حضورتاج الشریعہ کے کلام کی بدیعی پیمائش

مولانا اختر حسین فیضی، مبارکپور ، انڈیا


تاج الشریعہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمداختر رضاخاں ازہری بریلوی تخلص بہ اختر ؔ مد ظلہ العالی (جانشین مفتی اعظم ہند ) خانوادہ رضویہ کی ان عظیم ہستیوں میں سے ہیںجن کی ذات سے آج بریلی کی علمی بہار قائم ہے۔
آپ ۱۹۴۳ء میں محلہ سوداگران ، بریلی میں پیدا ہوئے۔ اعلیٰ حضرت تک شجرہ ٔ نسب یہ ہے۔
محمد اختر رضا بن ابراہیم رضابن حامد رضا بن (امام) احمد رضا۔
دارالعلوم منظراسلام بریلی، اسلامیہ انٹر کالج بریلی اورجامعۃ الازہر مصر سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد تدریس و تبلیغ اورتصنیف و تالیف میں لگ گئے ۔ تبلیغ واصلاح اورتصنیف وتالیف کاسلسلہ آج بھی جاری ہے۔ آپ کی شناخت صف اول کے عالم دین اورشیخ طریقت کے طورپر ہے۔ قرآن فہمی، حدیث دانی اور فقہ شناسی میں آپ کوید طولیٰ حاصل ہے اورشعر وسخن سے بھی گہری وابستگی ہے ۔ آپ کامجموعہ کلام ’’سفینہ ٔ بخشش‘‘ کے نام سے مطبوع ہے ۔ جس میں حمد و نعت اور منقبت کے اشعارشامل ہیں۔ آپ کی شاعری کاایک مخصوص رنگ و آہنگ ہے جو آپ کو ہم عصر نعت گوشعرا سے ممتاز کرتاہے ۔ اسلوب صاف شستہ اورمعنی آفریں ہے۔ اس لئے قارئین پرایک واضح نقش چھوڑتاہے۔ آپ کی شاعری میں جابجا تغزل کا رنگ و آہنگ صاف جھلکتا ہے۔ تغزل سے بھرپور درج ذیل اشعار ملاحظہ ہوں۔

وہی تبسم ، وہی ترنم وہی نزاکت وہی لطافت
وہی ہیں دزدیدہ سی نگاہیں کہ جس سے شوخی ٹپک رہی ہے

گلوں کی خوشبو مہک رہی ہے دلوں کی کلیاںچٹک رہی ہیں
نگاہیں اٹھ اٹھ کے جھک رہی ہیں کہ ایک بجلی چمک رہی ہے

یہ مجھ سے کہتی ہے دل کی دھڑکن کہ دست ساقی سے جام لے لو
وہ دور ساغر کا چل رہا ہے شراب رنگین چھلک رہی ہے

یہ میں نے مانا حسین و دلکش سماں یہ مستی بھرا ہے لیکن
خوشی میں حائل ہے فکر فردا مجھے یہ مستی کھٹک رہی ہے

نہ جانے کتنے فریب کھائے ہیں راہ الفت میں ہم نے اخترؔ
پر اپنی مت کو بھی کیاکریں ہم فریب کھاکر بہک رہی ہے

آپ کی شاعری کاخاصا سرمایہ نعتِ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) ہے ان میں آپ نے سرورکونین محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت عالیہ ، مقام ومرتبہ اوراسوۂ حسنہ کاذکر بڑے خوب صورت پیرایے میں کیا ہے۔سرکار کے معجزات ،اختیارات اورتصرفات کو بھی شاعری کے قالب میںڈھالا ہے۔

جہاں بانی عطاکردیں بھری جنت ہبہ کردیں
نبی مختار کل ہیں جس کو جوچاہیں عطاکردیں

جہاں میں ان کی چلتی ہے وہ دم میں کیاسے کیاکردیں
زمیں کو آسماں کر دیں ثریاکو ثریٰ کردیں

مقطع میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر بھرپور بھروسا کرتے ہوئے یوں رطب اللسان ہیں ؎

