حضورتاج الشریعہ اور اصلاح معاشرہ

مولانا اسلام الدین رضوی ، کولکاتا ، انڈیا


اللہ رب العزت نے خانوادۂ امام احمد رضا محدث بریلوی کو عظمت و رفعت سے سرفراز فرمایا ہے۔ اس عظیم خانوادے میں تاجدار ان علم و فن اورکشوران عشق و عرفان نے اپنی جلالت علمی اورتفقہ فی الدین سے چاردانگ عالم میںایسا غلغلہ پیداکیا کہ آج بھی اس جرس کی آواز ہرچہار سمت گونجتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ ان میں علامہ حسن رضاخاں بریلوی (م۱۳۲۶ھ) مفتی محمد رضاخاں (م۱۹۳۸ء) مفتی حامد رضاخاں بریلوی (م۱۳۶۲ھ/۱۹۴۳ء) مفتی مصطفیٰ رضاخاں (م ۱۴۰۲ھ/۱۹۸۱ء) علامہ حسنین رضاخاں (م ۱۴۰۱ھ/۱۳۸۱ء) مفتی ابراہیم رضاخاں (۱۳۸۵ھ/ ۱۹۶۵ء) اور حضور تاج الشریعہ علامہ مفتی اختر رضا خان مدظلہ العالی کے اسماء نمایاں ہیں۔
آخرالذکر ممتا ز علمی فقہی شخصیت حضور تاج الشریعہ حضرت علامہ مفتی محمد اختر رضا خاں قادری رضوی مد ظلہٗ العالی فاضل جامع ازھر (مصر) محتاج تعارف نہیں آپ کے تبلیغی اسفار، دعوت و تبلیغ کامشن اورحلقہ ارادت کادورہ عوام اہلسنت کی اصلاح اورگم گشتگان راہ کے لئے مشعل ہدایت ہواکرتے ہیں۔آپ نے اپنی تقریروں، وعظ ونصیحت اورتحریروں کے ذریعہ امت مسلمہ کی اصلاح کے لئے جو جو ھر اور شہ پارے امت کو دئیے ہیں وہ آب زرسے لکھنے کے قابل ہیں۔اس وقت مطالعہ کی میز پر حضور تاج الشریعہ مد ظلہٗ العالیٰ کی ایک گوھر نایاب کتاب ’’آثار قیامت‘‘ موجود ہے۔ جس سے چند اہم اقتباسات جومسلمانان عالم کے لئے مرشد وہادی کی حیثیت رکھتے ہیں نذر قارئین کرنے کی کی سعادت حاصل کررہاہوں۔

نماز:

 حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو نمازیں ان کے وقتوں پر پڑھے اوران کا وضو کامل ہواورنمازوں میں قیام خشوع و خضوع رکوع و سجود کامل طور پر کرے تو اس کی نماز سفید چمکتی ہوئی نکلتی ہے کہتی ہے اللہ تیری حفاظت کرے جس طرح تو نے میری حفاظت کی اور جووقت پرنمازنہ پڑھے اوروضو کامل نہ کرے اور نہ خشوع و خضوع و رکوع و سجود تمام کرے تو اس کی نماز نکلتی ہے سیاہ اندھیری، کہتی ہے اللہ تجھے ضائع کرے جیسا کہ تو نے مجھے ضائع کیا یہاں تک کہ جب اس جگہ پر پہنچتی ہے جہاں اللہ چاہتا ہے لپیٹ دی جاتی ہے ۔ جیسے کہ پرانا کپڑا لپیٹ دیاجاتا ہے پھراس نمازی کے منہ پرمار دی جاتی ہے۔ (آثار قیامت ص ۲۰)
حضور تاج الشریعہ مجمع الزوائد جلد اول ص ۳۰۲ کے حوالہ سے تحریر فرماتے ہیں آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ جو پانچوں نمازیں ان کے وقتوں پر پڑھے اوران نمازوں کی پابندی کرے اوران کے آداب کی حفاظت کرے اور نمازوں کو ضائع نہ کرے اورنمازوں کو ناحق تساہل سے ضائع نہ کرے تو اس کے لئے میرے اوپر عہد ہے کہ میں اس کو جنت میں داخل کروں اور جو ان نمازوں کوان کے وقتوں پر نہ پڑھے اوران کے آداب کی حفاظت نہ کرے اورناحق تساہل سے انہیں ضائع کرے تو اس کے لئے میرے اوپر کوئی عہد نہیں چاہوں تو عذاب دوں اورچاہوں تو بخش دوں(ایضا ص ۲۱)

