تاج الشریعہ اپنی تصنیف ’’ تحقیق آزر ‘‘ کے آئینے میں

مولانا فہیم ثقلینی ، جامعہ ازھر ، مصر


ارباب علم و دانش اوراصحاب فکر و نظر کااس بات پر اتفاق ہے کہ نسل انسانی کی سب سے پہلی تربیت گاہ اور مدرسہ ماں کی آغوش اورصحن خانہ ہے۔ اگرگھر کاماحول دین دار اورمذہبی ہے تو بچہ بھی متدین اورمذہبی سانچے میں ڈھلاہوگا اوراگرصحن خانہ مادرو پدر مغربی تہذیب کاعلمبردار ہے تو بچہ بھی مغربی تہذیب و ثقافت سے آلودہ ہوگااوراگروالدین دہریت زدہ ہیں تو بچہ خدا ترس ہونا بہت مشکل ہے اوراگربچہ مجددوقت کے صحن خانہ، حجۃ الاسلام کی شفقت خاص، مفتی اعظم کی بارگاہ کا تربیت یافتہ ہوتومفتی الدیار الہندیہ کیوں نہ ہو۔
تاج الشریعہ حضرت العلام مولانا الشیخ محمد اسماعیل المعروف بہ اختررضاخاں حنفی قادری بریلوی، فاضل جامعۃ الازہر الشریف و مفتی الدیار لہندیۃ حفظہ اللہ تعالیٰ کی صورت و سیرت کے تعلق سے حضرت مولانا مفتی محمدقاضی شہید عالم رضوی ، استاذ جامعہ نوریہ رضویہ بریلی شریف رقم طراز ہیں۔’’ولی وہ جسے دیکھ کر خدایاد آجائے ‘‘ یہ ایک مشہور مقولہ(۱) ہے اور حضور تاج الشریعہ اس مقولہ کی منہ بولتی تصویر ہیں۔ نورونکہت برستے ہوئے حسین چہرے پر ایسی دلکشی وبانکپن ہے جس پر سج دھج اور بنائو سنگار کی ہزاروں رعنائیاں نثار، اگرلاکھوں کے مجمع میں جلوہ بار ہوں تو اہل جمال کی آنکھیں خیرہ ہوجائیں، آپ علم ظاہری کاٹھاٹھیں مارتاہوا سمندر اورعلم باطنی کے کوہ گراں ہیںکشورعلم و فضل کے شہنشاہ اوراقلیم روحانیت کے تاجدار ہیں‘‘۔ (۲)
حضرت تاج الشریعہ ایک ہمہ جہت شخصیت کے حامل ہیں اورہر جہت سے ممتاز اورنمایاں نظر آتے ہیں آپ بیک وقت مدرس ومحدث،محقق و مفتی، عالم وفاضل ، فقیہ ومفسر، مبلغ وداعی، مرشد و رہنما ، شیخ وقت اورعارف کامل ہیں۔
راقم الحروف کے پیش نظر ایک کتاب ہے جو دو رسالوں پر مشتمل ہے ۔ پہلارسالہ سیدنا اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں قادری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ’’شمول الاسلام لاصول الرسول الکرام‘‘ ہے۔ دوسرا رسالہ حضرت تاج الشریعہ کا ’’تحقیق أ ن أبا سیدنا ابراھیم علیہ السلام تارح لاآزر ‘‘ ہے۔دونوں رسالے عربی زبان میں ہیں، شمول الاسلام درحقیقت اردو میں ہے جس کاعربی ترجمہ حضرت تاج الشریعہ نے کیا ہے اوردوسرا رسالہ مستقل عربی تصنیف و تحقیق ہے۔ دونوں رسالوں کی تفصیل کچھ اس طرح ہے۔
از ابتداتا صفحہ۷’’مقدمۃ الکتاب ازخالد ہندی‘‘ ہے، صفحہ ۸ سے ۱۰ تک ’’حیات تاج الشریعہ از خالد ہندی‘‘ہے۔ صفحہ ۱۱ سے ۱۵ تک ’’حیات اعلیٰ حضرت ‘‘ ہے، صفحہ ۱۷ سے ۶۵ تک ’’شمول الاسلام لاصول الرسول الکرام‘‘ہے۔صفحہ ۶۷ سے ۹۴ تک ’’تحقیق أن أبا سیدنا ابراھیم علیہ السلام تارح لاآزر‘‘ ہے اورصفحہ ۹۵ سے ۹۷ تک دونوں رسالوں کی ’’تلخیص از محدث کبیر حضرت علامہ ضیاء المصطفیٰ صاحب‘‘ ہے، صفحہ ۹۸ سے ۱۱۹ تک ’’آٹھ علماء عرب و عجم کی تقریظات ‘‘ ہیں صفحہ ۱۲۰ سے ۱۲۵ تک ۶۲ ’’مصادر و مراجع‘‘ کی فہرست ہے ، صفحہ ۱۲۶ سے ۱۲۸ تک دونوں رسالوں کی فہرست ہے۔
کتاب کی طباعت اورنشرواشاعت کے متعلق کسی طرح کی کوئی بھی تفصیل نہیں ہے ہند اوربیرون ہند کسی مکتبہ یاناشر کی کوئی صراحت نہیں ہے صرف’اشراف علی طبع الکتاب‘‘ کی حیثیت سے ’’شہزادہ تاج الشریعہ مولانا محمد عسجد رضاخاں قادری‘‘ کانام مرقوم ہے۔
امام احمدرضا سے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کریمین کے ایمان اوردخول اسلام کے تعلق سے استفتاء ہواتو آپ نے اس کاجواب بنام ’’شمول الاسلام لاصول الرسول الکرام‘‘ تحریر فرمایا جس میں قرآن مقدس کی دس آیات ، متعدد احادیث شریفہ اورپینتیس اقوال ائمہ کرام سے یہ ثابت فرمایا کہ آپ کے والدین کریمین حضرت عبداللہ وحضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما موحد و مسلمان تھے اورکتاب و سنت کی روشنی میں دلائل و براہین سے معترضین و مخالفین کے تمام شکوک و شبہات کاقلع قمع کردیا۔ حضرت تاج الشریعہ نے امام احمد رضاکے اس اردو رسالہ کو عربی کاجامہ پہنایا ہے آپ نے اردو کوعربی میںاس قدرحسن وخوبی سے منتقل کیا ہے کہ مستقل عربی تصنیف کااحساس ہوتاہے اس بات کاقطعاً احساس نہیں ہوتا کہ ہم کسی اردو ترجمہ کامطالعہ کررہے ہیں آپ کے اس عربی ترجمہ سے علمائے عرب و عجم نے متاثر ہوکر زبردست تاثرات کااظہار کیاہے اورآپ کی عربی دانی کی مدح سرائی میں رطب اللسان ہیں جیسا کہ آپ آئندہ سطور میں ملاحظہ فرمائیں گے۔ (انشاء اللہ تعالیٰ)
اسی طرح ایک دوسرا مسئلہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کون ہیں آزر یا تارح؟ اس سلسلہ میں ائمہ کرام کے دومذہب ہیں پہلا مذہب جمہور ائمہ اہلسنت وجماعت کا ہے اوروہی حق اورراجح ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کانام ’’تارح‘‘ ہے۔دوسرا مذہب بعض علماء کرام کاہے اوروہ یہ ہے کہ آپ کے والد کانام ’’آزر‘‘ ہے، انہیں بعض علماء کرام میں ماضی قریب کے ایک مشہور ومعروف مصری فاضل شیخ احمد بن شاکر‘‘ بھی ہیں۔ اس سلسلہ میں شیخ شاکر کاموقف و مذہب یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کانام ’’آزر‘‘ ہے۔
حضرت تاج الشریعہ نے شیخ شاکر کے اسی موقف اور تحقیق کے رد میںاپنا مایہ ناز رسالہ ’’تحقیق أن أبا سیدنا ابراھیم علیہ السلام تارح لاآزر‘‘ تحریر کیاہے اس مقالہ میںاسی تحقیقی رسالہ کے متعلق کچھ کلمات سپرد قرطاس کرنے کی کوشش کی ہے۔اورحضرت تاج الشریعہ کے طرز تحقیق ، اسلوب نگارش اورعلوم حدیث پر مہارت تامہ کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس رسالہ پر کچھ تحریر کرنے سے قبل شیخ شاکر کی مشہور ومعروف علمی وادبی شخصیت کاجائزہ لینابھی ضروری ہے جس سے قارئین کو یہ سمجھنے میںدقت نہ ہو کہ تاج الشریعہ حضر ت علامہ ازہری میاں صاحب قبلہ نے کس شخصیت کے متعلق قلم اٹھایاہے اورحق گوئی و بے باکی کاثبوت دیا ہے اورکس طرح شیخ شاکر کی حدیث دانی کی خبر گیری کی ہے۔
شیخ شاکر محدثین مصر میں ایک ممتاز اورمشہورومعروف شخصیت کانام ہے اورمصر میں محتاج تعارف نہیں ۔ شیخ شاکر ۲۹؍ جمادی الآخر ۱۳۰۹ھ مطابق ۲۹؍ جنوری ۱۸۹۲ء کوبروز جمعہ قاہرہ میں تولد ہوئے۔ معہد الأزہر اسکندریہ میں ثانویہ کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد جامعہ ازہر شریف قاہرہ میں داخل ہوئے ، ۱۳۳۶ھ مطابق ۱۹۱۷ء کو ’’شہادۃ العالمیۃ ‘‘ حاصل کی ۔ مزید حصول علم حدیث کے لئے مختلف بلادو امصار مثلاً مغرب ، جزائر، عراق اورسعودیہ عربیہ کاسفر کیااورمحدثین وقت سے درس و سند حدیث حاصل کی۔
شیخؒ شاکر نے ’’مسند احمد بن حنبل‘‘ کی پندرہ جلدوں میں تحقیق کی ہے امام ابن کثیر کی کتاب ’’اختصار علوم الحدیث‘‘ کی شرح بنام’’الباعث الحثیث‘‘ کی شرح شیخ شاکر کی مشہو ر تصنیفات ہیں۔ اس کے علاوہ متعدد کتب احادیث پر تعلیقات ، حواشی ،تحقیقات اورشروحات شیخ شاکر کی اہم تصنیفات ہیں جن کی تعداد تقریبا ً ساٹھ ہے۔
شیخ شاکر کاانتقال ۲۶؍ذی قعدہ ۱۳۷۷ھ مطابق جون ۱۹۵۸ء کو ہوا۔(۳)
حضرت تاج الشریعہ نے سیدنا امام احمد رضا رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی علمی یادگار’’دارالعلوم منظراسلام بریلی شریف سے ’’شھادۃ الفضیلۃ‘‘ حاصل کرنے کے بعد ۱۹۶۳ء میں مصر کاسفر کیا اورعالم اسلام کی عظیم الشان یونیورسٹی ’’جامعۃ الازھر الشریف قاھرہ‘‘ میںداخلہ لیا،اس قدیم علمی دانش گاہ کو اہل اسلام بطور تعظیم ’’کعبۃ العلم والعلماء ‘‘ اور ’’منارۃ العلم‘‘ کے نام سے بھی یاد کرتے ہیں۔حضرت تاج الشریعہ نے جب سرزمین مصر پرقدم رکھا اس وقت شیخ شاکر کے انتقال کو تقریباً پانچ سال ہوچکے تھے، شیخ شاکر کی تحقیقات وتصنیفات اورعلمی خدمات کارعب و دبدبہ عوام وخواص کی زبان زد تھا اورشیخ شاکر کی حدیث دانی کا چرچہ عالم اسلام میں ہر چہار جانب تھا، شیخ شاکر کے مداح اورتلامذہ تعظیما ’’امام اہل الحدیث فی عصرہ‘‘ کے لقب سے یاد کرتے تھے، یہ سب حضر ت تاج الشریعہ بھی سن اوردیکھ چکے تھے اورشیخ شاکر کی شخصیت سے اچھی طرح واقف تھے، اورآپ نے یہ رسالہ ابھی ماضی قریب میں ہی تصنیف کیاہے جیسا کہ آپ نے راقم الحروف سے فرمایا۔
