حضورتاج الشریعہ اور ’’سفینۂ بخشش‘‘

مولانا شمشاد حسین رضوی ، بدایوں ،ا نڈیا


سفینہ بخشش -علامہ محمداختر رضاخاں ازہری صاحب کا مجموعہ نعت ومنقبت ہے۔ اس مجموعہ پر گفتگو ‘‘کرنے سے پہلے اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ علامہ موصوف کون ہیں اوران کی شخصیت کن خوبیوں کی مالک ہے۔ کن عوامل و جذبات سے متاثر ہوکرانہوں نے نغمہ سرائی کی ہے؟ توآئیے پہلے ان کی شخصیت کے بارے میں تھوڑی سی معلومات کرلیں۔
حضرت تاج الشریعہ صاحب قبلہ ایک ایسے خانوادہ کے فرد کامل ہیں جن کاخاندان کئی صدیوں سے علم و فن ، تحقیق و تنقید ، تہذیب و تمدن کے اعتبار سے اعلیٰ مقام رکھتاہے۔ سیدی مولانانقی علی خاں، سیدی امام احمد رضاخاں، سیدی حضور مفتی اعظم ، سیدی مولانا حامد رضا خاں ، سیدی مولانا ابراہیم رضاخاں وغیرہ اس خاندان کے وہ تابندہ و درخشندہ ماہ ونجوم ہیں جن کی پُر نور کرنوں نے منزل حیات کی نشاندہی اورقوم وملت کی صحیح قیادت کی۔ ان بزرگوں کی زندگیاں چاند کی چاندنی، قطرات شبنم کی طرح صاف اور شفاف تھیں۔ عشق و محبت ، خلوص ووفا ، پیارا ورالفت ان کی زندگی کاعظیم سرمایہ تھا۔ علمی میدان میں انہوں نے وہ جوہر دکھلائے کہ آج تک ارباب علم ودانش طبقہ ان سے متاثر ہیں۔ نیز اپنی شبستانوں میں انہی کے علم و فن کاچراغ جلتاہوا دیکھ رہے ہیں۔ وہ ایسے گلاب تھے کہ سالوں گزر جانے کے باوجود ان کی خوشبو آج بھی محسوس کی جارہی ہے۔ ماہرین نفسیات اس بات پراتفاق کرچکے ہیں کہ جو بچہ اس خاندان میں پیداہوگا وہ بہت کچھ ہوگا۔ نئی شان اورنئی آن والا ہوگا ۔ وارثت میںاس بچہ کو بہت کچھ ملے گا جنہیں وہ غیر شعوری طور پر محسوس کرے گا۔یہ تومشاہدہ کی بات ہے کہ مچھلی کے بچے کو کوئی تیرنا نہیں سکھاتا ہے۔ بلکہ پیدا ہوتے ہی وہ فطری طورپر تیرنے لگتاہے اورسمندر کی سطح پر کھیل کود شروع کردیتا ہے۔ میں اس بات کویقین کے ساتھ کہہ سکتاہوں کہ علامہ ازہری میاں صاحب قبلہ نے اس خاندان سے وراثت میںبہت کچھ لیا ہے۔بلکہ حصہ وافر لیا ہے ۔ علم و فن، تحقیق و تنقید، تجزیہ و توضیح، خلوص وپیار ، عشق ومحبت، شعر و سخن کے فطری رجحانات اور جبلی میلانات آپ کو توارث میں ملے ہیں۔ ان فطری رجحانات کو ترقی دینے اوران میں انجلاتی کیفیت بیدار کرنے میں آپ کے ذاتی تجربات نے ایک اہم رول اداکیا ہے۔ گھر سے لے کر مدرسہ تک اورمدرسہ سے لے کر جامعہ ازہر مصرتک آپ کے تجربات پھیلے ہوئے ہیں، تجربات کی اس وسعت نے آپ کی شخصیت میں بے پناہ وسعت عطاکردی ہے، یہ صرف حسن عقیدت نہیں بلکہ ایک ایسا نظریہ ہے جو صرف میراہی نہیں بلکہ تمام ارباب علم ودانش کاہے میں نے حضرت ازہری میاں کے بارے میں جو کچھ رائے قائم کی ہے۔ جو نظریہ پیش کیا ہے ۔ ان کے کردار وعمل سے اس نظریہ کی توثیق ہوچکی ہے۔ اگر طبع نازک پر بارگراں محسوس نہ ہوتو اس کو پڑھئے۔
جوتحریر میں قلم بند کرنے جارہاہوں۔ وہ میری آپ بیتی ہے۔ کوئی سنی سنائی بات نہیں ہے بلکہ میرا تجربہ ہے اوربہت ہی قریب سے میں نے اس کامشاہدہ کیا ہے جامعہ حمیدیہ رضویہ بنارس ہندستان میں ایک مشہور ومعروف ادارہ ہے جوکسی تعارف کامحتاج نہیں ہے۔ بلکہ وہ آپ روشن ہے اورکتنوں کو روشن کرچکا ہے۔ خاص بات صرف اس قدر ہے کہ حضور شمس العلماء قاضی شمس الدین صاحب قبلہ جونپوری مصنف قانون شریعت اپنی عمر کا زیادہ ترحصہ اسی ادارہ میں گزار چکے ہیں اورعرصہ دراز تک آپ ہی شیخ الحدیث رہے ہیں۔۱۹۷۲ء سے لے کر ۱۹۸۱ء تک اسی ادارہ کاطالب علم رہاہوں حضرت شمس العلماء کے درس و تدریس میں کیالطف و مزہ تھا، کس طرح ذوق و شوق مچلتاتھا، دل میں کیاکیا کیفیات ابھرتی اورڈوبتی تھیں۔جن کو ہم صرف محسوس کرسکتے ہیں۔ الفاظ کی صورت میں ان کیفیات کو پیش کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ حضرت قاضی صاحب حضرت مفتی محمد یامین صاحب، حضرت مولانا نجم الدین صاحب و دیگراساتذہ کرام کے ذریعہ میں بریلی سے متعارف ہوا۔ مگر طالب علم کاذہن ہی کیا بے پرواہ ،لاابالی میں کوئی نقش ابھرا اورآن واحد میں مٹ گیا۔

