تاج الشریعہ کے کلام میں مدحت رسول کی جولانیت

ماسٹر فہیم انور حبییبی ، ہوڑہ ، انڈیا


’’سفینۂ بخشش‘‘یہ نعتیہ مجموعہ کلام ہے۔ حضور تاج الشریعہ جانشین حضور مفتی اعظم ہند حضرت علامہ مفتی محمداختررضاخاں قادری ازہری اخترؔبریلوی مدظلہ العالی کاجسے رضااکیڈمی نے بڑے اہتمام و انصرام کے ساتھ شائع کیا ہے۔ اس سے قبل کہ میں ’’سفینہ ٔ بخشش‘‘میں شامل حضور ازہری میاں کے مرصع نعتیہ کلام ، اس کے رنگ و آہنگ ، مزاج و منہاج، لسانی پہلو اورشاعرانہ محاسن پراپنی عرضداشت پیش کروں ، ضروری سمجھتاہوں کہ ’’سفینۂ بخشش‘‘ کے مرتب رضااکیڈمی کے معتمد جناب محمدسہیل رضوی روکاڑیا نے گفتنی کے عنوان سے اپنی جومختصر مگر جامع تحریر اس وقیع مجموعے میں شامل کی ہے ان کی چند سطریں نذر قارئین کروں جو حضرت تاج الشریعہ کے فن و شخصیت کابھرپوراحاطہ کرتی ہیں۔ ایسامحسوس ہوتاہے گویا سہیل رضوی روکاڑیا صاحب نے کوزے میں سمندر کوسمودیا ہو’’حضورتاج الشریعہ کی شخصیت کابغور مطالعہ کرنے سے یہ امر واضح ہوتا ہے کہ آپ کو دین و مذہب سے والہانہ وابستگی کے ساتھ ساتھ موزونی طبع ، خوش کلامی ، شعر گوئی اورشاعرانہ ذوق بھی ورثے میں ملاہے۔ آپ بیک وقت مفکر و مدبر اورمحدث وفقیہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عظیم عاشق رسول اورعمدہ نعت گوشاعر بھی ہیں۔آپ کونئے لب و لہجہ میںنعتیہ اشعار کہنے میں زبردست ملکہ حاصل ہے ۔ آپ کی شاعری معنویت و پیکر تراشی ، سرشاری و شیفتگی کانادر نمونہ ہے اور آپ کے قلم سے نکلنے والے اشعار فصاحت و بلاغت ، حلاوت و ملاحت ، جذب وکیف اورسوز و گداز میںڈوبے ہوئے ہوتے ہیں‘‘۔متانت کے ساتھ حضورازہری میاں کے نعتیہ مجموعہ کلام ’ ’ سفینہ ٔ بخشش‘‘ کامطالعہ کرنے والے قارئین جناب سہیل رضوی کی محولۂ بالاباتوں سے گریز نہ کرتے ہوئے ان پر مہر تصدیق ثبت کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔
حضور تاج الشریعہ کے زیر نظر مجموعے کانام ’’سفینۂ بخشش‘‘تجویز کیاگیاہے۔ جومعنی خیز بھی ہے معنیٰ آفریں بھی۔ یہ نام زبان پر آتے ہی حضور تاج الشریعہ کے جدامجد اعلیٰ حضرت عظیم البرکت فاضل بریلوی امام احمدرضاخاں رحمتہ اللہ علیہ والرضوان کے مجموعہ کلام نعتیہ ادب کے ’’گل خنداں‘‘ ’’حدائق بخشش‘‘ کے چند اشعار نقل کرنے کی سعادت حاصل کروں گا ۔ جنہیں پڑھ کر اہل ادب اوراہل ذوق یہ بات ضرور محسوس کریں گے کہ حضور تاج الشریعہ کے کلام میں ایک حد تک زبان و بیان کے وہی چٹخارے اوروہی لسانی جھلکیاں موجود ہیں جواعلیٰ حضرت عظیم البرکت کے کلام بلاغت نظام کاخاصہ ہیں۔

ذرے جھڑ کر ترے پیزاروں کے
تاج سر بنتے ہیں سرداروں کے

 واللہ جو مل جائے مرے گل کاپسینہ
مانگے نہ کبھی عطر نہ پھر چاہے دلہن پھول

واہ کیا جودوکرم ہے شہہ بطحا تیرا
نہیں سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا

لم یات نظیرک فی نظرمثل تو نہ شد پیداجانا
جگ راج کوتاج ترے سرسو ہے تجھ کو شہ دوسراجانا

انافی عطش وسخا ک اتم اے گیسوئے پاک اے ابرکرم
برسن ہارے رم جھم رم جھم دوبوند ادھر بھی گراجانا

