حضورتاج الشریعہ سے متعلق میرے مشاہدات

علامہ عبد المصطفیٰ صدیقی حشمتی ، ردولی شریف ، انڈیا


نمونہ ٔ سلف ، حجتہ الخلف، شہزادہ اعلیٰ حضرت ، تاج الشریعہ جامع معقول ومنقول، حاوی فروع و اصول سیدی الکریم مفتی الشاہ اختررضاخاں صاحب قبلہ قادری برکاتی رضوی ازہری مدظلہ العالی بلاشبہ اس زمانے میں جامع علم و عمل اورپیکر فضل وکمال ہیں۔ آپ کی ذات ایمان ومعرفت اورزہد وورع کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ہے۔ بچپن سے اب تک آپ کی شخصیت جس پاکیزگی و طہارت اورپابندی شریعت کامظہر ہے وہ صرف فضل الٰہی اورتوفیق ربانی کاثمرہ ہی ہوسکتا ہے۔
آپ کی شخصیت تقویٰ و طہارت اورزہد و پارسائی میں بہترین نمونہ ہے ، رشد وہدایت ، پند و نصائح ، حق گوئی وبیباکی آپ کاطرہ امتیاز ہے۔ فتویٰ نویسی، تصنیف وتالیف اوراوقات فرصت میں درجہ ٔ تحقیق فی الفقہ کے طلبہ کو درس دینا آپ کی زندگی کے مشاغل ہیں۔
یہ بات سب پر واضح ہے کہ خصوصاً برصغیر اورعموماً پوری دنیا میں اتنی پروقار، ذی حشم اورصاحب مرتبہ شخصیت جس کی مقبولیت اورشہرت کے سامنے عرب و عجم جبین عقیدت خم کرتاہو
بمشکل نظر آئے گی۔
شاید یہی وجہ ہے کہ بہت سارے لوگ آپ سے حسد بھی رکھتے ہیں اورایسا ہرزمانے میں ہوا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی کو مقبولیت عطا کرتا ہے تو اس کے مخالفین اورمعاندین کی تعداد میںخودبخود اضافہ ہوجاتاہے۔
حضور تا ج الشریعہ جس عظیم ذات کے جانشین ہیں وہ شخصیت اپنے عہد کی عبقری الشان اورعلم و عمل کا پیکر مجسم تھی جس کو زمانہ حضور مفتی اعظم ہند کے لقب سے یاد کرتاہے ، وہ مفتیٔ اعظم جنہوں نے کبھی باطل کے سامنے سپر نہیں ڈالا۔ وہ مفتیٔ اعظم جنہوں نے جابر حکومتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنا فر ض منصبی اداکیا، وہ مفتیٔ اعظم جنہوں نے اپنے مریدوں ، عقیدت مندوں اورتمام سنی مسلمانوں کو ہمیشہ وہابیوں ، دیوبندیوں اورگستاخانِ رسول وصحابہ واولیاء سے دور رہنے کا درس دیا۔ اسی مفتیٔ اعظم کے علم وعمل، فضل وکمال، تقویٰ وطہارت ، تواضع وانکساری ، حلم وبردباری اورتصلب فی الدین کے مظہر کامل کو دنیا تاج الشریعہ کہتی ہے۔
اس دور میں جب کہ علماء، مدارس اورخانقاہوں میں تذبذب اورصلحکلیت پھیل رہی ہے، ہرطرف مذہبی، مسلکی اور خانقاہی انارکی سینہ تانے کھڑی ہے۔ اس کے مقابلہ کے لئے اور اس انتشار وافتراق کے دور میں تاج الشریعہ کی زندگی ، ان کی شخصیت اورکارنامے تصلب فی الدین و استقامت اور ثابت قدمی کی زندہ وجاوید مثال ہے، اگرکوئی اعلیٰ حضرت امام احمدرضا کی شان فقاہت دیکھناچاہتا ہے تو اسے تاج الشریعہ کے رشحات قلم سے منصہ شہود پر آنے والے فتووں کا مطالعہ کرنا چاہئے، اگرکوئی حاسد و معاندان کے علمی مقام ومرتبے کی جانچ پرکھ کرناچاہتا ہے تو اسے تاج الشریعہ کی تصنیفات اورتالیفات اور سرکار اعلیٰ حضرت کی اردو تصنیفات کے ان عربی تراجم کو بغور پڑھناچاہئے جسے سفر وحضر میں حضور تارج الشریعہ نے لکھ کر شہزادۂ اعلیٰ حضرت اورآبرو ے خاندان ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ یوں تو آج کل ہر بڑے باپ کا بیٹا اپنے باپ کی گدی کاحقدار ہے، آج نہ شہزادوں کی کمی ہے نہ جانشینوں کی اورنہ سجادگان خانقاہ کی لیکن کیا کبھی کسی نے سوچا ہے کہ کسی افسر کا نائب یاجانشین کوئی عامی ، جاہل یاافسر کی ذمہ داریوں سے ناواقف شخص بھی ہوسکتاہے ، ہاں! آج ایسا ہی ہورہا ہے بہت سے مدارس سے علم اوردیانت داری، علماء سے خلوص اورحق گوئی اورکچھ خانقاہوں سے تصلب بہت دور جاچکی ہے۔
آج سیاست کی گلیاروں کی طرح دینی محافل اورمجالس بھی سیاسی جوڑ توڑ کاشکار ہیں۔ پیسوں کے ذریعہ آج صرف کتابیں ہی نہیں اورخرید وفروخت کی اشیاء ہی نہیں بلکہ ضمیر اورعقیدے کی بھی بزنس ہورہی ہے۔لیکن اس سراسیمہ ماحول میں بھی اگر کوئی شخصیت خلوص و للہیت اوراپنے اسلاف کانمونہ بن کر سینہ سپر ہے تو وہ ذات تاج الشریعہ کی ہے کبھی بھی آپ نے دولت وشہرت کی خاطر اپنے مذہب و مسلک اور روایتوں سے انحراف نہیںکیا،
آج جب کہ عوام پیران کرام سے مرید نہیں ہورہی ہے بلکہ پیران کرام ثروت مندوں کی دوکان تجارت کاسستا سودا بن گئے ہیں لیکن متحدہ عرب امارات کے ایک مشہور شہر دبئی میں ہماری نظروں نے جوکچھ دیکھا اسے دیکھ کر حیرت بھی ہوئی اورشریعت کے ساتھ وفاداری کا جذبہ بھی بیدار ہوا ، جو لکھنے جارہاہوں اس کایقین تو نہیں ہوتا لیکن بعض وہ باتیں ہوتی ہیں جنہیں ہمارا ذہن قبول کرے یا نہ کرے لیکن آنکھوں کے مشاہدے کو جھٹلایاتو نہیں جاسکتا ۔یہ حقیقت ہے اورسچائی ہے اور یہی بات شاید حاسدوں کے نزدیک سب سے زیادہ معیوب ہے۔
الغرض دبئی میں ایک عبدالرزاق نامی شخص جو سونے کا بہت بڑا تاجر ہے، سینکڑوں لوگ اس کے یہاں کام کرتے ہیں، بلاشبہ وہ تاجر کھرب پتی ہے وہ تاج الشریعہ کے مریدوں میں سے ہے، دبئی کے قیام کے دوران وہ تاج الشریعہ سے ملنے آیا کسی شخص نے تاج الشریعہ سے یہ بتادیا کہ ان کے یہاں تراویح کی امامت کوئی دیوبندی یا وہابی کرتاہے۔ اتناسننا تھا کہ تاج الشریعہ کے جلال کاعالم نہ پوچھئے اس شخص سے مصافحہ نہیں کیا اوربہت سخت سست کہا اخیر کار اس نے معذرت کی اورتوبہ کیااورعذر پیش کیا کہ ہمیں اس بابت علم نہیں ہے کہ ہماری کمپنی میں سیکڑوں لوگ کام کرتے ہیں اس لئے ہمیں اس کاعلم نہیں ہوسکا کہ کون امامت کرتاہے بہرحال آئندہ ایسا نہیں ہوگا، جب سب کے سامنے اس نے توبہ استغفار کیاپھر تاج الشریعہ نے اسے نرمی سے سمجھایا اور عقائد وہابیہ بتایا اورمسائل شریعہ اس کے سامنے پیش کیا وہ شخص سرتاپیر سراپا عجز وانکساری کامجسمہ بنارہا ، موقع پاکر اس نے عرض کیا حضور غریب خانے پر تشریف لے چلیں تو حضرت نے صاف لفظوں میں فرمایا کہ اس بار تو میں نہیں جاسکتا اگرتم توبہ پہ قائم رہے تو آئندہ سفر میں چلوں گا۔حالانکہ اس سے پہلے کئی بار اس کے گھر جاچکے تھے۔ اس مشاہدے کو پیش کرنے کامقصد یہ ہے کہ تاج الشریعہ حقیقی معنوں میں اعلیٰ حضرت ، حجتہ الاسلام اورحضور مفتیٔ اعظم ہند کے علم و عمل اورفضل وکمال کے سچے وارث وامین ہیں اورموجودہ وقت میں ان کی شخصیت آفتاب و ماہتاب کی طرح ہے جس سے سارا زمانہ فیض پاتاہے۔ سوا ان کے جو آنکھ رکھ کر بھی حسد میں بند کئے رہتے ہیں۔
