حضورتاج الشریعہ اور مناقب اولیاء
مولانا نیازاحمد قادری ، کولکاتا ، انڈیا
اللہ کے پیارے محبوب دانائے غیوب صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب اللہ کابندہ اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری میںاپنی زندگی ایثارکردیتاہے تو رب العزت عزوجل اس کے تعلق سے بندوںکے دلوں میںاس کی محبت راسخ فرمادیتاہے ۔ یہی سبب ہے کہ بندگان خدا جنگلوں، ریگستانوں، پہاڑ کی وادیوں میں ٓآسودۂ خاک ہیں لیکن لوگوں کاایک ازدہام ان کی بارگاہ بے کس پناہ میں تسکین قلب کیلئے ہروقت رخت سفر باندھے تیاررہتاہے۔ اس لئے کہ اس بارگاہ میںسکون ہے، اطمینان ہے، روحانیت ہے، عرفانیت ہے اورنورانیت ہے۔
چودھویں صدی ہجری کے مجدد اعظم سیدناامام احمد رضا محدث بریلوی (م ۱۳۴۰ھ/۱۹۲۱ء) علیہ الرحمہ اپنے دور حیات میں جس وقت علماء سوء عظمت صحابہ، محبت اولیاء کی تنقیص کررہے تھے بڑی شدت سے ان کی مخالفت کی اوران نفوس قدسیہ کی عظمت ورفعت کتب ورسائل میں تحریر فرماکر مخالفین صحابہ و اولیاء کو دندان شکن جواب دیا۔
مرشدی حضور تاج الشریعہ حضرت مفتی محمد اختر رضاخان ازہری قادری مدظلہٗ العالی کو یہی تمغۂ محبت اپنے جد امجد سے ملا اورآپ نے بھی نظم و نثر کے ذریعہ امت مصطفویہ تک یہی پیغام پہنچایا بھی۔ جن پر آپ کی تصانیف اوردیوان شاہد عدل ہیں ۔ آپ نے اپنے دیوان میں جس طرح بزرگوں کاذکر جمیل فرمایا اس سے محبت بزرگان دین کااندازہ لگایاجاسکتاہے۔
سیدنا ا مام حسین رضی اللہ عنہ
نواسۂ رسول جگرگوشہ بتول حضرت علی کے نورنظر سرکار سیدناامام حسین شہید کربلا رضی اللہ عنہ سے الفت ومحبت ایک مومن کے لئے انمول نعمت ہے اس لئے کہ سرکارمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسین سے محبت کو اپنی محبت قراردیا اورانہیں اپنا پھول کہا جنہیں یزیدیوں نے ۱۰؍محرم الحرام ۱ ۶ھمیں بھوک وپیاس کے عالم میں شہید کردیا جنہیں آج دنیا شہید اعظم کے نام سے یاد کرتی ہے۔ حضور تاج الشریعہ مدظلہ العالی نے اس بارگاہ عظمیٰ میں یوں خراج عقیدت پیش کیاہے۔
شہادت ناز کرتی ہے جلالت ناز کرتی ہے
وہ سلطان زماں ہیں ان پہ شوکت ناز کرتی ہے
بٹھاکر شانۂ اقدس پر کردی شان دوبالا
نبی کے لاڈلوں پر فضیلت ناز کرتی ہے
جہان حسن میں بھی کچھ نرالی شان ہے ان کی
نبی کے گل پہ گلزاروں کی زینت ناز کرتی ہے
شہنشاہ شہیداں ہو انوکھی شان والے ہو
حسین ابن علی تم پر شہادت ناز کرتی ہے
خدا کے فضل سے اخترؔ میں ان کانام لیواہوں
میں ہوں قسمت پرنازاں مجھ پہ قسمت ناز کرتی ہے
سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہ
حضور سیدناغوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ ، کی ذات ستودہ صفات کاکیاکہنا رب کائنات نے انہیں غوث الاغواث بناکر دنیا میں مبعوث فرمایا آپ کی شان رفعت یہ کہ خود فرمایا میرا قدم تمام اولیاء کی گردنوںپر ہے تمام اولیا کرام نے بلاچوں وچرا اپنے سروں کوخم کردیا اوراسے تسلیم فرمایا۔ سیدنا امام احمد رضا نے سیدنا غوث اعظم سے حددرجہ محبت فرمایا ہے۔ مناقب غوث اعظم حدائق بخشش کی دونوں جلدوں کی زینت ہیں غوثیت مآب سے محبت کایہ عالم تھا کہ جب سے آ پ کو یہ علم ہواکہ روضہ غوث اعظم فلاں سمت ہے تاحیات اس کی طرف پیر نہیں پھیلایا ۔
