حضورتاج الشریعہ کے کلام میں عشق و عرفان کی موجیں

مولانا غلام مصطفیٰ رضوی ، مالیگاؤں ، انڈیا


بامعنی اشعار روح کو تڑپا دیتے ہیں، دل کو مہکا دیتے ہیں، فکروں میں ارتعاش پیدا کر دیتے ہیں۔ پھر تھکی تھکی طبیعت تازہ ہو اٹھتی ہے۔ پژ مردہ دل کھل اٹھتے ہیں۔ اشعار کی دنیا کا عجیب عالم ہے، ہر ہر با معنی اور نکتہ آفریں شعر کشش و رعنائی رکھتا ہے۔ تو پھر جب شاعری کا محرک وہ جذبہ ہو جس کا تعلق ظاہر سے نہیں باطن سے ہو ، محبوب مجازی سے نہیں محبوب رب کائنات سے ہو ، جہاں محبتوں کے گگن سایا فگن ہوں توجو شعر ان کے جلوؤں سے منصہ شہود پر آئے گا وہ حقیقت کا عکاس اور مرض دل کا نباض ہو گا، آئینہ صدق و جمال ہو گا۔صنف سخن میں ’’نعت ‘‘کی قدر و منزلت آشکار اور حق شعار رہی ہے۔ اس میں محبت و عشق کا التزام ضروری ہے یوں عرفان حاصل ہوتا ہے۔ نعت کا قصر رفیع خدائی اکرام و انعام سے نہال و مالا مال ہے۔ اور اس میں ہرآن اہتمام شریعت کی پاس داری و رعایت درکار ہوتی ہے۔ یہاں ریا و تصنع کی بنیادیں نہیں چاہییں بلکہ صدق و صفا کا عنصر چاہیے۔ الفت و عقیدت کی واقعیت کے لیے صرف شعری حسن ہی درکار نہیں پاس شرع کا التزام بھی ہر لحظہ محل نظر رہے۔
فنی و شعری لوازمات کے ساتھ شریعت کی مکمل پاس داری علامہ مفتی محمد اختر رضا خاںاخترؔبریلوی کے کلام میں رچی بسی اور جلوہ ساماں دکھائی دیتی ہے۔ آپ کا اصل میدان تو خدمت شرع و حدیث اور دعوت و تبلیغ ہے لیکن قلب گداز کی تسکین اور موروثی دولت عشق و عرفان مصطفی ﷺ کی ترویج و اشاعت کی خاطر زبان اختر محبوب کی یاد میں جب وا ہوتی ہے توایسے اشعار بھی ادب کے دامن کو نہال و بحال کر جاتے ہیں اور تپش دل کو بڑھا جاتے ہیں کہ الفت و محبت الفاظ کی قبائے دل کش پہن لیتی ہے ؎

عطاہو بے خودی مجھ کو خودی میری ہوا کر دیں
مجھے یوں اپنی الفت میں مرے مولیٰ فنا کر دیں

پی کے جو مست ہو گیا بادۂ عشق مصطفی
اس کی خدائی ہو گئی اور وہ خدا کا ہو گیا


حضرت اخترؔ بریلوی اس محتاط ادبی اسکول کے تربیت یافتہ ہیں جہاں حزم و احتیاط کو فوقیت حاصل ہے ، جہاں ادب و احترام کا شعور دیا جاتاہے اور محبت بارگاہ نبوی کے آداب و احترام سکھائے جاتے ہیں۔ اس لیے کلام سحر طراز بے جا سے محفوظ رہتا ہے اور شعر شعر کا بنیادی مصدر قرآن مقدس ٹھہرتا ہے۔ اس جہت سے جب ہم عہد رواں کے محتاط و ممتاز شاعرحضرت اخترؔ بریلوی کے کلام کا جائزہ لیتے ہیں تو لفظ لفظ اور حرف حرف سے عشق و عرفان کی خوش بو پھوٹتی اور پھیلتی محسوس ہوتی ہے اور روح جھوم جھوم جاتی ہے، ایمان طراوت پاتے ہیں ، الفاظ صف در صف نظر آتے ہیں۔ ہر ہر لفظ یوں جیسے انگوٹھی میں نگینہ اور اس زمیں پہ مدینہ، قلب بے قرار طیبہ کی یاد میں مچل اٹھتا ہے اور ایسے شعر بھی سخن کو اوج عطا کرتے ہیں ؎

جاں توئی جاناں قرار جاں توئی
جان جاں جان مسیحا آپ ہیں

مہ و خورشید و انجم میں چمک اپنی نہیں کچھ بھی
اجالا ہے حقیقت میں انھیں کی پاک طلعت کا

اٹھاؤ بادہ کشو! ساغر شرابـ کہن
وہ دیکھو جھوم کے آئی گھٹا مدینے سے

محبت میں ادب و آداب کا لحاظ بڑا نازک امر ہے اس لیے کہ محبوب خدا کا ادب و احترام ایمان کی کسوٹی ہے یہ اگر مجروح ہوا تو دل کا عالم زیر و زبر ہو جائے گا، عقیدے کی فصل جل جائے گی، فکر کی جولانی ماند پڑ جائے گی۔ نعت کی نازک منزل میں بھی حضرت علامہ اخترؔ رضا بریلوی کے پاے ثبات میں لغزش نہیں آتی بلکہ وہ شریعت کے ادب و آداب کی پاس داری کو مقدم رکھتے ہیں، اسی لیے آپ کے اشعار سے جہاں سخن کو تابندگی ملتی ہے وہیں دل کے سب داغ دھل جاتے ہیں اور محبت و عشق کے دیے جل اٹھتے ہیں ۔ تو ایسے اشعار بھی تخیل کاجھومر بنتے ہیں ؎

