کلام تاج الشریعہ میں رد وہابیت
مولانا غلام مصطفیٰ رضوی ، مالیگاؤں ، انڈیا
زہدوورع ،تقویٰ وطہارت ،شرافت ونجابت،اخلاق وکردار کی چمک دمک ،اخلاص کا جوہر اور افکار کی تابندگی نیز علم وعمل کی جولانی ان خوبیوں اور خصائل کا شخصِ واحد میں یک جا ہو جانا حیرت وتعجب کی بات ہے ۔عصرِ حاضر میں اس خصوص میں نابغۂ عصر تاج الشریعہ جانشین مفتیٔ اعظم علامہ اختر رضا خاں ازہری اختر بریلوی مدّظلہ العالی کی شخصیت بڑی نمایاںو ممتاز ہے اکنافِ عالم میں آپ کے پائے اور مرتبے کا کوئی عالم نظر نہیں آتا ۔آپ کی دینی وعلمی،دعوتی وتبلیغی،فکری وفقہی خدمات کا دائرہ بڑا وسیع ،ہمہ پہلو اور ہمہ وصف ہے۔ان تمام خوبیوں پر مستزاد یہ کہ آپ ایک باکمال اور محتاط نعت گو شاعر بھی ہیں ۔
دین پر تصلّب واستقامت کا جوہر ورثے میں ملا ہے بایں سبب احقاقِ حق وابطالِ باطل میں اس دور میں امتیازی شان رکھتے ہیں جو مثالی بھی ہے اور ایمان افروز بھی مصلحت اور مفاد کے اس ماحول میں جب کہ بہت سے صاحبانِ جاہ وکلاہ بھی مداہنت سے کام لے لیتے ہیں ،تاج الشریعہ کے یہاں عقیدہ وایمان کے بارے میں کسی قسم کی مصلحت یا سمجھوتے کا گزر تک نہیں بلکہ شریعہ کی بالا دستی اور پاس داری کا ہر آن پاس ولحاظ رکھتے اور اسی کی تعلیم وتلقین کرتے ہیں ۔
آ پ عالمِ اسلام کے مرجعِ فتاویٰ ہیں،فن ِ تفسیر اور حدیث وفقہ میں مہارت رکھتے ہیں ساتھ ہی شعری ذوق بھی وراثت میں ملا ہے،جدید لب ولہجے میں دست رس رکھتے ہیں ۔تصلّب فی الدین اور عقیدے کی سختی آپ کی شخصیت کے اہم پہلو ہیں اور یہی اوصاف آپ کے شعر شعر میں پیوست ونمایاں نظر آتے ہیں ۔اور یہ درس اما م احمد رضا محدث بریلوی کا بھی ہے کہ۔
دشمنِ احمد پہ شدّت کیجئے
دین وایمان کی سلامتی کو مقدّم رکھنا ہی چاہئے ،اگر یہ سلامت نہیں تو جینا کیا جینا ہے ،زندگی بے کیف ہو جاتی ہے ،اگر ایمان کا جوہر سلامت ہے تو زندگی کا سرور باقی ہے،حیات کی تازگی وتمکنت اور رعنائی باقی ہے اور اس کے لئے ان فرقوں اور گروہوں سے بہر صورت بچنا ہو گا جو عقیدے کو تباہ کر دینے پر آمادۂ پیکار ہیں ،جو متاعِ ایمانی کو لوٹنے کی تاک میں ہرآن لگے ہوئے ہیں ،ان کے دامِ فریب سے آگہی رکھنا ،ان کے شر سے قوم کو باخبر کرنا ضروری ہے،اس رخ سے تاج الشریعہ حضرت اختر بریلوی کے اشعار میں کافی مواد ملتا ہے اور یہ عہد کی ضرورت بھی ہے اور دین کے فکری اثاثے کے تحفظ کا ایک اہتمام بھی۔
شعراء نے عہد کے تقاضوں کا التزام صنفِ نعت میں بھی ملحوظ رکھا ،اور یہ روایت عہدِ رسالت سے برابر چلی آرہی ہے ،جب کفارِ مکہ اور دشمنانِ رسول گستاخی واہانت کے بول بولتے تو ان کی ہجو میں حضرت حسّان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ اشعار کہتے،نعت میں جہاں اوصافِ مصطفیٰ بیان کرتے وہیں دشمنوں کی مذمت بھی کرتے اور ان پر تنقید بھی۔اور یہ سلسلہ بعد کے عہد میں پورے اہتمام کے ساتھ قائم رہا۔