مجھے کیا فکر ہواخترؔ میرے یاور ہیں وہ یاور
بلاؤں کو جو میری خود گرفتار بلاکردیں

نعت گوئی کے لئے یہ زبان وبیان کی شیرینی ، فکر وخیال کی بلند پروازی اورعشق رسول کی چاشنی بنیادی شرط ہے۔ حضرت اخترؔ بریلوی مدظلہ نے صرف اظہار فن کے لئے نعتیں نہیں کہی ہیں بلکہ ان کاکلام الفاظ کے پیکر میں عقیدت ومحبت کی دلی آواز ہے۔ جس میں سو ز و گداز ، عشق وسرمستی اورخودسپردگی کاعنصر پورے طور پر کارفرماہے۔ ایک جگہ یوں گویا ہیں ؎

داغ فرقت طیبہ قلب مضمحل جاتا
کاش گنبد خضرا دیکھنے کومل جاتا

میرا دل نکل جاتا ان کے آستانے پر
ان کے آستانے کی خاک میں ، میں مل جاتا

ان کے در پہ اخترؔ کی حسرتیں ہوئیں پوری
سائل دراقدس کیسے منفعل جاتا

عقیدے کی زبان میںدرج ذیل اشعار بھی دیکھیں ؎

وجہ نشاط زندگی راحت جاں تم ہی تو ہو
روح روان زندگی جان جہاں تم ہی تو ہو

اصل شجر میں ہوتم ہی نخل و ثمر میں ہو تم ہی
ان میں عیاں تم ہی تو ہو ان میں نماں تم ہی توہو

سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے در کی گدائی پر ناز کرتے ہوئے یوں رقم طراز ہیں ؎

ان کی گدائی کے طفیل ہم کوملی سکندر ی
رنگ یہ لائی بندگی اوج پہ اپنابخت ہے

اس کے بعد بارگاہ رسول میں اپنی خواہشوں کااظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں ؎

غنچۂ دل کھلائیے، جلوہ ٔ رخ دکھائیے
جام نظر پلائیے، تشنگی مجھ کو سخت ہے

دل کی بے تابی کااظہار اس طور پر کرتے ہیں ؎

اخترؔ خستہ طیبہ کو سب چلے تم بھی اب چلو
جذب سے دل کے کام لو اٹھو کہ وقت رفت ہے

آپ کاپایہ شاعری اس لئے بھی اور بلند نظر آتاہے کہ آپ نے اپنے اجداد کے ذخیرہ ٔ شعر و سخن سے خوب استفادہ کیا ہے۔ اعلیٰ حضرت رضاؔ بریلوی ، مولانا حسن رضا حسنؔ بریلوی اور مفتی اعظم ہند نوریؔ بریلوی کاسرمایہ شاعری آپ کے پیش نظر ہے اس لئے ان کارنگ کلام ، آپ کے اشعار میں صاف نظرآتاہے۔
اس مضمون میںکلام اخترؔ کابدیعی تجزیہ پیش کیاگیا ہے ۔ اس لئے مناسب یہ معلوم ہوتاہے کہ علم بدیعی کے تعلق سے چند باتیں پیش کردی جائیں۔
بدیع اس علم کو کہتے ہیں جس کی رعایت سے فصیح و بلیغ کلام اورحسین ہوجاتاہے۔ علم بدیع کو صنائع ، بدائع بھی کہاجاتا ہے۔ علامہ قزوینی فرماتے ہیں:ھو علم یعرف بہ وجوہ تحسین الکلام بعد رعایۃ المطابقۃ ووضوح الدلالۃ(تلخیص المفتاح ۔ ص ۶۱ ، مجلس برکات ، جامعہ اشرفیہ مبارک پور)
یعنی بدیع ایسا علم ہے جس کے ذریعہ تحسین کلام کے طریقے معلوم کئے جائیں ، مگران طریقوں سے کلام میں حسن اورخوبصورتی اس وقت آئے گی جب کہ کلام موقع و محل کے مطابق ہو اورمعنی ومراد کی ترسیل بھی متاثر نہ ہو۔ اس سے پتہ چلا کہ علم بدیع کے عناصر یاکلام میں حسن و لطافت اورتاثیر کے علاوہ اضافی پہلو بھی اجاگر کرتے ہیں چوں کہ اس علم کی رعایت سے کلام کے اندر ندرت اور انوکھا پن پیداہوتاہے ۔ اس لئے شاعری میں اسے بڑی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن ذہن میں یہ بھی رہناچاہئے کہ صنائع بدائع بے تکلفی سے آجائیں تو کلام میںحسن پیداکرتے ہیں اورجہاں تکلف اورورد سے کام لیاگیا ہے، وہاںحسن اضافی تو کیاحسن ذاتی بھی متاثر ہوجاتاہے۔ کلام کے اندر تزئین وتحسین دوطرح کی ہوتی ہے۔ ایک لفظی ، دوسری معنوی جن میں ذاتی طور لفظی خوبیاں ہوتی ہیں وہ صنائع لفظی اورجن میں معنوی خوبیاں ہوتی ہیں وہ صنائع معنوی کہی جاتی ہیں۔ حضرت اختر ؔ بریلوی کے کلام میں یہ خوبیاں بہ کثرت پائی جاتی ہیں۔ درج ذیل سطور میں صنائع بدائع کے لحاظ سے کلام کے اندر حسن و جمال کی جھلکیاں دیکھی جاسکتی ہیں۔

