حضورتاج الشریعہ کی شاعری کا فنی جائزہ

زاہد نظر رضوی ،کولکاتا، انڈیا


حضور تاج الشریعہ علامہ مفتی محمداختر رضا خاں قادری رضوی ازہری مدظلہٗ العالی اپنی ذات بابرکات میںخود ایک یونیورسٹی کی حیثیت رکھتے ہیں ان کاعلمی سرمایہ اور فقہی ذخیرہ آج یکجا کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں تاکہ آنے والی نسل اس سے فیض اٹھاسکے۔
حضور تاج الشریعہ فی زمانہ قادری سلسلہ کے ایک نامور بزرگ ہی نہیں ہے بلکہ ایک جید عالم دین اورمرجع فقہ و فتاویٰ بھی ہیں۔ آپ کے مریدوں اورشاگردوں کاحلقہ برصغیر پاک وہند کے ساتھ ساتھ یورپ و امریکہ اورافریقہ و عرب تک دراز ہے۔
ہمارے آقاومولیٰ حضور تاج الشریعہ نے جہاں علم دین کے چراغ کو اپنے خون ِجگر دے کر روشن کرنے کی کوشش کی ہے وہیں عشق رسول، محبت پنجتن پاک اورحب اولیاء کرام کو عام کرتے پوری زندگی وقف کردی ہے۔
آپ کے پندونصائح، تصانیف وفتاویٰ میں یہ عناصرتفصیل سے پائے جاتے ہیں وہیں شاعری میں بھی ان جذبات کااظہار ملتاہے۔
یہاں موضوع سخن حضرت تاج الشریعہ مدظلہ ٗالعالی کی شاعری کا فنی جائزہ کہ آپ کے شاعرانہ مزاج نے کتنی صنعتوں پر طبع آزمائی کی ہے۔سفینہ بخشش میں ذکر کردہ اشعار میںسے بعض کو صنعتی کسوٹی پرپرکھ کر دنیائے اردو ادب میں تاج الشریعہ کاکیامقام ہے؟بخوبی اندازہ لگایاجاسکتاہے۔ اس سلسلے میں علامہ عبدالستار ہمدانی مصروف برکاتی نوری صاحب قبلہ کی کتاب ــ’’فن شاعری اورحسان الہند‘‘ سے بھرپورمدد لی گئی ہے اوردوسرے شعراء کے اشعار بطور استدلال اسی کتاب سے اخذ کئے گئے ہیں۔
۱- صنعت استعارہ:
اس صنعت کو کہتے ہیں کہ شاعر اپنے کلام میں کسی لفظ کے حقیقی معنی ترک کرکے اس کو مجازی معنی میں استعمال کرتاہے اور ان حقیقی اورمجازی معنی کے درمیان تشبیہ کاعلاقہ ہوتاہے۔ (فیروز اللغات، ص ۴۱)

اے میرے ماہ کامل پھر آشکارا ہوجا
اکتاگئی طبیعت تاروں کی روشنی میں

(شکیل بدایونی)

نعمتیں بانٹتا جس سمت وہ ذی شان گیا
ساتھ ہی منشیٔ رحمت کاقلمدان گیا

واللہ جو مل جائے میرے گل کاپسینہ
مانگے نہ کبھی عطر ، نہ پھر چاہے دلہن پھول

(حضور اعلیٰ حضرت)

علامہ ازھری فرماتے ہیں:

اختر خستہ کیوں اتنا بے چین ہے تیراآقا شہنشاہ کونین ہے
لولگاتو سہی شاہ لولاک سے غم مسرت کے سانچے میں ڈھل جائے گا

شہنشاہ کونین/شاہ لولاک سے مراد رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم

وجہِ نشاطِ زندگی راحتِ جاں تم ہی تو ہو
روحِ روانِ زندگی جانِ جہاں تم ہی توہو

جان جہاں مراد رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم

جاں توئی جاناں قرارِجاں توئی
جانِ جاں جانِ مسیحا آپ ہیں

جانِ جاں/جانِ مسیحا سے مراد رسول پاک

منورمیری آنکھوں کو مرے شمس الضحیٰ کردیں
غموں کی دھوپ میں وہ سایۂ زلف دوتاکردیں

شمس الضحیٰ سے مراد رسول پاک

تیری جاں بخشی کے صدقے اے مسیحائے زماں
سنگریزوں نے پڑھا کلمہ ترا جان جمال

مسیحائے زماں سے مراد رسول پاک

۲– صنعت تشبیہ:
ایک چیزکو دوسری چیز کی مانند ٹھہرانا یااس کی صنعت میںشریک قراردینا (فیروزاللغات ص۳۶۱)

ناز کی ان کے لب کی کیا کہیئے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے

(میرتقی میر)

چاند سے چہرے پہ بکھری ہے وہ زلف عنبریں
رات کیوں ہے آج اتنی دل ربا معلوم ہے

(ماہر چاند پوری)

دل کروٹھنڈا مرا، وہ کف پاچاندسا
سینہ پہ رکھ دو ذرا، تم پہ کروڑوں درود

(رضاؔ)

پتلی پتلی گل قدس کی پتیاں
ان لبوں کی نزاکت پہ لاکھوں سلام

(رضاؔ)

علامہ ازہری فرماتے ہیں:

روئے انور کے سامنے سورج
جیسے اک شمع صبح گاہی ہے

اس شعر میں شاعر نے سورج کی تابش کو چہرۂ انور کےسامنے ’’شمع صبح گاہی ‘‘ سے تشبیہہ دی ہے

۳صنعت مبالغہ:
کسی بات کو بڑھاچڑھاکر بیان کرنا-حد سے زیادہ تعریف وبڑائی کرنا (فیروزاللغات ص ۱۱۹۳)

ہنس پڑے آپ تو بجلی چمکی
بال کھولے توگھٹا لوٹ آئی

(امیر مینائی)

اے رضا خود صاحب قرآں ہے مداح حضور
تجھ سے کب ممکن ہے پھر مدحت رسول اللہ کی

(رضاؔ)

علامہ ازہری فرماتے ہیں:

مہ و خورشیدوانجم میں چمک اپنی نہیں کچھ بھی
اجالا ہے حقیقت میںانہیں کی پاک طلعت کا

قمرآیا ہے شاید ان کے تلوئوں کی ضیاء لینے
بچھا ہے چاند کابستر مدینہ آنے والاہے

قدم سے ان کے سرعرش بجلیاں چمکیں
کبھی تھے بند کبھی واتھے دیدھائے فلک

نور کے ٹکڑوں پر ان کے بدر و اختر بھی فدا
مرحبا کتنی ہیں پیاری ان کی دلبرایڑیاں

مہر خاور پہ جمائے نہیں جمتی نظریں
وہ اگر جلوہ کریں کون تماشائی ہو

۴نعت اقتباس:
چناہواکلام (فیروزاللغات ص ۱۰۵) یعنی شاعر اپنے شعر میں قرآن مجید کی آیت یاحدیث کی عبارت کاٹکڑا لے اوراس عبارت کو عربی زبان میں ہی شعر میں نقل کرے۔

دھوپ کی تابش آگ کی گرمی
وَقِناَ رَبَّناَ عَذَابَ النَّارِ

(غالب)

رَنگ اَوْ اَدْنیٰ میں رنگین ھو کے اے ذوق طلب
کوئی کہتاتھا کہ لطفِ مَاخَلَقْنَا اور ہے

(اقبال)

وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکْ کاہے سایہ تجھ پر
بول بالا ہے ترا ، ذکر ہے اونچا تیرا

(رضا)

پائے کو باں پل سے گزریں گے تیری آواز پر
رَبّ سلّمِْ کی صدا پر وجد لاتے جائیں گے

(رضا)

علامہ ازہری صاحب فرماتے ہیں:

رَبّ سلّمْ وہ فرمانے والے ملے کیوں ستاتے ہیں اے دل تجھے وسوسے
پل سے گزریں گے ہم وجد کرتے ہوئے کون کہتاہے پائوں پھسل جائے گا