بس خامہ ٔ خام نوائے رضا نہ یہ طرز مری نہ یہ رنگ مرا
ارشاد ِاحباناطق تھانا چاراس راہ پڑا جانا

اٹھادو پردہ دکھادو چہرہ کہ نورباری حجاب میں ہے
زمانہ تاریک ہورہاہے کہ مہر کب سے نقاب میں ہے

کھلے ہیں بدکاریوں کے دفتر ، نہ کوئی حامی نہ کوئی یاور
بچالوآکر مرے پیمبر کہ سخت مشکل جواب میں ہے

فرش والے تیری شوکت کاعلو کیاجانیں
خسرو ا عرش پر اڑتا ہے پھریرا ترا

ملکِ سخن کی شاہی تم کورضا مسلم
جس سمت آگئے ہوسکے بٹھادئیے ہیں

میں تو مالک ہی کہوں گاکہ ہومالک کے حبیب
یعنی محبوب و محب میں نہیں میراتیرا

کس کو دیکھا یہ موسیٰ سے پوچھے کوئی
آنکھ والوں کی ہمت پہ لاکھوںسلام

جس کے سجدے کو محراب کعبہ جھکی
ان بھؤں کی لطافت پہ لاکھوں سلام

کروں مدح اہل دول رضاپڑے اس بلامیں مری بلا
میں گداہوں اپنے کریم کامرادین پارۂ ناں نہیں

حضور تاج الشریعہ سے اس سراپا تقصیر کے ایک تقدس مآب رشتے کاذکر یہاں بے محل نہیں ہوگا کہ حضور مجاہد ملت کے نواسے اورجانشین سجادہ نشین دھام نگر شریف اڑیسہ مولاناسید غلام محمد حبیبی قبلہ رضوی کو حضور تاج الشریعہ نے خلافت واجازت کی سند فاخرہ سے نوازا ہے اوریہ گناہ گار مع اپنی والدہ ماجدہ و اہلیہ محترمہ کے حبیب ملت مولانا سید غلام محمد حبیبی کے دست حق پرست پربیعت ہے۔ ’’سفینۂ بخشش‘‘ میںشامل نعتوں ،منقبتوں ، سلاموں اورسہروں کی قرآت سے جہاں ہمیںجذب وکیف وسرور مستی حاصل ہوتی ہے وہیںشگفتگی ترو تازگی، فرحت و انبساط سرشاری اورتسہیل کااحساس بھی ہوتاہے۔ تسہیل پسندی حضورتاج الشریعہ کی نعتوں کاخاص وصف ہے۔ ایسامحسوس ہوتا ہے کہ گویاانہوں نے اس بات کاخاص خیال رکھا ہے کہ ثقیل اورادق الفاظ کے استعمال سے نعت جیسی سبک سار صنف کی ہلکی پھلکی فضا کو بے جاعلمی دھونس سے بوجھل نہ کیا جائے۔ جب کہ ان کی موزونی طبع عربی زبان میں نعت ومناقب کی تخلیق پر بھی قادر ہے۔ جب تحریر میںتقریر اورتقریرمیں تحریر کاانداز پیداہوجائے تواسے علم کی معراج سمجھاجاتاہے ۔حضور تاج الشریعہ کانعتیہ کلام بھی عام بول چال کے انداز میں ہے۔ کہیں کہیں توشعر نے نثر کاانداز اختیار کرلیا ہے۔ مصرعے نثر سے قریب تر معلوم ہوتے ہیں لیکن ان میں شعریت بہرحال موجود رہتی ہے۔ یہ شاعرکا کمال فن ہے کہ شاعری کو نثر سے قریب لے جائے مگر شعریت کو مجروح نہ ہونے دے اورحضور تاج الشریعہ نے ’’سفینۂ بخشش‘‘ میں کمال ہنرمندی سے یہ مشکل ترین کام کردکھایا ہے۔
خود کلامی کاخوبصورت انداز حضور تاج الشریعہ کی نعتیہ شاعری کادوسرا وصف ہے۔ ’’سفینۂ بخشش‘‘ کے بیشتر صفحات کے دامن خود کلامی کے اندازمیں کہے گئے اشعار حسین و جمیل موتیوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ خود کلامی ایک ایسا موثرادبی آلہ کار ہے جس کی مدد سے شعراء کرام کی اکثریت ، آپ بیتی کو جگ بیتی بنانے پر قادر نظر آتی ہے۔ عام لوگ کچھ باتوںاوروارداتوں کومحسوس تو کرتے ہیں لیکن انہیں الفاظ کاجامہ پہنا کرنثری اقتباسات یامنظوم شعریات کے قالب میںڈھالنے کے اہل نہیں ہوتے۔یہیں ایک فنکار اورعام انسان کے درمیان خط کھینچاجا سکتاہے۔ آئیے آپ کو حضور تاج الشریعہ کے نعتیہ اشعار میںخودکلامی کے حسین و جمیل اسلوب بیان کی جھلکیاں دکھاتاچلوں:

