حضورتاج الشریعہ اپنی تصنیف ’’ٹائی کا مسئلہ ‘‘ کے آئینے میں

محترمہ رومانہ آراء قادری ، کولکاتا ، انڈیا


اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’اے ایمان والو!یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بنائو۔ وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیںاور تم میں جوکوئی ان سے دوستی رکھے گا تووہ انہیں میں سے ہے۔(ترجمہ :کنزالایمان مائدہـ۵۱)
اللہ رب العزت نے یہود و نصاریٰ سے تعلقات رکھنے کو سختی سے منع فرمایا ہے۔ یہ قومیں نہایت ہی چالاک ، مکار اورفریبی ہیں۔ یہودو نصاریٰ حضرت عیسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام کی پھانسی کے مسئلہ میں ایک دوسرے کے جانی دشمن ہیں اس کے باوجود مسلمانوں کے مسائل میں یہ آپس میں دوست اورمسلمانوں کو زمین بوس کرنے میںکسی قسم کی کوئی کسر باقی نہیں رکھتے ہیں جیسا کہ بغداد معلی اورافغانستان کو تباہ کرنے میں امریکہ اوریورپ اور اسرائیل نے متحدہ محاذ بناکر ان دونوں اسلامی ممالک کی اینٹ سے اینٹ بجادی اوریہاں کاکنٹرول پاور اپنے ہاتھ میں لے لیا۔
اپنے مذہبی شعار کو دوسری قوموں پر مسلط کرنے کے لئے حیلے بہانے ڈھونڈ کر کسی نہ کسی طرح سے ان پر نافذ کرنے کی ناکام کوشش میں سب سے پہلے انگریزی زبان کو پوری دنیا کے رابطے کی زبان بنایاگیا۔ قسم قسم کے ایجادات کو سمجھنے کے لئے انگریزی زبان میں فارمولے تیار کئے بایں سبب پوری دنیا عصر حاضر کے تقاضے کو پورا کرنے کے لئے اس زبان کو پڑھنے اورسمجھنے پر مجبور ہوگئی او ر انگریزوںکے بنائے ہوئے اسکول ، کالج اوریونیورسٹیوں میں داخلے لینے لگے انگریزوں نے اس مجبوری سے فائدہ اٹھاکر بلاتفریق مذاہب ہر طالب علم کے لئے اپنا مذہبی شعار (ٹائی)کو لازمی قرار دیا اس راستے سے مسلمان دانستہ یا غیردانستہ طورپر اس کاعادی ہوگیا۔

ٹائی کے تعلق سے مولانا نشتر فاروقی رضوی رقمطراز ہیں:’’ظاہر ہے کہ یہ اس کی شاطرانہ چال ہے کیوں کہ اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ اگریہ واضح کردیاجائے کہ ’’ٹائی نصاریٰ کامذہبی شعار ہے‘ تو دیگر سبھی مذاہب کے پیروکار نہیں تو کم از کم دنیا کے کروڑوں مسلمان تو ضرور اسے ترک کردیں گے جوا س کے مذہبی اغراض و مقاصد کے یکسرخلاف ہے‘‘۔ (ٹائی کا مسئلہ ص ۶)

آگے لکھتے ہیں:’’جب اس شاطر قوم نے دیکھا کہ ہم اپنے فاسد ومفسد مقاصد میں کوئی خاص کامیابی نہیں حاصل کرپارہے ہیں تو اس نے سوچا کہ کیوںنہ ہم اپنی تہذیب وثقافت اوراپنی وضع قطع کومسلمانوںمیںرواج دے دیں اس طرح مسلمان اعتقادی طور پرنہ سہی کم از کم ظاہری وضع قطع میںضرور یہودونصاریٰ نظر آ ئیں گے اوراس مقصد میں انہیں کسی حد تک کامیابی بھی ملی۔ (ایضاًص۶/۷)

