تاج الشریعہ اور ’’سفینۂ بخشش‘‘

ڈاکٹر دبیر احمد ، کولکاتا ، انڈ یا


ہندستان ایک عجیب وغریب ملک ہے۔ یہ ملک صوفیوں کامرکز رہا ہے۔ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری، خواجہ بختیار کاکی، نظام الدین اولیاء، سراج الدین اخی، علاء الحق ، مخدوم بہاری، اشرف جہانگیر سمنانی، رسول نما بنارسی اوردیگرصوفیا کرام نے ہندستان کی مذہبی تقدیر لکھی تو دوسری طرف یہاں کے گائوں گائوں ، درباروں سے بے نیاز ، درس گاہوں اورخانقاہوں میں گوشہ نشیں علماء اورصوفیا اورمشائخ علم ومعرفت کی شمعیں روشن کئے رہے۔ ان ہی بزرگوں میںعلامہ احمد رضا خاں رحمتہ اللہ علیہ کی ذات جواپنی ذات میں انجمن تھی سے اہل دل حضرات فیض حاصل کرتے رہے۔ چراغ سے چراغ جلتاہے ۔علامہ اختررضا خاں صاحب ان ہی کے خاندان کے ایک روشن ضمیر چراغ ہیں جنہوں نے تصوف ومعرفت کے چراغ کو روشن رکھاہے جن کاذکر اس وقت مقصود ہے۔
علامہ اختر رضا خاں صاحب کو جن لوگوں نے قریب سے دیکھا ہے وہ اس حقیقت کااعتراف کریں گے کہ آپ نے عام لوگوں کی نسبت بالکل الگ تھلگ زندگی گزاری ہے۔ دراصل یہ ابتدائی تربیت کانتیجہ تھا وہ ہمیشہ اپنے وابستگان کی رہنمائی میں مشغول رہیں ، علمی شوق انہیں مصر میں جامعہ ازہر لے گیا جہاں آپ نے متعددعلماء سے کسب فیض کیا۔ تصوف کے ہر پہلو پر آپ کی نظر رہی ۔
نعت دراصل رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت کو کہتے ہیں اورابن سیدہ کے مطابق ہرعمدہ اورجید چیز کو جس کے اظہار میں مبالغہ سے کام لیاجائے نعت کہتے ہیں اورابن الاعرابی کاکہنا ہے کہ نعت کا لفظ اس انسان کے لئے استعمال ہوگا جو نہایت خوبرو اورحسن و جمال سے متصف ہو۔
مذکورہ دونوں اقوال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات پر دال ہیں۔
حمد ومناجات اورنعت مقدس اصناف شاعری ہیں جہاں تک نعت کاتعلق ہے اس میں جس طرح کے موضوعات ، اسالیب اورفنی قدروقیمت ملتے ہیں اس سے اس صنف کی اہمیت کااندازہ لگایاجاسکتاہے۔ مولانا احمد رضاخان کاسلام آج بھی ہماری فضائوں میں خوشبو بن کر لوگوں کے دلوں کومعطر کررہا ہے۔
نعت ایک ایسی صنف شاعری ہے جس میں آپ کی ذات ، حیات اورمعجزات کاذکر ملتاہے ۔ اکثر نعت خواں حضرات نے آپ کی امانت ، صداقت، دیانت، شجاعت، سخاوت، شرافت، اخوت، محبت ، بخشش، عنایت ، عطا اور علم جیسے اعلیٰ اوصاف اوراخلاق حمیدہ کا بڑی خوبصورتی سے ذکرکیاہے۔ حضور اختررضا خاں کی نعت کامطالعہ کیجئے تو آنکھیں اپنا سفر بند کرلیتی ہیں۔ اشعار ملاحظہ فرمائیں۔

جہاں بانی عطا کردیں بھری جنت ہبہ کردیں
نبی مختار کل ہیں جس کو جوچاہیں عطا کردیں

جہاں میں ان کی چلتی ہے وہ دم میں کیاسے کیاکردیں
زمین کو آسماں کردیں ثریا کو ثرا کردیں