’’کہ ابھی ۲۰۰۰ء کے بعد امام ابومنصور موہوب بن ابوطاہر احمد بن محمد بن خضرالمعروف ’’امام جوالیقی‘‘ لغوی بغدادی (ولادت ۴۶۶ھ وفات ۵۴۹ھ بغداد) کی کتاب ’’معرب من الکلام الاعجمی علی حروف المعجم‘‘ پرنظر پڑی جس پر شیخ احمد شاکر کی تعلیق ہے اس کی تعلیق میں شیخ شاکر نے یہ لکھا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کانام’’ آزر‘‘ ہے میں نے اس تعلیق کے رد میںاپنارسالہ’’تحقیق ان اباسیدنا ابراہیم علیہ السلام تارح لاآزر‘‘لکھا (یہ مذکورہ بیان حضرت تاج الشریعہ نے راقم الحروف سے بیان فرمایا)
ایک ضروری بات :- یہ ذہن نشیں رہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کانام ’’تارح‘‘ ہے اوراگر’’آزر‘‘ کو باپ مانا جائے تو یہ لازم آئے گا کہ آپ کے والد مشرک تھے حالانکہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر حضرت آدم علیہ السلام تک پوری نسل میں کوئی بھی شخص مشرک نہیں بلکہ پوری نسل میں سب کے سب موحد تھے اور’’آزر‘‘آپ کے چچا کانام ہے اوروہ مشرک تھا، انتہی۔
امام جوالیقی کی کتاب معرب کی تعلیق میں شیخ شاکر نے یہ ثابت کرنے کی سعی ناکام کی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کانام ’’آزر‘‘ ہے جیسا کہ شیخ شاکر رقم طراز ہیں کہ ’’أن آزر کان والد ابراھیم علیہ السلام‘‘ یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کانام آزر ہے۔ شیخ شاکر نے اپنے اس دعوی کی تائید میں کوئی دلیل قلمبند نہیں کی۔ حضرت تاج الشریعہ نے اس دعویٰ بلادلیل کو چار دلائل سے غلط ثابت کیاہے۔
(۱) امام ابن ابی حاتم بسند ضعیف حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے قول باری تعالیٰ ’’واذ قال ابراھیم لأبیہ آزر‘‘ (۴) کے متعلق روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کانام ’’آزر‘‘ نہیں بلکہ ’’تارح‘‘ تھا۔
(۲) امام ابن ابی شیبہ اورامام ابن المنذ راور امام بن ابی حاتم بطریق صحیح امام مجاہد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کانام ’’آزر‘‘نہیں تھا۔
(۳) امام بن المنذر بسند صحیح حضرت امام بن جریح سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے آیت کریمہ ’’واذ قال ابراھیم لأبیہ آزر‘‘ کے متعلق فرمایا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والدکا نام آزر نہیں تھا بلکہ آپ کے والد کانام ’’تیرح یاتارح بن شاروخ بن ناخور بن فالخ یافالغ ہے۔
(۴)امام ابن ابی حاتم بسند صحیح امام سدی سے روایت کرتے ہیں کہ ان سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کے متعلق سوال کیاگیاتو آ پ نے جواب دیاکہ آپ کے والد کانام ’’تارح‘‘ تھااوراہل عرب ’’عم‘‘(چچا) کو بھی ’’اب‘‘(باپ) کہتے ہیں(۵)۔
ملاحظہ: حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ اہل اسلام’’تارح‘‘ کہتے ہیں اوراہل کتاب ’’تارخ‘‘ کہتے ہیں۔ اورکتب الانساب میں پورا نسب نامہ اس طرح ہے۔ سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام بن تارح یاتیرح یاتارخ بن شاروخ بن ناخور بن فالخ یافالغ۔
شیخ شاکر نے اپنی تائید میں کہا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کانام تارح یا تارخ ہے یہ غلط ہے اس پر کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔
حضر ت تاج الشریعہ نے شیخ شاکر کے اس دعویٰ بلادلیل کو مثل تار عنکبوت ثابت کردکھایااوراس ضعیف رائے کانہایت حسین انداز میں آپریشن کیاہے اورقرآن مجید کی تین آیتوں سے نہایت شاندار محققانہ اورشرعی استدلال پیش کیا کہ یقینا آپ کے قول پر کسی طرح کی کوئی دلیل موجود نہیں اورہماراموقف مندرجہ ذیل تین آیتوں سے مؤید اورمبرھن ہے۔
آیت نمبر۱:-