امانت:

امانت کے متعلق حضور تاج الشریعہ مد ظلہ العالیٰ تحریر فرماتے ہیں کہ اللہ رب العزت عزوجل کاارشاد گرامی ہے اِنَّ اللّٰہَ یَامُرُکم اْنْ تُؤ دُّو اْلاَمنٰتِ اِلیٰ اَھْلِہَا (ترجمہ رضویہ) بے شک اللہ تمہیں حکم دیتاہے کہ امانتیں جن کی ہیں انہیں سپرد کردو (نساء ۵۸) تفسیرخازن میں ہے یہ آیت تمام امانت کو شامل ہے تو اس کے حکم میں ہر وہ امانت داخل ہے جس کی ذمہ داری انسان کو سونپی گئی اور یہ تین قسم پر ہے۔
پہلی یہ کہ اللہ کی امانت کو ملحوظ رکھے اوریہ اللہ کے احکام بجالانا اورممنوعات سے پرہیز کرنا ہے۔
دوسری یہ کہ بندہ اپنے نفس میں اللہ کی امانت ملحوظ رکھے اوروہ اللہ کی وہ نعمتیں ہیں جو اللہ نے بندے کے تمام اعضاء میں رکھی ہیں تو زبان کی امانت یہ ہے کہ زبان کو جھوٹ ، غیبت، چغلی وغیرہ خلاف شرع باتوں سے محفوظ رکھے اورآنکھوں کی امانت یہ ہے کہ محرمات پر نگاہ سے آنکھ کو بچائے اورکان کی امانت یہ ہے کہ لغو، بے حیائی اورجھوٹی باتیںاوراس کے مثل خلاف شرع باتیں سننے سے پرہیز کرے ۔
تیسری قسم یہ ہے کہ بندہ اللہ کے بندوں کے ساتھ معاملات میںامانت کالحاظ رکھے۔ لہٰذ ا اس پر ودیعت اورعاریت کاان لوگوں کو لوٹانا ضروی ہے۔ جنہوں نے اس کے پاس یہ امانتیں رکھیں اور اس میں ان کے ساتھ خیانت کرنا منع ہے۔ (ایضاً ص ۲۴)

علم:

حضور تاج الشریعہ علم کی اہمیت اورصیانت کے تعلق سے علامہ جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ کی کتاب ’’الآلی المصنوعہ‘‘(جلد اول ص ۲۰۵) کے حوالے سے یوں رقمطراز ہیں کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا : فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علم کے معاملے میں خیر خواہی سے کام لو اور کوئی کسی سے علم نہ چھپائے اس لئے کہ علم میں خیانت مال میں خیانت سے سخت تر ہے۔ (ایضاً ص ۲۵)

رشوت ستانی:

حضور تاج الشریعہ رشوت جیسی قبیح عمل کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’قرآن شریف میں اس کی حرمت مصرح ہے اورحدیث شریف میں فرمایا : ولعن اللہ الراشی والمرتشی یعنی اللہ کی لعنت رشوت لینے اور دینے والے پر ۔(مسند امام احمد جلد ۲ ص ۳۸۷)
یعنی رشوت لینے والا مطلقا مستحق لعنت ہے اور دینے والا بھی اسی رسی میں گرفتار ہے جب کہ ناجائز کام کے لئے رشوت دے یا بغیر مجبوری کے دے اوردفع ظلم اورجائز حق کی تحصیل کے لئے جب رشوت دئیے چارہ نہ ہوتو یہ صورت مستثنیٰ ہے اوردینے والا اس وعید کامصداق نہیں‘‘۔ (ایضاً ص ۳۱)

تلاوت قرآن:

حضور تاج الشریعہ مد ظلہٗ العالی تلاوت قرآن پاک کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’بیہقی’’شعب الایمان‘‘ میں سعد بن مالک سے مرفوعاً روایت ہے کہ بے شک قرآن حزن و بے چینی کی حالت میں اترا ہے۔ تو جب تم اس کو پڑھو تو روئو پھراگر تمہیں رونا نہ آئے تو رونی صورت بنائو اوراس میں عبدالمالک بن عمیر کی مرسل احادیث میںایک حدیث ہے کہ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم پر ایک سورت تلاوت کرتاہوں تو جو روئے اس کے لئے جنت ہے پھر اگرتمہیں رونانہ آئے تو روتے رہو اورمسند ابوالعلی میں ہے کہ قرآن حزن کے ساتھ اترا،اور طبرانی میں ہے کہ لوگوںمیں سب سے اچھا قاری وہ ہے جو قرآن پڑھے تو غمگین ہواور شرح المذہب میں ہے کہ :تحصیل گریہ کاطریقہ یہ ہے کہ جوپڑھ رہا ہے اس میں تہدید و عیدشدید اورجو عہد و پیماں ہیں ان میں غور کرے پھر اپنی کوتاہی یاد کرے اب بھی اگررونا نہ آئے اورغمگین نہ ہو تو اس بات کے نہ     ملنے پر روئے کہ اس لئے کہ یہ مصائب میں سے ہیں۔ (ایضاً ص ۳۵)
علامہ جلال الدین سیوطی فرماتے ہیں کہ ایک بدعت وہ یہ ہے بہت سے لوگ اکٹھے ہوکر بیک آواز میں پڑھتے ہیں’’اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ ‘‘ کو’’ أفَلَ تعقلون‘‘ پڑھتے ہیں اور ’’ قَالُوۡۤا اٰمَنَّا ‘‘ وائو کے حذف کے ساتھ ’’قال آمنا‘‘ پڑھتے ہیں جہاں مد نہیں وہاں مد کرتے ہیں تاکہ جوانہوںنے اپنایا ان کاطریقہ بن جائے اورمناسب یہ ہے کہ اس کام کانام ’’تحریف‘‘ رکھاجائے۔ (ایضاً ص ۳۶)
قرآن کو عربوں کے طرز اوران کی آواز کے ساتھ پڑھو اوریہودونصاریٰ کے طرز سے اپنے آپ کو دور رکھو اوراہل فسق کے طرز سے بچو۔ اس لئے کہ کچھ ایسے آئیں گے جوقرآن میں گانے کی طرح اتار چڑھائو سے کام لیں گے اوراہل رہبانیت کے طور پر پڑھیں گے۔ قرآن ان کے گلوں سے نیچے نہ اترے گا، ان کے دل فتنوں میں پڑے ہیں اور ان کے دل بھی جنہیں ان کا یہ حال بھلا لگتاہو۔ اس حدیث کو طبرانی اوربیہقی نے روایت کی ہے۔ (ایضاً ص ۳۸)

حقوق والدین:

حضور تاج الشریعہ عظمت والدین بیان فرماتے ہوئے یوں رقمطراز ہیں۔ حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کی اطاعت والدین کی اطاعت ہے اوراللہ کی معصیت والدین کی (نافرمانی) معصیت ہے (مجمع الزوائد جلد ۸ ص ۱۳۶)(ایضاً ص ۴۰)مزید لکھتے ہیں کہ سیدنا محدث بریلوی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ’’والدین کے ساتھ نیکی صرف یہی نہیں کہ ان کے حکم کی پابندی کی جائے اوران کی مخالفت نہ کی جائے بلکہ ان کے ساتھ نیکی یہ بھی ہے کہ کوئی ایسا کام نہ کرے جوان کے ناپسند ہو اگرچہ اس کے لئے خاص طور پر ان کاکوئی حکم نہ ہو۔ اس لئے ان کی فرماں برداری اوران کو خوش رکھنا دونوں واجب ہیں اورنافرمانی ناراض کرنا ہے۔ (حقوق والدین ص ۳۸) (ایضاً ص ۴۲)
مجمع الزوائد جلد ۸ ص ۱۳۷ کے حوالے سے تحریر فرماتے ہیں کہ ’’حدیث پاک میں ہے کہ ایک صحابی رسول نے حاضر خدمت ہوکر عرض کی یارسول اللہ ! ایک راہ میں ایسے گرم پتھروں پر کہ اگرگوشت ان پرڈالا جاتا کباب ہوجاتا، میں چھ میل تک اپنی ماں کو اپنی گردن پر سوار کرکے لے گیاہوں کیامیں اب اس کے حق سے عہدہ برآہوگیا سرکار نے فرمایا تیرے پیداہونے میں جس قدر درد کے جھٹکے اس نے اٹھائے شاید ان میں سے ایک جھٹکے کا بدلہ ہوسکے۔ (ایضاً ص ۴۲)

