حضورتاج الشریعہ کی شاعری میں احادیث نبویہ کی ضیاء پاشی

مولانا عبد رضا برکاتی ، نئی دہلی ، انڈیا


صحرائے عشقِ حبیب ﷺ میں آبلہ پائی کرنے والوں کے دلِ بسمل کو جہاں کو قرآنِ حکیم قدم قدم پر مرہمِ تسکین عطا کرتا ہے وہیں احادیثِ نبویہ بھی مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتی ہیں ۔جو انسان دونوں ماخذوں کو پیشِ نظر رکھ کر ان پر قائم دائم رہے اس کے سر پر عظمت وسر بلندی کا تاج رکھا جاتا ہے ،سرورِ کونین ﷺ کی نعتِ پاک لکھنے کے لئے ان دونوں چیزوں سے رہنمائی حاصل کئے بغیر کوئی عمدہ مداحِ نبی ﷺ نہیں ہو سکتا۔کیوں کہ قرآن وحدیث مدحت ِ خیر الانام کے سب سے قوی مستند بلکہ اولین ماخذ ہیں ۔اگر ہم عہدِ رسالت سے لے کر اب تک معیاری اور صفِ اول کے مدّاحانِ رسالت کی نعتیہ شاعری کا مطالعہ کریں تو معلوم ہو گا کہ ان کی نعت ومدحت کے اصل سرچشمے قرآن وحدیث ہی ہیں ۔اور وہ نعتیہ شاعری جو قرآن وحدیث کی ترجمان نہ ہو بے مزہ وبے کیف بلکہ ناقص ونامکمل ہے اس لئے کہ پورا قرآن سرورِ کائنات ﷺ کی نعت کا بحرِ بیکراں ہے اسی لئے امامِ عشق ومحبت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری برکاتی بریلوی قدس سرّہ اپنے نعتیہ دیوان حدائقِ بخشش میں فرماتے ہیں ۔

اے رضا خود صاحبِ قرآں ہے مدّاح حضور
تجھ سے کب ممکن ہے پھر مدحت رسول اللہ کی

علم وفضل اور عشق وارفتگی کا وہ رنگ جو خانوادۂ رضا کا طرّۂ امتیاز ہے وہ ساری خصوصیات نبیرۂ اعلیٰ حضرت ،جانشینِ مفتیٔ اعظم ہند ،تاج الشریعہ ،حضرت علامہ اختر رضا خاں قادری ازہری برکاتی بریلوی کی نعتیہ شاعری میں بھی پورے طور سے جلوہ نما نظر آتی ہے ۔حضور تاج الشریعہ کی شاعری جابجا احادیثِ نبویہ کے نور سے پر نور ہے۔ایک حدیثِ پاک کے مفہوم کو تاج الشریعہ نے اس طرح الفاظ کا جامہ پہنایا ہے۔

بوالہوس سن سیم وزر کی بندگی اچھی نہیں
ان کے در کی بھیک اچھی سروری اچھی نہیں

ان کی چوکھٹ چوم کر خود کہہ رہی ہے سروری
ان کے در کی بھیک اچھی سروری اچھی نہیں

سروری پا کر بھی کہتے ہیں گدایانِ حضور
ان کے در کی بھیک اچھی سروری اچھی نہیں

حدیث ِ پاک میں ہے حضور ﷺ کے صحابی حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ عنہ حضور ﷺ کی خدمت کیا کرتے ان کے لیل ونہار آپ کی خدمت کے لئے وقف تھے ۔ایک دن حضور سرورِ کائنات ﷺ کو وضو کرا رہے تھے دریائے کرم جوش میں تھا ارشاد فرمایا ۔سل یا ربیعہ ۔اے ربیعہ مانگ کیا مانگتا ہے۔انہوں نے عرض کیا ۔یارسول اللہﷺ ۔انی اسئلک مرافقتک فی الجنۃ ۔جس کا مطلب یہ ہے کہ یارسول اللہ ﷺ دنیا کی چیز طلب نہیں کرتا میں دنیوی بادشاہت وسربراہی طلب نہیں کرتا ۔یارسول اللہ ﷺ بس جس طرح میں دنیا میں حضورﷺ کا غلام ہوں جنت میں حضور ﷺ کی غلامی کا شرف مل جائے ،یہ دولت ساری کائنات کی دولت سے بڑھ کر ہے ۔اسی حدیث کی ترجمانی تاج الشریعہ نے مذکورہ بالا اشعار میں کی ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضور سرورِ کائنات ﷺ کو سارے جہاں کا حاکم بنا کر اس خاکدانِ گیتی پر مبعوث فرمایا ۔اور آپ ﷺ کو اختیارِ کلّی عطا فرمایا جیسا کہ حدیث ِ پاک میں خود سرورِ کونین ﷺ نے ارشاد فرمایا ۔انّما انا قاسم واللہ یعطی ۔یعنی اللہ نے مجھ کو ساری کائنات کی چیزوں کا قاسم بنا دیا ،اب میں جو چاہوں جسے چاہوں عطا کروں ،تاج الشریعہ نے کس والہانہ و پر کیف انداز میں اس کا مفہوم اپنے اشعار میں بیان کیا ہے۔آپ بھی ملاحظہ کیجئے ۔گویا ہیں ۔