وَ مَا کَانَ اسۡتِغۡفَارُ اِبۡرٰہِیۡمَ لِاَبِیۡہِ اِلَّا عَنۡ مَّوۡعِدَۃٍ وَّعَدَہَاۤ اِیَّاہُ ۚ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہٗۤ اَنَّہٗ عَدُوٌّ لِّلّٰہِ تَبَرَّاَ مِنۡہُ ؕ(۶)
آیت نمبر ۲:-

رَبَّنَاۤ اِنِّیۡۤ اَسۡکَنۡتُ مِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ بِوَادٍ غَیۡرِ ذِیۡ زَرۡعٍ (۷)
آیت نمبر۳:-

رَبَّنَا اغۡفِرۡ لِیۡ وَ لِوَالِدَیَّ وَ لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ یَوۡمَ یَقُوۡمُ الۡحِسَابُ ﴿٪۴۱﴾(۸)
حضرت تاج الشریعہ نے مذکورہ بالا نصوص قطعیہ پیش کرنے کے بعد تین سوال وارد کئے ہیں اورنہایت حسین وجمیل مفصل بحث وتمحیص اورتحقیق پیش کی ہے قرآن وسنت کی روشنی میں سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی حیات مبارکہ کے تمام پہلوئوں کواجاگرکیا ہے ، حران، شام اورمکہ کی طرف ہجرت تاریخ کی روشنی میں پیش کرکے آزر اورتارح کے موت کی تعین کی ہے کہ آزر کاانتقال کب ہوا اورتارح کب فوت ہوئے اس تفصیلی مناقشہ کے بعدآٹھ علمی وشرعی نتائج اخذ کئے ہیں جو صرف حضرت تاج الشریعہ کے قلم کاہی حصہ ہے۔
۱-حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کانام ’’تارح‘‘ ہے۔
۲-آپ کے والد کانام’’آزر‘‘نہیں ہے۔
۳-آپ کے والدتارح کاانتقال آپ کے حران ہجرت کرنے کے بعد ہوگیاتھا۔
۴-آیت نمبر ۳میں جس بات کے لئے استغفار وارد ہے وہ ہجرت کے بعد ہے اورتارح کے لئے ہے۔
۵-آیت نمبر ۱ میں جس باپ سے برأت کااظہارہے وہاں باپ سے چچا’’آزر‘‘مراد ہے نہ کہ آپ کے حقیقی والد تارح۔
۶-آزر آپ کاحقیقی باپ نہیں بلکہ چچا ہے اورقرآن میں جہاں جہاں آزر کو باپ کہاگیا ہے وہاں باپ سے مراد چچا ہے۔
۷-جمہور ائمہ کرام جن میں صحابہ کرام وتابعین عظام رضی اللہ عنہم ہیں کہ نزدیک آپ کے والد ’’تارح‘‘ ہیں۔
۸-حدیث ضعیف جب کثرت طرق سے مروی ہوتی ہے تو ترقی کرکے درجہ حسن کو پہنچ جاتی ہے اوربسا اوقات درجہ صحیح کو بھی پہنچ جاتی ہے اوریہ قول آپ کے والد کانام ’’تارح‘‘ ہے یہ قول قوی ہے ضعیف نہیں ہے۔
لہٰذا مذکورہ بالا دلائل اورمناقشہ سے شیخ شاکر کاوہم زائل ہوگیا کہ یہ قول بلادلیل ہے اورامام فخرالدین رازی کایہ کہنا ’’ھذا قول ضعیف‘‘ کابھی اندفاع ہوگیا۔
شیخ شاکر کا یہ دعویٰ ہے کہ اگریہ کہاجائے کہ ابراہیم علیہ السلام کے والد کانام ’’آزر‘‘نہیں ہے بلکہ ’’تارح‘‘ ہے تو اس قول سے نص قطعی ’’وَ اِذۡ قَالَ اِبۡرٰہِیۡمُ لِاَبِیۡہِ اٰزَرَ ‘‘ کی مخالفت لازم آئے گی۔
حضرت تاج الشریعہ نے شیخ شاکر کے اس قول ضعیف کی تردید قرآن وسنت اورمتعدد عربی لغات اوراہل عرب کے استعمال کلمات سے کی ہے ۔ جس کاخلاصہ یہ ہے کہ اہل عرب ’’عم‘‘ (چچا)کو’’اب‘‘(باپ) بھی کہتے ہیں اوراس آیت کریمہ میں ’’اب‘‘ سے ’’عم ‘‘مراد ہے۔ یہی مذہب سیدنا حضرت عبداللہ بن عباس ، امام مجاہد، امام ابن حریج، امام سدی اورسلیمان بن صرد کا ہے۔
شیخ شاکر اپنی تعلیق و تحقیق میں لکھتے ہیں کہ ’’اما مانسب الی مجاھد ان آزر اسم صنم…فغیر صحیح…الخ‘‘ یعنی آزر ایک صنم کانام ہے اس قول کوامام مجاہد کی جانب منسوب کرناغلط ہے گزشتہ کی طرح اس قول میں بھی شیخ شاکر نے کوئی دلیل جیسے کسی امام کاقول ، کوئی اثر وخبر پیش نہیں کی ہے۔
شیخ شاکر کے اس قول کی تردید میں محدث وقت حضرت تاج الشریعہ نے چارآثار نقل کئے ہیں اورشاندار جواب دیا ہے۔
۱-امام محمد بن حمید اورامام سفیان بن وکیع ، جریر سے اوروہ بواسطہ لیث امام مجاہد سے روایت کرتے ہیں کہ امام مجاہد نے کہاکہ آزر ابراہیم علیہ السلام کے والد کانام نہ تھا۔
۲-امام بن جریرطبری نے کہاکہ مجھ سے حارث نے بیان کہ وہ بواسطہ ثوری ابن ابی نجیح سے کہ امام مجاہد نے قول باری تعالیٰ ’’وَ اِذۡ قَالَ اِبۡرٰہِیۡمُ لِاَبِیۡہِ اٰزَرَ ‘‘ کے متعلق کہا کہ آزر ابراہیم علیہ السلام کے والد کانام نہ تھا۔ بلکہ آزر ایک صنم کانام تھا۔