علماء:

حضرت تاج الشریعہ دنیادارا ور دین دارعلماء کے بارے میں لکھتے ہیں کہ حضرت انس سے مرفوعاً مروی ہے کہ علماء اللہ کے رسولوں کے بندوں کے پاس امین ہیں جب تک بادشاہ سے نہ ملیں اوردنیا میںدخل نہ دیں تو جب دنیا میں دخل دینے لگیں اور بادشاہوں سے مل جائیں تو بے شک انہوں نے رسولوں کے ساتھ خیانت کی تو ان سے دوررہو۔
اسی صفحہ پر مزید لکھتے ہیں ’’حضرت امیر معاویہ سے مروی ہے کہ سرکار علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا اللہ جس سے بھلائی کا ارادہ فرماتاہے اس کو فقیہ بناتاہے اورمیں توبانٹنے والاہوں اللہ دیتا ہے ۔ میری امت کا ایک گروہ اللہ کاحکم آنے تک اللہ کے دین پرقائم رہے گا ان کے مخالف انہیں کچھ نہ نقصان پہنچاسکیں گے۔ (ایضاً ص ۴۶)

مردوں سے مشابہت :

فی زمانہ عورتیں لباس میں طور طریقے اور نت نئے فیشن میں مردوں سے مشابہت کرنے میں ذرہ نہیں جھجھکتی ہیں حضور تاج الشریعہ مد ظلہ العالی ایسی عورتوں کے بارے میں لکھتے ہیں ’’بلاضرورت صحیح عورت کو گھوڑے پر چڑھنا منع ہے کہ یہ بھی ایک قسم کامردانہ کام ہے ۔ حدیث میں اس پر لعنت آئی ہے ۔ ابن حبان اپنی صحیح میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے راوی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت کے آخر میں کچھ ایسی عورتیں ہوں گی جو مردوں کی طرح جانوروں پرسوار ہوں گی اوراس کے آخر میں یہ الفاظ آئے : ان عورتوں پر لعنت بھیجو کیوں کہ وہ ملعون ہیں(ایضا ص ۶۴)
مزید آگے تحریر فرماتے ہیں ’’زنان عرب جو اوڑھنی اوڑھتیں ، حفاظت کے لئے سرپر پیچ دے لیتیں اس پریہ ارشاد ہوا کہ ایک پیچ دیں دو نہ دیں کہ عمامہ والے مردوں سے مشابہت نہ ہوجائے کیوںکہ عورتوں کو مردوں سے اورمردوں کو عورتوں سے ’’تشبہ‘‘ حرام ہے۔ (ایضاً ص ۶۵)
اور فرمایا ’’عورت کو اپنے سر کے بال کترانا حرام ہے اورکترے تو ملعون کہ یہ مردوں سے مشابہت ہے اورعورتوں کامردوں سے تشبہ حرام درمختار میں ہے کہ کسی عورت نے سر کے بال کترڈالے تو گنہگار ہوئی نیز اس پر اللہ کی لعنت ہوئی ۔ اس میں جوعلت مؤ ثرہ ہے وہ مردوں سے تشبہ ہے۔ (ایضاً ص ۶۶)

محرمی کپڑے:

عاشورہ کے موقع پر محبت حسین میں لوگ قسم قسم کے رنگ برنگ کپڑے خودبھی پہنتے ہیں اوربچوں کو بھی پہناتے ہیں حضور تاج الشریعہ حکم شرع صادر فرماتے ہیں ’’مسلمان کو چاہئے کہ عشر ہ ٔ مبارکہ میں تین رنگوں سے بچے سبز ، سرخ ، سیاہ سبز کی وجہیں تومعلوم ہوگئیں اورسرخ آج کل ناصبی خبیث خوشی کی نیت سے پہنتے ہیں ، سیاہ میں اودا ، نیلا، کاسنی، سبز میں کاہی، دھانی، پستی سرخ میں گلابی، عنابی نارنگی سب داخل ہیں اگرسوگ یاخوشی کی نیت سے پہنے جب تو خود ہی حرام ہے ورنہ ان کی مشابہت سے بچنا بہتر ہے (ایضاً ص ۷۳)
مزید لکھتے ہیں عشرہ محرم کے سبز رنگے ہوئے کپڑے بھی ناجائز ہیں یہ بھی سوگ کی غرض سے ہیں (ایضاً)
غیراللہ کی قسم: آج کل بالخصوص نوجوان طبقہ بات بات پر مختلف چیزوں کی قسم کھانے لگتاہے جیسے ماں قسم، اولاد قسم، قرآن قسم مسجد قسم وغیرہ اس سلسلے میں تاج الشریعہ مد ظلہ العالی فرماتے ہیں ’’غیراللہ کی قسم ، قسم شرعی نہیں علماء فرماتے ہیں اگر غیراللہ کی قسم کو قسم شرعی جانے اوراس کاپوراکرنا لازم سمجھے اس صورت میں آدمی کافر ہوجائے گا۔
امام رازی نے فرمایا میری جان کی قسم ، تیری جان کی قسم کہنے والے پر مجھے کفر کااندیشہ ہے اورلوگ عام طورپر یہ نادانی میں کہتے ہیں اگرایسانہ ہوتا تو میں کہتا یہ شرک ہے۔ (ایضاً ص۱۷۷)
آگے لکھتے ہیں’’حدیث شریف میں غیراللہ کی قسم کھانے والے کو جومشرک فرمایاگیا اس سے اس شخص کا بھی حکم ظاہر جویوں قسم کھائے اوراگرمیں یہ کام کروں تو یہودی یانصرانی یاملت اسلام سے بری وبیزار ہوجائوں ایسی قسم کھاناسخت حرام بدکام کفر انجام ہے۔ (ایضاً ص ۷۹)
آخر میںلکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ تم کو کثرت قسم سے منع کرتاہے اوربے باکی سے باز رکھتاہے اس لئے اس سے باز رہنے میں ہی پرہیز گاری اورتمہاری بھلائی ہے۔ (ایضاً ص ۸۹)

میراثی منصب:

جس دور سے ہم لوگ گزررہے ہیں مذہبی پیشوائوں یا سیاسی لیڈران مدارس کے ذمہ داران ہوں یا خانقاہوں کے گدی نشین اپنے منصب کووراثتی منصب بناچکے ہیں ۔ شہزادگان اس عظیم الشان منصب کے اہل ہوں یانہ ہوں لیکن اپنی زندگی میں جانشینی کااعلان کردیتے ہیں ۔ حضور تاج الشریعہ مد ظلہٗ اس بے راہ روی روش کے بارے میں یوں رقمطراز ہیں : مجمع البحار میں ایک حدیث لکھی ہے جس کامضمون یہ ہے کہ اس سے بڑھ کر بڑا خائن کوئی نہیں جو غیراصحاب رائے عوام کامنتخب امیر ہو۔
اس حدیث کی تصدیق زمانہ ٔ حال میں چنندہ اورچنندہ کے احوال سے خوب ظاہر ہے۔لہٰذ ا اس پر مزید تبصرے کی ضرورت نہیں اورحدیث مندرجہ بالا کے مصداق وہ لوگ بھی ہیں جو بزرگوں کے جانشین محض وراثت کے بل پر بغیراستحقاق وہ بے انتخاب شرعی بن بیٹھے جیسا کہ زمانہ ٔ حال میں مشاہد ہ ہے۔ (ایضاً ٓص ۹۱)

Menu