جہاں تک احسان نبوی کاتعلق ہے تو اس سلسلے میں دین اسلام اورقرآن کریم کے ساتھ ساتھ آپ کے منشور اوراسوۂ شریعت جیسے عطیات کے ساتھ آپ کی رحمت و شفاعت اورمحبت و شفقت کاذکربھی خوب ملتاہے۔ ان تمام موضوعات کابیان تمام جزئیات کے ساتھ حضور اختر رضاخان کی نعت میں ملتاہے ۔ اشعار ملاحظہ فرمائیں۔

آپ جیسا کوئی ہوسکتانہیں
اپنی ہرخوبی میں تنہاآپ ہیں

لامکاں تک جس کی پھیلی روشنی
وہ چراغ عالم آرا آپ ہیں

آپ کو رب نے کیا اپنا حبیب
ساری خلقت کاخلاصہ آپ ہیں

بیشتر نعت خواں حضرات نے آپ کی عادات، معمولات اورمتعلقات کے پہلوئوں کو انتہائی احترام اورشیفتگی سے پیش کیا ہے۔ یہ خوبی بھی حضرت اختر رضاخاں صاحب کی نعت میں موجود ہے۔

تم ہو چراغ زندگی تم ہو جہاں کی روشنی
مہر ومہ نجوم میں جلوہ کناں تم ہی تو ہو

گردش چشم ناز میں صدقے ترے یہ کہہ تو دے
لے چلو اس کوخلد میں یہ تو ہمارا ہوگیا

نعت ایسی صنف کانام ہے جس کادائرہ کافی وسیع ہے ۔ اس میں ایفائے عہد ، عیادت و تعزیت کے طریق، انسانی ہمدردی اورغم خواری ، مہمان نوازی ، نیز دشمنوں سے حسن سلوک ، حسن معاملات ، وسعت قلبی وعالی ظرفی ، ایثار واحسان اور اسمائے صفات کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو اورمجلس کے آداب وغیرہ کو نعت کے اشعار میں پیش کرکے خراج عقیدت کابہترین ذریعہ سمجھاجاتا ہے۔

اس طرف بھی اک نظر مہر درخشانِ جمال
ہم بھی رکھتے ہیں بہت مدت سے ارمان جمال

اک اشارے سے کیاشق ماہ تاباں آپ نے
مرحبا صد مرحبا صلی علیٰ شانِ جمال

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ محبت ، نعلین ، لعاب پسینہ اور نقش پا کو بھی نعت شریف کاموضوع بنایاجاتاہے نیز آپ کی ذات گرامی سے نسبت رکھنے والی ہر شئے سے دلی تعلق رکھنا ، مدینے کی گلیوں ، کوچہ وبازار سے عقیدت و محبت کا اظہار ، روضہ اقدس کی خوبصورت سبزجالیوں ، گنبد خضرا کونظر بھر کر دیکھنا اورروضہ ٔ رسول اورمسجد نبوی کاذکر کرنا باعث برکت سمجھنا ہم مسلمانوں کے لئے نیک فال ہے۔ آپ حضرت اختر رضاخاں کی نعت کو بغور پڑھئے تو کچھ دیر کے لئے آپ مدینے کی خوبصورت گلیوں اورکوچہ بازار کے ساتھ سبزجالیوں اورروضہ ٔ رسول کے پاس خود کو پائیں گے۔ اشعار پڑھئے اورمسجد نبوی کے قریب خود کوپائیے۔

