حضور تاج الشریعہ اور دفاعِ کنزالایمان

مولانا محمد مجاہد حسین حبیبی ، کولکاتا ، انڈیا


نبیرۂ اعلیٰ حضرت ن ایک یادگار لمحہ:میں اپنی زندگی کے اس انمول لمحے کو تاحیات فراموش نہیں کرسکتا میری آنکھیں پہلی مرتبہ نبیرۂ اعلیٰ حضرت حضور تاج الشریعہ صاحب قبلہ کی زیارت سے بہرہ ور ہوئیں۔ یہ ۱۹۹۴ء عرس حضور مجاہد ملت علیہ الرحمہ کے ٹھیک ایک روز قبل کی بات ہے کہ آپ فاتحہ پڑھنے کے لئے حضور مجاہد ملت کے روضے پر تشریف لائے۔ والد بزرگوار خلیفہ حضور مجاہد ملت حضرت الحاج مدثر حسین حبیبی مدظلہ العالی نے حضرت کے سامنے مجھے پیش کیااورحضرت سے دعاکی درخواست کی۔ حضرت نے مجھ سے میرانام دریافت فرمایا میںنے عرض کیا کہ میرا نام محمد مجاہد حسین ہے۔ والد صاحب نے عرض کیا کہ یہ نام حضور مجاہد ملت علیہ الرحمہ نے تجویز فرمایا ہے۔ پھر حضرت نے دوبارہ سوال فرمایاکیاپڑھ رہے ہو؟ میں نے عرض کیاحضور مولوی درجے میں ہوں۔ یہ سنتے ہی حضرت نے اپنادست شفقت میرے سرپر رکھا اورفرمایا اللہ تمہیں اسلام کامجاہد بنائے، کام کاعالم بنائے، سنت و شریعت اورخدمت دین کاکام لے۔
حضرت کے تعلق سے یہ وہ سنہری یادہے جوانشاء اللہ تاحیات باقی رہے گی۔
نبیرہ اعلیٰ حضرت حضور تاج الشریعہ علامہ الحاج الشاہ محمد اختر رضاخاں ازہری صاحب قبلہ دامت برکاتہم العالیہ کی ذات ستودہ صفات اسلامیان ہندوپاک کے لئے محتاج تعارف نہیں ۔ آپ اپنے بزرگوں کے بہترین یادگاراورگوناگوں صفات حسنہ کے علمبردار ہیں۔ آپ کی صبح و شام خلق خداکی رشد وہدایت اوردین وشریعت کی ترویج واشاعت میںصرف ہورہی ہے۔ خلق خدا کا آپ کی طرف رجوع کایہ عالم ہے کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق بیسوں لاکھ سے زائد افراد ہندستان کی سرزمین میں آپ کے دامن رحمت سے وابستہ ہیں۔ دیگرایشیائی ، افریقی، یورپی ، امریکی اورمغربی ممالک میں بھی مریدین کی تعداد لاکھوں سے متجاوز ہے۔ عامۃ الناس کے علاوہ ملک وبیرون ملک کے ہزاروں علماء آپ کے دامن کرم سے وابستہ ہیں۔ اور دینی و مذہبی امور میں آپ ہی کواپنا مرجع و مقتدا تسلیم کرتے ہیں۔