۳-امام ابن جریر طبری نے کہاکہ ہم سے ابن وکیع نے بیان کیاانہوں نے یحی بن یمان کے واسطہ سے سفیان سے، اوروہ ابن ابی نجیح کے ذریعہ امام مجاہد سے کہ امام مجاہد نے کہاکہ آزار ایک صنم کانام ہے۔
۴-امام ابن جریرطبری سے محمد بن حسین نے بیان کیا، انہوں نے بواسطہ احمد بن مفضل اسباط سے اسباط نے کہاکہ امام سدی نے ’’وَ اِذۡ قَالَ اِبۡرٰہِیۡمُ لِاَبِیۡہِ اٰزَرَ ‘‘ کے متعلق کہاکہ آزر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کانام نہیں ہے بلکہ آزر ایک صنم کانام ہے اورآپ کے والد کانام ’’تارح‘‘ ہے۔ (۹)
شیخ شاکر اپنی تحقیق کی تائید میں ایک قول ضعیف کاسہارا لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ تمام آثار واحادیث جن میں یہ ذکر ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کانام ’’تارح‘‘ ہے وہ سب ضعیف ہیں۔ اس قول کے جواب میں حضرت تاج الشریعہ فرماتے ہیں ’’والحدیث الضعیف یتقوی بکثرۃ الطرق ویترقی الی درجۃ الحسن‘‘ یعنی حدیث ضعیف کثرت طرق سے قوی ہوکر درجہ حسن کو پہنچ جاتی ہے اورحضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کانام ’’تارح‘‘ ہونے کے متعلق بے شمار آثار واحادیث موجود ہیں لہٰذا تمام آثار واحادیث ضعیف نہیں بلکہ حسن کے مرتبہ میں ہے جیسا کہ اہل علم پر ظاہر و باہر ہے۔ حضرت تاج الشریعہ نے اپنے اس قول کی تائید میں سیدنا اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری کی کتاب مستطاب’’الھاد الکاف فی حکم الضعاف‘‘ سے متعدد حوالہ جات اوراقوال ائمہ کرام نقل کئے ہیں۔ اس کے علاوہ نابغۂ روزگار مسلم الثبوت ائمہ کرام محدثین عظام کی متعدد کتب سے اپنے موقف کی تائید میں اقوال پیش کئے ہیں۔ مثلاً(۱)مرقاہ المفاتیح فی شرح مشکوۃ المصابیح، لامام علی قاری (۲)موضوعات کبیرلامام علی قاری(۳) فتح القدیر، لامام کمال ابن ھمام (۴)میزان الشریعۃ الکبری لامام عبدالوہاب شعرانی (۵)التعقبات علی الموضوعات لامام جلال الدین سیوطی،(۶)المقدمۃ فی علوم الحدیث لامام ابوعمرو بن الصلاح (۷)المقدمۃ الجرجانیۃ لامام جرجانی (۸)فتح المغیث بشرح الفیۃ الحدیث لامام زین الدین عراقی، (۹)تقریب النووی لامام نووی شارح صحیح مسلم (۱۰) تدریب الراوی لامام جلال ا لدین سیوطی(علیہم الرحمۃ والرضوان)
اس کے علاوہ امام ابن مہدی ، امام عبداللہ بن مبارک، امام احمدبن حنبل رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے اقوال و نظریات اوران کی آراء مذہب اہل سنت و جماعت کی تائید میں سپرد قرطاس کی ہیں۔
اس کے علاوہ حضرت تاج الشریعہ نے دیگرجہات سے بھی سیر حاصل بحث کی ہے ، تمام اعتراضات اورشکوک و شبہات کی اچھے طریقے سے خبر گیری کی ہے شیخ احمد محمدشاکر کے تمام دعوے اوراعتراضات و شکوک و شبہات تار عنکبوت سے بھی زیادہ کمزور ثابت کردکھائے ہیں۔ اس تحقیقی رسالہ کے مطالعہ کے بعد قاری یہ اعتراف واقرار کرنے پر مجبور ہوجاتاہے کہ یقینا حضرت تاج الشریعہ مظہر علوم اعلیٰ حضرت، حجۃ الاسلام کے سچے وارث ، مفتی اعظم ہند کے حقیقی علمی وروحانی جانشین اورمفسر اعظم ہند کی علمی یادگاریں ہیں اور صحیح معنی میں ’’قاضی القضاۃ فی الھند‘‘ اور ’’مفتی الدیار الھندیۃ‘‘ کے مستحق ہیں۔ نیز اس رسالہ کو پڑھنے کے بعدیہ بھی معلوم ہوتاہے کہ حضرت تاج الشریعہ مندرجہ ذیل علوم و فنون میں ماہر وکامل ، استاذ مطلق اورامام عصر ہیں، مثلاً علوم قرآن میںآپ اچھی طرح دسترس رکھتے ہیں علم تاریخ میں مہار ت تامہ اورعلم لغت پر اچھی نظر رکھتے ہیں ۔ علوم حدیث میں بالخصوص آپ محدث وقت معلوم ہوتے ہیں فن جرح وتعدیل فن اسماء رجال حدیث ، رواۃ کی توثیق و تضعیف ، طرق حدیث، الفاظ حدیث، اسناد حدیث کااحاطہ تطبیق بین الاحادیث ، معرفت غرائب الاحادیث وغیرہ وغیرہ…