۱۸۵۷ کی جنگِ آزادی میں انگریزوں کو مسلمانوں کی ایمانی شوکت وحمیت کا اندازہ ومشاہدہ ہو چلا تھا ،انہوں نے مسلمانوں میں انتشاروافتراق کا ایک منظّم اور عملی منصوبہ بنایا اور عظمتِ رسالت ماب کے نقوشِ دل آویز کو دلوں سے جدا کرنے کے لئے نام نہاد علماء خریدے گئے ،ان کے قلم سے بارگاہِ رسالت ماب میں فستاخی واہانت کروائی گئی ،بے ادبی اور توہین کے کلمات لکھوائے گئے ،اور یوں مسلمانوں میں کئی بد عقیدہ فرقے وجود پا گئے ۔ان میں وہابی، دیوبندی، قادیانی ،غیر مقلد وغیر ہم زیادہ نمایاں ہیں جن کے لٹریچر میں توہینِ رسالت کا پہلو کثرت سے ملتا ہے ۔امام احمد رضا محدث بریلوی نے ان کے مکروفریب سے ملت کو خبردارکرنے کے لئے درجنوں کتابیں تصنیف کیں اور ملت کے اساسی سرمائے ناموسِ رسالت کی حفاظت کا فریضہ انجام دیا ،اس سلسلے میں آپ کے دیوان حدائقِ بخشش کا بھی اہم کردار رہاہے ۔اور یہی وصف تاج الشریعہ حضرت اختر بریلوی کی شاعری میں بھی مستور ہے۔
شعر گوئی میں تاج الشریعہ کو خاص ملکہ حاصل ہے ۔اس جہت میں کامیاب گزرنے کے لئے بڑی مہارت وریاضت نیز مشق درکار ہوتی ہے،لیکن تاج الشریعہ شعر برائے شعر نہیں کہتے بلکہ اظہارِ عشق اور محبتِ رسول کی تسکین کے لئے اشعار نوکِ قلم سے صفحۂ قرطاس پر جلوہ گر ہو جاتے ہیں ،آپ کی شاعری محبت کی آئینہ دار ہے،جس میں عشق و عرفان کی جلوہ سامانی ہے،اور قلبی واردات موروثی امانت کی ترسیل کا نقشِ جمیل ہے،مولانا قاضی شہید عالم رضوی تحریر فرماتے ہیں۔
تاج الشریعہ کی شخصیت کا بہ غور مطالعہ کرنے سے یہ امر واضح ہوتا ہے کہ آپ کو دین ومذہب سے والہانہ وابستگی کے ساتھ ساتھ موزونیٔ طبع ،خوش کلامی ،شعر فہمی اور شاعرانہ ذوق بھی ورثے میں ملا ہے۔
شعر وادب میں نشتریت وتنقید کی فنّی حیثیت مسلّم رہی ہے ،یہ جوہر تاج الشریعہ کے اشعار میں پورے طور پر موجود ہے جیسا کہ اس مضمون میں اسی حوالے سے اجمالی جائزہ پیش کیا جائے گا ۔اس جائزہ کے لئے بطورِ مآخذ آپ کا نعتیہ دیوان سفینۂ بخشش (مطبوعہ رضا اکیڈمی ممبئی ۲۰۰۶) پیشِ نظر ہے۔
وہابی ودیوبندی علماء نے اپنی کتابوں میں جو اہانتیں بارگاہِ رسالت میں کی ہیں وہ اس قدر شدید ہیں کہ ایک مومن کا کلیجہ انہیں پڑھ کر کانپ کانپ اٹھتا ہے اور ان سے نفرت کے جذبات خود بہ خود ابھر آتے ہیں جس کا اظہار کبھی الفاظ میں ،کبھی حرکات وسکنات او ر گفتگو میں اور کبھی اشعار میں ہوتا ہے۔تاج الشریعہ کے اشعار میں نشتریت کے اس رنگ کے ملاحظہ سے قبل عشق ووارفتگی کی تپش کا اندازہ لگائیںکہ محبتِ رسول کا داغ سینے میں بس جائے تو وہ ظلمتوں کی تاریکی میں روشنی کاہالہ بن جاتا ہے،اس رخ سے ہمارے ممدوح کیا دل لگتی بات کہتے ہیں جو دل میں بس کر رہ جاتی ہے اور فکر کی گہرائی میں اتر جاتی ہے۔