شب معراج وہ اَوْحیٰ کے اشارات کی رات
کون سمجھا ئے وہ کیسی تھی مناجات کی رات

دید کے ہوں طالب جب خدا سے موسیٰ
ان سے لَنْ تَرَانیْ کہہ دے رب تمہارا
پر تمہارے رب سے تم کو میرے مولیٰ
ہے پیام وصلتـ یارسول اللہ
نعرۂ رسالتـ یارسول اللہ

اِبْتَـغُوْ ا فرماکے گویا رب نے یہ فرمادیا
بے وسیلہ نجدیو! ہرگز خدا ملتا نہیں

۵-صنعت تضاد:
شعر میں ایسے دوالفاظ جمع کرنا جو معنی اوروصف میںایک دوسرے کے خلاف ہوں یعنی ضدہوں۔ پھر خواہ وہ دونوںاسم ہوں یافعل ہوں، اس صنعت کو صنعت طباق و تضاد بھی کہاجاتاہے(فن شاعری اورحسان الھند ص ۱۲۳)

فرش سے تاعرش واں طوفان تھا موج رنگ کا
یاں زمین سے آسماں تکـ سوختن کاباب تھا

(غالب)

اس عالم ہستی میں مرنا ہے نہ جیناہے
تونے کبھی دیکھا نہیں، مستوں کی نظر سے

(اصغر گونڈوی)

وصل کی شب تھی تو کس درجہ سبک گزری تھی
ہجر کی شبـ ہے توکیاسخت گراں ٹھہری ہے

(فیض احمدفیض)

نہ آسماں کو یوں سرکشیدہ ہوناتھا
حضور خاکـ مدینہ خمیدہ ہوناتھا

(رضاؔ)

نار دوزخ کو چمن کردے بہار عارض
ظلمت حشر کو دن کردے نہار عارض

(رضاؔ)

علامہ ازھری فرماتے ہیں:

جہاں میں ان کی چلتی ہے وہ دم میں کیا سے کیاکردیں
زمیں کو آسماں کردیں ثریا کوثریٰ کردیں

زمینv/s آسمان – ثریا v/s ثریٰ(متضاد الفاظ)

میری مشکل کو یوں آساں مرے مشکل کشا کردیں
ہراکـ موج بلا کو میرے مولیٰ ناخدا کردیں

مشکلv/s آساں

تبسم سے گماں گزرے شب تاریک پر دن کا
ضیاء رخ سے دیواروں کو روشن آئینہ کردیں

شبv/s دن – تاریک v/s روشن

کسی کووہ ہنساتے ہیں کسی کووہ رلاتے ہیں
وہ یونہی آزماتے ہیں وہ اب تو فیصلہ کردیں

ہنساتے ہیںv/s رلاتے ہیں

خلدزار طیبہ کااس طرح سفر ہوتا
پیچھے پیچھے سرجاتاآگے آگے دل جاتا

پیچھے پیچھے v/s آگے آگے

یہ خاکـ کو چۂ جاناں ہے جس کے بوسہ کو
نہ جانے کب سے ترستے ہیں دیدہائے فلک

فلکv/s خاک

۶-صنعت حسن تعلیل:
شاعر اپنے تخیل سے کسی چیز یاامر کی کوئی ایسی وجہ (علت) بیان کرے،جو دراصل اس کی علت نہیں ہوتی (فیروز اللغات ص ۵۶۹)یعنی کسی وصف کے لئے ایسی علت کا دعویٰ کرنا جو حقیقی نہ ہو۔

شب غم کی تیرگی میں مری آہ کے شرارے
کبھی بن گئے ہیں آنسو کبھی بن گئے ہیں تارے

(شکیل بدایونی)

میں چمن میں کیاگیا ، گویا دبستاں کھل گیا
بلبلیں سن کرمرے نالے غزل خواں ہوگئیں

(غالبؔ)

خم ہوگئی پشت فلک اس طعن زمیں سے
سن ہم پہ مدینہ ہے وہ رتبہ ہے ہمارا

(رضاؔ)

