حضورتاج الشریعہ کی اردو نعتیہ شاعری

ڈاکٹر محمد شفیق اجمل قادری ، شعبۂ اردو، بنارس ہندو یونیورسٹی ،انڈیا


ابتدائے اسلام سے نعت گوئی شاعری کامستقل موضوع رہی ہے۔ بارگاہ رسالت ﷺ کے شاعر حضرت حسان رضی اللہ عنہ عربی کے بڑے نعت گوشاعر تھے۔ اتنا حسن قبول انہیں حاصل ہوا کہ عجم و ہند کے شعراء کو حسان وقت سے موسوم کیاجانے لگا۔ فارسی شعر و ادب کی تاریخ میں جامیؔ،سعدیؔ، قدسیؔ، عرفیؔ کا نام نعت گو کی حیثیت سے ممتاز ہے۔ انہوںنے ایک مستقل صنف سخن کی حیثیت سے فارسی میں نعت گوئی کو رائج کیا۔ اردو شاعری میں نعتیہ مضامین ابتداہی سے قلمبند کئے جاتے رہے ہیں۔ اردو کے تمام شعراء کے دواوین خواہ وہ کسی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں، اس کے شاہد ہیں۔ خلوص و عقیدت سے قطع نظر نعت گوئی کو ایک طرح سے تقلیدی حیثیت حاصل ہوگئی تھی۔ نعت گوئی اگرچہ اردو زبان میں ہمیشہ موجود تھی لیکن اردو زبان و ادب میں اسے فن کی حیثیت سے امام احمد رضا محدث بریلوی (۱۸۶۵ء/۱۹۲۱ء) سے پہلے کسی نے نہیں اختیار کیا۔ امام احمد رضا محدث بریلوی اردو کے پہلے بڑے شاعر ہیں جنہوں نے اپنی شاعری کاموضوع صرف نعت گوئی کو قرار دیا۔ ان کے بعد بھی ان کے خانوادے نے کئی اچھے شاعر اردو ادب کو دیئے، جنہوں نے اپنی فطری صلاحیتوں سے اردو شعر و ادب کے خزانے میں بیش بہا اضافے کئے۔ تاج الشریعہ حضرت علامہ اختر رضا خاں ازہری میاں مدظلہٗ العالیٰ کا تعلق بھی اسی خانوادے سے ہے۔ آپ کو شعر و شاعری سے پوری ذہنی مناسبت ہے۔ وہ ایک قادرالکلام فطری شاعر ہیں۔ شاعری انہیں وراثت میں ملی ہے۔
حضرت علامہ اختر رضا خاں ازہری کا مجموعہ کلام ’’سفینۂ بخشش‘‘ کے نام سے منظر عام پر آچکا ہے۔ حضرت علامہ اختر رضا بریلوی کی حیات کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی زندگی کے خزانے میں وہ تمام جواہر پوری آن بان اور تب و تاب کے ساتھ موجود ہیں۔ جو ایک مکمل نعت کہنے کیلئے ضروری ہیں۔ علوم دینی و دنیوی کی گہرائی، فکری وذہنی صلاحیت، فقیہانہ بصیرت، عالمانہ تبحر اور عشق رسول مقبول ﷺ سبھی کچھ ان کے دامن میں موجود ہے۔ اصناف شعر میں نعت سے زیادہ مقدس، نازک اور دشوار گزار کوئی دوسری صنف نہیں ہے۔ اسی لئے فارسی شاعر عرفی کہتے ہیں، ’’نعت لکھنا تلوار کی دھار پر چلنا ہے‘‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ نعت میں ذرا بھی چوک ایمان سے خارج کردیتی ہے۔ حضرت اختر رضا بریلوی کے دیوان ’’سفینۂ بخشش‘ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اس مشکل اور نازک مرحلے سے گزرتے آتے ہیں اور ذرا بھی کہیں لغزش نہیں ہوتی۔
حضرت اختر رضا بریلوی کی نعتیہ شاعری عشق ووارفتگی کا ایک حسین گلدستہ ہے۔ جو ہماری سیرت و بصیرت میں خوبصورت اضافے کرتی ہیں۔ اس میں خلوص کی خوشبو بھی ہے اور عقیدت کی روشنی بھی۔ ایمان کی لذت وحلاوت بھی ہے اور بیان کی نفاست اور پاکیزگی بھی۔ یعنی ایک حیات آفریں اورر وح پرور فضا نے ان کی نعتوں کو دلکشی ورعنائی کا مرقع بنادیا ہے۔ انہوں نے نعتیہ شاعری برائے شاعری نہیں کی ہے بلکہ جذبۂ بے اختیار شوق کے تحت کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا کلام عشق و عقیدت سے لبریز ہے۔ حضرت اختر رضا بریلوی سرورکائنات، فخر موجودات، حسن جہاں، جمال زمان ومکاں، سیدالمرسلین، سیدنا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے عاشق صادق ہیں۔ آپ سے انہیں والہانہ محبت ہے۔ ان کے دل میں عشق کا جوطوفان موجزن ہے، جو آگ بھڑک رہی ہے، جو سروروکیف انہیں مسرور ومسحور کئے ہوئے ہے۔ اس کی جھلک پوری آب و تاب کے ساتھ، اس کا اثر پوری آن و بان کے ساتھ اور اس کا پرتومکمل شان کے ساتھ ان کی نعتوں کے ہر شعر اور شعر کے ہر ہر لفظ سے ظاہر ہے۔ جذبۂ عشق سردارِ جہاں، باعث تکوین کون ومکاں ان کے شعروں میں اس طرح نہاں بھی ہے اور عیاں بھی۔ جیسے گلاب کی خوشبو اس کی حسین پنکھڑیوں کے رگ و پے میںنہاں بھی ہوتی ہے اور عیاں بھی۔ میں تو یہی کیوں گاکہ جذبۂ عشق سرکارِ دوعالم ﷺ ہی ہے جس نے ان کی شاعری کے گلاب کو حسین پنکھڑی اور اس کو مناسب ومتناسب دلکش و دل نشیں شاخ بھی عطاکی، اور اسے وہ دل فریب خوشبو بھی بخشی جو دل و دماغ کو معطربھی کرتی ہے اور مسرور و مسحور بھی۔ دل کشی ورعنائی سے لبریز ان کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں۔