ظلمتوں میں روشنی کے واسطے
داغ ِ سینہ کی حفاظتـ کیجئے
وارفتگی وجاں نثاری کا درس بھی خوب دیا ہے ،جو دل میں نقش کر لینے سے تعلّق رکھتا ہے،کیسا ایمان افروز مضمون باندھا ہے کہ ایمان کی کھیتی سرسبزوشاداب ہو جاتی ہے،زبان عش عش کر اٹھتی ہے اور مضمون آفرینی کے جلوے شعری حسن کو دوچند کر دیتے ہیں ۔
نبی سے جو ہو بیگانہ اسے دل سے جدا کر دیں
پدر،مادر،برادر،مال وجاں ان پر فدا کر دیں
جب توہینِ رسالت معمول بن جائے اور گستاخی مشن ۔تو ان کے لئے ذکرِ رحمتِ عالم بڑا بھاری ہو تا ہے اس ذکر سے ان کے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے لیکن ایمان والے کی علامت ہے کہ وصفِ ماہِ طیبہ اور ذکرِ سرکار سے اپنے قلبِ بے چین کو تسکین دیتا رہتا ہے بھلے سے کسی کی حالت غیر ہو جائے یا حسد سے دل جل اٹھیں یا سینے پھکنے لگیں۔
میں وصفِـ ماہِ طیبہ کر رہا ہوں
بلا سے گر کوئی چیں بر جبیں ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذکرِ سرکار بھی کیا آگ ہے جس سے سنّی
بیٹھے بیٹھے دلِ نجدی کو جلا جاتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیز کیجئے سینۂ نجدی کی آگ
ذکر ِ آیاتِ ولادتـ کیجئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیو بندی پیشوا مولوی رشید احمد گنگوہی نے صحیح روایات کے ساتھ بھی میلاد پڑھنے کو ناجائز بتایا ہے ۔ (فتاویٰ رشیدیہ ۔ص۱۳۱،مطبوعہ فرید بک ڈپو دہلی) تو میلادِ مصطفیٰ سے ان کی کیفیت ضرور مضمحل ہو جاتی ہو گی اسی لئے یہ اس سے خار کھاتے ہیں ۔اور اس کے منانے والوں پر جلتے،برستے اور کڑھتے ہیں ۔
وہابیوں کے پیشوا مولوی اسمٰعیل دہلوی نے لکھا ہے ۔
جتنے اللہ کے مقرب بندے ہیں خواہ انبیاء ہوں یا اولیاء ہوں وہ سب کے سب اللہ کے بے بس بندے ہیں اور ہمارے بھائی ہیں مگر حق تعالیٰ نے انہیں بڑائی بخشی تو ہمارے بڑے بھائی کی طرح ہوئے۔ (تقویۃ الایمان ،مطبوعہ مکتبۂ تھانوی دیوبند ،ص۷۱)
ان کے دوسرے پیشوا مولوی قاسم نانوتوی لکھتے ہیں۔
انبیاء اپنی امت میں ممتاز ہوتے ہیں تو علوم میں ممتاز ہوتے ہیں باقی رہا عمل اس میں بسا اوقات بظاہر امتی مساوی ہو جاتے ہیں بلکہ بڑھ جاتے ہیں ۔ (تحذیر الناس،مطبوعہ دارالکتاب دیو بند،ص۸)