ایں سعادت بزور بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ

آپ مختلف علوم و فنون میں کامل دسترس اورعبور رکھتے ہیں مثلاً فقہ، حدیث، تفسیر، کلام، تجوید، نعتیہ شاعری رد ومناظرہ وغیرہ جس پر آپ کی کتابیں شاہد عدل ہیں۔ یہ اوربات ہے کہ ملک و بیرون ملک کے کثرت اسفار نے اور خلقت کے بے پناہ رجوع نے آپ کو اتنی فرصت نہ دی کہ آپ باضابطہ تصنیف و تالیف کاکام کرپائیں تاہم اپنی عدیم الفرصتی کے باوجود جو رسائل وکتب آپ نے تصنیف فرمائی ہیں ان سے آپ کی خداد ادصلاحیتوں کابخوابی اندازہ لگایاجاسکتاہے۔
سردست میرے مضمون کاعنوان چونکہ تاج الشریعہ اوردفاع کنزلاایمان ہے اس لئے قارئین کی خدمت میں چند ایسے شواہد پیش کررہاہوں جن سے ردومناظرہ کی فنی بصیرت استحضار علمی بخوبی اندازہ لگاسکیں گے۔
۱۹۷۶ء میںآپ نے ایک نہایت وقیع وگراں قدر مقالہ بنام دفاع کنزالایمان تحریر فرمایا جو پہلی مرتبہ المیزان کے امام احمد رضا نمبر میں’’امام احمد رضا کاترجمہ قرآن حقائق کی روشنی میں‘‘ کے عنوان سے شائع ہواتھا۔ بعد میں قارئین کے بے حد اصرار پر اسے ۱۱۹ صفحات پر کتابی شکل میں دفاع کنز الایمان کے نام سے ڈاکٹر عبدالنعیم عزیزی نے ادارہ سنی دنیا بریلی سے شائع فرمایا ہے۔یہ مقالہ دراصل حضرت نے ایک دیوبندی مولوی امام علی قاسمی رائے پور کی گمراہ کن کتاب قرآن پر ظلم کے رد میں تحریر فرمایا۔جو مدرسہ رئیس العلوم رائے پورلکھیم پور یوپی سے شائع ہوئی تھی۔ قرآن پر ظلم نامی کتاب میںمولوی امام قاسمی نے اپنے بڑوں کی روش کو اپناتے ہوئے ۔ اعلیٰ حضرت کاترجمہ کردہ قرآن کنزالایمان پر درجنوں گمراہ کن بے بنیاد الزامات عائد کرکے بھولے بھالے مسلمانوں کے ایمان پرشب خون مارنے کی کوشش کی ہے۔ لہٰذا اس بد بختانہ ذہنیت وتحریر کاجواب ضروری تھا۔ اس امرعظیم کی انجام دہی کے لئے نبیرہ اعلی حضرت حضور تاج الشریعہ نے قلم اٹھایا اورایسا دندان شکن جواب دیاکہ مولوی امام علی قاسمی اوران کی برادری نے چپ سادھنے ہی میں اپنی عافیت سمجھی۔فبھت الذی کفر