عالم ربانی ، فقیہ لاثانی، شہزادہ علامہ جیلانی فقیہ اسلام تاج الشریعہ حضرت علامہ مفتی الحاج الشاہ محمداختر رضاخاں قادری برکاتی ازہری بریلوی مدظلہ العالی سے ’’ٹائی کامسئلہ‘‘ پرمولانا شہاب الدین رضوی صاحب نے ایک استفتاء کیاتھا اس پرحضور تاج الشریعہ نے بہت ہی شرح و بسط کے ساتھ مدلل اورمبرہن جواب عنایت فرماکرحقیقت سے آشکار افرمایا اورحکم شرع نافذ کیا۔ یہ رسالہ عارف باللہ سراج العاشقین حضور احسن العلماء علامہ مفتی سید مصطفی حیدرحسن قادری برکاتی علیہ الرحمہ (مارہرہ مطہرہ) کی بارگاہ میںحضور تاج الشریعہ مدظلہ العالی نے پیش کیا۔ سرکار احسن العلماء نے تصدیقی مہر ثبت فرماکر اس رسالے کی اہمیت وافادیت کو دوبالا فرمادیالکھتے ہیں : ’’فقیر برکاتی نے اس رسالہ احادیث قبالہ (ٹائی کا مسئلہ) کواپنے ٹوٹے پھوٹے علم کے مطابق لگ بھگ بالاستیعاب دیکھا اس مسئلہ پر عزیز موصوف (حضور تاج الشریعہ مدظلہ العالی) زید مجد ہم نے بڑے اچھے اورسلجھے ہوئے انداز میں تحقیق فرماتے ہوئے اس کے سارے پہلوؤں کو سامنے رکھ کرنہ صرف یہ کہ خود اپنی کاوش سے دلائل شرعی و فقہی کی روشنی میں حکم شرعی کو واضح فرمایا ہے بلکہ اس موضوع پر حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ والرضوان اور ان کے والد ماجد اعلیٰ حضرت امام احمد رضافاضل بریلوی رضی اللہ عنہ نے جو کچھ فرمایاتھا اسے بھی ناظرین کے سامنے شرح و بسط سے بیان کردیا ہے (ایضاً ص ۳)
اس رسالے کی افادیت کے پیش نظر حضور احسن العلماء بطور نصیحت برائے امت مسلمہ ارشاد فرماتے ہیں:’’خلاصہ تحریر یہ کہ عامہ مسلمین کے لئے اپنے موضوع پر یہ رسالہ اس قابل ہے کہ ہم سب اس میں جواحکام شرعیہ بیان فرمائے گئے ہیں خداتوفیق دے تو ان پرسچے دل سے عمل کرتے ہوئے اپنی صورت و سیرت ، قول و فعل ، ظاہر وباطن غرض اپنی زندگی کے ہرموڑ پر سچے پکے مسلمان بنیں اوریہودونصاریٰ وغیرہ جملہ کفار و مشرکین ومرتدین ومبتدعین کے ہر قول وفعل کو براجانیں اورحتی الوسع خود اس سے دور ونفور رہیں اور اسی تعلیم کی تلقین اپنے گھروالوں اعزہ واقارب کو بھی کریں۔(ایضاً ص:۳)
اس کتاب کی تالیف میں مندرجہ ذیل کتابوں سے حضور تاج ا لشریعہ نے استفادہ کیا ہے۔ (۱)قرآن مقدس (۲)بیضاوی شریف(۳)بخاری شریف(۴)مسندامام احمد بن حنبل (۵) ہدایۃ (۶) اختیار شرح مختار (۷) عینی (۸)زواجر (۹)شرح درود (۱۰)حدیقہ ندیہ شرح طریقہ محمدیہ (۱۱)فتاویٰ عالمگیری (۱۲) محیط
حضور تاج الشریعہ مدظلہ العالی نے ٹائی کے تعلق سے ایک تحقیقی مضمون تحریر فرماکر علماء کرام اورفقہا ئے عظام کی عبارتوں سے استدلال پیش کرکے مضمون کومدلل اورمبرہن فرمایا ہے اورٹائی کے تمام اقسام کی وضاحت فرماکر حکم شرع بیان فرمایا ہے۔
کراس کی تحقیق کرتے ہوئے حضور تاج الشریعہ لکھتے ہیں:-
’’کراس(Cross) جسے مسلم و غیرمسلم سب بالا تفاق عیسائیوں کانشان مانتے ہیں ، اس کراس کااطلاق جس طرح اس معروف نشان پرہوتاہے اسی طرح وہ تختہ جس پر بقول نصاریٰ کے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کومعاذ اللہ پھانسی دی گئی کراس کامصداق ہے چنانچہ انگریزی کی متداول لغت Practical advanced Twentieth century Dictonary میں “Cross” کے تحت ہے:
“Stake with a transverse bar Used for Crucifixtion سولی، صلیب، چیلیا the Cross wooden structure on which accroding to christian religious belief jesus was crucified”(P166)
جوچیز اس کراس کی شکل پر ہو وہ بھی کراس کامقصد ہے۔ چنانچہ اسی ڈکشنری میں اسی جگہ “Anything shaped like +ar x
’’اشارۂ صلیب the singn of the cross صلیب نما چیلیپا نما (ایضاً ص ۱۱)