ہائے غیوری دل کی اپنے داغ کیاہے خودسر نے
جی ہی جس کیلئے جاتاہے اس سے بے پرواہے دل

حسن اتفاق کہئے، ایک دن ہم تمام طالب علم حضرت قاضی صاحب کے درس میں موجود تھے اورحضرت پڑھارہے تھے کہ ایک بزرگ صفت انسان تشریف لائے۔ قاضی صاحب نے کھڑے ہوکر ان کااستقبال کیا۔آنے والے کو اپنی مسند پربٹھایا اورخود مؤدب ہوکر بیٹھ گئے اورطالب علموں کے ذہن و دماغ میں کیا تاثر ابھرا؟ اس کو میں نہیں بتاسکتا۔ البتہ میں نے یہ محسوس کیا ۔ قاضی صاحب جیسی شخصیت ۔ اللہ اللہ ان کی علمی شان و شوکت کایہ عالم تھا کہ بڑے بڑے ان کے سامنے طفل مکتب معلوم ہوتے تھے ۔ ان کاعلمی وقار مسلم تھا۔ لیکن آج کیاہوگیا ہے کہ علمی جاہ و جلال اورفنی طمطراق نیاز مندی کے سانچے میں ڈھل گیا ہے۔ اپنے اساتذہ میں سے کسی سے میں نے دریافت کیا ۔