مجھے کیافکر ہواختر ، مرے یاور ہیں وہ یاور
بلاؤں کوجو میری خود گرفتار بلاکردیں

اخترخستہ کیوں اتنا بے چین ہے تیرا آقا شہنشاہ کونین ہے
لو لگاتو سہی شاہ لولاک سے غم مسرت کے سانچے میں ڈھل جائے گا

جوپیاکوبھائے اخترؔ وہ سہانا راگ ہے
جس سے ناخوش ہوں پیا وہ راگنی اچھی نہیں

خلد کے طالب سے کہدوں بے گماں
طالب طیبہ کی طالب ہے جناں

ہزاروںدرد سہتاہوں اسی امید میںاخترؔ
کہ ہرگزرائیگاں فریاد روحانی نہیں جاتی

دلِ بیتاب سے اخترؔ یہ کہہ دو
سنبھل جائے مدینہ اب قریں ہے

ان کی رفعت واہ واہ کیا بات اخترؔ دیکھ لو
عرش اعظم پر بھی پہنچیں ان کی برتر ایڑیاں

مدینے سے مری بلا جائے اخترؔ
مری زندگی وقف در ہورہی ہے

میں توہوں بلبل بستان مدینہ اخترؔ
حوصلے مجھ کو نہیں قافیہ آرائی کے

قدم بن جائے میراسرمدینہ آنے والا ہے
بچھوں راہ میں نظر بن کر مدینہ آنے والا ہے

غبار راہ انور کس قدر پُر نور ہے اخترؔ
تنی ہے نور کی چادر مدینہ آنے والاہے

سنیت ، قادریت اورمسلک اعلیٰ حضرت سے خار کھائے ہوئے وہابی خارجی اورنجدی سنیوں کے عشق رسول کے تعلق سے یاوہ گوئی کرتے ہوئے چند الزامات عائد کرتے ہیں۔ ان الزامات کی تردید ہر سنی صحیح العقیدہ شاعر اپنے اشعار میں کرنا اپنا فرض عین سمجھتاہے۔ ’’سفینہ ٔ بخشش‘‘ میں بھی ہمیں جابجا ایسے اشعار ملتے ہیں جن میں تاج الشریعہ نے مدلل انداز میں وہابیت اورنجدیت کو مستردکیاہے۔’’سفینہ ٔ بخشش‘‘ کے ان چیدہ اشعار کی قرآت یہاں بار سماعت نہیں بلکہ قند سماعت معلوم ہوگی۔

وہی جورحمتہ العالمین ہیں جان عالم ہیں
بڑابھائی کہے ان کوکوئی اندھابصیرت کا

یہ کس کے در سے پھرا ہے تو نجدیٔ بے دیں
برا ہو تیراترے سر پہ گر ہی جائے فلک

ذکر سرکار بھی کیاآگ ہے جس سے سنی
بیٹھے بیٹھے دل نجدی کو جلاجاتے ہیں

جن کو شیرینیٔ میلاد سے گھن آتی ہے
آنکھ کے اندھے انہیں کوا کھلاجاتے ہیں

جوجنون خلد میں کوؤں کو دے بیٹھے دھرم
ایسے اندھے شیخ جی کی پیروی اچھی نہیں

عقل چوپایوں کودے بیٹھے حکیم تھانوی
میں نہ کہتاتھا کہ صحبت دیوکی اچھی نہیں

ابتغوا فرماکے گویارب نے یہ فرمادیا
بے وسیلہ نجدیو! ہرگز خداملتانہیں

میں وصف ماہ طیبہ کررہاہوں
بلاسے گرکوئی چین بر جبیں ہے

نعتیہ شاعری کایہ عام چلن ہے کہ شہر مدینہ اس کی فضا ، آب وہوا، گنبد خضریٰ اورسنہری جالیوں سے شعراء اپنی عقیدت و محبت کااظہار کرتے ہیں۔ایسا ہونابھی چاہئے کیوں کہ شہر اوراس سے متعلق ہر چیزمقدس و متبرک ہے۔ یہ شہر عالم میںانتخاب ہے۔ اس شہر کے موسم اورخاک وباد پر بھی محققین تحقیق کررہے ہیں۔ ’’سفینہ ٔ بخشش‘‘میں بھی ایسے اشعار کی خاصی تعداد ہے۔جس میں اس شہر اوراس سے متعلق چیزوں سے عقیدت ومحبت کااظہار کرتے ہوئے انہیں مقدس و متبرک قراردیاگیا ہے۔ مدینہ کوجنت پر ترجیح دی گئی ہے۔ اعلیٰ حضرت نے کہاہے ۔

