہے کہ حضورتاج الشریعہ مدظلہ العالی نہ صر ف فقہ اسلامی کے جزئیات پرکامل دسترس رکھتے ہیں بلکہ رسم افتا کے بھی اصول وقوانین کاپورا پورا درک حاصل ہے۔ تفقہ فی الدین میں مقام بلند کے مالک ہیں، یہی وجہ ہے کہ حضو ر مفتی اعظم ہند رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی ظاہری حیات ہی میں آپ کوفتویٰ نویسی کی عظیم اوراہم ذمہ داری تفویض کردی اورارشادفرمایاکہ :
’’اختر میاں اب گھر میں بیٹھنے کاوقت نہیں ، یہ لوگ جن کی بھیڑ لگی ہوئی ہے کبھی سکون سے بیٹھنے نہیں دیتے اب تم اس کام کوانجام دو ، میں تمہارے سپرد کرتاہوں(اورپھر لوگوں سے مخاطب ہوکرفرمایا) آپ لوگ اب اخترمیاں سلمہ سے رجوع کریں اور انہیں میراقائم مقام اورجانشین جانیں‘‘۔(ماہنامہ استقامت بابت رجب ۱۴۰۳ھ/۱۹۸۳ء ص ۱۵۱)
حضورمفتی اعظم ہند علیہ الرحمتہ والرضوان کے ارشاد کے بعد لوگوں کارجحان حضورتاج الشریعہ کی جانب ہوگیا ، لوگ اپنے مسائل لے کر آپ کی بارگاہ میںآنے لگے اوران کا جواب قرآن وحدیث ، اقوال صحابہ ومجتہدین کی روشنی میں عنایت فرمانے لگے الحمدللہ یہ سلسلۃ الذہب آج بھی جاری ہے اورکیوں نہ ہو جب کہ آپ نے فقہ اسلامی کے ماہرین کی نگرانی اورحضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کی سرپرستی میں رہ کر خوب خوب استفادہ کیاہو، چنانچہ آپ خود فرماتے ہیںکہ ’’میںبچپن سے ہی حضرت (مفتی اعظم) سے داخل سلسلہ ہوگیاہوں جامعہ ازہر سے واپسی کے بعد میں نے اپنی دلچسپی کی بناپرفتویٰ کاکام شروع کیا، شروع شروع میں مفتی سید افضل حسین صاحب علیہ الرحمہ اور دوسرے مفتیان کرام کی نگرانی میں یہ کام کرتارہا اورکبھی کبھی حضرت کی خدمت میں حاضر ہوکر فتویٰ دکھایاکرتاتھا کچھ دنوں کے بعد اس کام میں میری دلچسپی زیادہ بڑھ گئی اورمیں مستقل حضرت کی خدمت میں حاضر ہونے لگا ۔ حضرت کی توجہ سے مختصر مدت میں اس کام میں مجھے وہ فیض حاصل ہوا کہ جو کسی کے پاس مدتوں بیٹھنے سے بھی نہیں ہوتا‘‘۔(ماہنامہ استقامت بابت رجب ۱۴۰۳ھ/۱۹۸۳ء ص ۱۵۱)

تعلیقات زاہرہ اوراس کی خصوصیات

حضورتاج الشریعہ مدظلہ العالی جہاںفقہ اسلامی کے اسرار ورموزپر گہری نظر رکھتے ہیں وہیں علم حدیث میں بھی آپ کو یدطولیٰ حاصل ہے۔ ہم اپنے اس دعویٰ پر آپ کی ’’تعلیقات زاہرہ‘‘ کوپیش کرسکتے ہیں۔( آپ کی یہ تعلیقات اصح الکتب بعد کتاب اللہ صحیح بخاری پر ہیں، لیکن بڑے افسوس کے ساتھ لکھنا پڑرہا ہے کہ یہ گرانقدر تعلیقات باب بنیان الکعبہ پرجاکر تمام ہوگئی ہیں، اے کاش…) اس میں آپ نے نہ صرف احادیث کریمہ کے معانی ومفاہیم کو بیان فرمایا ہے بلکہ اسماء الرجال ، جرح وتعدیل اورفقہی مذاہب کو بہت پرکشش انداز بیان میں پیش کرنے کے ساتھ ساتھ معمولات اہل سنت وجماعت کو احادیث کریمہ اور اقوال واعمال صحابہ وعلماء کی روشنی میں اجاگر کرتے ہوئے بد مذہبوں کے عقائد فاسدہ و نظریات باطلہ کا رد بلیغ فرمایا ہے۔ علاوہ ازیں صحیح بخاری کے محشی محدث احمدعلی سہارنپوری کاعلمی و فکری تعاقب بھی کیاہے۔ چنانچہ چند جھلکیاں آپ بھی ملاحظہ فرمائیں۔
