حضورتاج الشریعہ بحیثیت اسیرِ مدینہ
مولانا ارشاد عالم نعمانی ، نئی دہلی ، انڈیا
استقامت و عزیمت اور جرأت حق گوئی و اعلاے کلمۃ الحق کا عنوان تاریخ عالم میں ہمیشہ زرّیں اور جلی حرفوں میں لکھا گیاہے۔ اس کا مظاہرہ ان مردان ِ حق کا شیوہ وطرۂ امتیاز رہا ہے جو قوم و ملت کے سچے وفادار اور دین و دیانت کے صحیح معنی میں امین و علم بردار رہے ہیں۔ یہ ان عظیم اور تاریخ ساز شخصیتوں کا حصہ رہا ہے جو ظلم و استبداد اور کفر و باطل کے اندھیروں میں ایمان و یقین کا چراغ روشن کرنے کے لیے پیدا ہوتے رہے ہیں۔
تاریخ میں ایسی ہزارہا شخصیات اسلام کی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں جنھوں نے حق کی حمایت وصیانت اور جرأت حق گوئی و اعلاے کلمۃ الحق کی راہ میں کبھی بھی کسی مادّی مصلحت کو آڑے نہیں آنے دیا اور باطل قوت کے سامنے احقاق حق و ابطال باطل کے فریضہ حسنہ کی ادائیگی میں بڑی سے بڑی ظالم و جابر حکومت کی بھی پروا نہیں کی اور برملا حق و صداقت کا اعلان و اظہار کرکے اپنی ہستی کو دنیاے انسانیت کے لیے نمونۂ عمل اور زندہ جاوید بناکرکے پیش کیا۔
حضرت سیدنا امام احمد بن حنبل کے تاریخی واقعہ سے آپ واقف ہیں۔ عباسی خلفا (امرا) کا دور حکومت ہے۔ فتنۂ خلق قرآن کے مسئلہ میں امام احمد بن حنبل نے تین عباسی خلفا کے حکومتی دبائو اور جبر و تشدد کے سامنے بھی گھٹنے نہیں ٹیکے اور اظہار حق فرماکر اپنی شخصیت کو تاریخ اسلام میں ہمیشہ کے لیے زندۂ جاوید کردیا۔
حضرت مجدد الف ثانی علیہ الرحمۃ مغلیہ عہد کے ایک نامور عالم و مبلغ اسلام ہیںجنھوں نے اکبر جیسے باجبروت سلطان کے دور حکومت میں فتنۂ دین اکبری کے سامنے حق کا علم بردار بن کر اسے زیر زمین دفن کرکے ہی دم لیا۔
حضرت مجاہد ملت مولانا شاہ محمد حبیب الرحمن قادری علیہ الرحمۃ کی مجاہد انہ شخصیت سے بھی آپ واقف ہیںجنھوں نے سعودی حکومت کے ظلم و جبر کے سامنے حقانیت و صداقت کو اجاگر کرکے کارِ دعوت و عزیمت کی روشن مثال قائم فرمائی۔
اس طرح سواد اعظم اہل سنت و جماعت کے اکابر علما و مشائخ کی درخشندہ حیات میں ایسی لاتعداد مثالیں موجود ہیں جو تاریخ دعوت و عزیمت اور استقامت کا زرّیں باب ہے جس کے استقصا کے لیے دفتر درکار ہے۔ چوں کہ ہمارا موضوع سخن حضور تاج الشریعہ حضرت العلام مفتی محمد اختر رضا قادری رضوی ازہری مدظلہ العالی کی استقامت اور حکومت وقت کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرنے کا ذکر جمیل مقصود ہے لہذا اس تاریخی روداد سے صرف نظر کرتے ہوئے ہم یہاں سعودی مظالم کے سامنے حضور ازہری میاں دام ظلہ کی جرأت حق گوئی و بے باکی اور استقامت و عزیمت کا ذکر کرتے ہیں۔
