حضورتاج الشریعہ کی نعتیہ شاعری

پروفیسر فاروق احمد صدیقی،بہار یونیورسٹی، مظفر پور ، انڈیا


سواد اعظم اہل سنت و جماعت کے مقتدر دینی رہنما اورروحانی پیشوا کی حیثیت سے حضرت علامہ اختر رضاخان صاحب ازہری کی محمود الصفات شخصیت پورے برصغیر بلکہ عالم اسلام میں ممتاز ومحترم ہے۔ ان کے علم و فضل کا اعتراف علمائے کرام اورمشائخین عظام پورے شرح صدر کے ساتھ کرتے ہیں۔ ان کے قبول فی الخلق کا یہ حال ہے کہ وہ جہاں پہنچ جاتے ہیں خلق خدا کاانبوہ کثیر ان کی زیارت کے لئے اکٹھا ہوجاتاہے ۔ خلاق کائنات نے صور ت بھی اُن کوایسی پُرنور عطا کی ہے کہ بس دیکھتے رہئے یعنی

ہزار مجمع خوبان ماہرو ہوگا
نگاہ جس پہ ٹھہر جائے گی وہ تو ہوگا

کاعالم ہوتا ہے۔
یہاں حضرت گرامی مرتبت کی شخصیت زیربحث نہیں ہے۔ اس لئے میری گفتگو کامحور ومرکز صرف ان کانعتیہ کلام ہوگا جو ’’سفینہ بخشش‘‘ کی صورت میں ہمارے پیش نظر ہے۔ یہ بات تو صحیح ہے کہ ہرچہ بقامت کہتر بقیمب بہتر، لیکن ہرجگہ اس کااطلاق و انطباق درست نہیں ہوتا۔ شخصیت جتنی قدآورہو، اگروہ شاعر بھی ہے تو اس کامجموعہ کلام بھی اسی آن بان سے شائع ہوناچاہئے۔ پاکٹ سائز میں چھاپنے اور چھپنے سے کلام کی قدر وقیمت اورثقاہت مجروح ہوتی ہے۔’’ سفینۂ بخشش ‘‘ کواسی سائز میں شائع کرکے دیکھئے ارباب علم ودانش کیارائے قائم کرتے ہیں الغرض حضرت ازہری کے کلام کو اس پاکٹ سائزمیں منظر عام پر لاکر انصاف نہیں کیاگیا ہے۔میں اپنی اس رائے پراصرار کرتارہوں گا خواہ کوئی مجھ سے اتفاق کرے یانہ کرے۔
بہرکیف اس مجموعہ میں مشمولات کی بوقلمونی قوسِ قزح کاحسن پیش کرتی ہے۔ اس میں حمد بھی ہے اورنعت بھی ۔منقبت بھی ہے اورسلام بھی۔ یہ تمام چیزیں اپنی اپنی نوعیت میں ٹھیک ہی ہیں۔
جہاں تک آپ کی نعتیہ شاعری کاتعلق ہے تو یہ دولت گرانمایہ آپ کو ورثہ میں ملی ہے۔ سنا ہے سیدی اعلیٰ حضرت کے والد گرامی حضر ت مولانا نقی علی خاں علیہ الرحمہ بھی شعر و سخن کاذوق رکھتے تھے۔ اگر یہ صحیح ہے تو حضرت ازہری میاں بصدافتخار یہ ادعا فرماسکتے ہیں کہ