جہاں بانی عطا کردیں بھری جنت ہبہ کردیں
نبی مختار ِ کل ہیں جس کو جو چاہیں عطا کردیں

جہاں میں چلتی ہے ان کی وہ دم میں کیا سے کیا کردیں
زمیں کو آسماں کردیں ثریا کو ثریٰ کر دیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہہ دیا قاسم انا دونوں جہاں کے شاہ نے
یعنی درِ حضور پہ بٹتی ہے نعمتِ خدا

صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگی کو دیکھیں کہ وہ حضور ﷺ سے کس قدر محبت فرماتے کہ دنیا کی کوئی بھی چیز یا کوئی بھی شخص جو محبتِ نبوی کی راہ میں حائل ہو ا اس کو راستہ سے ہٹا دیا ۔چاہے وہ کتنے ہی قریبی اور محبوب کیوں نہ ہوں یہاں تک کہ پدر،مادروبرادر کی بھی پرواہ نہیں کی ۔تاج الشریعہ اسی حقیقت کو سلکِ نظم میں پروتے ہوئے رقم طراز ہیں ۔

نبی سے جو ہو بیگانہ اسے دل سے جدا کردیں
پدر،مادر،برادر،مال وجاں ان پر فدا کردیں

اسی شعر کو حدیثِ پاک کی روشنی میں دیکھیں کہ حضور سرورِ کائنات ﷺ نے ارشادفرمایا ۔لا یؤ من احدکم حتیٰ اکون احب الیہ من والدہ وولدہ ولناس اجمعین۔ (صحیح بخاری)
تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن (کامل) نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے والد ، اولاد اور تمام لوگوں سے محبوب نہ ہوجاؤں ۔
اب ذرا تاریخِ اسلام پر نظر ڈالیں ،صحابہ کرام کی زندگیوں کا مطالعہ کریں ۔آپ یہ دیکھیں گے کہ صحابہ کرام کی زندگیاں اس حدیث ِ مقدس کی عملی تفسیر نظر آتی ہیں۔
حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے جنگِ احد میں اپنے والد کو قتل کردیا جو قریش کی طرف سے غزوۂ احد میں شریک تھے اور ابھی ایمان نہ لائے تھے ۔اور اسی طرح اسی غزوہ میں حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ مسلمانوں کی طرف سے لڑ رہے تھے اور ان کا باپ ابو عامر قریشِ مکہ کی طرف سے جنگ کر رہاتھا ،حضرت حنظلہ نے اجازت چاہی کہ سیدھا اپنے باپ کو نشانہ بنائیں لیکن رحمۃ اللعالمین ﷺ نے ایسا کرنے کی اجازت مرحمت نہ فرمائی ۔حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ نے اپنے بھائی عبداللہ بن عمیر کو قتل کیا ۔حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے اپنے ماموں عاص ابنِ ہشام کو قتل کیا۔حضرت علی اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہمانے ربیعہ کے بیٹے عتبہ اور شیبہ کو غزوۂ بدر میں قتل کیا جو ان کے قرابت دار تھے۔انہین واقعات کی ترجمانی تاج الشریعہ نے اپنے اس شعر میں فرمائی ہے۔