تجنیس تام:

وہ صنعت ہے کہ دو لفظوں کے حروف نوع میں ، تعداد میں ، ترتیب میں اورحرکت وسکون میں یکساں ہوں۔ اس کی دوقسمیں ہیں۔ تجنیس تام مماثل ، تجنیس تام مستوفی۔ اگران دونوں لفظوں میں سے ایک فعل اوردوسرا اسم ہوتو اسے تجنیس تام مستوفی کہتے ہیں اوردونوں یکساں ہوں تو اسے تجنیس تام مماثل کہتے ہیں دونوں کی مثالیں امام نعت گو یاں حضرت رضا بریلوی کے اشعار سے پیش ہیں مثال تجنیس تام مماثل

بحر سائل کاہوں سائل نہ کنویں کاپیاسا
خود بجھاجائے کلیجا مراچھینٹا تیرا

اس میں دونوں ’’سائل ‘‘ اسم فاعل ہیں پہلا ’’سیل‘‘ (بہنا) مصدر سے ہے اوردوسرا سوال (مانگنا) سے۔

مثال تجنیس تام مستوفی:

تیرا قدِّمبارک گلبن ِرحمت کی ڈالی ہے
اسے بوکر تیرے رب نے بنارحمت کی ڈالی ہے

پہلے مصرع میں ’’ڈالی‘‘ بہ معنی شاخ ، اسم ہے اور دوسرے مصرع میں ’’ڈالی‘‘ فعل ہے ڈالنا مصدر سے۔ اب امام احمد رضا بریلوی کے علم کے وارث تاج الشریعہ حضرت اختر ؔ بریلوی کے کلام میں تجنیس تام مستوفی کی بہترین مثا ل دیکھیں۔

وہ خرام ناز فرمائیں جو پائے خیر سے
کیا بیاں وہ زندگی ہودل جوپائے خیر سے

پہلے مصرع میں ’’پائے‘‘ پیر کے معنی میں اسم ہے اوردوسرے میں ’’پائے‘‘ ’’پانا‘‘ مصدر سے فعل ہے۔

صنعت اشتقاق:

کلام میں ایک ہی مادہ کے چند الفاظ لانا جیسے ؎

اے بخت تو جاگ اورجگا ہم کو کہ پھر
جاگیں گے نہ تاحشر جگائے سے کِسُو کے

اس میں جاگ، جگا، جاگیں گے اورجگائے یہ سب ’’جاگنا‘‘مصدر سے مشتق ہیں۔
حضرت اخترؔ بریلوی کے اشعار میں صنعت اشتقاق کی رنگینی ملاحظہ فرمائیں ؎

فرقت طیبہ کے ہاتھوں جیتے جی مردہ ہوئے
موت یارب ہم کو طیبہ میں جلائے خیر سے

جیتے اورجلائے میں صنعت اشتقاق ہے ۔

موت لے کے آجاتی زندگی مدینے میں
موت سے گلے مل کر زندگی میں مل جاتا

مل کر اور مل جاتا میں صنعت اشتقاق ہے۔

مجھے کھینچے لئے جاتا ہے شوق کوچۂ جاناں
کھینچا جاتاہوں میں یکسر مدینہ آنے والا ہے

کھینچے اورکھینچا جاتاہوں میں صنعت اشتقاق ہے ۔

طلب گار مدینہ تک مدینہ خودہی آجائے
تو دنیا سے کنارہ کر مدینہ آنے والا ہے

آجائے اورآنے والا میں صنعت اشتقاق ہے۔

مسمّط:

یہ صنعت عموماً لمبی بحر میں ہوتی ہے ۔ ہرشعر میں تین تین ٹکڑے ہم قافیہ ہوتے ہیں ۔ جیسے:

ماہ شق گشتہ کی صورت دیکھو، کانپ کرمہر کی رجعت دیکھو
مصطفیٰ پیارے کی قدرت دیکھو، کیسے اعجاز ہواکرتے ہیں

(رضاؔبریلوی)

حضرت اختر بریلوی کایہ شعر صنعت مسمط کی بہترین مثال ہے۔

گلوں کی خوش بو مہک رہی ہے، دلوں کی کلیاں چٹک رہی ہیں
نگاہیں اٹھ اٹھ کے جھک رہی ہیں کہ ایک بجلی چمک رہی ہے

تصدیر/ردالعجز علی الصدر :

اشعار میں کوئی لفظ درج ذیل صورتوں میں مکرر لانا۔
(۱) جس لفظ سے پہلا مصرع شروع ہوا، اسی پر دوسرا مصرع ختم ہو جیسے ؎

شاخ قامت شہ میں زلف و چشم ورخسار و لب میں
سنبل، نرگس، گل، پنکھڑیاں قدرت کی کیا پھولی شاخ

(رضابریلوی)

(۲) پہلے مصرع کاکوئی درمیانی لفظ دوسرے مصرع کے آخر میں لایاجائے جیسے ؎

سر فلک نہ کبھی تابہ آستاں پہنچا
کہ ابتدائے بلندی تھی انتہائے فلک

(رضابریلوی)

(۳) پہلامصرع جس لفظ پر ختم ہو،دوسرا مصرع بھی اسی پر ختم ہو ، جیسے ؎

تمہارے ذرے کے پر توستار ہائے فلک
تمہارے نعل کی ناقص مثل ضیائے فلک

(رضابریلوی)

(۴) دوسرا مصرع جیسے شروع ہو، اس کاختم بھی ویسے ہی ہو جیسے ؎

ہے کلام الٰہی میں شمس وضحی ترے چہرہ ٔ نور فزا کی قسم
قسم شب تار میں راز یہ تھا کہ حبیب کی زلف دو تاکی قسم

(رضا بریلوی)

حضرت اختر بریلوی کے اشعار میں بھی صنعت تصدیر کی مثالیں کثرت سے پائی جاتی ہیں۔ چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔

پہلی صورت:

(۱)کیجئے یاد ختام الانبیاء
ختم یوں ہر رنج و کلفت کیجئے

(۲) نہیں جاتی کسی صورت پریشانی نہیں جاتی
الٰہی میرے دل کی خانہ ویرانی نہیں جاتی

(۳) کیجئے اپنا محض اپنا مجھے
قطع میری سب سے نسبت کیجئے

دوسری صورت :

(۱)تیز کیجئے سینہ ٔ نجدی کی آگ
ذکر آیات ولادت کیجئے

(۲) جہاں بانی عطا کردیں بھری جنت ہبہ کردیں
نبی مختار کل ہیں جس کو جوچاہیں عطاکردیں

(۳) تم چلو ہم چلیں سب مدینے چلیں
جانب طیبہ سب کے سفینے چلیں

تیسری صورت :

(۱)فرقت طیبہ کی وحشت دل سے جائے خیر سے
میں مدینہ کو چلوں وہ دن پھر آئے خیر سے

(۲) دل میںحسرت کوئی باقی رہ نہ جائے خیر سے
راہ طیبہ میں مجھے یوں موت آئے خیر سے

(۳)عرش پر ہیں ان کی ہرسو جلوہ گستر ایڑیاں
گہہ بہ شکل بدر ہیں گہہ مہرانور ایڑیاں

پہلی صورت کادوسرا اوردوسری صورت کادوسرا اور تیسرا شعر ، تیسری صورت میں داخل ہے، اس لئے کہ ان کاپہلا مصرع جس لفظ پر ختم ہورہا ہے ، دوسرا مصرع بھی اسی لفظ پر ختم ہورہا ہے۔

چوتھی صورت:

(۱) نہ جانے کس قدر صدمے اٹھائے راہ الفت میں
نہیں جاتی مگر دل کی وہ نادانی نہیں جاتی

(۲)ان کے حاسد پہ وہ دیکھو بجلی گری
وہ جلا دیکھ کر وہ جلا وہ جلا

(منقبت درشان مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ)

ترصیع:

اگردونوں فقروں یامصرعوں کے تمام الفاظ ترتیب وار ، یکے بعد دیگرے وزن بھی رکھتے ہوں اور قافیہ بھی ، جیسے:

(۱) سب سے اولیٰ واعلیٰ ہمارا نبی
سب سے بالا ووالا ہمارا نبی

(رضابریلوی)

(۲) دھارے چلتے ہیں عطا کے وہ ہے قطرہ تیرا
تارے کھلتے ہیں سخا کے وہ ہے ذرا تیرا

(رضابریلوی)

حضرت اخترؔ بریلوی کے کلام میں صنعت ترصیع کے انوار وتجلیات جابجا نظر آتے ہیں جوارباب شعر و سخن کے لئے سامان تسکین ہیں ۔مثالیں ملاحظہ کیجئے اورلذت فکر و نظر کاسامان کیجئے ؎

(۱) صداقت ناز کرتی ہے امانت ناز کرتی ہے
حمیت ناز کرتی ہے مروت ناز کرتی ہے

(منقبت درشان امام عالی مقام حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما)

(۲)اپنے در پہ جو بلاؤ تو بہت اچھا ہو
میری بگڑی جو بناؤتو بہت اچھا ہو

(۳) قید شیطاں سے چھڑائو تو بہت اچھا ہو
مجھ کو اپنا جو بناؤ تو بہت اچھا ہو

(۴) سنبھل جا اے دل مضطر مدینہ آنے والا ہے
لٹا اے چشم تر گوہر مدینہ آنے والا ہے

(۵) قدم بن جائے میراسر مدینہ آنے والا ہے
بچھوں رہ میں نظر بن کر مدینہ آنے والا ہے

ذو قافیتین:

وہ صنعت ہے کہ شعر میں دوقافئے لائے جائیں ، جیسے

(۱) اللہ اللہ بہار چمنستان عرب
پاک ہیں لوث خزاں سے گل وریحان عرب

(رضابریلوی)

(۲) اگرگلوں کو خزاں نارسیدہ ہونا تھا
کنار خار مدینہ دمیدہ ہونا تھا

(رضا بریلوی)

حضرت اخترؔ بریلوی کے یہاں بھی اس صنعت میںاشعار پائے جاتے ہیں اختصاراً چند اشعار پیش ہیں ؎

میری میت پہ یہ احباب کاماتم کیاہے
شور کیسا ہے یہ اورزاری پیہم کیاہے

تیری چوکھٹ پہ جو سراپنا جھکاجاتے ہیں
ہربلندی کو وہی نیچا دکھاجاتے ہیں

شب معراج وہ اوحیٰ کے اشارات کی رات
کون سمجھائے وہ کیسی تھی مناجات کی رات

اپنے رندوں کی ضیافت کیجئے
جام نظارہ عنایت کیجئے

تلمیع: وہ صنعت ہے کہ کوئی شعر دویادو سے زیادہ زبانوں میں کہاجائے اسے ذولسانین بھی کہاجاتاہے ، حضرت اختر بریلوی کے کلام میں صنعت تلمیع کاحسن و جمال دیکھیں ؎

بردرت آمد گدا بہر سوال
ہوبھلا اختر کا داتا آپ ہیں

تاج خود را کاسہ کردہ گوید ایں جا تاجور
ان کے در کی بھیک اچھی، سروری اچھی نہیں

بلبل بے بر پہ ہوجائے کرم
آشیانش دہ بہ گلزار حرم

خلد کی خاطر مدینہ چھوڑدوں
ایں خیال است ومحال است و جنوں

جُد ُبِوَصُلٍ دَائِمٍ یَاسَیّدِی
ختم اب یہ دور فرقت کیجئے

دفع طیبہ سے ہو یہ نجدی بلا
یارسول اللہ عجّل بالجلاء

اِدُفَعْ شَرارَ شَر یَاغَوثَنَا اْلاَبَر
شر کے شرر خطیر ہیںیاغوث اَلْمَدَد

اس صنعت میں عموماً شعرا نے دو زبانیں استعمال کی ہیں ۔ لیکن حضرت رضا بریلوی کے یہاں ایک شعر میں چار زبانوں کااستعمال ملتاہے۔ اس کی ترتیب یوں ہے کہ پہلے مصرع میں عربی اور فارسی اور دوسرے مصرع میں ہندی اوراردو کی ترکیبیں استعمال ہیں ضیافت طبع کے لئے چند اشعار حاضر ہیں۔ ؎