پانچویں پُشت ہے سرکار کی مداحی میں

نعت گوئی کے لئے عشق، علم اورعمل کی تثلیث اساسی شرط ہے اس لحاظ سے آپ کاخانوادۂ محترم پورے برصغیر میں یکتااورمنفرد ہے اور آپ بھی بدرجہ اتم اس کے امین و علم بردار ہیں۔ نعت گوئی کے صنفی تقاضوں اوراس کے آداب واصول کی پابندی جس سختی کے ساتھ آپ کے یہاں ملتی ہے معاصر نعت گوشاعروں ، خاص طور پر نئی نسل کے نعت گویوں میںوہ احتیاط و ادب شناسی نہیں ملتی ،اورملے بھی کیسے؟ نعت گوئی کی ذمہ داریوں سے کماحقہ عہدہ برآ ہونے کے لئے قرآن واحادیث کے بحر ذخار کاشناور ہوناضروری ہے۔اس کسوٹی پر کتنے لوگ پورے اترتے ہیں محتاج بیان نہیں۔ مگر نعت گوئی اورنعت خوانی عہد حاضر میں زبردست مالی منفعت کی ضامن ہے۔ اس لئے اہلیت نہیں ہونے کے باوجود آوازکاجادو جگانے والے پیشہ ور شعرا بلبل باغ رسالت بن کر چہک رہے ہیں۔
میں کہنایہ چاہتاہوں کہ یہ لوگ قرآن وحدیث سے استفادہ نہیں کرسکتے تو کم از کم ’حدائق بخشش‘ ’ذوق نعت‘ اور ’سفینہ بخشش‘ ہی کو اپنے مطالعے میں رکھیں تو ان کاقلم محتاط اورایمان محفوظ رہے گا۔ جملہ معترضہ کے طور پر یہ باتیں زیر بحث آگئی تھیں۔ میںعرض یہ کرناچاہتا ہوں کہ حضر ت ازہری صاحب جیسی سنت و شریعت کے سانچے میں ڈھلی ہوئی شخصیت نے اپنی تقریر ، تحریر ،شاعری اوربافیض صحبت میں عشق رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کاقیام جن تسلسل اورتواتر کے ساتھ عام کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ ان کی زندگی کاسب سے اہم مقصد ومشن ہی عظمت رسول کاپرچم بلند کرنا ہے اورانہی مقاصد خاص کے تحت انہوں نے نعتیہ شاعری کووسیلۂ اظہار بنایا ہے۔ چنانچہ اہل سنت وجماعت کے جملہ عقائد و نظریات یا بالفاظ دیگر مسلک اعلیٰ حضرت کی شاندار تبلیغ و ترجمانی ان کے نعتیہ اشعار کے ذریعہ ہوتی ہے۔ اس قبیل کے تمام اشعار کو یہاں نقل کرناطوالت کو راہ دے گا۔ محض چند منتخب اشعار ملاحظہ ہوں۔

جہاں بانی عطاکردیں ، بھری جنت ہبہ کردیں
نبی مختارکل ہیں، جس کو جوچاہیں عطاکردیں
_____________
آپ جیساکوئی ہو سکتا نہیں
اپنی ہر خوبی میں تنہا آپ ہیں
__________
تم سے جہان رنگ و بو تم ہوچمن کی آبرو
جان بہار گلستاں، سروچماں تم ہی تو ہو
__________
چشم تر وہاں بہتی، دل کامدعا کہتی
آہ باادب رہتی، مونہہ میراسل جاتا
__________
ان کی شان کرم کی کشش دیکھنا
کاسہ لے کر کہا خسروی نے چلیں
_________
وہی جو رحمتہ للعالمین ہیں، جان عالم ہیں
بڑابھائی کہے ان کو، کوئی اندھا بصیرت کا
__________
جو بے پردہ نظر آجائے جلوہ روئے انور کا
ذرا سامنہ نکل آئے ابھی خورشیدخاور کا
_________
یہ خاک کوچۂ جاناں ہے جس کے بوسہ کو
نہ جانے کب سے ترستے ہیںدیدہائے فلک
___________
شب معراج وہ اوحیٰ کے اشارات کی رات
کون سمجھائے وہ کیسی تھی مناجات کی رات
_________
سنبھل جا اے دل مضطر، مدینہ آنے والا ہے
لٹا اے چشمہ تر گوہر، مدینہ آنے والا ہے

ایک چیز جو واضح طورپرمحسوس ہوتی ہے وہ یہ کہ حضرت اختررضا ازہری صاحب نے حدائق بخشش اور ’ذوق نعت‘ سے بھرپور استفادہ کیا ہے۔ ظاہر ہے وہ ان دونوں مجموعہائے نعت کے حافظ ہی ہوں گے۔اس لئے ان کی اکثر نعتیں سیدی اعلیٰ حضرت اورحضرت علامہ حسن رضا بریلوی کی زمینوں میں نظر آتی ہیں۔ وہی ردیفیں ، قوافی، بحور اور شعری آہنگ یہاں بھی موجودہیں لیکن علامہ ازہری ساتھ ہی اپناانفرادی رنگ بھی پیداکرنے کی کوشش کی ہے۔ مثال کے طورپر حضرت رضا بریلوی کی ایک مشہور نعت کی ردیف’ایڑیاں‘ہے۔ حضرت ازہری صاحب نے اس زمین میں طبع آزمائی کی ہے۔ بحر، قوافی اورردیف تو وہی ہیں مگر فکری سطح پر ندرت پیداکرنے کی کوشش کی ہے۔ اس نعت کے یہ اشعار ملاحظہ ہیں۔

عرش پر ہیں ان کی ہرسوجلوہ گستر ایڑیاں
گہہ بہ شکل بدر ہیں ، گہہ مہرانور ایڑیاں

میں فدا کیا خوب ہیں ، تسکین مضطر ایڑیاں
روتی صورت کو ہنسادیتی ہیں اکثر ایڑیاں

دافع ہر کرب و آفت ہیں، وہ یاور ایڑیاں
بندۂ عاصی پہ رحمت، بندہ پرور ایڑیاں

اعلیٰ حضرت کی زمینوں میں اور بھی نعتیں ازہری صاحب کے یہاں ملتی ہیں ۔ لیکن ان سب کااحتساب واحاطہ یہاں مقصود نہیں۔ اورتقابلی موازنے کا توسوال ہی پیدانہیں ہوتا۔ اب میں حضرت علامہ حسن بریلوی کے رنگ میںازہری صاحب کی چند نعتوں کے مطلع درج کررہاہوں۔ ملاحظہ ہوں