عطاہو بیخودی مجھ کو خودی میری ہوا کردیں
مجھے یوں اپنی الفت میں مرے مولیٰ فنا کردیں

وجہ نشاطِ زندگی راحت جاں تم ہی تو ہو
روحِ روانِ زندگی جان جہاں تم ہی تو ہو

اصل شجر میں ہو تم ہی نخل و ثمر میں ہو تم ہی
ان میں عیاں تم ہی تو ہو ان میں نماں تم ہی تو ہو

رواں ہو سلسبیل عشق سرور میرے سینے میں
نہ ہو پھر نار کا کچھ غم نہ ڈر خورشید محشر کا

کچھ کریں اپنے یار کی باتیں
کچھ دل داغدار کی باتیں

پی کے جام محبت جاناں
اللہ اللہ خمار کی باتیں

تبسم سے گمان گزرے شب تاریک پر دن کا
ضیائے رخ سے دیواروں کو روشن آئینہ کردیں

آپ کو رب نے کہا اپنا حبیب
ساری خلقت کا خلاصہ آپ ہیں

تیری جان بخشی کے صدقے اے مسیحائے زماں
سنگریزوں نے پڑھا کلمہ ترا جان جمال

ساقی کوثر دہائی آپ کی
سوختہ جانوں پہ رحمت کیجئے

جب علامہ اختر رضا خاں ازہری حضور سرورکائنات کے حسن باطنی اور جمال سیرت کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو ان کا انداز بیان دیدنی ہوتا ہے۔ ان کی نگاہوں میں حضور نبی کریم ﷺکے تمام خصائص وکمالات گھومنے لگتے ہیں۔ حضور ﷺ کی عظمت کردار، رفعت گفتار، بے پایاں رحمۃ اللعالمینی، میدان محشر میں آپ کی شفیع المذبینی، گناہگار امت کیلئے حضور کی گریہ وزاری، خطاکاروں کی بخشش کیلئے رحمت شعاری، جو دوکرم کی فراوانی، لطف وعنایات کی فراخ دامانی، اخلاق عالیہ کی رفعت، سیرت وکردار کی عظمت، خداکی اپنے محبوب ﷺ پر بے پایاں عنایت اور حضور ﷺ کا ام کیلئے ہر آن امنڈتا ہوا بحر شفاعت یہ سب خصائص حضرت اختر رضابریلوی کے کلام میں ایک نئی آب و تاب کے ساتھ جلوہ افروزہیں۔ مثال کے طور پر چند اشعار پیش کئے جاتے ہیں۔

مصطفائے ذات یکتا آپ ہیں
یک نے جس کو یک بنایا آپ ہیں

آپ جیسا کوئی ہوسکتا نہیں
اپنی ہر خوبی میں تنہا آپ ہیں

آپ کی خاطر بنائے دوجہاں
اپنی خاطر جو بنایا آپ ہیں

لب کوثر ہے میلہ تشنہ کامان محبت کا
وہ ابلا دست ساقی سے وہ ابلا چشمہ شربت کا

یہ عالم انبیاء پر ان کے سرور کی عنایت کا
جسے دیکھو لئے جاتا ہے پروانہ شفاعت کا

حضور سرورکائنات ﷺ کی ذات گرامی میں قدرت نے تمام محامد ومحاسن جمع کردئے ہیں۔ آپ کے ظاہری و باطنی فضائل عقل و خرد سے ماورا اور آپ کے کمالات ذہن انسانی سے کہیں بلند ہیں۔ شاعرکی فکر کمالات مصطفی ﷺ کا احاطہ کرنے کے لئے آگے بڑھی ہے۔مگر بے بس وناتواں ہوکراپنی معذوری و مجبوری کا اعتراف کرنے لگتی ہے۔ لیکن حضرت اختر رضا کے قلم حقیقت رقم نے حضور نبی کریم ﷺ کے حسن ظاہری اور باطنی تجلیات کو جی بھر کر خراج پیش کیا ہے ان کا یہ خراج عقیدت اشعار کا ایک ایسا گل کدہ ہے۔ جس کا ہر پھول سدابہار اور ہر غنچہ محبت رسول ﷺ سے مشک بار ہے۔ آپ نے اپنے آقا و مولا ﷺ کے حسین صورت کو اس شان سے اپنی شاعری کا اعزاز بنایا ہے کہ خود ان کی شاعری حسین سے حسین ترنظر آنے لگی ہے۔ حسن و جمال مصطفیٰ ﷺ کے حوالے سے ان کے چند اشعار دیکھئے۔

اس طرف بھی اک نظر مہر درخشاں جمال
ہم بھی رکھتے ہیں بہت مدت سے ارمان جمال

فرش آنکھوں کا بچھائو رہ گزر میں عاشقو
ان کے نقش پا سے ہوگے مظہر شان جمال

روئے انور کے سامنے سورج
جیسے اک شمع صبح گاہی ہے

نعتیہ شاعری کا ایک اہم موضوع حضور اکرم ﷺ کے جمال پاک کی زیارت کی آرزو اور اشتیاق ہے۔ حضرت اختر رضا بھی اپنے کلام میں سرکار دوعالم ﷺ کی زیارت کی تمنا بڑے ہی اضطراب کی حالت میں باربا ر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔

رات میری دن بنے ان کی لقائے خیر سے
قبر میں جب ان کی طلعت جگمگائے خیر سے

جمال روئے جاناں دیکھ لوں کچھ ایسا ساماں ہو
کبھی توبزم دل میں یا خدا! آرام جاں آئے