لَمْ یَاتِ نَظِیْرُ کَ فِیْ نَظرٍ مثل تو نہ شد پیداجانا
جگ راج کو تاج تورے سرسوہے تجھ کو شہ دوسرا جانا

اَلْبَحَرُ عَلَاوَاْلْمَوجُ طَغیٰ من بے کس و طوفاں ہوش ربا
منجدھار میں ہوں بگڑی ہے ہواموری نیاپار لگاجانا

یاشمس نظرت الیٰ لَیلی چوں بہ طیبہ رسی عرضے بکنی
توری جوت کی جھلجھل جگ میں رچی مری شب نے نہ دن ہوناجانا

طباق :

کلا م میں جو ایسے لفظوں کااستعمال جن کے معنی میں تضاد ہو، اسے صنعت تضاد مطابقت ، تقابل ، تطبیق اور تکافو بھی کہتے ہیں۔ جیسے

نہ آسماں کو یوں سرکشیدہ ہوناتھا
حضور خاک مدینہ خمیدہ ہوناتھا

(رضا بریلوی)

جب آگئی ہیں جوشِ رحمت پہ ان کی آنکھیں
جلتے بجھادئیے ہیں روتے ہنسادئیے ہیں

(رضابریلوی)

سفینہ بخشش میں صنعت طباق کی جلوہ ریزیاں کثرت سے ہیں۔ یہ حضرت اختر رضا بریلوی کی فنی مہارت کاواضح ثبوت ہے ۔ چند مثالیں قارئین کے حوالے۔ ؎

ان پہ مرناہے دوام زندگی
موت سے پھر کیوں نہ الفت کیجئے

میرے دن پھر جائیں یارب شب وہ آئے خیر سے
دل میں جب ماہ مدینہ گھر بنائے خیر سے

دارفانی سے کیا غرض اس کو
جس کاعالم قرار کاعالم

فلک شایدزمیں پہ رہ گیا خاک گزر بن کر
بچھے ہیں راہ میں اختر مدینہ آنے والا ہے

رات میری دن بنے ان کی لقا ئے خیر سے
قبر میں جب ان کی طلعت جگمگائے خیر سے

تم نے اچھوں پہ کیا ہے خوب فیضان جمال
ہم بدوں پر بھی نگاہ لطف سلطان جمال

مقابلہ:

کلام میں دویادو سے زائد ایسے الفاظ استعمال کرنا جن کے معنی میں تضاد نہ ہو، پھر ترتیب وار ان کے مقابل اورمتضاد الفاظ ذکر کرنا جیسے ؎

دندان ولب و زلف و رخ شہ کے فدائی
ہیں درعدن لعل یمن مشک ختن پھول

(رضابریلوی)

مصرع اولیٰ میں دندان، لب،زلف اوررخ کاذکر کیاگیا ہے ۔ جن کے آپس میںمناسبت ہے۔ دوسرے مصرع میں ’’دندان‘‘ کے مقابلہ میں ’درعدن ، لب کے مقابلہ میں لعل یمن ،زلف کے مقابلہ میں مشک ختن اوررخ کے مقابلہ میں پھول کاذکر ہے۔
حضرت اختر بریلوی کے کلام میں صنعت مقابلہ کی مثالیں ملاحظہ فرمائیں ؎

میرے دن پھر جائیں یارب، شب وہ آئے خیر سے
دل میں جب ماہ مدینہ گھر بنائے خیر سے

اس شعر کے پہلے مصرع میں ’دن‘ اور’شب‘ کاذکر کیاگیا، پھر دن کے مقابلہ میں پھر جائیں اور’شب‘ کے مقابلے میں آئے ، ذکر کیاگیا ہے۔