حضرت یہ کون ہیں؟ انہوں نے جواب دیا:یہ حضرت ازہری میاں ہیں۔ اس وقت تک نام تو سنا تھا مگردیکھا نہیں تھا پھر حضرت ازہری میاں صاحب نے عربی زبان میں ایک منقبت پڑھی۔ غالباً یہ منقبت حضرت مجاہد ملت کی شان میں لکھی گئی تھی۔ پڑھنے کالب ولہجہ اس قدر دلکش تھا۔ الفاظ کے زیروبم میںایسی موزونیت تھی کہ نغمہ وترنم کاسماں چھاگیا۔ہمارے تمام اساتذہ کرام اس منقبت سے متاثر ہوئے اوربہت زیادہ متاثر ہوئے یہیں سے حضرت ازہری میاں کی علمی لیاقت کا اورباکمال صلاحیت کا نقش میرے دل میںابھرتاہے۔
۱۹۷۹ء کی بات ہے ، میں جماعت رابعہ کاطالب علم تھا مدرسہ حمیدیہ رضویہ بنارس کے سالانہ امتحان کے لئے حضرت ازہری میاں صاحب تشریف لائے ہوئے تھے۔ مشکوٰۃ شریف کاآپ نے امتحان لیا۔ میں امتحان دینے والوں میںشریک تھا۔ لوگوں کامیرے بارے میں خیال تھا کہ ناچیز تمام طالب علموں میں باصلاحیت ہے۔خیر یہ ان کا حسن ظن تھا۔
حضرت ازہری میاں صاحب قبلہ نے فرمایا کہیں سے کوئی حدیث پڑھو، تمام ساتھیوںکااشارہ پاتے ہی میں نے وہ حدیث پڑھی جس کامطالعہ میں خاص طورپر کرکے آیاتھا۔ حدیث تو میں نے صحیح اعراب کے ساتھ پڑھ دی اورترجمہ بھی کردیا۔ اس کے بعدحضرت نے جوسوالات اس حدیث کے متعلق کئے۔یہ یقین جانئے میں نے یہ محسوس کیا ۔ میںابھی تک علم وفن سے بے بہرہ ہوں ۔ ان دو واقعات نے میرے ذہن و دماغ کواس طرح متاثر کیا لیکن اس تاثر کی بنیاد پر ان کی علمی صلاحیت کے بارے میں کوئی رائے قائم نہیں کی جاسکتی ہے۔ اس لئے کہ طالب علم اوراس کی حیثیت ہی کیا ہے؟
ابھی چند سال قبل کی بات ہے حضرت مولانا مدنی میاں صاحب قبلہ نے ٹی وی پر دکھائے جانے والے مناظر کو مشروط طورپر جائز قرار دے دیا اوراسکرین پر دکھائے جانے والی تصویر کو متحرک اورغیرقار کہہ کرحرمت والی نص سے ماورا کردیا۔ اس پرعلامہ ازہری میاں نے جوایرادت قائم کئے ہیں جس انداز سے بحث کی ہے اس سے معلوم ہوتاہے کہ آپ علم و فن میں کافی دسترس رکھتے ہیں آپ کی علمی قابلیت اورصلاحیت کالوہاتمام ارباب علم وفن نے تسلیم کرلیا ہے اورمیں نے ٹی وی کے متعلق لکھے گئے تمام تحریرات کومطالعہ کرنے کے بعد اپنی یہ رائے قائم کی ہے کہ حضور مفتی اعظم اورامام احمد رضا کی تحریرات کی جھلک آپ کے فتاویٰ میں ملتی ہے۔ وہی شان و شوکت ،وہی آن بان اوروہی طمطراق جو ان بزرگوں کاتھا ۔ وہی آپ کی تحریروں میںنظر آتا ہے۔ شعر و سخن اورادبی ذوق وشوق سے بھی علامہ ازہری کا وقار بلند ہے۔ بلکہ اگریہ کہاجائے توکوئی بے جانہ ہوگا کہ شعر و شاعری سے آپ کو فطری لگائو ہے ۔ شاعری کی طرف یہ فطری رجحان بھی آپ کووراثت میں ملاہے۔ اس میدان میں آپ نے کسی سے بھی باضابطہ اصلاح نہیں لی ہے بلکہ دل میں ابھرنے والے جذبات واحساسات الفاظ کے پیرائے میں ڈھلتے گئے ہیں۔ آپ کی شاعری دل کی شاعری ہے۔جذبات کی شاعری ہے۔ ایسی شاعری ہے جس میں خون جگر شامل ہے ان کا دیوان جو سفینہ بخشش سے موسوم ہے ۔ میرے سامنے موجود ہے۔ اس کامیں نے بالاستیعاب مطالعہ کیا ہے۔ اس کے ایک شعر میں کہیں تو جذب و کشش اور دلکشی ہے جو دل کو موہ لے رہی ہے۔ اورکہیں جذبات کی ہلکی سی آنچ ہے جو رہ رہ کے اٹھتی ہے اورجن سے میٹھامیٹھا درد پیداہوتاہے۔ اورکہیں جذبات کاایسا شعلہ اٹھتا ہے کہ دل کباب ہوجاتاہے۔ اوراس سے اٹھنے والادھواں عشق و مستی کی خبر دیتاہے۔ مولانا موصوف کی شاعری میں فکر وتخیل کی بلند پردازی ، الفاظ کی سحر کاری ، کیف آور لب و لہجہ اورسادگی بھی بلاکی ہے۔ ان کے کلام میں یہ تینوں عناصر اس بات کی نشاندہی کررہے ہیں ۔ علامہ موصوف نے امام احمد رضا سے رفعت خیال ، مولانا حسن ؔ بریلوی سے جوش وسادگی کااستفادہ کیا ہے۔ آئیے ان کی شاعری سے چندایسے اقتباسات پیش کرتے ہیں جن سے ہمارے مذکورہ دعوئوں کی تائید ہوتی ہے۔

۱-رفعت خیال:

خیال سے مراد وہ قوت ہے جو پہلے سے موجود تجربات ، مشاہدات اوراحساسات کے مابین ایسی ترتیب کرتی ہے جو عام روش سے الگ ہواورقارئین کو متاثر کرے جس شاعری میںخیال جس قدر بلند ہوگا۔اسی قدراس کی شاعری بھی بلندوبالا ہوگی۔ جب ہم اس نقطہ نظر سے حضرت علامہ کی شاعری کاتنقیدی جائزہ لیتے ہیں تو محسوس ہوتاہے کہ ان کی شاعری میں خیال کی بلندی پائی جاتی ہے ۔ اشہب فکر کی ایسی پرواز نظرآتی ہے کہ دل خوش ہوجاتاہے۔ رفعت خیال انسان کا فطری وصف ہے اوروہ شکم مادر سے لے کر آتاہے۔ اس کااکتساب نہیں کیاجاسکتا ۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ اکتساب سے اس فطری وصف میںانجلائی کیفیت توآجائے لیکن ازسرنو اس کااکتساب ممکن نہیں ہے۔ آئیے اورمولانا موصوف کی شاعری میں رفعت خیال کی تلاش و جستجو کریں علامہ موصوف لکھتے ہیں۔