اس کے علاوہ یہ بھی علم ہوتاہے کہ حضرت تاج الشریعہ اوصاف جمیلہ ، خصائل حمیدہ اوراخلاق حسنہ کا پیکر جمیل ہیں مثلا جرح وتعدیل میں مذہبی تعصب کاشکار نہ ہونا بلکہ اعتدال کاراستہ اختیار کرنا اس لئے کہ آج اکثر محدثین وقت کہلوانے والے مذہبی تعصب وعناد کا شکار ہوکر فریق مخالف کی ذاتیات پر حملہ شروع کردیتے ہیں۔ حضرت تا ج الشریعہ کے یہاں ایسا نہیں ہے بلکہ مد مقابل کاعلمی وشرعی محاسبہ کرنا ، فریق ثانی کی توہین و تذلیل کے درپے ہونا، خصم کی ذاتیات پرحملہ نہ کرنا ، معتدل راستہ اختیار کرنا،یہ سب آپ کے ممتاز وصف ہیں، آپ نے اس رسالہ میں مذکورہ قبائح و شنائع سے اجتناب کرتے ہوئے اخلاق حسنہ کادامن پکڑے ہوئے اسوہ ٔرسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر عمل کیاہے اورنہایت علمی دیانت داری کاثبوت پیش کیا ہے اورصحیح معنی میں تحقیق کاحق اداکیا ہے۔
حضرت تاج الشریعہ کی تصنیفات و تحقیقات مختلف علوم وفنون پر مشتمل ہیں آپ کی جس تصنیف کابھی مطالعہ کیاجائے اس میں آپ یگانہ عصر معلوم ہوتے ہیں اورآپ جملہ علوم مروجہ میں ماہروکامل ہیں راقم الحروف اس وقت ’’علوم حدیث‘‘ پر گفتگو کررہا ہے۔ حضرت تاج الشریعہ نے عالم اسلام کی عظیم الشان یونیورسٹی ’’جامعۃ الازھر الشریف قاھرہ مصر‘‘ میں مسلسل تین سال ’’کلیۃ اصول الدین‘‘ میں حدیث وتفسیر کادرس لیا، اپنے وقت کے جید علماء کرام شیخ محمد سماحی و شیخ محمد عبدالغفار استاذ علوم الحدیث کے طالب علم رہے۔ حضر ت تاج الشریعہ نے شرح حدیث میں شرح حدیث نیت ، آثارقیامت، الصحابۃ نجوم الاھتداء‘‘ تحریر کی ہے۔ مفتی اعظم اودھ حضرت علامہ الحاج مولانا مفتی شبیر حسن صاحب رضوی ، شیخ الحدیث الجامعۃ الاسلامیہ روناہی فیض آباد نے بخاری شریف میں حدیث’’انما الاعمال بالنیات‘‘ کے درس میں فرمایاتھا۔
حضرت تاج الشریعہ نے اس حدیث شریف کی نہایت نفیس شرح فرمائی ہے جس میں محدثانہ، صوفیانہ اورنحویانہ گفتگو کے علاوہ رواۃ حدیث، اسناد حدیث ،طرق حدیث اورالفاظ حدیث پر نہایت محققانہ سیر حاصل بحث کی ہے جو حضرت تاج الشریعہ ہی کا حصہ ہے اس کامطالعہ آپ لوگوں کے لئے نہایت مفید ہے۔
حضرت تاج الشریعہ کی علمی شخصیت اور تصنیفات وتالیفات اورتحقیقات سے عالم اسلام فیضیاب ہورہا ہے یہ فضل الٰہی ، کرم مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اورفیضان رضاہی ہے کہ آپ کی کتاب صرف ہندوپاک کے علمی حلقوں تک محدود نہیں ہے بلکہ عالم عرب بھی آپ کی اس تحقیق سے متاثر ہواہے اوردونوں رسالوں پر زبردست تقریظات اورتاثرات کااظہار کیاہے اورحضرت تاج الشریعہ کی پرنور علمی شخصیت پر بھی خامہ فرسائی کی ہے۔آپ کا عربی ترجمہ ’’شمول الاسلام ‘‘ اورتحقیقی رسالہ ’’تحقیق أن أبا سیدنا ابراہیم علیہ السلام تارح لاآزر‘‘ بلاد ایشیا وافریقہ اورعرب مثلاًمصر، دبئی ، عراق، صومالیہ اورسعودی عرب میں نہایت مقبول ہے۔ وکان فضل اللہ علیہ عظیما،
این سعادت بزور بازو نیست
تانہ بخشد خدائے بخشندہ
ذیل میں مقبولیت کے چند نمونے اورعلماء عرب کی تقریظات حاضر خدمت ہیں۔
۱- مکہ مکرمہ کے ایک عالم دین حضرت شیخ عبداللہ بن محمد بن حسن بن فدعق ہاشمی، حضرت تاج الشریعہ کے تحقیقی رسالہ کے مطالعہ کے بعد رقمطراز ہیں’’یہ کتاب نہایت مفید واہم مباحث اورمضامین عالیہ پرحاوی ہے طلبہ وعلماء کواس کی اشدضرورت ہے‘‘ حضرت تاج الشریعہ کوان القاب سے ملقب کرتے ہیں’’فضیلتہ الامام الشیخ محمد اختررضا خاں الأ زہری ، المفتی الاعظم فی الہند ، سلمکم اللہ وبارک فیکم‘‘۔
۲-دکتور شیخ عیسیٰ ابن عبداللہ محمد بن مانع حمیری ، عمید کلیۃ امام مالک للعلوم الشریعۃ دبئی۔ حضرت تاج الشریعہ کی اس تحقیق حق کے مطالعہ کے بعد ڈھائی صفحات پر مشتمل تاثرات کااظہار کرنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں ’’الشیخ العارف باللہ المحدث محمد أ ختر رضا الحنفی القادري الأزھري‘‘