دبئی میں گولڈ مارکیٹ کے قریب الفتیم الراس میں سنیوں کی مرکزی مسجد جس میں پاکستان کے قاری غلام رسول صاحب امام تھے۔ جمعہ کا دن تھا باوجود یکہ وہاں مائک پہ نماز ہوتی تھی، بڑی مسجد تھی، بھیڑ بھاڑ نمازیوںکی اتنی ہوتی تھی کہ مائک کے بغیر آواز پہنچنا مشکل تھا، ان تمام باتوں کے باوجود نہ یہ کہ لوگ کیاکہیں گے اور کیا ہوگا جمعہ کی امامت فرمائی بغیر مائک کے، نہ کوئی چوں چرا نہ کوئی ہنگامہ ،حالانکہ لوگوں کو سوال کرنے کاپوراپورا حق تھا، کہ جب ہرجمعہ کو مائک پہ نماز ہوتی ہے تو آج بغیرمائک کے کیوں؟
یہ سب کچھ فضل خداوندی اوراطاعت شرع کاثمرہ ہے اورنتیجہ ہے، عوام بھی انہیں علماء کو مطعون کرتی ہے جوشریعت کومذاق بنائے ہوئے ہیں، اگرکوئی پابند شریعت ہو توقوم ضرور اس سے محبت بھی کرتی ہے اوراحترام بھی۔
ویسے تو تاج الشریعہ ردولی شریف کئی بار تشریف لائے ہیں،۔ اس حشمتی غلام کی دعوت پر ۱۲؍اکتوبر ۲۰۰۱ء کو دارالعلوم مخدومیہ رضانگر کی حشمتی مسجد کے افتتاح کی غرض سے تشریف لائے تھے۔ رات میں جلسہ تھا۔ دوردراز سے آئے عقیدت مند ایک جھلک پانے کو بے قرار تھے، معلوم نہیں کتنے علماء سے ملاقاتیں ہوئیں لیکن جومقبولیت تاج الشریعہ کو حاصل ہے وہ کسی اورکونہیں۔ لاکھوں میں جن کی مثال نہ ملے، نہ ان کی شباہت کی کوئی مثال نہ چہرے مہرے کی کوئی مثال نہ علم و فضل اوراتباع شریعت و سنت کی کوئی مثال، دین کی چھوٹی سی چھوٹی بات پربھی عمل آوری کا اہتمام کہ بڑے اصحاب علم کومیسر نہیں۔ خیر جلسہ ختم ہوا ۔ حشمتی مسجد کا افتتاح حضرت نے فرمایا۔ صبح ہوئی ۱۳؍ اکتوبر ۲۰۰۱ء؁ کو جب حضرت رودولی اسٹیشن کے لئے روانہ ہوئے تو سیکڑوں لوگ پیچھے پیچھے اسٹیشن پہنچ گئے۔ حضرت کا ٹکٹ لکھنؤ سے جموں توی ایکسپریس کاتھا ، جیسے ہی اسٹیشن ماسٹر کی نظر تاج الشریعہ پر پڑی وہ سراپا ادب اورتعظیم کے ساتھ حاضر ہوا اورآداب و تسلیمات بجالایا۔ جب اسے یہ معلوم ہوا کہ رودولی سے لکھنؤ تک کاحضرت کو ٹکٹ چاہئے تو کہنے لگا کہ آپ جیسے مہان ویکتی سے کون ٹکٹ مانگے گا‘‘ لکھنؤ تو آپ ویسے چلے جائیں وہاں سے تو آپ کاٹکٹ ہے ہی لیکن حضرت نے فرمایا کہ بلاٹکٹ سفرکرنا جائز نہیں آپ نے بااصرار ٹکٹ خریدا، اگر آپ چاہتے تو اسٹیشن ماسٹر کے کہنے پر بلاٹکٹ سفر کرلیتے لیکن آپ کے پیش نظر شریعت کاحکم تھا، جب دارالعلوم مخدومیہ کی جدید بلڈنگ کاسنگ بنیاد رکھنا تھا اس موقع پر بھی حضرت نے کرم فرمایا اورصدہا نہیں بلکہ ہزارہا مشغولیات کے باوجود رودولی تشریف لائے ۱۸؍ شعبان ۱۴۱۵؁ھ کا واقعہ ہے ، حضرت کی آمد چاہے جہاں کہیں ہو لوگوں کی بھیڑ امنڈ پڑتی ہے۔ بس لوگوں کو یہ یقین ہوجائے کہ حضرت آرہے ہیں رودولی میں جب جب قدم رنجہ فرمایا ، دیوانوں کاسیلاب امنڈ پڑا اوراس سلسلے میں وابستہ ہونے والوں کا تو حال نہ پوچھئے رودولی ، بارہ بنکی فیض آباد وغیرہ سے ہزاروں لوگوں نے غلامی کاشرف حاصل کیا۔ سچ تو یہ ہے کہ ایک نظر جس نے دیکھ لیا ۔ پھر کوئی دوسرا نظر میں جچتا ہی نہیں۔