نبی سے جو ہو بیگانہ اسے دل سے جدا کردیں
پدر،مادر،برادر ،مال وجاں ان پر فدا کردیں

نبیٔ اکرم ﷺ صحابہ کرام پر بے پناہ شفقت فرمایا کرتے تھے اور کبھی کبھی آپ ان سے لطیف وپاکیزہ مزاح بھی فرمایا کرتے تھے مثلاً ایک مرتبہ ایک بڑھیا بارگاہِ رسالت میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوئیں ۔یارسول اللہ ﷺ ۔مجھے جنت چاہئے ۔نبیٔ اکرم ﷺ نے فرمایا ۔سنو کوئی بڑھیا جنت میں نہ جائے گی ۔زبانِ رسالت سے یہ الفاظ سن کر ضعیفہ رونے لگیں ۔نبیٔ رحمت ﷺ نے تبسم فرمایا اور فرمایا کہ ہر بوڑھے کو جوان کر دیا جائے گا یہ سن کر وہ خوش ہو ئیں اسی طرح کا ایک واقعہ ایک دوسری حدیث میں ملتا ہے کہ ایک صحابی بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا حضور ﷺ مجھے سواری کے لئے اونڑ عنایت فرمائیں ۔حضور ﷺ نے مزاحاً ارشاد فرمایا ۔تم کو اونٹنی کے بچے پر سوار کروں گا ۔یہ سن کر وہ پریشان ہو گئے اور عرض کی ۔یارسول اللہ ﷺ میں اونٹنی کے بچے پر کیسے سواری کروں گا ۔آپ نے مسکرا کر فرمایا ۔آخر اونٹ بھی تو اونٹنی کا بچہ ہی ہوتا ہے۔اسی حدیث کی عکاسی حضور تاج الشریعہ نے اپنے اس شعر میں کی ہے ۔

کسی کو وہ ہنساتے ہیں کسی کو وہ رلاتے ہیں
وہ یوں ہی آزماتے ہیں وہ اب تو فیصلہ کر دیں

حضور رحمتِ عالم ﷺ کے اوصافِ حمیدہ میں سے ایک وصف یہ بھی ہے کہ آپ شفیع المذنبین ہیں۔حضور ﷺ جسے چاہیں شفاعت کا پروانہ عطا فرما دیں ۔اس کا اظہار قیامت کے دن میدانِ محشر میں ہو گا کہ جب لوگ قیامت کی ہول ناکیوں سے گھبرا کرانبیائے کرام سے شفاعت کے خواست گار ہوں گے اور وہ تمام ایک ہی جواب دیتے نظر آئیں گے ۔اذھبوا الیٰ غیری اذھبوا الیٰ غیری۔آخر تھک ہار کر لوگ نبی ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوں گے اور آپ اذنِ شفاعت پا کر گناہ گاروں کی شفاعت فرمائیں گے ۔اور جو دوزخ میں گناہ گار پہنچ چکے ہوں گے ان کی شفاعت فرما کر دوزخ سے رہائی عطا فرمائیں گے۔اسی مزدۂ شفاعت کو تاج الشریعہ نے یوں الفاظ کا جامہ پہنایا ہے۔

وہ بڑھتا سایۂ رحمت چلا زلفِ معنبر کا
ہمیں اب دیکھنا ہے حوصلہ خورشیدِ محشر کا

شۂ کوثر ترحّم تشنۂ دیدار جاتا ہے
نظر کا جام دے پردہ رخِ پر نور سے سرکا

ہماری سمت وہ مہرِ مدینہ مہر باں آیا
ابھی کھل جائے گا سب حوصلہ خورشیدِ محشر کا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عرصۂ حشر میں کھلی ان کی وہ زلفِ عنبریں
مینہ وہ جھوم کر گرا چھائی وہ دیکھئے گھٹا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گردشِ چشمِ ناز میں صدقے تیرے یہ کہہ تو دے
لے چلو اس کو خلد میں یہ تو ہمارا ہو گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گرمیٔ محشر گناہ گارو ہے بس کچھ دیر کی
ابر بن کر چھائیں گے گیسوئے سلطانِ جمال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے کل اپنی بخشش کا یقیں ہے
کہ الفت ان کی دل میں جاگزیں ہے

گناہ گارو نہ گھبراؤ کہ اپنی
شفاعت کو شفیع المذنبیں ہے

اختر کی ہے مجال کیا محشر میں سب ہیں دم بخود
سب کی نظر تمہیں پہ ہے سب کی زباں تم ہی تو ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے پچھلے سبھی خلد میں چل دیئے
روزِ محشر کہا جب نبی نے چلیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک دوسری نعت میں محشر کی ہول ناکیوں کا تذکرہ اسی انداز میں فرمایا ہے۔

ہر نظر کانپـ اٹھے گی محشر کے دن ، خوفـ سے ہر کلیجہ دہل جائے گا
پر یہ ناز ان کے بندے کا دیکھیں گے سب تھام کر انکا دامن مچل جائے گا