لفظ نبی کے ترجمہ کے اعتراض کا جواب:
اب باذنہ تعالیٰ معترض بہادر کے اعتراض کی خبرلیں جوانہوںنے لفظ نبی کے ترجمہ رضویہ پر کیا ہے۔ علم غیب کی بحث چھیڑی ہے۔ کہتے ہیں:’’نبی کاترجمہ خاں صاحب نے ’’ہرجگہ غیب کی خبر دینے والے ہی کیاہے۔ ہو سکتاہے کہ کسی لغت میں نبی کے معنی غیب کی خبر دینے والا لکھے ہوں‘‘
معترض بہادر کسی لغت میں لکھا ہوکیا مطلب لغت کی کتابوں میں یہی لکھا ہے مگرآپ کو لغات دیکھنے کی فرصت کہاں ہے۔ ہم سے سنئے ، قاموس میں ہے: النبی المخبر عن اللہ تعالیٰ وترک الھمزالمختار۔ صراح میں ہے : نبی پیغامبرالخ قاموس اورصراح کی عبارتوں کاماحصل یہ ہے کہ نبی اللہ کی طرف سے خبر دینے والے اس کے پیغامبر کو کہتے ہیں ۔ نیز المعجم الوسیط میں ہے النبی المخبر عن اللہ عزوجل۔ رہی یہ بات کہ نبی اللہ کی طرف سے کیسی خبر دیتاہے۔
معترض بہادر سوچو تو نبی جوکچھ فرماتاہے وہ شرک ہوتونبی کے آنے اور اس کے بتانے کی کیا حاجت ہے؟ بھلا بتائو توصحیح نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، جنت ودوزخ تمام امور دین اگرغیب نہیں تو غیب پھر کس چیز کانام ہے؟ بے شک یہ غیب ہے اور بے شک نبی اللہ کی طرف سے غیب ہی لاتاہے۔
پھر چند سطروں کے بعدتحریر کرتے ہیں :
معترض بہادر کاش اپنے بلیاوی صاحب کی مصباح اللغات ہی دیکھ لیتے ۔ معترض صاحب اب اس کا ثبوت لئے چلئے کہ وہ معنی جو لغت میں بیان ہوئے شرعاً بھی معتبر ہیں ۔ سنئے علامہ طاہر فتنی مجمع بحارالانوار میں فرماتے ہیں۔
ھو بمعنی فاعل من النباء الخبر لانہ انباء عن اللہ’’یعنی بمعنی فاعل کی نباء بمعنی خبر سے ہے ۔ اس لئے نبی اللہ سے غیب کی خبر دیتاہے۔ اور سنئے علامہ ابن حجر عسقلانی مقدمہ فتح الباری میں فرماتے ہیں۔’’یعنی نبی بالہمزہ اللہ سے خبر دینے والااورکہاگیا ہے کہ مفعول کے معنی ہو۔ یعنی اللہ نے اسے اپنے راز کی خبر دی اورکہاگیا کہ نبئی بمعنیٰ نبہء سے مشتق ہے۔ انبیاء کے بلند منازل اورمراتب کی وجہ سے اورکہاگیا ہے کہ نبی راستہ ہے نبی کانام اس لئے رکھاگیا ہے کہ وہ اللہ کاراستہ ہے‘‘۔
کیوں کہ معترض بہادر تمہارے نزدیک تو نبی موٹی موٹی باتیں بتاتاہوگا جوسب کو معلوم ہوں۔ اللہ نے اسے ایسی ہی باتیں بتائی ہوں گی جبھی تو وہ اورسب کو عجز ونادانی میںشریک ہوگئے۔ اورانہیںمعمولی باتوں کی بناپر اللہ کے یہاں نبی کی منزل بلند ہوگئی اور معاذ اللہ وہ بایں نادانی اللہ کاراستہ ہوگیا۔ وما قدرواللہ حق قدرہ (دفاع کنزالایمان صفحہ ۷۴ تا ۷۷)

لفظ ذنب کے ترجمہ کے اعتراض کا جواب:
معترض نے سورہ فتح کی آیت

’’اِنَّا فَتَحۡنَا لَکَ فَتۡحًا مُّبِیۡنًا ۙ﴿۱﴾لِّیَغۡفِرَ لَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنۡ ذَنۡۢبِکَ وَ مَا تَاَخَّرَ‘‘