غفلت شیخ و شاب پر ہنستے ہیں طفل شیرخوار
کرنے کو گدگدی عبث آنے لگی بہائی کیوں

(رضاؔ)

علامہ ازہری فرماتے ہیں:

ہر شبـ ہجر لگی رہتی ہے اشکوں کی جھڑی
کوئی موسم ہو یہاں رہتی ہے برسات کی رات

تلاطم ہے یہ کیساآنسوئوں کادیدۂ تر میں
یہ کیسی موجیں آئی ہیں تمنا کے سمندر میں

عرصۂ حشر میں کھلی ان کی وہ زلف عنبریں
مینہ وہ جھوم کر گراچھائی وہ دیکھئے گھٹا

رُخ تابانِ بنی زلفِـ معنبر پہ فدا
روز تابندہ پہ مستی بھری برسات کی رات

چھائی رہتی ہیں خیالوں میں تمہاری زلفیں
کوئی موسم ہو یہاں رہتی ہے برسات کی رات

۷-صنعت تجنیس کامل:
شعر میں دوایسے الفاظ کااستعمال کرنا جو حروف اور اعراب میں مساوی ہوں لیکن دونوں لفظوں کے معنی الگ الگ ہوں ۔یعنی وہ دونوں الفاظ تلفظ میںیکساں ہوںلیکن دونوں کا استعمال مختلف معنوں میں کیاگیا ہو۔(فیروزاللغات ۔ص ۳۴۶)

جان دی ، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

(غالبؔ)

تونے سب اپنے کام بگڑ کربنالئے
میری وفا، وہ کام جو بن کر بگڑ گیا

(فانی بدایونی)

نور وبنت نور و زوج نور وام نور ونور
نورمطلق کی کنیز، اللہ دے لینانور کا

(رضاؔ)

(شعر اعلیٰ حضرت کا نہیں غالباً)

جنت ہے ان کے جلوہ سے جو پائے رنگ و بو
اے گل، ہمارے گل سے ہے گل کو، سوال گل

(رضاؔ)

علامہ ازھری فرماتے ہیں:

مفتی اعظم کاذرہ کیا بنا اختر رضا
محفل انجم میں اختر دوسرا ملتا نہیں

حاجتیں کس کو پکار یں کس کی جانب رخ کریں
حاجتیں مشکل میں ہیں مشکل کشا ملتا نہیں

۸-صنعت تجنیس ناقص:
شعر میں ایسے دوالفاظ کااستعمال کرنا جو حروف میں یکساں ہوں لیکن اعراب میںمختلف ہوں اوردونوں لفظ مختلف معنی میںاستعمال ہوئے ہوں(فن شاعری اورحسان الہند ص ۱۵۳)

ادھر دامن کسی کاجھاڑ کرمحفل سے اٹھ جانا
ادھر نظروں میں ہر ہرچیز کابیکار ہوجانا

(جگرمرادآبادی)

ادھر وفاکو گلہ ہے کہ دل لہونہ ہوا
ادھر ستم کو شکایت کہ قدرداں نہ ملا

(غلام ربانی تاباں)

جیسے سب کاخداایک ہے ویسے ہی
ان کا ان کاتمہارا ہمارا نبی

(رضاؔ)

عالم علم دوعالم ہیں حضور
آپ سے کیا عرض حاجت کیجئے

(رضاؔ)

علامہ ازہری فرماتے ہیں:

موت عالم سے بندھی ہے موت عالم بے گماں
روح عالم چل دیاعالم کو مردہ چھوڑ کر

تم کیا گئے مجاہد ملتـ جہاں گیا
عالم کی موت کیا ہے عالم کی ہے فنا

۹۔صنعت مراعات النظیر:

شعر میں ایسی کئی چیزوں کاذکر کرنا جن میں باہم مناسبت ہو(فیروزاللغات ص ۱۲۲۴)

قاصد کے آتے آتے خط اک اورلکھ رکھوں
میں جانتاہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں

(غالبؔ)