تاج الشریعہ حضور ازہری میاں حق و صداقت کے نشانِ امتیاز خانوادئہ رضویہ کی دور حاضر میں ایک مثالی شخصیت کا نام ہے۔ آپ کی ذات علوم و معارف اور شریعت و طریقت کی مجمع البحرین ہے۔ خاندان رضا کے اس عظیم چشم و چراغ کو جس پہلو سے دیکھا جائے کامل و اکمل نظر آتے ہیں۔ آپ کی شش جہات خدمات کا جائزہ لیاجائے تو عصر حاضر میں آپ کی شخصیت معاصرین میں سب پر فائق نظر آتی ہے۔
آپ کی حیات زرّیں کا ایک روشن اور تابناک ورق یہ ہے کہ آپ اسلاف کرام کی سنت کے مطابق عشق مصطفی کے اظہار و اعلان اور باطل کے آگے سر نہ خم کرنے کے جرم میں ۳۱؍ اگست ۱۹۸۶ء/ ۱۴۰۷ھ میں ظالم و جابر سعودی حکومت کی جانب سے ماخوذ ہوئے اور ۱۱؍روز تک سعودی حکومت کے بے جا ظلم کے شکار ہوئے۔ آپ نے ان ایام اسیری کی روداد نظم ِو نثر دونوں میں بیان کی ہے۔ جب آپ مسلک سواد اعظم پہ عمل اور استقامت کے جرم میں بے جا گرفتار کیے گئے اور سعودی مظالم کے عتاب کا شکار ہوکر بغیر زیارت روضۂ نبوی ﷺ کے واپس ہندوستان بھیج دیے گئے۔ اس وقت آپ کے دریائے عشق مصطفی کا تلاطم کس قدر رواں دواں تھا اس کا اندازہ کچھ ذیل کی اس نعت شریف سے لگایا جاسکتاہے:
داغِ فرقت طیبہ قلب مضمحل جاتا
کاش گنبد خضرا دیکھنے کو مل جاتا
میرا دم نکل جاتا ان کے آستانے پر
ان کے آستانے کی خاک میں میں مل جاتا
موت لے کے آجاتی زندگی مدینے میں
موت سے گلے مل کر زندگی میں مل جاتا
دل پہ جب کرن پڑتی ان کے سبز گنبد کی
اس کی سبز رنگت سے باغ بن کے کھل جاتا
فرقت مدینہ نے وہ دیئے مجھے صدمے
کوہ پر اگر پڑتے کوہ بھی تو ہل جاتا
در پہ دل جھکا ہوتا اذن پا کے پھر بڑھتا
ہر گناہ یاد آتا دل خجل خجل جاتا
میرے دل میں بس جاتا جلوہ زار طیبہ کا
داغ فرقت طیبہ پھول بن کے کھل جاتا
ان کے در پہ اخترؔ کی حسرتیں ہوئیں پوری
سائل در اقدس کیسے منفعل جاتا
ایک دوسری نعت میں سرکار رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ بیکس پناہ میں اپنی نیاز مندی اور عقیدت و الفت اور فرقت مدینہ میں دل شیدا کی بے قراری و بے تابی کا والہانہ اظہار یوں کرتے ہیں:
تلاطم ہے یہ کیسا آنسوئوں کا دیدئہ تر میں
یہ کیسی موجیں آئی ہیں تمنا کے سمندر میں
تجسس کروٹیں کیوں لے رہا ہے قلب مضطر میں
مدینہ سامنے ہے بس ابھی پہنچا میں دم بھر میں
مدینے تک پہنچ جاتا کہاں طاقت تھی یہ پر میں
یہ سرور کا کرم ہے ہے جو بلبل باغِ سرور میں
جو تو اے طائر جاں کام لیتا کچھ بھی ہمت سے
نظر بن کر پہنچ جاتا تجلی گاہ سرور میں
نہ رکھا مجھ کو طیبہ کے قفس میں اس ستم گر نے
ستم کیسا ہوا بلبل پہ یہ قید ستم گر میں
ستم سے اپنے مٹ جائو گے تم خود اے ستم گارو
سنو ہم کہہ رہے ہیں بے خطر دورِ ستم گر میں
گزرگاہوں میں ان کی میں بچھاتا دیدہ و دل کو
قدم سے نقش بنتے میرے دل میں دیدئہ تر میں
بناتے جلوہ گاہ ناز میرے دیدہ و دل کو