کراس کے تعلق سے حتمی فیصلہ صادر فرماتے ہوئے یوں رقم طراز ہیں:
’’منجملہ ٹائی مکمل ’’کراس‘‘ مع شئے زائد ہے کہ اس میں پھانسی کاپھندا بھی ہے اسی پر بوٹائی (Bowti) کو قیاس کرلیجئے ‘‘ اس کے گلے میں بندھنے سے بھی کراس کی شکل بنتی ہے جیسا کہ اس شکل سے ظاہرہے اور کراس اورشبیہ کراس عیسائیوں کامذہبی نشان ہے تو ٹائی کو’’ کراس ‘‘فاکو رد شبیہ کراس‘‘مانو بہر صورت وہ عیسائیوں کامذہبی شعار ہے اورجو چیز کافروں کامذہبی شعار ہو وہ ہرگز روانہ ہوگی اگرچہ معاذاللہ کیسی ہی عام ہوجائے۔
اہل بصیرت کو تو خود ٹائی کی شکل سے اس کاحال معلوم ہوگیامگراس کی عیسائیوں کے یہاں اتنی اہمیت ہے کہ مردہ کوبھی ٹائی پہناتے ہیں تو ضرور یہ ان کا مذہبی شعارہے جو مسلم کے لئے حرام اورباعث عارونارہے۔ (ایضاً ۱۲،۱۳)
مزید حضور مفتی اعظم ہند کافتویٰ بھی شعار کفار کے تعلق سے پیش کرتے ہیں:
’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو سولی دئیے جانے کی کفری یادگار ہے ۔ ٹائی کاپھانسی پھندا اورکراس مارک یہ نشان + سولی ہے حالانکہ ان کے مصلوب ہونے کاعقیدہ کفری ہے اور قرآن وحدیث کے صریح خلاف ہے ۔
جوشعار کفری ہے اس کاحکم کبھی نہیں بدلے گاہمیشہ کفر رہے گا چاہے اس کااستعمال کفار کے ساتھ خاص رہے یامعاذ اللہ مسلمان بھی اس کو استعمال کرنے لگیں یہاں بھی عموم بلویٰ او رحرج کی بات کرنا لغو ہے اوراسی قسم کے شعار کفری میں ہے ۔ ہندوئوں کا’’زنار‘‘ باندھنا اورقشقہ لگانا۔ ٹائی کاقیاس پتلون وغیرہ پر کرنادرست نہیں کہ ٹائی کفری شعار ہے اورپتلون اوردیگر فاسقانہ وضع کے لباس جو شعار قومی ہیں حرام یاممنوع ہیں۔(ایضاًص ۱۹)
ایک اعتراض حضورتاج الشریعہ مدظلہ العالی کے سامنے آیاکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کبھی کبھی گرجا گھر میں نماز پڑھ لیاکرتے تھے ایساکیوں؟
اس کے جواب میں بخاری شریف کے حوالے سے تحریر فرماتے ہیں ’’حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ گرجا میںنماز پڑھتے تھے مگر اس گرجا میں نہیںجس میں حضرت عیسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام حضرت مریم رضی اللہ عنہا کے مجسمے ہوں۔
مزیدعینی جلد رابع کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’’امام بغوی نے جوجعد یات میںاتنا زیادہ کہاکہ اگر کنیسہ میں تصویریں ہوتیں تو اس سے نکل جاتے اوربارش ہی میں نماز پڑھتے ہیں۔
حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بارش کی وجہ سے بحالت مجبوری کنیسہ میںنمازپڑھی اورجب کنیسہ میں تصاویر پائیں تو کنیسہ سے باہر تشریف لائے اوربارش میں نمازادافرمائی… اوربحالت اضطرار ناپسندیدگی کے ساتھ کنیسہ میں جانا مومن ہی کی شان ہے اوربرضا و رغبت کنیسہ میں جانا کافروں کاکام ہے اوریہ کفری شعار ہے اوراس میں کفار کی موافقت باجماع مسلمین کفر ہے۔ (ایضاً ص ۲۱، ۲۲)
چونکہ ٹائی کفری شعار ہے تو اس کے استعمال کرنے والے پرحکم شرع کیانافذ ہوگا تو تاج الشریعہ مدظلہ لکھتے ہیں :’’بہرحال ٹائی کااستعمال حرام اشد حرام بدکام بدانجام ہے اورباندھنے والے پر عندالفقہا حکم کفر ہے اگرچہ احتیاطاً محض باندھنے پر محققین کے نزدیک تکفیر نہیں کی جائے گی۔ (ایضاًص ۲۷)
حضور تاج الشریعہ مدظلہ العالی نے اس ’’ٹائی کامسئلہ‘‘ تحقیقی رسالہ کو تحریر فرماکر امت مسلمہ پراحسان عظیم فرمایا ہے اورٹائی کے تعلق سے حکم شرع تحریرفرماکرامت مسلمہ کو ایک گناہ عظیم سے بچانے کی زبردست کوشش کی ہے۔
آپ کی اس تحقیق عمیق پر جماعت اہلسنت کے اجلاء مشائخ اورکبار مفتیان اعظم وعلماء کرام نے اپنے تصدیقا ت اس رسالہ پر ثبت فرماکر اس کی صوری ومعنوی حیثیت کواجاگر فرمادیا ہے ان کے اسماء حسب ذیل ہیں۔