وہی جو رحمتہ للعالمین ہیں جان عالم ہیں
بڑ ا بھائی کہے ان کو کوئی اندھا بصیرت کا

ہمارے شاعر کو یہ معلوم تھاکہ سر کارابدقرارﷺساری دنیا کی رحمت ہیں اورعالم کی جان ہیں گویا وہ عالم اورساری کائنات کامرکز ہیں کیوں کہ سارا عالم انہیں کے طفیل میں پیدا ہوا ہے۔ اس معلومات میں جدید ترتیب دے کر یہ خیال پیش کیا ہے کہ اس حیثیت کوتسلیم کرلینے کے بعد انہیں بھائی کہنا کسی طرح جائز نہیں کیوں کہ یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ ان دوکے مابین اخوت کارشتہ ہوتاہے جب وہ دونوں ایک ہی حیثیت رکھتے ہوں اوریہاں ایسانہیں ہے ایک کوتومرکزی حیثیت حاصل ہے اوردوسرے کو نہیں۔ جو بھائی ہے وہ مرکز نہیں بن سکتا اورجومرکز ہے وہ بھائی نہیں ان دونوں کے مابین تضاد کی نسبت سے اس کے باوجود انہیں بھائی کہنا اندھی بصیرت کانتیجہ توہوسکتاہے لیکن بصیرت نہیں یہ خیال کس قدر بلند ہے اوربلند ہونے کے ساتھ ساتھ اس میں جو لطافت ، پاکیزگی ہے وہ بیان سے باہر ہے۔

(۲)جھکے نہ بار صداحساں سے کیوں بنائے فلک
تمہارے ذرے کے پرتوستارہائے فلک

(۳) یہ خاک کوچۂ جاناں ہے جس کے بوسہ کو
نہ جانے کب سے ترستے ہیں دیدہ ہائے فلک

ان اشعار کو پڑھئے اوربار بار پڑھئے ، ان میں خیال کی جورفعت ہے ، جو بلندی ہے وہ قابل صدرشک ہے۔ عام طور پر یہ خیال کیاجاتاہے کہ آسماں صرف اس لئے جھکاہوامعلوم ہوتاہے کہ وہ کروی شکل کا ہے لیکن ہمارامحبوب شاعر اس کی توضیح اس عام خیال سے ہٹ کرکررہے ہیں فلک اس لئے جھکاہواہے کہ اس پر میرے سرکار کے ایک دونہیں بلکہ صداحسانات ہیں۔ وہ احسان یہ ہیں کہ ستار ہائے فلک کیاہیں۔ ان کے ذروں کے پرتوہیں۔ گویا ذرے اصل ہیں اورستارے سایہ ہیں۔ اوریہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ سایہ ادھر ہی جھکتا ہے جدھر کو اس کی اصل شئے ہوتی ہے۔فلک کے ستارے اس لئے زمین کی طرف جھکے ہوئے ہیں کہ وہ خاک کوچہ جاناں کابوسہ لیناچاہتے ہیں اورنہ معلوم وہ کب سے اس بوسہ کے لئے ترس رہے ہیں ۔ اس کی کوئی ابتدانہیں بعینہ اس خیال کوامام احمدرضا نے اس طرح پیش کیا ہے

وہی تو اب تک چھلک رہاہے وہی تو جو بن ٹپک رہاہے
نہانے میں جو گراتھا پانی کٹورے تاروں نے بھرلئے تھے

ذرے جھڑ کر تیری پیزاروں کے
تاج سر بنتے ہیں سیاروں کے

بطور نمونہ میںنے چند اشعار پیش کردئیے ہیں ۔ علامہ ازہری صاحب کے دیوان میں ایسے بہت سے اشعار ہیں جن میں بلند سے بلند تر خیالات پیش کئے گئے ہیں ، ان اشعارکواس دیوان میں تلاش کیجئے اس کا بخوبی اندازہ ہوجائے گا۔

۲-مطالعہ کائنات:
بقول جامی شاعری کی تین شرطیں ہیں۔ تخیل، مطالعہ کائنات اور سادگی ۔ ان میں سے پہلی شرط کاتذکرہ قدرے تفصیل کے ساتھ ہوچکاہے۔اب رہی بات مطالعہ کائنات کی۔ اس میدان میں بھی وہ کسی سے کم نہیں۔ ان کاذہن نہایت ہی وسیع اور کھلاہواہے۔ موصوف نے کائنات کے ایک ایک ذرے،گل وبلبل سرد ، قمری، تبسم ، لطافت اورپاکیزگی کامطالعہ کیاہے۔ پھر خیال کی آمیزش سے اس میں منطقی ترتیب دی ہے جونہایت ہی فرحت انگیز ہے اوردل میںاترجانے والی ہے۔ نیزا س مطالعہ کائنات سے جاناں کاجوتصور ، جو خیال پیش کیاگیا ہے وہ بالکل لطیف تر ہے۔ آئیے اس کا بھی جلوہ دیکھتے جائیں۔