۳-حضرت شیخ موسیٰ عبدہ یوسف اسحاقی صاحب مدرس فقہ وعلوم شرعیہ ، نسابۃ الاشراف الاسحاقیۃ ، الصومالیۃ، صومال افریقہ محو تحریر ہیں ۔ استاذ الکبیر، والعالم النحریر، محی الدین ، عاشق سیدالمرسلین، مولیٰنا الامام الھمام ، فضیلۃ الشیخ احمد رضا خاں الحنفی القادري، قدس اللہ سرہ و نفع بعلومہ الخاص والعام ، وجزاہ اللہ عن المسلمین خیرالجزاء، ورضی اللہ عنہ احسن الرضا کی کتاب مستطاب ’’شمول الاسلام لاصول الرسول الکرام‘‘ کامطالعہ کیا، جس کاعربی ترجمہ و تحقیق وتخریج آپ کے ایسے پوتے نے کی ہے جو ’’فاضل جامعۃ الازہر الشریف‘‘ ہیں اور ایک دوسرا رسالہ ’’تحقیق ان اباسیدنا ابراھیم علیہ السلام تارح لاآزر‘‘ کابھی مطالعہ کیا ہے جس کو ’’الأستاذ الاکبر تاج الشریعۃ فضیلۃ الشیخ محمداختر رضا ، نفعنا اللہ بعلومہ وبارک فیہ ولاعجب فی ذلک فانہ فی بیت بالعلم معروف وبالا رشاد موصوف وفی ھذا الباب قادۃ اعلام‘‘ نے تالیف کیاہے۔
۴-حضرت شیخ واثق فواد العبیدی ، مدیر ثانویہ الشیخ عبدالقادر الجیلانی اپنے تاثرات کااظہاراس طرح کرتے ہیں ’’حضرت تاج الشریعہ کی یہ تحقیق جو شیخ احمدشاکر محدث مصر کے رد میں ہے قرآن و سنت کے عین مطابق ہے آپ نے اس کی تحقیق میں جہد مسلسل اورجانفشانی سے کام لیاہے میں نے اس کے مصادر و مراجع کا مراجعہ کیا تو تمام حوالہ جات قرآن وحدیث کے ادلہ عقلیہ ونقلیہ پر مشتمل پائے، اورمشہور اعلام مثلاً امام سبکی، امام سیوطی، امام رازی اورامام آلوسی وغیرہ کے اقوال نقل کئے ہیں، اس کے بعد حضرت تاج الشریعہ کو ان القاب سے یاد کرتے ہیں۔
’’شیخنا الجلیل ، صاحب الرد القاطع ، مرشد السالکین ،المحفوظ برعایۃ رب العالمین، العالم الفاضل، محمد اختر رضاخاں الحنفی القادری الازھری، وجزاء خیر مایجازی عبدامن عبادہ‘‘
۵-حضرت مفتی اعظم عراق شیخ جمال عبدالکریم الدبان رقمطراز ہیں۔
الامام العلامۃ القدوۃ صاحب الفضیلۃ الشیخ محمد اختر رضاالحنفی القادری، ادامہ اللہ وحفظہ ونفع المسلمین ببرکۃ‘‘کی کتاب کے مطالعہ سے میری آنکھیں ٹھنڈی ہوئیں جو متلاشیان حق کے لئے راہ ہدایت ہے، عمیق قلب کے ساتھ میں آپ کو تہنیت پیش کرتاہوں اورآپ کی تحقیق پر تائید و تصدیق کی مہر ثبت کرتاہوں ، آپ کی تحقیق حق کے موافق ہے اوریہی مذہب مہذب جمہورائمہ اہلسنت وجماعت کاہے۔
خلاصہ: علماء عرب نے حضرت تاج الشریعہ کو جن القاب سے نوازا ہے ان کاخلاصہ یہ ہے ’’امام، عارف باللہ ، محدث، استاذ اکبر، تاج الشریعہ ، مرشد ، قائد، شیخ جلیل ، صاحب ردقاطع، مرشد السالکین ، المحفوظ برعایۃ رب العالمین ، عالم، فاضل، علامہ قدوۃ شیخ وغیرہ۔
حضرت تاج الشریعہ کے اس تحقیقی رسالہ اورشمول الاسلام کے مطالعہ کے بعد علماء عرب نے جورائے قائم کی اورآپ کی شخصیت پر زبردست خامہ فرسائی کی ، آپ کو محدث ، امام او ر استاذ اکبر جیسے القاب سے ملقب کیایہ کوئی غیرمعمولی بات نہیں ہے ایک غیر عرب کوعلماء عرب کاقبول کرنااس کی تصنیفات کو سر آنکھوں پر رکھنا یقینافضل الٰہی کانتیجہ ہے۔ اس مقبولیت کی ایک خاص وجہ یہ بھی ہے کہ آپ کی تصنیفات عربی زبان میں ہیں، اورہر شخص یہ جانتاہے کہ عربی زبان ’’لغت اسلام اورلغت عرب ہے‘‘ عرب دنیا میں مذہب اہلسنت و جماعت کی ترویج و اشاعت کے لئے لغت اسلام کااستعمال کرناایک امر ناگزیر ہے۔ حضرت تاج الشریعہ کی عربی تصنیفات یاامام احمد رضا کے رسائل کاعربی ترجمہ ان سے عرب دنیا میں فائدہ نظر آرہا ہے اوریہ لائق صدستائش امر ہے۔
عصر حاضر میں علماء اہل سنت کے لئے لمحہ فکر یہ ہے کہ بیرون ہند بھی توجہ دیں مذہب اہل سنت و جماعت کی صحیح اوراصلی تصویر دنیا کے سامنے پیش کریں ، خصوصا عرب دنیا میں توجہ دینے کی زیادہ ضرورت ہے جہاں صحافت سے لے کر انٹرنیٹ تک ساری دنیا’’وہابیت زدہ ‘‘ ہوچکی ہے عرب دنیا کے وہابی اپنے کو ’’حنبلی‘‘کہہ کر تقلید کے سایہ میں موجود ہیں جن میں صراحتا اس بات کو ثابت کرنے کی سعی ناکام کی گئی ہے کہ امام احمد رضا خاں بریلوی ’’الفرقۃ البریلویۃ الضالۃ‘‘ کے بانی اورمرزا غلام احمد قادیانی کے شاگرد کانام ہے، فرقہ بریلویہ قادیانیت کی ہی ایک شاخ ہے وغیرہ وغیرہ اس طرح کے بے شمار الزامات اور بہتان تراشیاں ہیں جو امام احمد رضا اورمذہب اہل سنت وجماعت کے سر تھوپی گئی ہیں۔ آج تک ان ویب سائٹس کاکسی نے کوئی جواب نہیں دیا ہے اس لئے کہ علماء ہندوپاک انٹرنیٹ کی دنیا سے بہت دور ہیں اوراسے شجر ممنوعہ سمجھے ہوئے ہیں اس سے عرب دنیا میں جو نقصان ہوا ہے اورہورہاہے وہ سب پر عیاں ہے۔