آپ کی رویت ہے دیدار خدا
جلوہ گاہ حق تعالیٰ آپ ہیں

عاشق کوصرف محبوب ہی عزیز نہیں ہوتا، بلکہ اس کی سرزمین، اس کا شہر، اس کا گھر اور اس کا در سبھی عزیز ہوتے ہیں۔ ہر وہ شئی جو محبوب سے متعلق ہو، عاشق صادق کو اس سے لگائو ہوتاہے۔ وہ محبوب کے حسن صورت و سیرت سے جس قدر متاثر ہوتا ہے اور اس کی عزت و عظمت اس کے دل میں جس قدر جاگزیں ہوتی ہے، اسی قدر ہر وہ چیز جس سے اس کے محبوب کا کسی نہ کسی طرح کا تعلق ہوتاہے۔ اس کے لئے باعث کشش اور لائق تعظیم و تکریم ہوتی ہے اور پھر جب محبوب ایسا جس کا ثانی نہ ہو اور عاشق ایسا جس کا جذبۂ صادق لافانی ہوتوپھر وہ ایسے عظیم محبوب کی عظمت کے گیتوں کے ساتھ ساتھ اس کے درودیوار، اس کے کوچہ وبازار کے گن نہ گائے، یہ کیوں کر ہوسکتا ہے؟ علامہ اختر رضا خاں ازہری کو جس طرح حضور نبی اکرم ﷺ کی ذات والا صفات سے عشق ہے اور جس درجہ احترام و اکرام ان کے رگ وپے میں سرایت کئے ہوئے ہے۔ اسی طرح انہیں صحرائے عرب، شہر مدینہ، روضۂ اقدس اور آپ کے سنگ آستاں سے پیار ہے۔آپ نے دیار حبیب کی عظمت و رفعت کے پرشوق تذکرے کئے ہیں۔ اور انہیں دیکھنے کی تمنائے بے قرار کابڑے والہانہ انداز میں اظہار بھی کیا ہے اور پھر جب دیار رسول دیکھنے کی تمنا برآتی نظر آتی ہے۔ توشدت جذبات نے جو عالم وارفتگی پیدا کیا اس کا دیوانہ وار اظہار عزت و احترام کا دامن تھامے ہوئے بڑے دلکش و دلنشیں پیرایہ میں کیا ہے۔

خاک طیبہ میں اپنی جگہ ہوگئی
خوب مژدہ سنایا خوشی نے چلیں

وہ چھائی گھٹا بادہ بار مدینہ
پئے جھوم کر جاں نثار رمدینہ

اگر دیکھے رضواں چمن زار طیبہ
کہے دیکھ کر یوں وہ خار مدینہ

مدینے کے کانٹے بھی صد رشک گل ہیں
عجب رنگ پر ہے بہار مدینہ

فرشتے جس کے زائر ہیں مدینے میں وہ تربت ہے
یہ وہ تربت ہے جس کو عرش اعظم پر فضیلت ہے

مدینہ گر سلامت ہے تو پھر سب کچھ سلامت ہے
خدا رکھے مدینے کو اسی کا دم غنیمت ہے

سنبھل جا اے دلِ مضطر مدینہ آنے والا ہے
لٹا اے چشم تر گوہر مدینہ آنے والا ہے

قدم بن جائے میرا سر مدینہ آنے والا ہے
بچھوں رہ میں نظر بن کر مدینہ آنے والا ہے

حضرت اختر رضا بریلوی ایک سچے عاشق رسول ہیں۔ محبوب سے دوری انہیں قطعاً برداشت نہیں ہے۔ ان کے کلام میں فرقت مدینہ کی صورت میں بیقراری کی کیفیت اور مدینہ کی حاضری کی تمنا خوب نظر آتی ہے۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں۔