(۱) وہی تبسم وہی ترنم وہی نزاکت وہی لطافت
وہی ہیں دزدیدہ سی نگاہیں کہ جن سے شوخی ٹپک رہی ہے

(۲)گلوں کی خوشبو مہک رہی ہے دلوں کی کلیاں چٹک رہی ہیں
نگاہیں اٹھ اٹھ کے جھک رہی ہیںکہ ایک بجلی چمک رہی ہے

ان اشعار میں مطالعہ کائنات کی جو جلوہ نمائی ہے ۔اسے فراموش نہیں کیاجاسکتا۔ ان مختلف اوصاف سے جو رخ زیبا تیار ہورہا ہے حسن شوخ یاصورت کارمز میں بیان کیاگیا ہے وہ نہایت ہی خوب صورت کارمز بیان کیاگیا ہے۔ وہ نہایت ہی خوب صورت اوراچھوتا ہے جو دل کو بھاجانے والا ہے۔

۳-سادگی:
کلام میں شاعری میں سادگی کاہونا کوئی عیب نہیں ہے بلکہ یہ بھی ایک قسم کی پرکاری ہے اورہزار تصنع و بناوٹ سے بہتر ہے۔ الفاظ کی تراش خراش میں مضامین کو پیچیدہ درپیچیدہ بنادینا کوئی دانشمندی نہیں ہے۔ کبھی کبھی سادگی بھی زیورکاکام دیتی ہے۔

تکلف سے بری ہے حسن ذاتی
قبائے گل میں گل بوٹا کہاں ہے

علامہ موصوف نے کبھی بھی جذبات کے بیان میںخیالات کے پیش کرنے میں کسی قسم کی بناوٹ اورتصنع سے کام نہیں لیا ہے بلکہ ہلکے پھلکے الفاظ میں ان جذبات و خیالات کو پیش کردیا ہے۔ جس سے ان کی شاعری میں جذب و کشش ، لطف ورعنائی ، شوخی بانکپن پیداہوگیا ہے۔ وہ سادگی کی جس راہ سے گزرتے ہیں تو فطری طور پر لوگ احساس کرنے لگتے ہیں کہ اس زمین میں اور ہلکے پھلکے الفاظ میںشاعری کوئی مشکل نہیں مگر جب میدان میں اترتے ہیں تو محسوس ہوتاہے وہ سہل ممتنع کے ممتاز شاعر ہیں کہ ان کی تقلید ان کے لب ولہجہ کی پیروی اورذوق وشوق کا حصول اتنا آسان نہیں ہے جتنا کہ وہ سمجھتے ہیں

(۱) تخت زریں ہے نہ تاج شاہی ہے
کیا فقیرانہ بادشاہی ہے

(۲) فقر پر شان یہ کہ زیرنگیں
ماہ سے لے کے تابہ ماہی ہے

(۳) اک نگاہ کرم سے مٹ جائے
دل پہ اختر کے جو سیاہی ہے

(۱) شہنشاہ دوعالم کاکرم ہے
میرے دل کو میسر ان کاغم ہے

(۲)یہاں قابو میں رکھئے دل کواخترؔ
یہ دربار شہنشاہ امم ہے

(۱) اہل دل ہی یہاں نہیں کوئی
کیاکریں حال زار کی باتیں

(۲) پی کے جام محبت جاناں
اللہ اللہ خمار کی باتیں

(۳) ہر گھڑی وجد میں رہے اخترؔ
کیجئے اس دیار کی باتیں

واہ کیاسادگی ہے ، کیاخلوص و پیار ہے۔الفاظ ہیں کہ جو نہایت ہی سہل اورآسان ہیں جس سے دل باغ باغ ہورہا ہے۔ ذہن و دماغ میں کیف و سرور کاعالم ہے۔ میں نے جن اصول تنقید کے تحت اس مجموعہ نعت کاجائزہ لیا ہے اس سے یہ اندازہ ہوگیا ہوگا کہ علامہ موصوف ایک فن کار شاعر ہیں۔ ایک کامیاب اور فی البدیہہ گوشاعرہیں۔ لیکن اس حقیقت کاانکشاف بھی ضروری ہے علامہ موصوف ایسے شاعروں اورادیبوں میں نہیں ہیںجو شاعری تو کرتے ہیں ادبی تخلیق میںحصہ لیتے ہیں مگرسماج معاشرہ اوراردگرد کے حالات سے ناواقف ہیں لیکن ہمارے محبوب شاعر سماجی حالات اور اردگرد کے ماحول سے لاتعلق نہیں۔ بلکہ اپنی تخلیق میں وہ ایسا نسخہ کیمیا پیش کرتے ہیں جس سے سماج کی اصلاح ہوسکتی ہے۔ وہ سماج کے عیوب پر طنز بھی کرتے ہیں لیکن ایسا طنز جو نشترکابھی کام کرے اورچبھنے سے درد کابھی احساس نہ ہو ۔ وہ دنیا کے طور طریقے پر جس خوبصورتی سے طنز کرتے ہیں جس اچھوتے پیرائے میں بیان کرتے ہیں اس سے دلکشی اوررعنائی کاپہلو نمایاں ہوتاہے۔ وہ فرماتے ہیں۔