حضور سیدِ عالم ﷺ کے نور سے دنیا کا ظہور ہے ۔آپ کا نورِ پاک کائنات کی ہر شے میں جلوہ گر ہے ۔کائنات کا ذرہ ذرہ آپ کے نور سے چمک رہاہے۔خود حضور سرورِ کائنات ﷺنے ارشاد فرمایا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سب سے پہلے میرے نور کو پیدا فرمایا اور میرے نور سے ساری کائنات کو وجود بخشا۔حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمۃ اشعۃ اللمعات میں فرماتے ہیں ۔حضور ﷺ مومنوں کا نصب العین اور عبادت گزاروں کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں ۔تمام احوال واوقات میں خصوصاًعبادت میں اور اس کے آخر میں نورانیت کا وجود اور انکشافات ان کے احوال میں زیادہ قوی ہے۔
اگر طیبہ کی سرزمیں رشکِ خلدِ بریں بنی ہوئی ہے تو صرف سرکار ﷺ کی وجہ سے ہے اور یہ وہ مقدس زمین ہے جہاں پر عشاق ہزاروں جنتیں قربان کر کے اس کو حاصل کرنے کی جدوجہد کرتے ہیں ۔اس کی طرف تاج الشریعہ اشارہ کرتے ہوئے عرض کرتے ہیں ۔

صبا یہ کیسی چلی آج دشتِ بطحیٰ سے
امنگ شوق کی اٹھتی ہے قلبِ مردہ سے

نہ بات مجھ سے گلِ خلد کی کر اے زاہد
کہ میرا دل ہے فگار خارزارِ طیبہ سے

یہ بات مجھ سے مرے دل کی کہہ گیا زاہد
بہارِ خلدِ بریں ہے بہارِ طیبہ سے

یہ کس کے دم سے ملی ہے جہاں کو تابانی
مہ و نجوم ہیں روشن منارِ طیبہ سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک دوسری جگہ عرض کرتے ہیں ۔

خلائق پر ہوئی روشن ازل سے یہ حقیقت ہے
دوعالم میں تمہاری سلطنت ہے بادشاہت ہے

خدا نے یاد فرمائی قسم خاکِ کفِ پا کی
ہوا معلوم طیبہ کی دوعالم پر فضیلت ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک دوسری نعت میں مسینے کی عظمت وبزرگی کا ذکر الفاظ کے ان موتیوں میں پرودیا ہے۔

فرشتے جس کے زائر ہیں مدینے میں وہ تربت ہے
یہ وہ تربت ہے جس کو عرشِ اعظم پر فضیلت ہے

بھلا دشتِ مدینہ سے چمن کوکوئی نسبت ہے
مدینے کی فضا رشکِ بہارِ باغِ جنت ہے

مدینہ ایسا گلشن ہے جو ہر گلشن کی زینت ہے
بہارِ باغِ جنت بھی مدینے کی بدولت ہے

مدینہ چھوڑ کر سیرِ جناں کی کیا ضرورت ہے
یہ جنت سے بھی بہتر ہے یہ جیتے جی کی جنت ہے

مدینہ چھوڑ کر جنت کی خوشبو مل نہیں سکتی
مدینے سے محبت ہے تو جنت کی ضمانت ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’وجہ نشاطِ زندگی راحتِ جاں تم ہی تو ہو‘‘اس نعت کو تاج الشریعہ نے حضور ﷺ کے مقصدِ تخلیق کو سامنے رکھ کر اس حدیثِ قدسی کی ترجمانی فرمائی جس میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا ۔لولاک لما خلقت الدنیا۔کہ اے محبوب اگر تم کو پیدا کرنا مقصود نہ ہوتا تو میں دنیا کو پیدا نہ فرماتا۔عرض کرتے ہیں۔

وجہ نشاطِ زندگی راحتِ جاں تم ہی تو ہو
روحِ روانِ زندگی جانِ جہاں تم ہی توہو

تم جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا تم جو نہ ہو تو کچھ نہ ہو
جانِ جہاں تم ہی تو ہو جانِ جناں تم ہی تو ہو

تم ہو چراغِ زندگی تم ہو جہاں کی روشنی
مہر ومہ ونجوم میں جلوہ کناں تم ہی تو ہو

تم ہو قوام ِ زندگی تم سے ہے زندگی بنی
تم سے کہے ہے زندگی روحِ رواں تم ہی تو ہو

اصلِ شجر میں ہو تمہیں نخل و ثمر میں ہو تمہیں
ان میں عیاں تم ہی تو ہو ان میں نماں تم ہی تو ہو

تم ہو نمودِ اولیں شمعِ ابد بھی ہو تم ہی
شاہِ زمن یہاں وہاں سکہ نشاں تم ہی تو ہو

اختر کی ہے مجال کیا محشرمیں سب ہیں دم بخود
سب کی نظر تم ہی پہ ہے سب کی زباں تم ہی تو ہو