نہ بادہ ہے، نہ صراحی، نہ دور پیمانہ
فقط نگاہ سے رنگیں ہے بزم میخانہ

(اقبالؔ)

شاخ قامت شہ میں زلف وچشم ورخسار ولب ہیں
سنبل نرگس گل پنکھڑیاں قدرت کی کیاپھولی شاخ

(رضاؔ)

نبوی مینھ، علوی فصل، بتولی گلشن
حسنی پھول، حسینی ہے مہکنا تیرا

(رضاؔ)

علامہ ازہری فرماتے ہیں:

سر ہے سجدے میں خیالِ رخِ جاناں دل میں
ہم کو آتے ہیں مزے ناصیہ فرسائی کے

(سر+سجدہ+ناصیہ فرسائی(سب کاآپس میں مناسبت ہے)

یہی کہتی ہے رندوں سے نگاہ مست ساقی کی
درمیخانہ واہے میکشوں کی عام دعوت ہے

رند+ساقی+میخانہ+میکشوں(آپس میں مناسبت ہے)

یہ مجھ سے کہتی ہے دل کی دھڑکن کہ دست ساقی سے جام لیلے
وہ دورساغر کاچل رہا ہے شرابـ رنگیں جھلک رہی ہے

ساقی+جام+دور+ساغر+شراب+چھلکنا (آپس میں مناسبت ہے)

اٹھائو بادہ کشو! ساغر شرابـ کہن
وہ دیکھو جھوم کے آئی گھٹا مدینے سے

بادہ کشو+ساغر+شراب+جھومنا(آپس میں مناسبت ہے)

اصل شجر میں ہو تم ہی نخل و ثمر میں ہوتم ہی
ان میں عیاں تم ہی تو ہو ان میں نماں تم ہی تو ہو

شجر+نخل-+ثمر(آپس میں مناسبت ہے)

۹-صنعت ترصیع:
شاعری کی اس صنعت کوکہتے ہیں جس میں دونوں مصرعوں کے الفاظ ہم وزن ہوں (فیروزاللغات ص ۳۵۵)

میری زندگی  ہے تیرا   نام پہلا مصرعہ:
تیری بندگی  ہے میرا کام دوسرا مصرعہ:

(رضا)

   نبی ھمارا   اعلیٰ    و اولیٰ سے سب پہلامصرعہ:
نبی ھمارا والا و بالا  سے سب دوسرا مصرعہ:

(رضا)

علامہ ازہری فرماتے ہیں :

ہے کرتی ناز امانت ہے کرتی ناز صداقت
ہے کرتی ناز مروت ہے کرتی ناز حمیت

 

سلام کو فضاؤں کی مدینہ یا رسول اللہ
سلام کو ہواؤں کی طیبہ یا رسول اللہ

۱۰ -صنعت مقابلہ
شعر میں پہلے چند ایسے الفاظ کااستعمال کرنا جوایک دوسرے کے ساتھ موافقت رکھتے ہوں ۔ان کاذکر کرنے کے بعد پھر ایسے الفاظ کااستعمال کرناجواول الذکر کے اضداد ہوں (فن شاعری اوراحسان الہند ص ۱۶۵)

ظلمت کدے میں میرے شب غم کاجوش ہے
اک شمع ہے دلیل سحر سوخموش ہے

(غالبؔ)

ہوکر جمودگلشن جنت سے بے نیاز
دوزخ کے بے پناہ شراروں پہ رقص کر

(شکیل بدایونی)

حسن یوسف پہ کٹیں مصر میں انگشت زناں
سرکٹاتے ہیں ترے نام پہ مردانِ عرب

(رضاؔ)

دندان ولب وزلف ورخ شہ کے فدائی
ہیں درعدن،لعل یمن مشک ختن پھول

(رضاؔ)

علامہ ازھری فرماتے ہیں:

ڈوبے رہتے ہیں تیری یاد میں جوشام وسحر
ڈوبتوں کووہی ساحل سے لگاجاتے ہیں

شام کے مقابلے میں سحر اور ڈوبے رہتے ہیں کے مقابلے میں لگاجاتے ہیں۔

سحردن ہے اورشام طیبہ سحر ہے
انوکھے ہیں لیل و نہار مدینہ

سحر اورنہار میں موافقت اورلیل و شام میں موافقت سحر کے مقابلے میں شام اورلیل کے مقابلے میں نہار۔

۱۱-صنعت تنسیق الصفات
کسی کاتذکرہ بہت صفات کے ساتھ کرنا ، پھر چاہے وہ تعریف میںہو یا مذمت میں ہو۔(فن شاعری اورحسان الہند ص ۱۹۳)

حسن بے پروا خریدار متاع جلوہ ہے
آئینہ زانو ے فکراختراع جلوہ ہے

(غالبؔ)

تجاہل، تغافل، تبسم، تکلم
یہاں تک تو پہنچے وہ مجبور ہوکر

(جگر)

تو ہے خورشید رسالت پیارے، چھپ گئے تیری ضیامیں تارے
انبیاء اور ہیں سب مہ پارے ، تجھ سے ہی نور لیاکرتے ہیں

(رضاؔ)

شافی ونافی ہوتم، کافی و دافی ہوتم
درد کو کردو دوا، تم پہ کروڑوں درود

(رضاؔ)

علامہ ازہری فرماتے ہیں:

وہی تبسم ، وہی ترنم، وہی نزاکت، وہی لطافت
وہیں ہیں دزدیدہ سی نگاہیں کہ جس سے شوخی ٹپک رہی ہے

گداگرہے جو اس گھر کا وہی سلطان قسمت ہے
گدائی اس دروالا کی رشک بادشاہت ہے

تاج وقار خاکیاں، نازش عرش و عرشیاں
فخر زمین و آسماں فخر زماں تم ہی تو ہو

تم جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا تم جو نہ ہوتو کچھ نہ ہو
جانِ جہاں تم ہی تو ہو جان جناں تم ہی تو ہو

۱۲-صنعت مقلوب مستوی

شعر میں ایسے الفاظ کااستعمال کرنا کہ اس لفظ کوالٹا کر کے پڑھاجائے ، تو بھی وہ سیدھی طرح رہتاہے یعنی سیدھا اورالٹا یکساں پڑھا جائے مثلاً دید (فیروز اللغات ص ۱۲۷۵)

پیدا ہوئی ہے کہتے ہیں ہر درد کی دوا
یوں ہوتم چارۂ غم الفت ہی کیوں نہ ہو

(غالبؔ)

عشق نے دل میں جگہ کی تو قضابھی آئی
درد دنیا میں جب آیا تو دوا بھی آئی

(فانی)

دل عبث خوف سے پتا سااڑا جاتا ہے
پلہ ہلکاسہی بھاری ہے بھروسا تیرا

(رضاؔ)

دید گل اوربھی کرتی ہے قیامت دل پر
ہم صفیرو ہمیں پھر سوئے قفس جانے دو

(رضا)

علامہ ازہری فرماتے ہیں:

اے مسیحا ترے بیمار ہیں ایسے بیمار
جہاں بھر کا دکھ درد مٹا جاتے ہیں

ہزاروں درد سہتا ہوں اسی امید میںاختر
کہ ہرگز رائیگاں فریاد روحانی نہیں جاتی

درد الفت میں دے مزہ ایسا
دل نہ پائے کبھی قرار سلام

کس دل سے ہو بیاں بے داد ظالماں
ظالم بڑے شریر ہیں یاغوث المدد

۱۳- صنعت حس طلب
لطیف اشارہ کرکے کوئی چیز مانگنا۔ مانگنے کا اچھا طریقہ (فیروزاللغات ص:۵۶۹)

آتا ہے داغ حسرت دل کا شمار یاد
مجھ سے مرے گنہ کاحساب اے خدا نہ مانگ

(غالبؔ)

تجھ کو اپنے لب گلرنگ کی خوشبو کی قسم
شام ہجراں کی ہوائوں کو معطر کردے

کریم اپنے کرم کاصدقہ لئیم بے قدر کو نہ شرما
تو اور رضا سے حساب لینا رضا بھی کوئی حساب میں ہے