ان دونوں عبارتوں میں کس جسارت اور بے باکی سے شانِ رسالت ماب میں توہین و بیادبی کی گئی ہے،ان میں توہین کے کئی پہلو ہیں ،پہلی عبارت میں انبیاء واولیاء کو بے بس کہا گیا ،بڑابھائی کہا گیا ہے۔دوسری عبارت میں بھی ہم سری بلکہ معاذاللہ عمل میں سبقت لے جانے کا گھنونا عقیدہ رچا گیا ہے۔حالاں کہ رحمتِ عالم نبیٔ کونین ﷺ کی شان و عظمت ،شرف و فضیلت ،اختیار وعطا ،نوازش وسخاوت کا یہ حال کہ بہ قول تاج الشریعہ۔
جہاں بانی عطا کر دیں بھری جنت ہبہ کردیں
نبی مختار ِ کل ہیں جس کو جو چاہیں عطا کردیں
نبیٔ کونین ﷺ سے دعویٰ ٔ ہم سری کرنے والوں کو یہ آیتِ مبارکہ دعوت ِ غور وفکر دیتی ہے۔
تلک الرسل فضلنا بعضھم علیٰ بعض منھم من کلم اللہ ورفع بعضھم درجات۔ (البقرۃ۔۲۵۳)
یہ رسول ہیں کہ ہم نے ان میں ایک کو دوسرے پر افضل کیا ان میں سے کسی سے اللہ نے کلام فرمایا اور کوئی وہ ہے جسے سب پر درجوں بلند کیا ۔ (کنزالایمان)
اس کے تحت مولانا سید نعیم الدین مراد آبادی ـخزائن العرفان میں تحریر فرماتے ہیں ۔
آیت میں حضور ﷺ کی اس رفعتِ مرتبت کا بیان فرمایا گیا اور نامِ مبارک کی تصریح نہ کی گئی اس سے بھی حضورِ اقدس ﷺ کے علوِ شان کا اظہار مقصود ہے کہ ذاتِ والا کی یہ شان ہے کہ جب تمام انبیاء پرفضیلت کا بیان کیا جائے تو سوائے ذاتِ اقدس کے یہ وصف کسی پر صادق ہی نہ آئے اور کوئی اشتباہ راہ نہ پا سکے۔حضور ﷺ کے وہ فضائل وکمالات جن میں آپ تمام انبیاء پر فائق وافضل ہیں اور آپ کا کوئی شریک نہیں بے شمار ہیں کہ قرآنِ کریم میں یہ ارشاد ہوا ،درجوں بلند کیا ،ان درجوں کی کوئی شما ر قرآنِ کریم میں ذکر نہیں فرمائی تو اب کون حد لگا سکتا ہے۔ (خزائن العرفان)
اس صراحت کی روشنی میں ہم سری کا دعویٰ کرنے والے اور حضور ﷺ کو بڑا بھائی کہنے والے بے نقاب ہو جاتے ہیں ۔ان کی چیرہ دستی کا عقدہ کھل جاتا ہے۔فریب آشکار ہوجاتا ہے تاج الشریعہ نے ایسے بے ادب گروہ پر جو نشتر لگائے ہیں اس کی ایک جھلک دیکھیں ۔
وہی جو رحمۃ للعالمیں ہیں جانِ عالم ہیں
بڑا بھائی کہے ان کو کوئی اندھا بصیرت کا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ رگِ جانِ دوعالم ہیں بڑے بھائی نہیں
ہیں یہ سب پھندے برے تیرے بڑے بھائی کے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھلا دعوے ہیں ان سے ہم سری کے
سرِ عرشِ بریں جن کا قدم ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کر کے دعویٰ ہم سری کا کیسے منھ کے بل گرا
مٹ گیا وہ جس نے کی توہینِ سلطانِ جمال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رفعت وشانِ مصطفیٰ کے بیان میں خصائصِ مبارکہ رحمۃ للعالمین اور جانِ عالم اور رگِ جانِ عالم کہہ کر منکرین کا رد کیا گیا ہے یہ کہ جن کا قدم مبارک عرشِ بریں پر ہے ان کی عظمت کیسی ارفع واعلیٰ ہے ۔ہم سری کا دعویٰ کرنے والوں کے ہاتھ سے ایمان جاتا رہا اور ذلت ونکبت سے دو چار ہو کر بصیرت وبصارت سے بھی عاری ہو گئے ۔جنون ِ خلد میں عقل زائل ہو گئی اس کا اندازہ اس لگا یا جاسکتا ہے کہ مولوی رشید احمد گنگوہی نے فتاویٰ رشیدیہ (ص۵۹۷) میں کوا کھانے کو ثواب لکھا ہے۔ان کے اس پہلو پر نشتر زنی ملاحظہ ہو۔