حاجیو! آئو شہنشاہ کاروضہ دیکھو
کعبہ تو دیکھ چکے کعبے کاکعبہ دیکھو

آئیے دیکھیں علامہ اختررضاخاں قادری ازہری اس ضمن میں کیافرماتے ہیں۔

مدینہ چھوڑ کراختر بھلا کیوں جائے جنت کو
یہ جنت کیا ہرایک نعمت مدینے کی بدولت ہے

بھلا دشت مدینہ سے چمن کوکوئی نسبت ہے
مدینے کی فضا رشک بہار باغ جنت ہے

مدینہ ایسا گلشن ہے جو ہر گلشن کی زینت ہے
بہار باغ جنت بھی مدینے کی بدولت ہے

مدینہ گر سلامت ہے تو پھر سب کچھ سلامت ہے
خدارکھے مدینے کو اسی کادم غنیمت ہے

مدینہ چھوڑ کر سیر جناں کی کیاضرورت ہے
یہ جنت سے بھی بہتر ہے یہ جیتے جی کی جنت ہے

ہمیں کیاحق تعالیٰ کومدینے سے محبت ہے
مدینے سے محبت ان سے الفت کی علامت ہے

الٰہی! وہ مدینہ کیسی بستی ہے دکھادینا
جہاں رحمت برستی ہے جہاں رحمت ہی رحمت ہے

مدینہ چھوڑ کر جنت کی خوشبو مل نہیںسکتی
مدینے سے محبت ہے تو جنت کی ضمانت ہے

غضب ہی کردیا اخترؔ مدینے سے چلے آئے
یہ وہ جنت ہے جس کی عرش والوں کو بھی حسرت ہے

حضرت حسان بن ثابت سے لے کراعلیٰ حضرت عظیم البرکت تک غزل کے رنگ وآہنگ اورلب و لہجے میں جوشاعری کی گئی ہے اسے اعلیٰ نعتیہ شاعری قراردیاگیا ہے لیکن اس کے لئے فن پر غیر معمولی گرفت اور زبان و بیان پر دسترس ومہارت کی ضرورت پیش آتی ہے۔ یہ وہ پل صراط ہے جہاں سے ثابت قدم گزرنا ہرکس وناکس کے بس کی بات نہیں ہے۔ ابرار رحمانی نے یونہی نہیں کہاہے۔

میں تو کیاکوئی قلم کار نہیں لکھ سکتا
مدحت سید ابرار نہیں لکھ سکتا

نعت لکھواتا ہے اللہ تو لکھ لیتاہوں
میں تو اک لفظ بھی سرکارنہیں لکھ سکتا

اورراقم الحروف نے بھی کہاہے:

جب نہیں حسان کی غزلوں کاپرتو بھی نصیب
خامہ ٔ عاجز لکھے کیسے قصیدہ آپـ کا

تاہم علامہ اختررضاخاںقادری ازہری نے اس قبیل کے اشعار کے جو گل کھلائے ہیں وہ اہل قلم ، اہل نظر ، اہل رائے اوراہل ایمان کے دامان دل اپنی جانب کھینچتے نظرآتے ہیں۔ ان میں بلاکی جاذبیت و کشش محسوس کی جاسکتی ہے۔ نعتیہ کلام کے عشاق اوراہل دل ان اشعار پر داد دئیے بغیر نہیں رہ سکتے:

منور میری آنکھوں کو مرے شمس الضحیٰ کردیں
غموں کی دھوپ میں وہ سایہ زلف دوتاکردیں

دامن دل جو سوئے یارکھینچا جاتاہے
ہونہ ہو اس نے مجھے آج بلایا ہوگا

دل کاہرداغ چمکتاہے قمر کی صورت
کتنی روشن ہے رخ شہہ کے خیالات کی رات

کچھ کریں اپنے یار کی باتیں
کچھ دل داغدار کی باتیں

دشت طیبہ میں چلوں چل کے گروں گرکے چلوں
ناتوانی مری صدرشکـ توانائی ہو

چلادور ساغر مئے ناب چھلکی
رہے تشنہ کیوں بادہ خوارِ مدینہ

مدینے کے کانٹے بھی صد ر شک گل ہیں
عجب رنگ پر ہے بہارمدینہ

 

Menu