طُور نے تو خوب دیکھا ، جلوۂ شان جمال
اس طرف بھی اک نظر اے برق تابان جمال

حسن بریلوی

اس طرف بھی اک نظر مہر درخشان جمال
ہم بھی رکھتے ہیں بہت مدت سے ارمان جمال

اختر رضاازہری

بوالہوس سن سیم وزر کی بندگی اچھی نہیں
اُن کے در کی بھیک اچھی، سروری اچھی نہیں

اختر رضا ازہری

کون کہتاہے کہ زینت خلد کی اچھی نہیں
لیکن اے دل فرقت کوئے نبی اچھی نہیں

حسن بریلوی

دل میں ہویاد تری، گوشۂ تنہائی ہو
پھر تو خلوت میں عجب انجمن آرائی ہو

حسن بریلوی

درجاناں پہ فدائی کو اجل آئی ہو
زندگی آ کہ جنازے پہ تماشائی ہو

اختررضا ازہری

مبارک ہو وہ شہ پردہ سے باہر آنے والا ہے
گدائی کوزمانہ جس کے درپر آنے والا ہے

حسن بریلوی

سنبھل جااے دل مضطر مدینہ آنے والا ہے
لٹااے چشم تر گوہر مدینہ آنے والا ہے

اختررضا ازہری

یہاں قوافی الگ الگ ہیں لیکن بحر وزن اورردیف میں کامل یکسانیت ہے ۔علامہ حسن بریلوی جیسے بلند پایہ فنکارکی زمین میں سبزئی مدحت اُگانا اچھے اچھوں کے بس کی بات نہیں۔ لیکن ازہری صاحب کی انتاجی صلاحیت قابل مبارک باد ہے کہ ان کے اشعار اپنی علاحدہ شناخت اورانفرادی چمک دمک رکھنے میں کامیاب ہیں۔
ازہری صاحب کی نعتیہ شاعری کاایک امتیازی وصف یہ ہے کہ وہ محض فکر منظوم کانمونہ نہیں۔ بلکہ انہوں نے اسے فنی آب زریں سے بھی مزین کیاہے۔ اگرچہ اس طرح کے اشعار کی تعداد قلیل ہے ۔ تاہم شعری نکاتوں اورفنی دل آویزوں سے مملو اشعار ’سفینہ بخشش‘ میں موجود ہیں۔ ملاحظہ ہوں۔

جھک کے مہروماہ گویا دے رہے ہیں یہ صدا
دوسرا میں کوئی تم سا دوسرا ملتانہیں
………
نور کے ٹکڑوں پہ ان کے بدرو اختر بھی فدا
مرحبا کتنی ہیں پیاری، ان کی دلبر ایڑیاں
………
روئے انور کے سامنے سورج
جیسے اک شمع صبح گاہی ہے
………
کیامدینہ کو ضرورت چاند کی
ماہ طیبہ کی ہے ہرسو چاندنی
………
فضائیں مہکی مہکی ہیں، ہوائیں بھینی بھینی ہیں
بسی ہے کیسی ، مشک تر مدینہ آنے والا ہے

مختصر یہ کہ حضرت ازہری صاحب ایک قادر الکلام شاعر ہیں۔ کاش وہ اس طرف مزید توجہ فرمائیں تو نعتیہ شاعری کے ساتھ ساتھ اردو شاعری کابھی بھلا ہو۔ میں نے ان کی عربی نعتوں کو قصداً ہاتھ نہیں لگایا ہے کہ میں ان کے شعری فرضی لوازم کاتجزیاتی مطالعہ شاید خاطرخواہ طورپرنہیں پیش کرپائوں ۔ مجھ سے بہتر سوچنے اورلکھنے والوں کے لئے میدان خالی ہے۔ ایک اور بات کہ تقدس مآب ہستیوں کی شاعری کاناقدانہ جائزہ لینے میں پھونک پھونک کر قلم وقدم اٹھانا پڑتاہے۔ مبادا لاشعوری طورپر کوئی زلت قلم کسی انتشار واضطراب کاموجب نہ بن جائے۔ حضرت ازہری صاحب مد ظلہ ٗ العالی آبروئے اہل سنت ہیں۔ اس میں کسی صحیح الدماغ کو شبہ نہیں ہوسکتا۔ مولیٰ تعالیٰ ان کی عمر وصحت میں برکتیں عطافرمائے۔ آمین۔

 

Menu