(رضاؔ)

ہم سیہ کاروں پہ یارب تپش محشر میں
سایہ افگن ہوں تیرے پیارے کے پیارے گیسو

(رضا)

علامہ ازہری فرماتے ہیں:

داغ فرقت طیبہ، قلب مضمحل جاتا
کاش گنبد خضرادیکھنے کومل جاتا

دل پہ وہ قدم رکھتے نقش پایہ دل بنتا
یاتوخاک پابن کر پاسے متصل جاتا

گردش دور نے پامال کیامجھ کو حضور
اپنے قدموں میں سلائو تو بہت اچھاہو

غم پیہم سے یہ بستی میری ویران ہوئی
دل میں اب خود کو بسائو تو بہت اچھا ہو

یوں نہ اختر کو پھرائو میرے مولیٰ دردر
اپنی چوکھٹ پہ بٹھائو تو بہت اچھا ہو

۱۴-صنعت مسمط
وہ نظم جس کے ہرشعر میں تین تین ٹکڑے ہم قافیہ ہوں۔ اس نظم میں تین سے لے کر دس اشعار ہوں اوران تمام اشعار میں کئی جگہ ایک قسم کا قافیہ ہو۔(فیروز اللغات ص ۱۲۴۷)

وہ کب کے آئے بھی اور گئے بھی، نظر میں اب تک سمارہے ہیں
یہ چل رہے ہیں، وہ پھر رہے ہیں، وہ آرہے ہیں، وہ جارہے ہیں

(جگرمرادآبادی)

اپنے مولیٰ کی ہے بس شان عظیم ، جانوربھی کریں جن کی تعظیم
سنگ کرتے ہیں ادب سے تسلیم، پیڑ سجدے میں گراکرتے ہیں

(رضاؔ)

اپنے دل کا ہے انہیں سے آرام ، سونپے ہیں اپنے انہیں کو سب کام
لولگی ہے کہ اب اس در کے غلام ، چارۂ دردِ رضا کرتے ہیں

علامہ ازہری فرماتے ہیں:

کسی کو وہ ہنساتے ہیں، کسی کو وہ رلاتے ہیں
وہ یونہی آزماتے ہیں، وہ اب تو فیصلہ کردیں

صداقت نازکرتی ہے، امانت نازکرتی ہے
حمیت ناز کرتی ہے، مروت ناز کرتی ہے

روحِ روانِ زندگی، تاب وتوانِ زندگی
امن وامانِ زندگی، شاہ شہاںتم ہی تو ہو

۱۵-صنعت اشتقاق
اشتقاق =ایک کلمہ سے دوسرے کلمہ بنانا (فیروزاللغات) یعنی شاعر کا اپنے شعر میںایسے چند الفاظ کا استعمال کرنا جوایک ہی ماخذ اورایک ہی اصل سے ہوں ۔ نیز وہ الفاظ معنی کے اعتبار سے بھی موافقت رکھتے ہوں ۔

مٹ گئے مٹتے ہیں مٹ جائیں گے اعداء تیرے
نہ مٹا ہے نہ مٹے گا کبھی چرچاتیرا

(رضاؔ)

سارے اچھوں سے اچھا سمجھئے جسے
ہے اس اچھے سے اچھا ہمارا نبی

(رضا)

علامہ ازہری فرماتے ہیں:

ہوا طالب طیبہ مطلوب طیبہ
طلب تیری اے منتظر ہورہی ہے

طالب مطلوب اورطلب کاماخذ ایک ہی ہے

گنہگارو نہ گھبرائو کہ اپنی
شفاعت کوشفیع المذنبیں ہے

شفاعت اورشفیع کاماخذ ایک ہی ہے

کیجئے یادختامُ الانبیاء
ختم یوں ہررنج و کلفت کیجئے

ختام اورختم ماخذایک ہی ہے

۱۶-صنعت سیاق الاعداد
شاعر اپنے شعرمیں مختلف اعداد کااستعمال کرے پھر وہ اعداد چاہے ترتیب وار ہوںخواہ بے ترتیب ہوں لفظ ’’سیاق‘‘ کے لغوی معنی ربط مضمون ، حساب ، گنتی، دفتری اصطلاح ، حساب کے قاعدے وغیرہ ہیں (فیروزاللغات ص۸۲۵) نوٹ: شعر میں ایک سے زائد اعداد کا ذکر کرنالازمی ہے۔

عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں

(ظفر)

ایک میں کیامرے عصیاں کی حقیقت کتنی
مجھ سے سو لاکھ کو کافی ہے اشارہ تیرا

(رضاؔ)

ہائے غافل وہ کیاجگہ ہے جہاں
پانچ جاتے ہیں چار پھرتے ہیں

(رضاؔ)

علامہ ازہری فرماتے ہیں:

مصطفائے ذات یکتا آپ ہیں
یک نے جس کو یک بنایا آپ ہیں

(اس میں دو مرتبہ یک(ایک)کااستعمال کیاگیا ہے۔)

جھک کے مہر و ماہ گویا دے رہے ہیں یہ صدا
دوسرا میں کوئی تم سا دوسرا ملتانہیں

(دوسرا دومرتبہ شعر میں استعمال کیاگیا ہے)

یکتا ہیں جس طرح وہ ہے ان کا غم بھی یکتا
خوش ہوں کہ مجھ کو دولت آنسو مل گئی

(یکتا کادومرتبہ استعمال کیاگیاہے)

چار یاروں کی ادائیں جس میں تھیں جلوہ نما
چار یاروں کا وہ روشن آئینہ ملتا نہیں

(چار شعر میں دومرتبہ استعمال کیاگیا ہے)

۱۷-صنعت مقلوب ِکُل
شعر میںایسے الفاظ کااستعمال کرنا کہ اس کو بالترتیب الٹادیں تو بامعنی لفظ بن جائے ، مثلاً ’’مان‘‘ کو الٹادیاتو’’نام‘‘بنا۔ اناج کوالٹایاتو ’’جانا‘‘ بنا۔ (فیروزاللغات ص ۱۲۷۵)

کھلونا تونہایت شوخ ورنگین ہے تمدن کا
معرف میں بھی ہوں لیکن کھلونا پھر کھلونا ہے

(جوشؔ)

سب قتل ہوکے تیرے مقابل سے آئے ہیں
ہم لوگ سرخ روہیں کہ منزل سے آئے ہیں

فرش والے تیری شوکت کاعلو کیاجانیں
خسرو ا عرش پہ اڑتا ہے پھریرا تیرا

(رضاؔ)

نہ روح امیں نہ عرش بریں، نہ لوح مبیں ، کوئی بھی کہیں
خبر ہی نہیں،جورمزیں کھلیں، ازل کی نہاں تمہارے لئے

(رضا)

علامہ ازہری فرماتے ہیں:

تمہارے درپہ جومیں باریاب ہوجاؤں
قسم خدا کی شہا کامیاب ہوجاؤں

اس شعر میں لفظ ’’در‘‘ کوالٹادینے سے رد (انکار) بنتاہے

مر نہ جانا متاع دنیا پر
سن کے تو مالدار کی باتیں

اس شعر میں لفظ ’’جانا‘‘ کوالٹادینے سے اناج(غلہ) بنتاہے

تاج وقار خا کیاں نازش عرش وعرشیاں
فخر زمین و آسماں فخر زماں تم ہی تو ہو

اس شعر میں لفظ ’’عرش‘‘ کوالٹادینے سے ’’شرع‘‘ بنتاہے۔

جہاں میں ان کی چلتی ہے وہ دم میں کیاسے کیاکردیں
زمیں کو آسماں کر دیں ثریا کو ثریٰ کردیں

اس شعر میں لفظ’’دم‘‘کوالٹادینے سے ’’مد بنتاہے اور کیاکوالٹادینے سے ’’ایک ‘‘ بنتاہے۔

 

 

Menu