(الف)وہابیہ کے عقائد ونظریات کاابطال:
مسلمانوں میںایک فرقہ ایسا پایاجاتاہے جو معمولات اہل سنت وجماعت کو بدعت قراردے کر ناجائز وحرام کہتاہے اورجملہ بدعات کو بدعت سئیہ گرداننے میں ذرہ برابر جھجھک محسوس نہیں کرتا ہے۔علامہ ازہری صاحب قبلہ حدیث ’’انماا لأ عمال بالنیات‘‘ کے تحت اس وہم و گمان کے تمام تانے بانے بکھیرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
’’لم ینقل عن النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ولاعن الصحابۃ الکرام التلفظ بالنیۃ غیرأن أکثر الصلحا ء قالوا باستحبابہ لجمع العزیمۃ کما تقدم فالتلفظ بالنیۃ بدعۃ حسنۃ من ھناعلم أنہ لاتنحصر البدعۃ فی السیئۃ بل تکون البدعۃ حسنۃ أ یضا فزعم الوھابیۃ أن کل بدعۃ سیئۃ لادلیل علیہ وھوعدوان علی المسلمین عظیم‘‘ (تعلیقات زاہرہ ص/۶۴)
یعنی حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے زبان سے نیت کرنا منقول نہیں ہے اس کے باوجود اکثرصالحین فرماتے ہیں کہ الفاظ نیت کازبان پرجاری کرنامستحب ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ زبان سے نیت کرنا بدعت حسنہ ہے، نیز یہ بھی واضح ہوا کہ بدعت صرف سئیہ ہی نہیںہوتی بلکہ حسنہ بھی ہوتی ہے لہٰذا وہابیہ کایہ گمان کرنا کہ ہربدعت سئیہ ہوتی ہے یہ ایسا گمان ہے جس پرکوئی دلیل نہیں اوران کاہربدعت کو سئیہ قراردینا مسلمانوں پرظلم عظیم ہے۔
اہل سنت و جماعت حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اللہ کی عطاسے دافع البلا اورقاضی الحاجات تصور کرتے ہیں ان کاعقیدہ ہے کہ خدائے قدوس نے اپنے حبیب پاک علیہ الصلوٰۃ و التسلیم کو وہ قدرت وطاقت مرحمت فرمائی ہے کہ وہ ہمار ی مصیبتوں و پریشاینوں میں کام آسکیں۔ ہم پر آنے والے مصائب وشدائد سے ہماری حفاظت فرماسکیں اس لئے وہ اغثنی یارسول اللہ کانعرہ لگاتے ہیں۔ اسی طرح مسلمان اولیائے کرام کے بارے میںیہی عقیدہ رکھتے ہیں اوران کی بارگاہوں میں حاضری کاشرف حاصل کرکے ان سے استمداد واستعانت کرتے ہیں مگرایک فرقہ اہل سنت وجماعت کے اس عقیدہ وعمل کو شرک و بدعت قراردیتاہے اوران کو مشرک و کافر گردانتاہے، علامہ ازہری صاحب قبلہ ’’باب التماس الوضو اذاحانت الصلوٰۃ‘‘ کے تحت اس فرقہ ضالہ کے مزعومات فاسدہ کے پرخچے اڑاتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ :
’’اس میںاس بات پر دلیل ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کوجب کوئی پریشانی ومصیبت لاحق ہوجاتی تھی تو وہ حضور نبی کریم علیہ التحیۃ والتسلیم کی جانب رجوع کرتے تھے اوردفع بلا کے لئے آپ سے توسل کرتے تھے اورآپ کی برکت سے انہیں ان کامقصود و مطلوب حاصل ہوجاتاتھااورحضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ان کی مدد فرماتے اوران کے حوائج ضروریات کو پورا فرماتے۔ صحابہ کرام کے عہد مبارک سے لے کر آج تک مسلمانوں کااس پرعمل ہے ،۔ آج بھی مسلمان اولیائے کرام کی بارگاہ میں اپنی پریشانیاں لے کر حاضر ہوتے ہیں اوران سے استعانت کرتے ہیں اوراللہ تعالیٰ اپنے محبوب بندوں کی برکت سے ان کی مصیبتوں کودورفرمادیتاہے۔ یہ شرک وبدعت نہیں ہے جیسا کہ وہابیہ مسلمانوں کو متہم کرتے ہیں بلکہ یہ اس توسل کے قبیل سے ہے جس پر عہد رسالت سے لے کرآج تک کے مسلمانوں کااتفاق ہے، رہ گیا وہابیوں کا امت مسلمہ کو مشرک کہنا تواس سے کوئی بھی خارج نہیں ہوسکتا،یہاں تک کہ وہ خود بھی اس حکم شرک سے بچ نہیںسکتے‘‘۔(تعلیقات زاہرہ، ص/۷۰، ترجمہ ملخصاً)

(ب) جرح و تعدیل میں مہارت کی ایک جھلک:
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الاذان باب کم بین الاذان والاقامہ میں دو حدیثوں کی تخریج کی ہے جن سے شوافع اس بات پر استدلال کرتے ہیں کہ نماز مغرب سے پیشتر دورکعت نمازاداکرنا مندوب ہے، جب کہ احناف ،امام مالک اوربہت سے سلف صالحین اس کاانکار کرتے ہیں۔ اس باب کے تحت حضور تاج الشریعہ مدظلہ العالی نے جو علمی و فنی ابحاث سپردقرطاس کئے ہیں وہ آپ کے تبحر علمی پربرہان قاطع ہیں۔آپ نے سند حدیث پرایسا محدثانہ کلام فرمایا ہے کہ اسے پڑھ کر دل عش عش کرنے لگتاہے۔ چنانچہ ایک حدیث پاک میں جس میں صراحت ہے کہ نماز مغرب سے قبل کوئی نماز نہیں ہے اس کودارقطنی اوربیہقی نے اپنی ’’سنن‘‘ میںذکرفرمایا ہے اورامام بزار نے بھی اپنی ’’مسند‘‘ میں اس کی تخریج کی ہے۔ اس کی سندمیں ایک راوی حیان بن عبیداللہ العدوی ہیںجن کے بارے میں امام بزار فرماتے ہیں :’’ وھور جل مشھور من أ ھل البصرۃ لابأس بہ‘‘ اورامام بیہقی فرماتے ہیں :’’أخطأ فیہ حیان بن عبیداللہ فی الاسناد والمتن جمیعاً ‘‘ اورابن الجوزی ’’موضوعات ‘‘ میں ذکرکرنے کے بعد فلاس کایہ قول نقل کرتے ہیں کہ ’’کان حیان ھذا کذاباً، اس پر علامہ ازہری صاحب قبلہ ناقدانہ کلام کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
’’امام بزار کاحیان بن عبیداللہ العدوی کے بارے میں یہ کہنا کہ ’’انہ رجل مشھور لابأس بہ‘‘یعنی وہ مشہور راوی ہیں ان کی روایت میں کوئی حرج نہیں، اس کلام سے کم از کم اتناضرور سمجھ میں آتا ہے کہ یہ راوی آپ کے نزدیک ثقہ ہے ۔ اوردارقطنی کے حاشیہ میں ہے کہ علامہ بیہقی نے ’مجمع الزوائد‘‘ میں ان کے بارے میں ارشادفرمایا ــ’’لکنہ اختلط وذکرہ ابن عدی فی الضعفاء‘‘ (لیکن وہ اختلاط کے شکار ہوگئے اورابن عدی نے ان کو ــ’’الضعفا ‘‘ میں ذکر کیا) رہ گیا ابن الجوزی کاان کے حق فلاس کا قول نقل کرناتو واضح رہے کہ فلاس نے جس کو کذاب کہاہے وہ حیان بن عبداللہ ابوجبلہ الدارمی ہے اوریہ حیان بن عبیداللہ ابوزہیر البصری ہیں ان دونوں کوعلامہ ذہبی نے ’’میزان الاعتدال‘‘ میںذکرکیاہے اوربصری کے ترجمہ میں کہا ـ:’’قال البخاری ذ کر الصلت عنہ الاختلاط وقال أبوحاتم:صدوق وقال اسحاق بن راھویہ : کان رجل صدوق۔ وذکرہ ابن حبان فی الثقات وقال ابن حزم: مجھول فلم یصب‘‘ امام بخاری نے فرمایا کہ صلت نے ان کے اختلاط کو ذکر کیااورابوحاتم اوراسحاق بن راہویہ نے صدوق کہا، ابن حبان نے اپنی کتاب ’’الثقات‘‘ میں ذکر کیااورابن حزم نے مجہول کہا مگراچھا نہیں کیا‘‘۔ (تعلیقات زاہرہ۔ ص ۷۹ ترجمہ ملخصاً)
علامہ ازہری صاحب قبلہ نے امام بیہقی کابہت تفصیلی جواب دیا ہے ، چوں کہ یہاں اس کی گنجائش نہیں اس لئے اس سے صر ف نظر کرتاہوں۔

محدث سہارنپوری کاعلمی محاسبہ:
صحیح بخاری پر محدث شہیر علامہ احمد علی سہارنپوری نے بڑی دقت نظر سے حاشیہ آرائی کی ہے جو ان کے وسیع المطالعہ ہونے کابین ثبوت ہے تاہم بعض مقامات پر کوتاہیاں راہ پاگئی ہیں جیسے کہ امام بخاری نے ’’باب العلم قبل القول والعمل‘‘ میں حدیث : ’’من یرد اللہ بہ خیر یفقھہٗ فی الدین وانما العلم بالتعلم‘‘ کو درج کیا ہے۔ اس حدیث کے دوسرے جز ’’انما العلم بالتعلم‘‘ کے بارے میں محدث سہارنپور علامہ کرمانی کے حوالہ سے تحریر کرتے ہیں ’’وھذا یحتمل أن یکون من کلام البخاری‘‘ (بخاری شریف ۱/۱۶ حاشیہ ۹) یعنی اس جملہ کے سلسلہ میں احتمال یہ ہے کہ یہ کلام رسول نہ ہو بلکہ امام بخاری کاقول ہو۔ انہوں نے اس کو بغیر کسی تنقید و تبصرہ کے باقی رکھاجس سے سمجھ میں آتاہے کہ انہوں نے علامہ کرمانی کے نظریہ سے اتحاد واتفاق کرلیاہے۔ اس لئے تاج الشریعہ دامت برکاتہم القدسیہ ان کا علمی محاسبہ کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
’’بل ھوحدیث مرفوع أور دہ فی مجمع الزوائد العلامۃ نورالدین علی بن أ بی بکر الھثیمی والشیخ ابن حجر العسقلانی فی فتح الباری قال : أور دہ ابن أبی عاصم والطبرانی من حدیث معاویۃ أیضا بلفظ:’’یاایھالناس تعلمو ا انما العلم بالتعلم والفقہ بالتفقہ ومن یرداللہ بہ خیر ایفقھہ فی الدین‘‘اسنادہ حسن الاأن فیہ مبھما اعتضد بمجیٔہ من وجہ آخر وروی البزار نحوہ من حدیث ابن مسعود موقوفا ، ورواہ أبونعیم الأصبھانی مرفوعا و فی الباب عن أبی الدردا وغیر ھم ، فلایغتربقول من جلعہ من کلام البخاری‘‘۔(تعلیقات زاہرہ ص/۶۹)
یعنی انما العلم بالتعلم کے بارے میں یہ کہنا کہ یہ امام بخاری کاکلام ہے صحیح نہیں، کیوں کہ یہ حدیث مرفوع ہے جس کوعلامہ نورالدین علی بن ابی بکرالہثیمی نے ’’مجمع الزوائد‘‘ میں ذکر کیا ہے اورشیخ ابن حجر عسقلانی نے ’’فتح الباری‘‘ میں فرمایا کہ اس کو ابن ابی عاصم اورطبرانی نے اس لفظ کے ساتھ یاایھالناس۔۔۔۔ الخ کاذکر کیا ہے اور اس کی سند حسن ہے، مگر اس میں کچھ ابہام ہے جو دوسری سند سے مروی ہوجانے کے باعث مندفع ہوجاتاہے اوراسی کے مثل امام بزار نے ابن مسعود سے موقوفا اورابونعیم سے الاصبھانی نے مرفوعار وایت کی ہے اوراس باب میں حضرت ابودرداء وغیرہ سے بھی مروی ہے لہٰذا ان لوگوں کے کلام سے دھوکہ نہیں کھانا چاہئے جنہوں نے اسے امام بخاری کاکلام قرار دیا ۔