اجلاء مشائخ کے تصدیقات

۱-احسن العلماء مفتی سید مصطفی حیدر حسن برکاتی (مارہرہ شریف)
۲ -امین شریعت علامہ سبطین رضاخاں رضوی (بریلی شریف)
۳-صدرالعلماء علامہ تحسین رضاخاں رضوی (بریلی شریف)
۴-رئیس الاساتذہ مفتی بہاء المصطفیٰ امجدی رضوی (بریلی شریف)
۵-رئیس المحققین مفتی سید شاہد علی رضوی (رامپور)
۶-فقیہہ ملت مفتی جلال الدین امجدی (اوجھاگنج)
۷-مشاہد ملت علامہ محمد مشاہد رضا حشتمی (پیلی بھیت)
۸-ماہر اصول و فروع مفتی عاشق الرحمن حبیبی (الہ آباد)
۹-شیخ القرآن علامہ عبداللہ خاں عزیزی (بستی)
۱۰-شیخ العلماء علامہ شبیہہ القادری رضوی (سیوان)
۱۱-اشرف العلماء مفتی مجیب اشرف رضوی (ناگپور)
۱۲-رئیس الفقہا مفتی سیدظہیر الدین زیدی (علی گڑھ)
۱۳-شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی (جامعہ اشرفیہ)
۱۴-محمود ملت مفتی محمود احمد برہانی (جبلپور)

مفتیان اعظم وعلماء کرام کے تصدیقات

۱-استاذالفقہا مفتی قاضی عبدالرحیم بستوی (بریلی شریف )
۲-بقیۃ السلف مفتی حبیب رضارضوی (بریلی شریف)
۳-استاذ العلماء مفتی جہانگیراحمد رضوی (بریلی شریف)
۴-مفتی زماں مفتی محمد صالح رضوی (بریلی شریف)
۵-خواجہ علم و فن علامہ مظفر حسین رضوی (چرہ محمدپور)
۶-رئیس العلماء مفتی سیدمحمد عارف رضوی (بریلی شریف)
۷-مفتی مطیع الرحمان رضوی (مظفر پور)
۸-علامہ محمد غفران صدیقی رضوی (امریکہ)
۹-مفتی محمد فاروق رضوی (بریلی شریف)
۱۰-مولانا محمدغوث خاں بریلوی (بریلی شریف)
۱۱-رئیس القلم علامہ ارشد القادری(جمشید پور )
۱۲-مفتی غلام محمد رضوی (ناگپور)
۱۳-علامہ تراب الحق رضوی (کراچی)
۱۴-مفتی محمد یامین رضوی (بنارس)
۱۵-علامہ قمرالزماں اعظمی رضوی (لندن)
۱۶-مولانا صغیر احمد جوکھن پوری (بریلی شریف)
۱۷- مفتی عزیز احسن رضوی (گجرات )
۱۸-مولانا ابوالحقانی رضوی (مدھوبنی)
۱۹-ڈاکٹر غلام یحیٰ انجم حشمتی (دہلی)
۲۰-مولانا منصور علی خاں محبوبی (ممبئی)
۲۱-مولانا احمد حسین برکاتی(نیپال)
۲۲-مولانا توکل حسین حبیبی(ممبئی)
۲۳-مفتی محمود اخترامجدی (ممبئی)
۲۴-مفتی نقی امام خاں رضوی (حیدرآباد)
۲۵-مفتی انورعلی رضوی (بریلی شریف)
۲۶-علامہ اعجاز انجم لطیفی (بریلی شریف)
۲۷-مفتی شمشاد حسین رضوی (بدایوںشریف )
۲۸-مولاناعزیز الرحمن منانی (بریلی شریف)
۲۹-مولانا محمد قاضی رضوی (کرناٹک)
۳۰-مفتی ولی محمد رضوی (ناگور شریف)
۳۱-مولاناانیس القادری (مغربی بنگال )
۳۲-مولانا نسیم احمد اشرفی (حیدرآباد)
۳۳-مفتی بشیر القادری (گریڈیہہ)

 

Menu