خلد زار طیبہ کااس طرح سفر ہوتا
پیچھے پیچھے سر جاتا آگے آگے دل جاتا

اس شعرکے دوسرے مصرع میں ’سر‘ اور’دل‘ کاذکر ہوا ہے پھر ترتیب وار سر کے مقابلے میں ’’پیچھے پیچھے‘ اور ’دل‘ کے مقابلے میں ’آگے آگے‘ کاذکر ہواہے۔

حسن تعلیل:

کسی چیز کی مشہور علت کاانکار کرتے ہوئے اس کے لئے اپنے مقصد کے مناسب کوئی دوسری علت ثابت کرنا، جیسے ؎

ہلال کیسے نہ بنتا کہ ماہ کامل کو
سلام ابروئے شہ میں خمیدہ ہوناتھا

(رضابریلوی)

پہلے چاند کے خمیدہ نظر آنے کی علت یہ ہوتی ہے کہ سورج کی شعاع قمر پر اس انداز سے پڑتی ہے کہ اس کا ایک خاص رقبہ ہی روشن ہوتاہے ۔ جو زمین سے بہ شکل خمیدہ ہلال نظر آتا ہے ۔ مگر شعر میں اس سے ہٹ کر ایک ایسی لطیف وجہ بیان کی گئی ہے جس سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عشاق کی دنیا ، عالم وجد میں آجاتی ہے ۔ اس شعر میں دقت آفرینی کے ساتھ بلندیٔ خیال لائق ِصدتحسین ہے۔(تشریح از کشف بردہ ص ۱۰۶ از مولانا نفیس احمد مصباحی المجمع القادری، مبارک پور)

حضرت اخترؔ بریلوی کے یہاں بھی اس صنعت میں اشعار ملتے ہیں ، درج ذیل شعر حسن تعلیل کی بہترین مثال ہے۔

جھک کے مہروماہ گویادے رہے ہیں یہ صدا
دوسرا میں کوئی تم سا دوسرا ملتانہیں

مہروماہ کاآسمان پر بلند ہونا اورجھکنا نظام کائنات کی وجہ سے ہے لیکن اس شعر میں جھکنے کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ یہ آقائے کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ عالی میں جھک جھک کر نیازمندانہ عرض کررہے ہیں کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں جہاں میں آپ جیسابلند رتبہ کوئی نہیں ، یہ ندرت بیانی اوربلند خیالی کابہترین نمونہ ہے۔
حسن تعلیل کی دوسری مثال ؎

جھکے نہ بار صد احساں سے کیوں بنائے فلک
تمہار ے ذرے کے پرتوستار ہائے فلک

دنیا گول ہے اس لئے دیکھنے میںایسامحسوس ہوتاہے کہ آسمان چاروں طرف جھکا ہوا ہے۔ لیکن حضرت اختر بریلوی نے آسمان کے جھکنے کی یہ علت بیان کی ہے کہ رسول کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے ذروںکے پرتوستاروں کی شکل میں آسمان پر جلوہ بار ہوگئے ہیں ۔ آقا کے اس بار احسان کی وجہ سے آسمان ہمیشہ جھکاہوا رہتاہے۔ یہ ایک نادر علت ہے جو حقیقی نہیں بلکہ شاعرانہ اورادبیانہ علت ہے جو شاعری میںحسن و جمال کاسبب ہوتی ہے۔

مراعاۃ النظیر:

شعر میں ایسے الفاظ کااستعمال جن کے معانی آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ مناسبت رکھتے ہوں ۔ جیسے چمن کے ذکر کے ساتھ گل و بلبل، سروقمری، بادصبا، باغباں، یاگل چیں وغیرہ کاذکر کرنا ، یاکسی چیز میں اس کے مناسبات بیان کرنا، جیسے

ہے گل باغِ قدس رخسارِ زیبا ے حضور
سرو گلزار قدم، قامت رسول اللہ کی

(رضا بریلوی)

دولہا سے اتنا کہ دو پیارے سواری روکو
مشکل میںہیں براتی پر خار بادیے ہیں

(رضا بریلوی)

کلام اختر میں مراعاۃ النظیر کے گلہائے خوش رنگ بھی اپنی خوش بو بکھیر رہے ہیں ، قارئین در ج ذیل اشعار سے اس صنعت کی خوشبو ضرور پائیں گے ۔