(۱) کون ہوتاہے مصیبت میں شریک وہمدم
ہوش میں آیہ نشہ ساتجھے ہر دم کیاہے

(۲) کیف و مستی میں یہ مدہوش زمانے والے
خاک جانیں غم وآلام کاعالم کیا ہے

(۳) ان سے امید وفاہائے تیری نادانی
کیاخبر ان کویہ کردار معظم کیاہے

(۴) وہ جو ہیں ہم سے گریزاں تو بلاسے اپنی
جب یہی طور جہاں ہے توبھلا غم کیاہے

(۵) میٹھی باتوں پہ نہ جااہل جہاں کے اختر
عقل کوکام میں لاغفلت پیہم کیا ہے

شاعری صرف قافیہ پیمائی کانام نہیں ہے۔ خوبصورت الفاظ اور شعلہ بداماں جملوں کے استعمال کانام نہیں ہے۔ بلکہ اس میںحسن صورت کے ساتھ ساتھ حسن معنی بھی ہو۔ صنائع لفظی کے ساتھ ساتھ صنائع معنوی بھی ہو۔ بڑے بڑے دانشمندوں ، فلسفیوں ، مدبروں اورمفکروں نے شاعری کی عظمت کااعتراف کیا ہے اوران اسباب کی تلاش کی ہے جن سے شاعری میں عظمت بلندی اورترفع پیداہوتاہے۔ میںصرف ایک فلسفی کاقول نقل کررہاہوں۔ لان جاتی نس جو ایک بڑے فلسفی تھے اوروہ ادب کاکھلے دل سے اعتراف کیا ہے۔ ان کے نزدیک پانچ ایسے اسباب ہیں جن سے شاعری میںعظمت اورترفع آتا ہے۔ وہ یہ ہیں۔
۱- خیال بلند ہو۔
۲- صنعتوں کااستعمال ہو۔
۳- محنت اورتوجہ سے الفاظ کاانتخاب کیاگیا ہو۔
۴- جذبات میں ایسی شدت ہو کہ پڑھنے والے کے د ل میںاترجائیں۔
۵- لفظوں کی ترتیب سے ہم آہنگی ظاہر ہو اورنغمگی پیداہو جو نہ صرف کانوں کوبھاتی ہوبلکہ جذبات کو بھی بیدارکرتی ہو۔
کیایہ تمام اسباب علامہ ازہری کی شاعری میں پائے جاتے ہیں۔ اس سوال کاجواب عملی طورپر ہی دیاجاسکتا ہے۔ میںاس سوال کے جواب میں کہوں۔ ہاں۔ اس سے بہتر ہے کہ اس کاایک سرسری جائزہ لیتے چلیں۔ تاکہ ان کی شاعری میں عظمت کے جوراز ہائے سربستہ ہیں وہ طشت از بام ہوجائیں۔ ان پانچ میں سے اول یعنی’’خیال بلند ہو‘‘ اس کی وضاحت ہوچکی ہے۔ مزید اس پرگفتگو کرناسعی لاحاصل ہوگی۔

۲- صنعتوں کااستعمال:
شعراء نے صنعتوں کااستعمال کیاہے اورکہیں کہیں اس کثرت سے کیا ہے کہ مفہوم شعر ادق ہوگیا ہے۔ اس قسم کے اشعار زیادہ تر لکھنوی شعرا کے یہاں پائے جاتے ہیں ۔ حضرت علامہ ازہری صاحب قبلہ نے بھی صنعت کااستعمال کیا ہے لیکن اس خوبصورتی سے کیا ہے کہ مفہوم رقیق ہونے کے بجائے اس میں فطری حسن سماگیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے۔

(۱) صنعت تلمیع
اس کو ذولسانین اورذونعتین بھی کہتے ہیں ۔ کسی شعر کے دونوں مصرعوں کو الگ الگ زبان میں کہنے کو صنعت تلمیح کہتے ہیں۔

(۱) ادب گاہیست زیر آسماں از عرش نازک تر
یہاں آتے ہیں یوں عرشی کہ آوازہ نہیں پر کا

(۲) خلد کی خاطر مدینہ چھوڑ دوں
ایں خیال است و محال است وجنوں

(۲) صنعت تکرار لفظی
اس صنعت میں دو لفظو ں کو مکر رلایاجاتاہے جس سے شعر میں زور پیداہوجاتاہے۔

در پہ دل جھکا ہوتا اذن پا کے پھر بڑھتا
ہرگناہ یاد آتا دل خجل خجل جاتا!