کاترجمہ ر ضویہ جو یہ ہے(بے شک ہم نے تمہارے لیے روشن فتح فرماد ی تاکہ اللہ تمھارے سبب سے گناہ بخشے تمھارے اگلوں کے اور تمھارے پچھلوں کے اور اپنی نعمتیں تم پر تمام کردے ۔
ملخصاً بقدر الحاجۃ لکھ کر یوں منہ کھولتے ہیں: ’اس ترجمہ میں لام کو سببیہ مان کر تمہارے سبب سے کہنا درست ہوسکتاہے مگرماتقدم من ذنبک وماتأ خر میں گناہ بخشے تمہارے اگلوں کے اورتمہارے پچھلوں کے الفاظ کاترجمہ نہیں ہے اورمفہو م بھی نہیں ہوسکتا۔
جی ہاں الفاظ اتنے ہی ہیں جتنے آپ کو سوجھیں اورمفہوم وہی ہے جو آپ کی سمجھ دانی میں سماجائے اورجواس میں نہ آئے وہ مفہوم ہوہی نہیں سکتا۔ معترض بہادر امام احمد رضا کی دشمنی سلف کی دشمنی ہے ۔ وہ جو کچھ فرماتے ہیں وہ سلف کاارشاد ہوتاہے۔ علامہ ہبۃ اللہ ابن سلامتہ ’’الناسخ والمنسوخ‘‘ میں فرماتے ہیں۔
(کیا فرماتے ہیں درج نہیں)
پھر کچھ سطر بعد فرماتے ہیں:
’’یعنی مفسرین کرام کاآیہ کریمہ لِّیَغۡفِرَ لَکَ الخ کے معنی میں اختلاف ہے، ایک جماعت نے کہاکہ رسالت سے پہلے اوراس کے بعد کے خلاف اولیٰ امور مراد ہیں۔ اوردوسروں نے کہاکہ خدا آپ کے اگلوں اورآپ کے پچھلوں کے گناہ بخش دے ۔ اس لئے کہ آپ کے سبب آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی اورآپ اپنی امت کے شفیع ہیں تواللہ اس فضیلت سے آپ پر احسان فرمارہاہے اوردوسروں نے کہاکہ آپ کے باپ ابراہیم اوران کے بعد کے نبیوں کے خلاف اولیٰ امور بخش دے۔ اس لئے کہ حضور کے طفیل ان کی توبہ قبول ہوئی‘‘۔
شفاء و شرح شفاء ملا علی قاری میں ہے۔ ترجمہ ـ:
’’یعنی کہاگیا کہ مراد اس سے خطاب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو ہے اس بنیاد پر کہ مضاف محذوف ہے اورکچھ نے کہاکہ مراد اس سے آدم علیہ السلام کی سابقہ لغزشیں ہیں اور آپ کی امت کے گناہ ہیں اس بنیاد پر کہ اضافت ادنیٰ مناسبت کی وجہ سے ولک بمعنی لاجلک ہے۔ (یعنی تمہارے سبب سے الخ ) اس قول کی حکایت فقیہ امام ابو اللیث سمر قندی جواکابر حنفیہ میں سے ہیں اورامام عبدالرحمن سلمی صوفی صاحب طبقات الصوفیہ اور تصوف میں تفسیر کے مؤ لف نے ابن عطا سے کی ۔ امام مالکی نے فرمایا کہ یہاں جو خطاب نبی علیہ السلام سے ہے وہ درحقیقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت سے ہے اضافت میں ادنیٰ مناسبت کی وجہ سے یامضاف کے محذوف ہونے کی وجہ سے‘‘۔
معترض بہادر صاحب یہ دیکھئے علامہ قاضی عیاض رحمتہ اللہ علیہ علامہ سمر قندی سلمی ابن عطا اورمکی سے کیانقل فرماتے ہیں۔ اوریہ علماء مذکورین کس طرح اسے وجوہ قرآن میں سے ایک وجہ بتارہے ہیں۔
کچھ سطر بعد فرماتے ہیں:
معترض صاحب بہادر اب تو کھل گیا کہ جسے آپ نے یہ کہہ کر رد کردیاتھا کہ الفاظ کاترجمہ بھی نہیں ہوسکتا وہ جو قرآن میں سے ایک وجہ سے جسے ایسے جلیل القدر علماء نے افادہ فرمایا ہے معترض صاحب بہادر اب کہئے یہ اعتراض توامام احمد رضا پر نہیں بلکہ خود قرآن پر ہوگیا ۔ ولاحول ولاقوۃ الا باللہ العلی العظیم۔ اور آپ کی قرآن فہمی اورپیروی سلف کابھرم کھل گیا مگریہ کہ ؎

بدنام اگرہوں گے تو کیانام نہ ہوگا

مندرجہ بالا سطور میں لفظ نبی اور ذنب کے تعلق سے جوتحقیق حضرت نے پیش فرمائی ہے اسے دیکھ کر حضور تاج الشریعہ کی وسعت علمی اوراستحضار علمی کابخوبی اندازہ ہوسکتاہے۔
ویسے دفاع کنزالایمان میں ’’قُلۡ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثۡلُکُمۡ‘‘ اور’’اخ‘‘ کے ترجمہ کے علاوہ چند دوسرے اعتراضات کے جوابات بھی موجود ہیں جن کامطالعہ کسی طرح افادہ سے خالی نہ ہوگا۔ جنہیں تفصیل کی ضرورت ہو وہ دفاع کنزالایمان کامطالعہ ضرورکریں۔

 

 

Menu