داغ فرقت طیبہ قلب مضمحل جاتا
کاش گنبد خضرا دیکھنے کو مل جاتا

فرقت مدینہ نے وہ دیئے مجھے صدمے
کوہ پر اگر پڑتے کوہ بھی تو ہل جاتا

دور اے دل رہیں مدینے سے
موت بہتر ہے ایسے جینے سے

فرقت طیبہ کی وحشت دل سے جائے خیر سے
میں مدینہ کو چلوں وہ دن پھر آئے خیر سے

شمیم زلف نبی لا صبامدینے سے
مریض ہجر کو لاکر سونگھا مدینے سے

الٰہی! وہ مدینہ کیسی بستی ہے دکھا دینا
جہاںرحمت برستی ہے جہاں رحمت ہی رحمت ہے

ایک عاشق صادق کو یہ آرزو اور تمنا ہوتی ہے کہ اس کی روح جب نکلے تو محبوب کی جلوہ گری رہے محبوب کے قدموں میں گر کر اپنی جان نچھاور کرے۔ موت برحق ہے، ہر نفس کو موت کامزہ چکھنا ہے۔ مگر یہ موت اگر محبوب کے قدموں میںہوتو پھر اسکاکیا کہنا۔ حضرت اختررضا بریلوی ایسی موت کو زندگی سے تعبیر کرتے ہیں اور عیش جاودانی بتاتے ہیں۔ حضرت اختر رضابریلوی کے یہاں موت کے اسی پاکیزہ تصور کی کارفرمائی جابجا دیکھنے کوملتی ہے۔

ترے دامن کرم میں جسے نیند آگئی ہے
جو فنا نہ ہوگی ایسی اسے زندگی ملی ہے

مرنے والے رخ زیبا پہ تیرے جانِ جہاں
عیش جاوید کے اسرار بتاجاتے ہیں

درجاناں پہ فدائی کو اجل آئی ہو
زندگی آکے جنازے پہ تماشائی ہو

موت لے کے آجاتی زندگی مدینے میں
موت سے گلے مل کر زندگی میں مل جاتا

یوں تو جیتا ہوں حکم خدا سے مگر
میرے دل کی ہے ان کو یقینا خبر

حاصل زندگی ہوگا وہ دن مرا
ان کے قدموں پہ جب دم نکل جائے گا

حضرت علامہ اختررضا ازہری کے یہاں داخلی کیفیات، ذاتی احساسات جذباتی واقعات اور قلبی واردات کا اک اچھوتا انداز پایاجاتا ہے۔ چونکہ ان تمام تجربات کا منبع و سرچشمہ اور مرکزو محوران کی اپنی ذات ہے۔ جو عشق رسول کی یکتائی میں گم ہے اور ان کی کائنات ان کے دل کی دنیا ہے۔ جس میں عشق رسول کا جوہر بے مثال ولازوال ضوفشاں ہے۔ انہوںنے جوکچھ کہا وہ اسی کائنات دل میں ڈوب کرکہا۔ لہٰذاان کے اشعار میں ان کے دل کی آواز صاف سنائی دیتی ہے۔ ان کے جذب دروں نے ان کے کلام کو سوز و ساز بخشا اور ان کے علم و فن نے ان کے پیرایۂ اظہار کو جلابخشی۔ ان کے یہاں نازک خیالی، تخیل کی بلندپروازی، نکتہ آفرینی، ندرت خیال کی کارفرمائی جابجا دیکھنے کوملتی ہے۔ ان کا خلوص ان کا جذبۂ صادق، ان کا والہانہ عشق، ان کی عقیدت، ان کا تبحر علم، ان کی روحانی بلندی اور ان کی زبان دانی نے ان کے کلام کو پرکشش بنادیا ہے۔ انہوں نے رواں بحروں اور آسان ردیفوں میں زبان و بیان کے جوجوہر دکھائے ہیں یقینا وہ قابل ستائش ہے۔
حضرت علامہ اختر رضا خاں ازہری کے کلام میں جہاں عشق و عقیدت کی وارفتگی ہے وہیں پیکر تراشی، استعارہ سازی، تشبہیات، اقتباسات، فصاحت و بلاغت حسن و تعلیل، لف و نشرمرتب، لف ونشر غیرمرتب، تجنیس تام، تجنیس ناقص، تلمیحات، اشتقاق وغیرہ اصناف سخن کی جلوہ گری ہے۔ آپ نے نعت کے ضروری لوازم کے استعمال سے مدحت سرکار ﷺ کی انتہائی کامیاب ترین کوشش کی ہے۔ آپ کی بعض نعتوں کو اردو ادب کا اعلیٰ شہکار قرار دیا جاسکتا ہے۔

 

Menu