(۳) تنسیق الصفات
یہ وہ صفت ہے جس میں متواتر صفتوں کاتذکرہ کیاجاتاہے۔

شجاعت نازکرتی ہے جلالت ناز کرتی ہے
وہ سلطان زماں ہیں ان پہ شوکت نازکرتی ہے
صداقت ناز کرتی ہے امانت ناز کرتی ہے
حمیت ناز کرتی ہے مروت ناز کرتی ہے

مذکورہ بالا اشعار میں ترصیع بھی ہے جو صوتی نظام کو متاثر کررہی ہے اور اس سے خوشگوار نغمہ کی بنیاد پڑتی ہے۔
جن صنعتوں کامیں نے ذکر کیا ہے وہ سب لفظی ہیں آئیے اورصنعت معنوی کاجلوہ دیکھئے جس سے معنی وخیال میں ندرت اورحسن و بانکپن پیداہوتاہے۔

(۴) تشبیہہ:

یہ صنعت ہر دور کے شاعروں کے یہاں مقبول ذریعہ اظہار رہی ہے۔ کیوں کہ یہ بے نام و ہیت انفرادی تجربات و جذبات کے خارجی دنیا میں مماثل تلاش کرنے کاسب سے سہل طریقہ کار ہے۔ کوئی بھی شاعر تشبیہ کااستعمال مندرجہ ذیل اغراض ومقاصد کے تحت کرتاہے۔
(۱)مشبہ کے وجود کااثبات
(۲)مشبہ کے حال ، حسن اوراوصاف کابیان
(۳)مشبہ کی کیفیت کابیان
(۴) مشبہ کی ندرت یاغرابت کا بیان
علامہ ازہری صاحب نے بھی تشبیہہ کو ذریعہ اظہار بنایا ہے اوراس کے ذریعہ اپنی تخلیق میںمعنوی حسن دوبالا کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اس طرح علامہ موصوف کی شعری تخلیق کسی سے کم نہیں ہے۔ میرے محبوب شاعر تشبیہات کے ذریعہ اپنے انفرادی جذبات و تجربات، احساسات ومشاہدات اورخیالات وتصورات کی ترسیل کرتے ہیں۔ لیجئے علامہ موصوف کے اشعار حاضر ہیں اورعلامہ کی نادر کاری کوحبّذا کہئے۔

(۱) روئے انور کے سامنے سورج
جیسے اک شمع صبح گاہی ہے

اس شعر میں روئے انور کو صبح سے تشبیہ دی گئی ہے اور سورج کو شمع صبح گاہی سے دونوں تشبیہوں میںاطراف مرئی ہیں۔ اول تشبیہ میں جو وصف شبہ ہے اس میںاگرچہ ندرت نہیں ہے لیکن دوسری تشبیہ کے اطراف میں جو وجہ شبہ ہے اس میں ندرت ہے اورایک قسم کا تنوع ہے جو عام روش سے ہٹاہوا ہے۔
شمع صبح گاہی کی کیاحیثیت ہے ؟ یہ ایک واضح سی بات ہے اس کی زندگی چند لحظوں کی ہوتی ہے۔ جس میں کوئی حسن و دلکشی نہیں ہوتی ہے۔ اوراس کی دوسری حیثیت وہ ہے جسے شعرا نے برتاہے اوراستعمال کیا ہے یعنی رات بھر جلنا اورسوز کی کیفیت۔ میرؔ، دردؔ شمع صبح گاہی کی اس حیثیت کو اس طرح استعمال کرتے ہیں۔ ملاحظہ ہو۔

(۱) جوں شمع صبح گاہی ایک بار بجھ گئے ہم
اس شعلہ خوں نے مارا ہم کو جلاجلا کر

(۲) تصویر کی سی شمعیں جلتے ہیں ہم
سوز دروں ہمارا آتانہیں زباں تک

علامہ ازہری نے شمع کی اس حیثیت کو نظرانداز کرتے ہوئے اس کے پھیکے پن اورمعمولی سی حیثیت کو وجہ شبہ قرار دیا ہے۔ نیز اس کے توسط سے رخ انور کی جس ندرت کوبیان کرنے کی کوشش کی ہے وہ قابل ستائش ہے۔ یوں توعلامہ موصوف کی شاعری میںاس قسم کی تشبیہات کثرت سے پائی جاتی ہیں تاہم طوالت مضمون کے پیش نظر اسی ایک مثال پراکتفا کرتے ہیں۔ تشبیہہ کے علاوہ آپ نے صنعت استعارہ ،تضاد،تجنیس،رمز وکنایہ سے بھی کام لیا ہے اوران تمام کو اپنے اظہار کے ذریعہ بنایاہے جس میں آپ کی شاعری خوب صورت سے خوب صورت تربنتی چلی گئی ہے۔

(۳) محنت وتوجہ سے الفاظ کاانتخاب
میں نے اب تک علامہ موصوف کے دیوان سے جن اشعار کااقتباس پیش کیا ہے اس سے بخوبی اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ علامہ الفاظ کے انتخاب اوراس کی نشست و برخاست پر کس قدر مہارت رکھتے ہیں نیز ان میںایسی فطری مناسبت ہے جو محسوس نہ ہوتی ہوگی کیوں کہ علامہ موصوف علم وفن کی جس بلندی پر فائز ہیں وہاں پہنچنے کے بعد الفاظ کے انتخاب میں انہیں کمال اورقدرت تام حاصل ہوگئی ہے اور طبیعت اس طرح مائل بہ پرواز ہے کہ کسی مخصوص ماحول کے اب مزید انتظار کی حاجت نہیں ۔