حضور تاج الشریعہ مدظلہ العالی نے متعدد بار حضور غوثیت مآب میں حاضر ہوکر اپنے قلب وجگر کو منور ومجلیٰ فرمایا ہے بارگاہ غوثیت مآب میں آپ کی مقبولیت کایہ حال کہ نقیب الاشراف خصوصیت کے ساتھ خالی وقتوں میںحاضر ہونے کاشرف بخشتے ہیں آپ جس والہانہ انداز میں حاضری دیتے ہیں ناظرین عش عش کر اُٹھتے ہیں اس لئے کہ یہ وہ در ہے جہاں مشکل کشائی ہوتی ہے ۔ استغاثہ پیش کیاجاتاہے۔ مدد کی بھیک مانگی جاتی ہے جھولیاں پھیلائی جاتی ہیں۔ دست دراز کئے جاتے ہیں ۔ ذہن وفکر کاصیقل ہوتاہے اورایمان میں بالیدگی پیدا ہوتی ہے ۔اس بارگاہ میں حضور تاج الشریعہ نے دست سوال دراز فرمایا اوریوں پکار اٹھے
پیروں کے آپ پیر ہیں یاغوث المدد
اہل صفا کے میر ہیںیاغوث المدد
تیرے ہی ہاتھ لاج ہے یاپیر دستگیر
ہم تجھ سے دستگیر ہیں یا غوث المدد
کس دل سے ہو بیاں بے داد ظالماں
ظالم بڑے شریرہیں یاغوث المدد
صدقہ رسول پاک کا جھولی میں ڈال دو
ہم قادری فقیر ہیں یاغوث المدد
دل کی سنائے اختر ؔدل کی زبان میں
کہتے یہ بہتے نیر ہیں یاغوث المدد
حضرت سیدناسیدسالارمسعودغازی علیہ الرحمہ
سرکار سیدنا سیدسالار مسعودغازی علیہ الرحمہ افغانستان کے غزنی شہر کے رہنے والے تھے۔ آپ کے والد متقی ، پرہیز گار اورزہد و تقویٰ کے مالک تھے۔ آپ اپنے ماموں جان سلطان محمود غزنوی کے ہمراہ ہندستان تشریف لائے ۔ ایک خون ریز جنگ ہوئی جس میں ۱۷؍سال کی عمرمیں جام شہادت نوش فرماکر اسلام کے پرچم کوبلند فرمایا۔آپ کی بارگاہ دعائوں کی مقبولیت کی جگہ ہے۔ فیوض وبرکات کی آماجگاہ ہے آپ کاروضہ انور بہرائچ (یوپی) میں مرجع خلائق ہے آپ کی بارگاہ کی یہ کرامت ہے کہ ہرسال برص کامریض شفایاب ہوتاہے۔
اس عظیم بارگاہ میں حضور تاج الشریعہ اپنی عقیدت کااظہار یوں کرتے ہیں۔
حضرت مسعود غازی اختر برج ہدیٰ
بے کسوں کاہمنوا وہ سالکوں کامقتدا
آسمان نور کا ایسا درخشندہ قمر
جس کی تابش سے منور سارا عالم ہوگیا
تیرے نور فیض سے خیرات دنیا کو ملی
ہم کو بھی جد معظم کاملے صدقہ شہا
نائب شاہ شہیداں وہ محافظ نور کا
جس نے سینچا ہے لہو سے گلشن دین خدا
اللہ اللہ یہ نصیب اخترؔ شیریں سخن
فیض مولا سے ہے وہ سالار کا مدحت سرا
حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ
شہزادہ حضور اعلیٰ حضرت محی الدین ابوالبرکات آل رحمن سیدنامفتی اعظم مصطفی رضاخان قادری نوری علیہ الرحمہ (خلیفہ حضور نوری میاں مارہروی علیہ الرحمہ) کی عبقری شخصیت دنیائے علم وفن اورعشق وعرفاں میں محتاج تعارف نہیں آپ مادر زاد ولی تھے اور پیرومرشد نے بچپن ہی میں داخل سلسلہ فرماکر ان کی ولایت کی پیشن گوئی فرمادی تھی آپ ہی کی ذات بابرکت ہے کہ ہندستان کی وزیراعظم اندراگاندھی نے اپنے دور حکومت میں جب نسبندی لازم قراردیاتھا تو آپ نے اس کے خلاف علم بغاوت بلند فرمایا اورنسبندی کرانا قرآن وحدیث کی روشنی میں حرام قرار دیا۔ اور آپ کے اس فتویٰ سے پورے ہندستان میں ہلچل مچ گئی بالآخر حکومت وقت اس حکم کو منسوخ کرنے پر مجبور ہوگئی۔ آپ نے اپنی حیات طیبہ میں کئی لاکھ فتاویٰ جاری کئے لیکن سب محفوظ نہیں رہ پائے جتنے فتاویٰ محفوظ ہوسکے اسے جمع کرکے فتاویٰ مصطفویہ کے نام سے شائع کردیاگیا ہے آپ حضور تاج الشریعہ کے ناناجان ہیں آپ کے وصال کے بعد عرس چہلم کے موقع پر حضرت احسن العلماء مارہروی علیہ الرحمہ نے جانشین مفتی اعظم ہند کی حیثیت سے آپ کے سرپر دستار باندھی اور دعائوں سے نوازا۔
بارگاہ حضور مفتی اعظم ہند میں عرض کرتے ہیں!
مفتی اعظم دین خیرالوریٰ
جلوہ ٔ شان عرفان احمد رضا
دیداحمد رضا ہے تمہیں دیکھنا
ذات احمد رضا کاہو تم آئینہ
احمد نوری کے ہیں یہ مظہر تمام
یہ ہیں نوری میاں نوری ہر ہرادا
کیاکہوں حق کے ہو کیسے تم مقتدیٰ
مقتدایان حق کرتے ہیں اقتداء
اورہوں گے جنہیں تجھ سے لالچ ہوکچھ
تیرے اخترؔ کوکافی ہے تیری رضا
حضور مفسر اعظم ہند علیہ الرحمہ
نبیرۂ اعلیٰ حضرت شہزادہ حضور حجتہ الاسلام حضرت مفسراعظم ہندشاہ ابراہیم رضاخان قادری جیلانی میاں علیہ الرحمہ اپنے وقت کے جلیل القدر عالم دین اور فن تفسیر کے غواص تھے ، آپ نے سورہ قدر کی تفسیر جس مفسرانہ انداز میں کیاہے اہل علم نے داد و تحسین سے نوازا اورمفسر اعظم ہند کے خطاب سے پکار اٹھے۔ میدان خطابت میں ملکہ حاصل تھا سامعین کو اپنے خطاب سے مسحور کردیتے تھے علماء ان کی عالمانہ تقریر سے عش عش کرتے تھے ،مزاج میں متانت کھانے میںسادگی اورعلماء نوازی میں فیاض تھے ۔ دارالعلوم منظراسلام کے طلباء کے ساتھ ایک مشفق باپ کی طرح سلوک کرتے تھے اساتذہ کرام اور طلباء آپ کے حسن اخلاق اور پیارومحبت سے بے حد متاثر ہواکرتے تھے۔ اپنے شہزادوں کو بڑے نازونعم سے پالا اورعلم دین سے مالامال کرایا جب آپ کاوصال مبارک ہوا تواس وقت حضور تاج الشریعہ جامعہ ازہر (مصر )میں زیر تعلیم تھے۔ ۱۹۶۶ء میںاپنے سفر تعلیم سے واپس ہوئے تو والد گرامی کی بارگاہ میںخراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں۔
حامی دین ھدیٰ تھے شاہ جیلانی میاں
بالیقین مرد خداتھے شاہ جیلانی میاں
مثل گل ہنگام رخصت مسکراتے ہی رہے
پیکر صبر و رضا تھے شاہ جیلانی میاں
ہم کو بن دیکھے تمہیں اب کیسے چین آئے حضور
تم شکیب اقربا تھے شاہ جیلانی میاں
صبر و تسلیم ورضا کی اب ہمیں توفیق دے
تیرے بندے اے خدا تھے شاہ جیلانی میاں
شور کیسا ہے یہ برپا غور سے اختر سنو
پر تو احمد رضا تھے شاہ جیلانی میاں
حضو مجاہد ملت علیہ الرحمہ