کبھی رہتے وہ اس گھر میں کبھی رہتے وہ اس گھر میں
مدینے سے رہیں خود دور اس کو روکنے والے
مدینے میں خود اخترؔ ہے مدینہ چشم اختر ؔ میں
ایک اور نعت میں حضور تاج الشریعہ مدینۃ النبی جہاں صبح و شام رحمت و انوار کی موسلا دھار بارش ہوتی رہتی ہے، وہ مدینۃ الرسول جس پر خلد کو بھی رشک ہے اور جو امن و سکون کا گہوارہ ہے جہاں پر فرشتے حاضری کی تمنا کرتے ہیں۔ اور وہ مدینہ جو عشاق کی جائے طلب ہے کی حاضری کی آرزو و تمنا میں مرغ بسمل کی طرح بے چین ہوکر یوں اظہار فرماتے ہیں:
فرقت طیبہ کی وحشت دل سے جائے خیر سے
میں مدینہ کو چلوں وہ دن پھر آئے خیر سے
دل میں حسرت کوئی باقی رہ نہ جائے خیر سے
راہ طیبہ میں مجھے یوں موت آئے خیر سے
میرے دن پھر جائیں یارب! شب وہ آئے خیر سے
دل میں جب ماہ مدینہ گھر بنائے خیر سے
رات میری دن بنے ان کی لقاے خیر سے
قبر میں جب ان کی طلعت جگمگائے خیر سے
ہیں غنی کے در پہ ہم بستر جمائے خیر سے
خیر کے طالب کہاں جائیں گے جائے خیر سے
مر کے بھی دل سے نہ جائے الفت باغ نبی
خلد میں بھی باغ جاناں یاد آئے خیر سے
اس طرف بھی دو قدم جلوے خرام ناز کے
رہ گزر میں ہم بھی ہیں آنکھیں بچھائے خیر سے
انتظار ان سے کہے ہے بزبان چشم نم
کب مدینہ میں چلوں کب تو بلائے خیر سے
فرقت طیبہ کے ہاتھوں جیتے جی مردہ ہوئے
موت یارب ہم کو طیبہ میں جِلائے خیر سے
زندہ باد اے آرزوئے باغ طیبہ زندہ باد
تیرے دم سے ہیں زمانے کے ستائے خیر سے
نجدیوں کی چیرہ دستی یاالٰہی! تابکے
یہ بلائے نجدیہ طیبہ سے جائے خیر سے
جھانک لو آنکھوں میں ان کی حسرت طیبہ لئے
زائر طیبہ ضیائے طیبہ لائے خیر سے
سنگ در سے آملے طیبہ میں اب تو جا ملے
آگئے در پہ ترے تیرے بلائے خیر سے
گوش بر آواز ہوں قدسی بھی اس کے گیت پر
باغ طیبہ میں جب اخترؔ گنگنائے خیر سے
مذکورہ بالا نعتوں کی ہر ہر سطر سے آپ کے عشق و وفا اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت و عقیدت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے۔ اس سچی عقیدت اور دیار رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حاضری کی بے قرار خواہش کا نتیجہ تھا کہ نجدی حکومت کو سرنگوں ہونا پڑا اور دوسرے سال باعزت طریقے سے مدینہ منورہ کی زیارت سے سرفراز ہوئے۔
جب آپ کو مدینہ طیبہ جانے کا سعودی سفارت سے بطور خاص فون آیا اور آپ اپنے پیارے آقا، دانائے غیوب صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ کی زیارت کو چلے۔ اس وقت آپ کے دل شیدا کی کیا کیفیت تھی خود اسی عاشق صادق کی زبان سے سنیے۔ وہ گنگناتے ہیں:
سنبھل جا اے دل مضطر مدینہ آنے والا ہے
لٹا اے چشم تر گوہر مدینہ آنے والا ہے
قدم بن جائے میرا سر مدینہ آنے والا ہے
بچھوں رہ میں نظر بن کر مدینہ آنے والا ہے