(۴)جذبات واحساسات کی شدت
حضرت علامہ ازہری صاحب کی شاعری میںجذبات اورواردات کی ایسی شدت ہے کہ قارئین اورسامعین دونوں ان کی شاعری کوپڑھتے ہی-وجد کے عالم میں پہنچ جاتے ہیں ۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیے اورجذبات کی شدت کااندازہ لگائیے جذبات کی شدت صرف ان کاہی نہیں بلکہ ان کے خاندان کاطرۂ امتیاز ہے۔ انہیں یہ دولت وراثت میں ملی ہے۔

(۱) درجانان پہ فدائی کواجل آئی ہو
زندگی آکے جنازے پہ تماشائی ہو

(۲) دشت طیبہ میں چلوں چل کے گروںگرکے چلوں
ناتوانی مری صدر شک توانائی ہو

(۳) گل ہو جب اخترؔ خستہ کاچراغ ہستی
اس کی آنکھوں میں تیرا جلوہ زیبائی ہو

ان اشعار کو پڑھئے اوراندازہ لگائیے کہ ان اشعار کے لفظ لفظ میں جذبات کاطوفان پوشیدہ ہے، جوقارئین کے دلوں میں پہنچ کر ایک ہیجانی کیفیت بیدارکررہاہے اورسامعین کو مست بنارہا ہے۔

(۵) لفظوں کی ترتیب اورہم آہنگی
یہ ایک مسلم اصول ہے کہ حرفوں کی ترتیب سے جولفظ بنتاہے وہ آفاقی صورت رکھتاہے اوراس لفظ سے جو آواز پیداہوتی ہے۔ اس کاتعلق مضمون سے بنارہتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ شاعر تخلیق کے وقت جن جذبات وکیفیات سے متاثر ہوتاہے ۔ الفاظ بھی انہی جذبات کے مطابق منتخب ہوتے ہیں۔ نیز الفاظ کے زیروبم سے وہی ہم آہنگی تیارکرتی ہے۔وہی فضا چھاجاتی ہے جو جذبات چاہتے ہیں مثلاً علامہ موصوف کایہ شعر ملاحظہ فرمائیے۔

(۱) میری میت پہ یہ احباب کاماتم کیا ہے
شور کیسا ہے یہ اورزاری پیہم کیا ہے

(۲) وائے حسرت دم آخر بھی نہ آکر پوچھا
مدعا کچھ تو بتا دیدۂ پُرنم کیاہے

ان اشعار میں طویل مصرعے کثرت سے لائے گئے ہیں اورلفظ’’ہے‘‘ جو ہکاری کی آواز دیتاہے۔ ان تمام نے مل کراسلوب کو المیہ بنادیا ہے۔ پھراس پرمزید یہ کہ قافیہ کے اتصال نے ایسی ہم آہنگی پیداکردی ہے جو بیان کی حد سے باہر ہے۔ الفاظ کی نشست و برخاست، اتارچڑھائو اورنشیب و فراز نے وہ ربط وآہنگ جنم دیا ہے جو قابل صد ستائش ہے ۔ لفظوں کی ترتیب کا یہ مختصر بیان ہے۔ اس پر میں اکتفاکرتاہوں۔ اگرفرصت ملی تو انشاء اللہ اس پر مزید گفتگو کی جائے گی۔
بہرصورت اس تنقیدی اورتجزیاتی جائزے سے ثابت ہوگیا کہ علامہ اختررضاخاں ازہری کیاہیں اوران کی ذات میںکس قدر خوبیاں سمائی ہوئی ہیں نیزان کی شاعری کس قدر کامیاب ہے۔اس کا بھی اندازہ ہوگیا ہوگا۔ میرے خیال میں علامہ اختررضا خاں ازہری صاحب قبلہ کی شاعری میں وہ تمام خوبیاں پائی جاتی ہیں جو ایک کامیاب شاعر کے عناصر ہیں۔ ان کابغور مطالعہ کیجئے اورانصاف سے بتائیے کہ علامہ اختررضاخاں ازہری کون ہیں؟ان کی شخصیت کن کمالات کی حامل ہے؟ نیزاردوادب میںان کامقام کیاہے؟ اس تفصیلی مضمون کو قلم بند کرنے کے بعدمیں یہ محسوس کررہاہوں کہ علامہ موصوف کے بارے میں میں نے جوبات کہی ہے یا جو رائے قائم کی ہے وہ اس سے فزوں ہیں۔

یہ قصہ ٔ لطیف ابھی ناتمام ہے
جوکچھ بیاںہوا آغاز باب تھا
٭٭٭

 

Menu