الٰہی! وہ مدینہ کیسی بستی ہے دکھا دینا
جہاں رحمت برستی ہے جہاں رحمت ہی رحمت ہے

مدینہ چھوڑ کر جنت کی خوشبو مل نہیں سکتی
مدینے سے محبت ہے تو جنت کی ضمانت ہے

مدینے میں ہوں اور پچھلا پہر ہے
شب زندگی کی سحر ہو رہی ہے

باد صبا اور باد نسیم کے ذریعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک سلام اورفریاد رسانی، مسجد نبوی میںحاضری ، روضۂ رسول پر سلام و درود کانذرانہ وغیرہ نعت کے اہم موضوعات رہے ہیں۔ اشک ندامت، نبی کریم سے شفاعت طلبی، غموں کے مداوا کے لئے فریاد، خواب میں دیدار کی آرزو، مدینہ میں دفن ہونے کی تمناجیسے مضامین کو بھی نعت گو حضرات موضوع بناتے رہے ہیں غرض کہ کائنات بھر کے مسائل اس صنف میں پیش کئے جاتے ہیں دیکھئے کتنی خوبصورتی سے ازہری صاحب نے اپنی نعت کاموضوع بنایا ہے جس کے پڑھنے سے دل پر ایک وجد کی سی کیفیت ہوتی ہے اوردل مچلنے لگتاہے۔

جی گئے وہ مدینے میں جو مرگئے
آؤ ہم بھی وہاں مرکے جینے چلیں

میرادم نکل جاتاان کے آستانے پر
ان کے آستانے کی خاک میں میں مل جاتا

میرے دل سے دھل جاتا داغ فرقت طیبہ
طیبہ میں فنا ہوکر طیبہ میں ہی مل جاتا

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے اظہار میں نعت گو شعراء اگرعقل و خرد سے کام نہ لیں تو ہر قدم پر لغزش کاامکان رہتاہے۔ نبی کی شان،ادب واحترام اورشان اقدس میںذرا سی بے احتیاطی اور چھوٹی سی لغزش ایمان واعمال کو غارت کردیتی ہے۔ لہٰذا ان چیزوں سے اجتناب ضروری ہے ۔ حضرت اختررضاصاحب ان خوبیوںکو خوب سمجھتے ہیں۔ سفینۂ بخشش کی نعتوں کو پڑھئے تو یہ حقیقت آشکارا ہوتی ہے کہ موصوف نے نعت لکھتے وقت مذکورہ باتوں کو ملحوظ رکھاہے۔

جھانک لوآنکھوں میں ان کی حسرت طیبہ لئے
زائر طیبہ ضیائے طیبہ لائے خیر سے

تیرے میخانے میں جو کھینچی تھی وہ مے کیاہوئی
بات کیاہے آج پینے کامزہ ملتانہیں

کامیاب نعت گوئی کے لئے عشق رسول ضروری ہے کیوں کہ دل میںاگرسوزو گداز ، تڑپ اور نشتریت وجاذبیت نہ ہوتو نعت مکمل نہیں ہوسکتی یایہ کہاجائے کہ نعت گوشعرا کے دل میںسوزو گداز اورعشق رسول میںسرشاری نہ ہوتو وہ نعت جیسی صنف سے انصاف نہیں کرسکتا کیوں کہ شاعر میں جب عشق اورالفاظ کی دھڑکنیں ہم آہنگ ہوجاتی ہیںتو نعت میں سوزو گداز کی کیفیت پیداہوتی ہے ازہری صاحب نے براہ راست اورفلسفیانہ رنگ میں نعتیہ شاعری کی ہے اورادب نبوی کے پیش نظر رسالت مآب سے خطاب کیاہے دراصل بارگاہ رسالت میںبار پانے کے لئے ’’شمیم زلف نبی‘‘اک نظر مہر درخشانِ جمال‘‘ اے نسیم کوئے جاناں‘‘اورفرقت طیبہ کی وحشتِ دل سے جائے خیر سے ‘‘ کے سہارے لیتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔ موصوف کے نعتیہ افکار سے بہت کم استفادہ کیاگیا ہے ۔ وہ دن دور نہیں جب مستقبل کے شعراازہری صاحب کے خزانہ عامرہ سے بہرہ مند ہوں گے۔

 

Menu