جو جنونِ خلد میں کوؤں کو دے بیٹھے دھرم
ایسے اندھے شیخ جی کی پیروی اچھی نہیں
عقل چوپایوں کو دے بیٹھے حکیمِ تھانوی
میں نہ کہتا تھا کہ صحبتـ دیو کی اچھی نہیں
دوسرے شعر میں مولوی اشرف علی تھانوی کیاس عقیدے کا رد ہے جو اس نے علمِ مصطفیٰ کے انکار میںلکھا۔
اگر بعض علومِ غیبیہ مراد ہیں تو اس میں حضور ﷺ کی ہی کیا تخصیص ہے ایسا علمِ غیب تو زیدوعمرو بلکہ ہر صبی و مجنون بلکہ جمیع حیوانات وبہائم کے لئے بھی حاصل ہے۔ (حفظ الایمان ،مطبوعہ دارالکتاب دیوبند،ص۱۵)
تو اس نے علمِ غیب کو حیانات کے علم سے تشبیہ دی (معاذاللہ ) اس نے تو گویا اپنی عقل چوپایوں کو دے ڈالی اور حق کے راستے سے الگ ہو بیٹھے ۔علمِ مصطفیٰ کے متعلق قرآنِ مقدس میں ارشاد ہوتا ہے۔
الرحمٰن۔علم القرآن۔ (الرحمٰن۔۱،۲) رحمٰن نے اپنے محبوب کو قرآن سکھایا۔ (کنزالایمان)
خود حق تعالیٰ جس ذات کا پڑھانے والا ہو اس کے علم کی بلندی کا کیا عالم ہو گا انسانی عقلیں اس کی بلندی کو نہیں ناپ سکتیں ۔حاسدین کا حال تاج الشریعہ کی زبانی سنئے۔
ان کا سایہ سروں پر سلامت رہے
منھ سڑاتے رہیں یوں ہی دشمن سدا
ان کے حاسد پہ وہ دیکھو بجلی گری
وہ جلا دیکھ کر وہ جلا وہ جلا
وہ جلیں گے ہمیشہ جو تجھ سے جلیں
مر کے بھی دل جلوں کو نہ چین آئے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محبتِ مصطفیٰ ایمان کی جان ہے اس محبت و الفت کے ساتھ جو سجدہ بارگاہِ الٰہی میں کیا جائے گا مقبول ہو گا بے اس محبت سجدہ قبول نہ ہو گا اور ماتھے سے دل کی سیاہی کا داغ ہویدا ہوگا۔
جبینِ وہابی پہ دل کی سیاہی
نمایاں ہوئی جیسے ہو مہرِ شاہی
کہ ایں سجدہ ہائے بغیرِ محبت
نہ یابند ہرگز قبول از الٰہی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سجدہ بے الفت ِ سرکار عبث
مہرِ لعنت ہیں یہ سب داغ جبیں سائی کے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وسیلے سے متعلق دلائل وبراہین کے انبار موجود ہیں اس کے باوجود وہابیہ وسیلے کے منکر ہیں ۔قرآن ِ مقدس کا ارشاد ہے ۔
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ ابۡتَغُوۡۤا اِلَیۡہِ الۡوَسِیۡلَۃَ(المائدۃ۔۳۵)
اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو۔ (کنزالایمان)
انبیاء و اولیاء بارگاہِ الٰہی کے مقبولین و محبوبین ہیں اور وسیلہ ۔حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ تک رسائی کے لئے بھی وسیلہ درکار ہے ۔آیتِ مذکورہ کے حوالے سے تاج الشریعہ کا یہ شعر دیکھیں ۔