رودولی شریف میں۲۴؍جمادی الآخرۃ ۱۴۰۰ھ میں سنی کانفرنس کے نام سے کچھ لوگوں نے ایک جلسہ کیااوررئیس اڑیسہ حضور مجاہد ملت مولاناشاہ حبیب الرحمن صاحب اڑیسوی م ۱۴۰۱ھ اورتاج الشریعہ، فقیہ اسلام ، جانشین حضور مفتیٔ اعظم ہند مفتی محمد اختر رضا خان ازہری میاں مد ظلہ العالی کومدعو کیا۔ جلسہ والوں کی بے توجہی اورافراتفری دیکھ کر میں نے ان دونوں بزرگوں سے گزارش کی کہ ہمارے یہاں تشریف لے چلیں۔ ان حضرات کی کرم فرمائی کہ دعوت قبول فرمالی، لیکن اس وقت مدرسے کی عمارت مختصر اورانتظامات بھی معقول نہ تھے۔ اس لئے مدرسہ سے متصل محمد عمر قریشی صاحب کے مکان میں دونوں بزرگوں کے قیام کا انتظام ہوا، صاحب خانہ کاکاروبار کلکتہ میں چلتاتھا وہ وہیں حضور مجاہد ملت کے دامن سے وابستہ ہوگئے تھے، صاحب خانہ کے صاحبزادے جاوید عمرصاحب نے کہاکہ میری والدہ بھی حضو ر مجاہد ملت سے مرید ہوناچاہتی ہے آپ حضرت سے گزارش کردیں کہ قبول فرمالیں، میں نے حضور مجاہد ملت سے عرض کیا ، حضرت نے فرمایا ، میاں! ’’سرکار اعلیٰ حضرت کے شہزادے حضرت ازہری میاں کی موجودگی میں ایسا کیسے ہوسکتاہے کہ میں مرید کروں، انہیںسے مرید کروائیے‘‘۔ چونکہ صاحب خانہ پہلے سے حضورمجاہد ملت کے دامن کرم سے وابستہ ہوچکے تھے، اس لئے اہلیہ بھی بضد رہیں کہ مجھے بھی حضرت کی کنیزوں میں داخل کرائیے۔ بااصرار میں حضرت کو راضی تو کرلیا مگر گھر کے اندر جانے کاجوراستہ تھا وہ حضور ازہری میاں کی قیام گاہ سے ہوکر گزرتاتھا ۔ حضرت نے فرمایا کہ میںحضرت ازہری میاں صاحب کے سامنے سے ہوکر کیسے گزر سکتاہوں اخیرکار عقبی دروازے سے حضرت اندر تشریف لے گئے اورفرماتے تھے کہ کوئی تیز آواز میں نہ بولے کہ حضرت ازہری میاں تشریف فرماہیں ، آہستہ بولو شہزادے قیام فرماہیں‘‘۔
اللہ اکبر میں دیکھ کر دنگ رہ گیا ، کہاں ایک اسی سال کی عظیم المرتبت شخصیت جن کاعالمانہ وقار اورمجاہدانہ شان کا زمانہ خطبہ پڑھتا ہوایک تیس پینتیس سال کے شہزادے کاکتنا احترام اورادب فرمارہے ہیں۔
’’ یہ ہمارے بزرگوں اوراسلاف کا طریقہ رہا ہے کہ ہمیشہ وہ نسبتوں کااحترام فرماتے ، ان کے سامنے اپنی بڑائی اورشخصیت کاڈنکا نہ بجاتے بلکہ ان کے حکموں کو بجالانے میںخیر اورصلاح وفلاح سمجھتے، ہمارے اسلاف کے یہی وہ طرز عمل تھے جن کی بدولت جماعت متحد تھی لیکن جب سے ہرشخص اپنے آپ کو بڑا سمجھنے لگاہے اورہر چھوٹا بڑاطعن و تشنع کودینی فریضہ اورزبان وقلم کو حریت کانام دینے لگا ہے اتحاد پارہ پارہ ہوکر رہ گیا ہے‘‘۔
اللہ تعالیٰ حضور تاج الشریعہ کاسایہ دراز فرمائے، مرکز اہل سنت بریلی کے وقار کوبلند فرمائے جملہ شہزادگان کو اعلیٰ حضرت کا سچا جانشین بنائے اورمعاندین وحاسدین کی آگ کوٹھنڈی کردے آمین۔

Menu