ابھی ماضی قریب میں پاکستان کے مخلص اہل خیر حضرات نے اعلیٰ حضرت نیٹ ورک (alahazratnetwork.org) شروع کیاہے اس میں بقدر غنیمت اردوزبان میں مواد موجود ہے انگلش اورعربی میں بہت کم۔ اس سے عربی اورانگلش کاطبقہ بقدرضرورت خاطرخواہ فائدہ نہیں اٹھاسکتا ، ہمارے ہندستان سے بھی وہ چند ویب سائٹس کااجراء عمل میں آیا ہے جن میں بقدر غنیمت بھی مواد نہیں ہے جو ناقص کی منزل میں ہیں،آج اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ علماء کرام اورمشائخ عظام اہل خیر حضرات کو اس جانب متوجہ کریں تاکہ صحیح معنی میں مسلک اعلیٰ حضرت کی خدمت ہوسکے ، امریکہ و یورپ میں تبلیغ اسلام کے لئے اورعرب دنیا میں اشاعت سنیت کے لئے انگلش اورعربی میں ویب سائٹس ہونابہت ضروری ہے۔
آخر میںاراکین جامعۃ الرضا کوایک پیغام دیناچاہوں گا کہ جامعۃ الرضا کو مدارس ہند کی صف سے آگے نکال کر عالمی جامعات اوریونیورسٹیز کی صف میں کھڑا کرنے کی ضرورت ہے ، آج ہندستان میں مدارس کی بہتات ہے جوہندستان میں مسلک اعلیٰ حضرت کی خدمت کے لئے کافی ہیں ان سے ہٹ کر عالمی سطح پر اسلام وسنیت کی خدمت ہونی چاہئے۔
ہمارے علماء کرام اورمشائخ عظام امریکہ ، یورپ اور افریقہ میں تبلیغی دوروں کے ساتھ ہندستان کے پڑوسی ممالک سے بھی رابطہ قائم کریں۔ انڈونیشیا ، تھائی لینڈ ، فلپائن ، مالدیپ ، سنگاپور، سری لنکا، بنگلہ دیش، افغانستان ، بھوٹان، برما،تبت اور روس کے چودہ ممالک کے طلبہ ہندستان میں غیر وں کے اداروں میں مسلک اہل سنت وجماعت سمجھ کر زیر تعلیم ہیں ان ممالک میں مبلغین اہل سنت کے وفود بھیجنا چاہئے اس لئے کہ ہندستان کے علماء اہل سنت ہی صحیح معنی میں مسلک اہل سنت و جماعت کی سچی تصویر پیش کرسکتے ہیں مذکورہ چھبیس ممالک کے طلبہ کے ساتھ تعامل کے بعدیہ معاملہ پیش آیا کہ ہندستان کے باطل فرقے ان ممالک میں اپنا جال پھیلاچکے ہیں۔ لہٰذا جامعۃ الرضا سے ہی یہ امید لگائی جاسکتی ہے کہ حضر ت تاج الشریعہ کی سرپرستی میں یہ کام ہوسکتے ہیں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اراکین جامعۃ الرضا پراپنا خاص فضل و کرم فرمائے تاکہ وہ تبلیغ اسلام کایہ عظیم الشان بار اپنے کاندھوں پر لے سکیں۔ اللہ تعالیٰ حضر ت تاج الشریعہ کو صحت و عافیت عطافرمائے اوران کاسایہ ہمایوں تادیراہل سنت و جماعت پر قائم رکھے اورامام احمد رضاسوسائٹی کے اراکین بالخصوص مجاہد اہل سنت حضرت مولانا الحاج محمد شاہد القادری صاحب کو اجر جزیل عطافرمائے کہ تجلیات تاج الشریعہ شائع کرنے کاعزم کیا۔
آمین بجاہ النبی الکریم علیہ التحیۃ والتسلیم۔
ھوامش
(۱) حدیث شریف میں ہے کہ ’’خیار کم الذین اذارؤواذکرللہ‘ سنن ابن ماجہ ، کتاب الزھد باب من لایؤبہ۔ حدیث نمبر ۴۲۵۸۔ ترجمہ: تم میں بہتر وہ ہے کہ اسے دیکھتے ہی خدا یاد آجائے۔
(۲) مقدمۃ المعتقد المنتقد اردو، صفحہ ۲۱؍از مفتی محمد قاضی شہید عالم رضوی صاحب، مطبوعہ المجمع الرضوی ، محلہ سوداگران، بریلی شریف ،
(۳)موسوعۃ اعلام الفکر الاسلامی، صفحہ ۶۰،۷۰،دکتور محمود حمدی زقروق وزیر الاوقاف مطبوعہ، مجلس الاعلی للشئون الاسلامیۃ ، وزارۃ الاوقاف ، قاھرہ ، مصر
(۴)سورۂ انعام ، آیت نمبر ۷۴،پارہ ۷۔
(۵) الحاوی للفتاوی (مسلک الحنفاء فی المصطفیٰ) ازامام جلال الدین سیوطی صفحہ ۲۵؍۲۵۹ ، جلد ثانی مطبوعہ ، دارالفکربیروت لبنان ۔
(۶)سورۂ توبہ، آیت نمبر ۱۱، پارہ ۱۱
(۷)سورۂ ابراہیم آیت نمبر ۳۷،پارہ ۱۳(۸)سورۂ ابراہیم، آیت ۴۱، پارہ ۱۳
(۹) جامع البیان عن تاویل اي القران، جلد چہارم ، صفحہ نمبر۳۲۳۱؍۳۲۳۲، از امام ابوجعفر محمد بن جریر طبری (۳۱۰ھ) مطبوعہ دارالسلام قاہرہ، مصر۔
Menu