ابۡتَغُوۡۤا فرما کے گویا رب نے یہ فرما دیا
بے وسیلہ نجدیو ہر گز خدا ملتا نہیں
نجدی تحریک کو پروان چڑھانے میں انگریزوں کی معاونت ومشاورت رہی ہے جس کے شواہد بھی موجود ہیں ۔اس تحریک نے حجازِ مقدس پر قبضہ جمایا ،مسلمانوں سے قتال کیا،مال واموال چھینے ،مسلمانوں پر شرک و بدعت کے فتوے عائد کئے ،مقاماتِ مقدسہ کی بے حرمتی کی ۔ان کے ہاتھوں جاری تباہی وبے حرمتی کے ضمن میں تاج الشریعہ نے دعائیہ اندازمیں حجاز سے ان کے انخلاء کا مضمون باندھا ہے۔
نجدیوں کی چیرہ دستی یاالٰہی تا بہ کے
یہ بلائے نجدیہ طیبہ سے جائے خیر سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دفع ہو طیبہ سے یہ نجدی بلا
یارسول اللہ عجلت کیجئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دفع طیبہ سے ہو یہ نجدی بلا
یارسول اللہ عجل بالجلاء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہابیہ حیات النبی کے بھی منکر ہیں اس تعلق سے تقویۃ الایمان میں مولوی اسمٰعیل دہلوی نے لکھا ہے کہ رسول خد ا مر کر مٹی میں مل گئے (ص۱۹) معاذاللہ ۔اس عبارت کو تقویۃ الایمان کے جدید ایڈیشن میں ردوبدل کر دیاگیا ہے ۔صدر الشریعہ مولانا امجد علی اعظمی تحریر فرماتے ہیں۔ انبیاء علیہم السلام اور اولیائے کرام وعلمائے دین وشہداء و حافظان ِ قرآن کہ قرآن مجید پر عمل کرتے ہوں اور وہ جو منصب ِ محبت پر فائز ہیں اور وہ جسم جس نے کبھی اللہ عزوجل کی معصیت نہ کی اور وہ کہ اپنے اوقات درودشریف میں مستغرق رکھتے ہیں ان کے بدن کو مٹی نہیں کھا سکتی ،جو شخص انبیائے کرام علیہم السلام کی شان میں یہ خبیث کلمہ کہے کہ مر کر مٹی میں مل گئے گمراہ ،بددین،خبیث ،مرتکبِ توہین ہے ۔ (بہارِ شریعت،حصہ اول ،ج۱ ،ص۲۷،۲۸۔مطبوعہ فاروقیہ بک ڈپو دہلی)
اس بابت تنقید کا رنگ ملاحظہ ہو اور حیات النبی سے متعلق عقیدے کی صراحت کا واضح پہلو بھی۔
مر کے مٹی میں ملے وہ نجدیو بالکل غلط
حسبِ سابق اب بھی ہیں مرقد میں سلطانِ جمال
اشعارِ تاج الشریعہ سے اس مضمون میں وہابیہ کے ردوابطال میں نشتریت کے صرف چند نمونے پیش کئے گئے ۔ان شاء اللہ پھر کبھی مزید اشعار کا جائزہ پیش کیا جائے گا اور باطل فرقوں کے سدِباب کے دوسرے شعری محرکات پر بھی روشنی ڈالی جائے گی ۔ضرورت ہے کہ اعتقادی خدمات اور فروغ ِ حق کے موضوع پر سفینۂ بخشش کا جائزہ لیا جائے یہ کام بزمِ ادب کا کوئی شناور ہی کر سکتا ہے ایسے محققین کو اس سمت توجہ کرنی چاہئے ۔اسی طرح ذکر کردہ موضوع پر تاج الشریعہ کا نثری اثاثہ جو تصنیفات و تالیفات نیز فتاویٰ پر مبنی ہے وہ بھی خاصی اہمیت رکھتا ہے نیز ان سے اعتقادی پختگی اور ایمان کی مضبو طی کادرس ملتا ہے۔