چشم تر وہاں بہتی دل کا مدعا کہتی
آہ !با ادب رہتی مونھ میرا سل جاتا

دل کا ہر داغ چمکتا ہے قمر کی صورت
کتنی روشن ہے رخ شہ کے خیالات کی رات

یادرخ شہ دل کا قرار اور ایمان کا سنگھار ہے۔ اور اسی لیے جب ’’بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے‘‘۔ ایک در کریمی ہے جس سے دور ہو رہنے سے انسانیت کی رسوائی ہے، ذلت و ناکامی ہے، یہی وجہ ہے کہ آج غم دوراں نے مسلمانوں کو خون رلا دیا ہے، غم عشق نبی ﷺ فکر و نظر میں سما جائے تو دنیا کا کوئی غم حسرت و یاس میں نہ ڈال سکے گا، شعور کے نشیمن کو خاکستر نہ کر سکے گا ، عقیدے کی دنیا میں خزاں نہ لا سکے گا ؎

جب کبھی ہم نے غم جاناں کوبھلایا ہو گا
غم ہستی نے ہمیں خون رلایا ہو گا

جب محبت و عقیدت کی بہاریںشبستاں میں عود کر آئیں، تو محب کی ہر ہر ادا محبوب کی محبت کی غمازی کرنے لگتی ہے۔ آج بساط عالم میں تقویٰ و طہارت ، نجابت و استقامت ، الفت و وارفتگی، اسوۂ حسنہ پر عمل اور سنتوں کی ادائیگی میں علامہ اخترؔ رضا خاں ازہری کی ذات ایک مثال بن چکی ہے اور کردار کی چمک، افکار کی دمک، اخلاص کی مہک نے کلام کو مؤثر بنا دیا ہے۔ جو پڑھتا ہے وارفتہ ہو جاتا ہے، عشق نبوی کی چنگاری سلگ اٹھتی ہے اور تمنائے زیست کشاں کشاں کوچۂ محبوب میں منزل حیات ’’قضا‘‘ سے ہم کنار ہوا چاہتی ہے،وہ موت کی گھڑی میں محبوب کے جلوؤں کی تمنائی ہوتی ہے، کیسی ایمان افروز تمنا کہ جسے سخن کی معراج قرار دینا بجا کہیے ؎

زندگی ابـ سر زندگی آگئی
آخری وقت ہے اب مدینے چلیں

گل ہو جب اخترؔ خستہ کا چراغ ہستی
اس کی آنکھوں میں تیرا جلوۂ زیبائی ہو

ڈنمارک کے شاتمان رسول نے ایسی جسارت کر لی کہ جس کے تصور سے ہی روح کانپ کانپ اٹھتی ہے ۔ خیالی کارٹون بنا کر ان سے منسوب کیا یوں متاع عشق کو ناپنا چاہا، مسلمانوں کے جائے قرار کی توہین کر کے ایمان کو بے قرار کرنا چاہا، ایمانی درجۂ حرارت کو ناپنا چاہا تو ضروری ہوا کہ عہد کے تقاضوں کو ملحوظ رکھا جائے اس طرح سے کہ رحمت عالم ﷺ کے عشق و عرفان کا درس دیا جائے، دشمنان اسلام کے منصوبوں کو خاک میں ملادیا جائے، ویسے تو رب تعالیٰ نے جب خود اپنے محبوب کے ذکر کو بلند فرمادیا تو پھر ہر لمحہ ذکر محبوب کیوں نہ کیا جائے، اب جب کہ مخالفت کی آندھیاں چلائی جا رہی ہیں تو ضروری ہوا کہ نعت کے نغمات الاپے جائیں، ان کے تذکار کی خوش بو سے ہر ذرۂ دہر کو مہکا دیا جائے ۔ کلام اخترؔ جذبات کو سہارا دیتے ہیں، اشعار سے روح کیف آشنا ہو جاتی ہے، دردِ محبت دکھوں کا مداوا بن جاتا ہے ؎

درد الفت میں دے مزا ایسا
دل نہ پائے کبھی قرار سلام

راقم نے قلم برداشتہ لکھے گئے اس مختصر سے مضمون میں علامہ مفتی محمد اخترؔ رضا ازہری کے نعتیہ اشعار میں نبوی عشق و عرفان کی موجوں کی ایک سرسری جھلک دکھا دی ورنہ اس موضوع پر حقِ تحریر کوئی ادب شناس ہی ادا کر سکتا ہے۔ آ پ کے نعتیہ دیوان ’’سفینۂ بخشش‘‘ (مطبوعہ ممبئی و بریلی و دہلی)میں شرعی التزام و اہتمام کے ساتھ شعور محبت رسول ﷺ کو پروان چڑھایا گیا ہے عہد رواں کی باد مسموم میں اسی عشق و محبت کے عرفان کی ضرورت ہے’’جو قلب کو تڑپا دے اور روح کو گرما دے۔‘‘اور کشت ایماں کو سر سبز و شاداب کر دے۔

 

Menu