حضور مجاہد ملت حضرت علامہ شاہ حبیب الرحمن قادری رضوی علیہ الرحمہ (رئیس اعظم اڑیسہ) خلیفۂ حضور حجۃ الاسلام مفتی حامد رضا خاں بریلوی دنیائے سنیت کے ایک باوقار عالم دین اور ایک مشاق مناظرتھے آپ مناظر بھی تھے اورمناظر گر بھی تھے۔ حضرت علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ نے انہیں کی تربیت میں رہ کر فن مناظرہ سیکھاآپ حضور صدرالشریعہ علیہ الرحمہ اورحضور صدرالافاضل مراد آبادی علیہ الرحمہ کے ارشد تلامذہ میں سے تھے۔ حضور مفتی اعظم ہند، حضرت قطب مدینہ علامہ ضیاء الدین مدنی، سے بھی اجازت و خلافت حاصل تھی۔ آپ جب حضور اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں حاضر ہوتے تو ننگے پائوں حاضر ہوتے اورآنکھوں سے آنسو جاری رہتے تھے اپنی زندگی میں انگریزوں کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔ مسلمانوں کے مسائل پر ہندستانی حکومت سے ٹکرائے اورمتعدد بار جیل جانا پڑا۔ چھ مرتبہ حج بیت اللہ اورزیارت مدینہ طیبہ سے مشرف ہوئے اور دومرتبہ دیار غوثیت مآب میں حاضر ہوکر چوکھٹ چومنے کاشرف حاصل ہوا ۔ ۱۹۸۱ء میں آپ کاوصال ہوا ۔ حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ نے اپنی علالت کے سبب عرس چہلم میں حضور تاج الشریعہ مد ظلہ العالی کو بھیجا آپ نے حاضر ہوکر مرکز اہلسنت کی نمائندگی فرمائی، اس عظیم مجاہد اورمسلک اعلیٰ حضرت کے ترجمان کی بارگاہ میںخراج عقیدت پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں
تم کیاگئے مجاہد ملت جہاں گیا
عالم کی موت کیا ہے عالم کی ہے فنا
میں رحلت مجاہد ملت کو کیا کہوں
یوں سمجھو گرگیا کوئی اسلام کا ستوں
وہ یادگار حجۃ الاسلام اب نہیں
اندوہگیں ہے آج شبستان علم دیں
خورشید سنیت نے آہ چادرجو اوڑھ لی
ظلمت میں قافلے کی وہ رفتا ر تھم گئی
پیک ندیٰ و غفراںان کی وفات تھی
اخترؔ خوشی منائو وصال حبیب کی
حضور احسن العلماء علیہ الرحمہ
حضور احسن العلماء حضرت سید شاہ مصطفی حیدر حسن قادری برکاتی علیہ الرحمہ کی عالمگیر شخصیت بلاشبہ اپنے دور حیات میںمرجع علماء ومشائخ تھی آپ نے اپنی پوری زندگی سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ترویج و اشاعت میں گزاردی۔ مخدوم زادے ہونے کے باوجود بریلی شریف کو اپنا مرکز عقیدت سمجھتے تھے اپنے دونوں شہزادے حضرت امین ملت مدظلہ العالی اورحضرت نجیب میاں قبلہ کو حضور مفتی اعظم ہند سے مرید کرایا۔ حضور مفتی اعظم ہند، حضور مفسر اعظم ہند سے غایت درجہ محبت فرمایاکرتے تھے۔ حضور تاج الشریعہ مد ظلہ العالیٰ پر بے انتہا شفقت فرمایا اوراجازت و خلافت سے بھی سرفراز فرمایا ، حضور تاج الشریعہ اپنے خانوادہ رضویہ کے بزرگوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے مرشد اجازت کی بارگاہ میں یوں گویاہوتے ہیں۔
اے نقیب اعلیٰ حضرت مصطفی حیدر حسن
اے بہار باغ زہراء میرے برکاتی چمن
استقامت کاوہ کوہ محکم و بالا حسن
اشرف و افضل نجیب عشرتِ زہراء حسن
سوگواروں کو شکیبائی کاساماں کم نہیں
اب امین قادریت بن گیا تیرا امین
علم کااس آستانے پر سدا پہرہ رہے
صورت خورشید تاباں میرا مارہرہ رہے
اخترؔ خستہ ہے بلبل گلشن برکات کا
دیر تک مہکے ہرایک گل گلشن برکات کا