حضور سیدِ عالم ﷺ کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے مختارِ کل بنا کر مبعوث فرمایا ۔یہ آپ کا عظیم اعجاز ہے کہ بے جان چیزوں کو بھی حرکات وسکنات و نطق عطا فرما دیتے ۔یہ سرورِ کائنات ﷺ کا ہی معجزہ ہے کہ آپ جس راستہ سے گزر جاتے شجرو حجر آپ پر درودوسلام کی ڈالیاں نچھاور کرتے ،جانور اور چرند و پرند فریاد کناں ہو کر آپ کی بارگاہ میں پناہ لیتے اور اپنے اپنے طور پر آپ کی بارگاہ میں نذرانۂ سلام پیش کرتے۔
حدیث شریف میں ہے کہ ایک مرتبہ ابو جہل حضور ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض گذار ہوا ۔اے محمد(ﷺ) اگر یہ بتادو کہ میری مٹھی میں کیا ہے تو میں ایمان لے آؤں گا۔آپ نے فرمایا میں بتاؤں کہ تیری مٹھی میں کیا ہے یا وہ بتائے جو تیری مٹھی میں ہے کہ ہم کیا ہیں ۔اس نے کہا یہ تو اور اچھی بات ہے۔آپ نے اشارہ فرمایا ۔اشارہ ہونا تھا لہ ابو جہل کے ہاتھوں سے کلمہ طیبہ کی مدہم مدہم آواز سنائی دینے لگی۔لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ (ﷺ) جب ابو جہل نے دیکھا کہ سنگ ریزے توحیدو رسالت کی گواہی دے رہے ہیں تو اس نے سنگ ریزوں کو اپنی مٹھی سے پھینک دیا۔ اسی واقعہ کو تاج الشریعہ کی زبانی ملاحظہ فرمائیں ۔

تیری جاں بخشی کے صدقے اے مسیحائے زماں
سنگـ ریزوں نے پڑھا کلمہ ترا جانِ جمال

حدیثِ پاک میں اسی طرح کا ایک اور واقعہ ملتا ہے کہ حضور ﷺ نے جب اعلانِ نبوت فرمایا اور فرزندانِ اسلام کی تعداد دن بدن بڑھنے لگی تو ابو جہل نے حبیب یمنی کو بلایا اور کہا کہ کسی طرح ان کی تبلیغ کو روکو ۔حبیب یمنی نے حضور ﷺ سے معجزہ طلب کیا ،آپ نے فرمایا تم کیا معجزہ چاہتے ہو تو اس نے کہ اس وقت چاند پوری آب وتاب سے چمک رہا ہے اس کو دو ٹکڑے کر دو تو ہم ایمان قبول کر لیں گے ۔حضور ﷺ نے انگلی کا اشارہ فرمایا اشارہ پانا تھا کہ چاند دو ٹکڑے ہو گیا۔حضور ﷺ نے پھر اشارہ فرمایا اور چاند پھر صحیح ہو گیا۔اس واقعہ کو حضور تاج الشریعہ سلکِ نظم میں پروتے ہوئے عرض کرتے ہیں۔

اک اشارے سے کیا شق ماہِ تاباں آپ نے
مرحبا صد مرحبا صلِ علیٰ شانِ جمال

غرض یہ کہ حضور تاج الشریعہ نے عشقِ سرورِ کونین میں ڈوب کر احادیثِ نبویہ سے مدحتِ مصطفیٰ کے لئے خوب خوب خوشہ چینی کی ہے۔ان لے دبستانِ نعت سفینۂ بخشش کے مطالعہ سے ہر قاری کو سب سے پہلا جام عشقِ رسول کا ہی ملتا ہے ۔آپ کی شاعری میں نہ تو تصنع ہے اور نہ ہی تضاد بیانی کا شائبہ دور دور تک نظر آیا ۔
حضور تاج الشریعہ نے حدیث شریف کے پاکیزہ مضامین کو نعتیہ اشعار میں کس طرح سمویا ہے اس کواگر مکمل طور پر ملاحظہ کرنا ہو تو سفینۂ بخشش کا مطالعہ کریں جو دیدہ ودل کو جلا وتازگی بخشے گی ۔آپ کی شاعری میں وہ ڈھنگ بھی ملتے ہیں جو مہارت ثابت کرنے کے مسلّمہ طریقے ہیں ۔چھوٹی بحروں کی کاٹ ،طویل بحروں کا ترنّم ،مشکل ردیفوں کا استعمال آپ کی شاعری کا عظیم حصہ ہے۔غرض یہ کہ عشق کا وہ سرچشمہ جو حاصلِ کل ہے اسی کی بوقلمونی اور نیرنگی ہزار جولانیوں کے ساتھ آپ کی نعتیہ شاعری میں نظر آتی ہیں ۔

Menu