(د)محدث سہارنپوری کافکری تعاقبـ:
علامہ ازہری صاحب قبلہ نے نہ صرف محدثـ سہارنپوری کاعلمی محاسبہ فرمایا ہے بلکہ ان کافکری تعاقب بھی کیا ہے چنانچہ ’’باب کراھیۃ التطاول علی الرقیق وقولہ عبدی وأمتی‘‘ پر طویل حاشیہ نگاری کے بعد محدث سہارنپوری نے آخر میں لکھا ہے:
’’فعلی ھٰذا الاینبغی التسمیۃ بنحو عبدالرسول وعبدالنبی ونحوذلک مما یضاف العبد الی غیراللہ تعالیٰ‘‘۔ (بخاری شریف ۱/۳۴۶حاشیہ ۹)
یعنی عبدالرسول اورعبدالنبی نام رکھنا مناسب نہیں ہے اورایسے ہی ہروہ اسم میں لفظ ’’عبد‘‘ کی اضافت غیراللہ کی طرف ہو مناسب نہیں ہے ۔ محشی کی یہ بولی اس فرقہ کے افکار سے میل کھاتی نظرآرہی ہے جس نے عبدالرسول اورعبدالنبی نام رکھنے کو شرک ٹھہرایا ہے اس لئے علامہ ازہری صاحب قبلہ ان کاتعاقب کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
’’ أفصح المحشی عن توھبہ ھنا حیث منع التسمیۃ بعبد الرسول وعبد النبی وکان من الواجب علیہ أ ن یجیب عن الآیات و الأحادیث التی وردفیھا اضافۃ العبد الی غیراللہ تعالیٰ وسبحانہ‘‘۔(تعلیقات زاہرہ ص /۱۰۷)
یعنی محشی نے اپنی وہابیت کویہاں پر ظاہر کیا ، اس لئے کہ انہوں نے عبدالرسول اورعبدالنبی نام رکھنے سے منع کیا، جب کہ ان پر واجب ضروری تھاکہ وہ ان آیات کریمہ اوراحادیث شریفہ کی تاویل وتوجیہ کرتے ہیں جن میں لفظ ’’عبد‘‘ کی اضافت غیراللہ کی طرف کی گئی ہے (مگرانہوں نے ایسانہیں کیا)اس کے بعدتاج الشریعہ مدظلہ العالی نے ان آیات واحادیث کو قلم بند فرمایا اوراعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں قادری بریلوی علیہ الرحمہ کے مبسوط فتویٰ کو سپرد قرطاس کیا جس میں متعدد دلائل وبراہین سے اس مسئلہ کو آپ نے روز روشن کی طرح عیاں کیا ہے جس کوپڑھنے کے بعد شکوک وشبہات کے بادل چھٹ جاتے ہیں اورطالب حق و صداقت کے لئے ہدایت کے دروازے واہوجاتے ہیں۔
یہ چند جھلکیاں میں نے’’تعلیقات زاہرہ‘‘ سے اپنے قارئین کے روبرو پیش کرنے کی سعادت حاصل کی ہے جن سے تاج الشریعہ علامہ ازہری صاحب قبلہ دامت برکاتہم القدسیہ کی عبقری شخصیت نمایاں ہوتی نظر آتی ہے ۔ دعاہے کہ مولا ئے قدیر اپنے حبیب پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کے صدقہ و طفیل ہمیں مسلک حق پر قائم و دائم رکھے اوراعلیٰ حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کے مشن کوآگے بڑھانے کی توفیق رفیق مرحمت فرمائے۔ آمین۔

 

Menu