ہومجھے سیر گلستاں مدینہ یوں نصیب
میں بہاروں میں چلوں خود کو گمائے خیر سے

جان گلشن نے ہم سے منہ موڑا
اب کہاں وہ بہار کاعالم

اب کہاں وہ چھلکتے پیمانے
اب کہاں وہ خمار کاعالم

فرش آنکھوں کابچھائو رہ گزر میں عاشقو!
ان کے نقش پا سے ہوگے مظہر شان جمال

فلک شاید زمین پر رہ گیا خاک گزر بن کر
بچھے ہیں راہ میںاختر مدینہ آنے والا ہے

تلمیح:

کلام میں کسی آیت، حدیث، مشہور شعر ، کہاوت یاکسی واقعہ کی طرف اشارہ ہو جیسے :

اشارے سے چاند چیر دیا، چھپے ہوئے خور کو پھیرلیا
گئے ہوئے دن کوعصر کیا، یہ تاب وتواں تمہارے لئے

(رضا بریلوی)

اس شعر میں واقعہ شق القمر اورواقعہ مقام صہبا کی طرف اشارہ ہے۔

وَرَفَعَنَا لَکَ ذِکْرَکُْ کاہے سایہ تجھ پر
بول بالا ہے تراذکر ہے اونچا تیرا

(رضابریلوی)

اس شعر میں قرآن کریم کاحوالہ ہے۔

مَنْ زَارَ تُربَتیِ وَجَبَتُ لَہُ شَفَاعَتِی
ان پر درود جن سے نوید ان بشر کی ہے

(رضا بریلوی)

اس شعر میں حدیث شریف کاحوالہ ہے۔
جب آپ حضرت اختر بریلوی کے اشعار دیکھیں گے تو ان میں آپ کو صنعت تلمیح کی متعدد مثالیں اپنی تمام تر خوبیوں کے ساتھ جلوہ بار نظر آئیں گے جو آپ کی فنی مہارت اورعلمی جلالت کاواضح ثبوت ہیں۔ درج ذیل اشعار میںصنعت تلمیح کاحسن و جمال دیکھا جاسکتاہے۔

ان کی رفعت واہ واہ کیا بات اخترؔ دیکھ لو
عرش اعظم پر بھی پہنچیں ان کی برتر ایڑیاں

اس شعر میں معراج نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اشارہ ہے

تیری جاں بخشی کے صدقے اے مسیحائے زماں
سنگ ریزوں نے پڑھا کلمہ تراجانِ جمال

غم شاہ دنیٰ میں مرنے والے تیرا کیاکہنا
تجھے لَا تَحۡزَنُوۡا کی تیرے مولاسے بشارت ہے

اللہ تعالیٰ کافرمان عالی شان ہے:

وَ لَا تَہِنُوۡا وَ لَا تَحۡزَنُوۡا وَ اَنۡتُمُ الۡاَعۡلَوۡنَ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ ﴿۱۳۹﴾

(پ۴: آل عمران -آیت ۱۳۹) ترجمہ:اورنہ سستی کرو اور نہ غم کھائو ، تمہیں غالب آؤ گے اگرایمان رکھتے ہو۔ (کنزلایمان)

مذکورہ بالاشعر میں’’ لَا تَحۡزَنُوۡا ‘‘ سے اسی آیت کریمہ کی طرف اشارہ ہے۔ درج ذیل شعر میں بھی قرآن کریم کانفیس حوالہ موجود ہے۔

نازش عرش و وقار عرشیاں
صاحب قوسین واَدنیٰ آپ ہیں

اس شعر میں اشارہ ہے۔

ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىٰ (8) فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَىٰ (9)

کی طرف جس کامطلب یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تبارک و تعالیٰ کاقرب خاص حاصل ہے جس سے آپ کی شان رفیع اورمقام بلند کا پتہ چلتاہے۔

مذکورہ بالاسطور میں صنائع بدائع کے حوالے سے حضرت اختر بریلوی مد ظلہ العالی کے کلام کاایک سرسری جائزہ پیش کیاگیا ہے جو چند صنعتوں پر مشتمل ہے ۔ اگر دقت نظر سے تجزیہ کیاجائے تو تمام صنعات بدیعیہ میں متعدد مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔

 

Menu