جو دیکھے ان کا نقش پا خدا سے وہ نظر مانگوں
چراغ دل چلوں لے کر مدینہ آنے والا ہے
کرم ان کا چلا یوں دل سے کہتا راہ طیبہ میں
دل مضطر تسلی کر مدینہ آنے والا ہے
مدینہ کو چلا میں بے نیاز رہبر منزل
رہ طیبہ ہے خود رہبر مدینہ آنے والا ہے
مجھے کھینچے لئے جاتاہے شوق کوچۂ جاناں
کھینچا جاتا ہوں میں یکسر مدینہ آنے والا ہے
وہ چمکا گنبد خضرا وہ شہر پر ضیا آیا
ڈھلے اب نور میں پیکر مدینہ آنے والا ہے
مدینہ آگیا اب دیر کیا ہے صرف اتنی سی
تو خالی کر یہ دل کا گھر مدینہ آنے والا ہے
فضائیں مہکی مہکی ہیں ہوائیں بھینی بھینی ہیں
بسی ہے کیسی مشک تر مدینہ آنے والا ہے
قمر آیا ہے شاید ان کے تلوئوں کی ضیا لینے
بچھا ہے چاند کا بستر مدینہ آنے والا ہے
غبار راہ انور کس قدر پر نور ہے اخترؔ
تنی ہے نور کی چادر مدینہ آنے والا ہے
حضور تاج الشریعہ مدظلہ کے ۱۱؍ روز کے ایام اسیری کی روداد تفصیل طلب ہے جو خود اسیر مدینہ حضرت تاج الشریعہ نے بیان فرمائی ہے۔آپ کے جذبۂ ایمانی، استقامت و عزیمت، حق گوئی اور بے باکی کااندازہ لگایاجاسکتاہے ا سے اس کتاب کے مضمون’’جانشین حضور مفتی اعظم مسلک اعلیٰ حضرت کے سچے داعی‘‘ میں ملاحظہ فرمائیں۔
اس طرح حضور تاج الشریعہ نے افضل الجہاد کلمۃ الحق عند سلطان جائر پر عمل کرتے ہوئے نجدی و سعودی حکومت کے سامنے احقاقِ حق و ابطالِ باطل کا فریضہ انجام دے کر یہ ثابت کردیا کہ نجدی حکومت اپنے ظلم و جبر کے ذریعہ وقتی و عارضی غلبہ تو حاصل کرسکتی ہے مگر فتح ہمیشہ حق ہی کی ہوتی ہے اور حق ہمیشہ سر چڑھ کر بولتا ہے۔
حضور تاج الشریعہ مدفیضہٗ کی حق گوئی اور اہل سنت و جماعت کی عالمی تنظیم ورلڈ اسلامک مشن اور دیگر سنی تنظیموں اور تحریکوں کے عالم گیر احتجاجی مظاہرے اور علما و خواص اور عقیدت مندانِ تاج الشریعہ کے ہمہ گیر احتجاج کے نتیجے میں سعودی حکومت نے نظریاتی بنیاد پر ترجیح کے اپنے خود ساختہ نظریہ پر نظرثانی کی اور اس بات کا اعلان و اظہار کیا کہ:
’’حرمین شریفین میں ہر مسلک و مذاہب کے لوگ اب آزادانہ اپنے اپنے طور و طریقوں سے عبادت کریں گے۔ کنزالایمان پر پابندی میرے حکم سے نہیں لگائی گئی ہے۔ مجھے اس کا علم بھی نہیں ہے۔ اب میلاد کی محافل آزادانہ طریقہ پر ہوں گی۔ کسی پر مسلط نہیں کیاجائے گا۔ سنی حجاج کرام کے ساتھ کوئی زیادتی نہ ہوگی۔ (روزنامہ الاھرام، قاہرہ مجریہ ۱۲؍ربیع الاول ۱۴۰۷ھ/ ۱۹۸۷ء و روزنامہ جنگ لندن۔ ۳؍مارچ ۱۹۸۷ء/ ۱۴۰۷ھ)
اور تاج الشریعہ سے سعودی سفیر برائے ہندوستان مسٹر فواد صادق نے بذریعۂ فون معذرت کی اور عمرہ و زیارت مدینہ منورہ کی خصوصی دعوت دی۔ پھر آپ ۲۴؍ مئی ۱۹۸۷ء/ ۱۴۰۷ھ کو عمرہ و مدینہ منورہ کی زیارت سے مشرف ہوکر سعودی میں سولہ روز قیام کے بعد وطن واپس آئے۔