حضورتاج الشریعہ ، کچھ یادیں کچھ باتیں

پروفیسر محمد افروز قادری ، کیپ ٹاؤن ، ساؤتھ افریقہ


اعلیٰ حضرت مجدد دین وملت امام احمد رضاخاں محدث بریلوی اور خانوادۂ رضویت سے ہمارا تعلق بڑاگہرااور اٹوٹ ہے؛کیوں کہ شعور کی آنکھیں کھولنے کے بعدہم نے اپنے گھرانے سے زیادہ اس خانوادے کا چرچاسنا،اور اپنے آبائواجداد سے بڑھ کر اس گھر کے اکابرین کی عظمتیں ہمارے کانوں میں پڑیں،گویااس خانوادہ سے رشتہ ولگائوکی لہر ہماری نس نس میں دوڑ گئی ہے،اور اس گھرکے اکابرین کی ناموس پر جذبۂ فدائیت قلب ونظر کی گہرائیوں تک اُترگیاہے؛اور کیوںنہ ہو کہ یہ ہمارے تحفظ ایمان کی چھائونی اور ہمارے عشق وعقیدت کی راجدھانی ہے۔ تاج الشریعہ علامہ مفتی اختررضاخان معروف بہ ازہری میاں قبلہ چوں کہ اسی خانوادے کے لاڈلے چہیتے اورچشم وچراغ ہیں؛اس لیے ان سے انس ولگائو فطری بات ہے۔ تاج الشریعہ کون ہیں ؟اور کیاہیں؟؟ اس حوالے سے اس میگزین میں آپ کو بہت کچھ پڑھنے کو ملے گا۔ مجھے حضرت کو قریب سے پڑھنے دیکھنے اور سننے کے مواقع بہت کم میسر آئے، جس کا مجھے کافی قلق رہاتھا، پھر اللہ کے کیے سے جب تقرریِ اساتذہ کے سلسلہ میں جامعۃ الرضا میں ہوئے انٹرویو کے بعد مجھے وہاں مدرسِ اول کی حیثیت سے شرفِ تدریس کے پیغمبرانہ منصب پرسرفرازی نصیب ہوئی،تو پھر وہ حسرت وکسک جاتی رہی ۔اور پھر بہت قریب سے حضرت کو سننے دیکھنے پڑھنے اور لکھنے کاموقع ہاتھ آگیا۔میری حضرت سے ملاقات کا کل اَثاثہ یہی ’جامعۃ الرضا‘ بریلی شریف ہے اور بس۔ کہتے ہیں ناکہ نسبت بڑی لجپال ہوتی ہے۔ واقعتا اگر یہ نسبت رضویت بیچ میں حائل نہ ہوتی تو شاید یہ لمحاتِ سعادت میسرنہ آتے۔نسبت کی سربلندی کے حوالے سے پیرشاہ گولڑوی کے عشق بھاتے مندرجہ ذیل اشعار دیکھیںجن پر داد وتحسین نہ دینا اپنے ذوقِ شعری کومشکوک ٹھہراناہے ؎

نسبتوں سے نہ اگر ہو تو محاسن بھی گناہ

وہ شفاعت پہ ہوں مائل تو جرائم بھی قبول

داعی مشرب توحید بھی یہ بات سنے

شایدآجائے اسے رأس یہ حرفِ معقول

صرف توحید کا شیطان بھی قائل ہے مگر

شرطِ ایماں ہے محمد کی اطاعت‘ یہ نہ بھول

حضرت جامعۃ الرضا کو مدارس کی موجودہ سطح سے ہٹ کر کچھ انوکھے انداز میں منصہ شہود پر لانا چاہتے تھے ، دیکھیں نا ! جامعہ کی فلک بوس اور نادرِ روزگار عمارتیں اپنی انفرادیت کا منہ بولتا ثبوت نہیں ہیں؟کچھ یوں ہی۔ اس حوالے سے آپ کافی متفکررہاکرتے تھے،بلکہ حضرت اسے جدیدنافع اور قدیم صالح کا سنگم بناناچاہتے تھے۔ اورشاید یہی احساس‘ نقاہت کے باوجود بار بار حضرت کو جامعہ آنے پر مجبور کرتاتھا۔جامعہ آتے ہی حضرت تعلیمی سرگرمیوںکی بابت تفصیلات معلوم کرناشروع کردیتے،جملہ شعبوں کاجائزہ لیتے اورپھر ان میں بہتری لانے کے زرین اصول بیان فرماتے تھے۔ طلبۂ مدارس میں اخلاق وکردار کی گراوٹ کاحضرت کوکافی احساس تھااوراس کی تدارکانہ کوششوںمیں کوئی کسرروارکھنے کو عظیم جرم تصورفرماتے تھے۔کبھی جھنجھلا کر گویاہوتے کہ تعلیم پر ہم جتنا زور دیتے ہیں اگر تربیتِ اطفال اورکردارسازیِ طلبہ پر اس کی عشرعشیرمحنت بھی صرف کرتے توکب کا جماعت میں انقلابِ صالح آچکا ہوتا،اور دعوت وتبلیغ کی کمی کااحساس‘ ندامت سے ہمارے سرنہ خم کرواتا۔ اس لیے میری دیرینہ خواہش ہے کہ یہ جامعہ جہاں تعلیم کے میدان میں اپنی نظیر آپ ہو وہیں تربیت کے حوالے سے بھی اسے طاق ہونا چاہیے؛تاکہ یہاں ظاہری علوم کے ساتھ ساتھ باطنی سج دھج کا بھی سنہرا اہتمام وانتظام ہوکہ یہی ثمرعلم اور مغزحکمت ہے۔
ایک مرتبہ حضرت دہلی سے اپنی واپسی پر شام کے وقت خلافِ معمول اَچانک جامعہ کی چہار دیواری میں وارد ہوگئے اور اس وقت ہم جملہ طلبہ کی معیت میں بیٹھ کرمخصوص اندازولے میں ’’ افضل الذکر ‘‘کاورد ،اور ساتھ ہی قصیدۂ بردہ کے منتخب اشعار پڑھ پڑھ کرفکرو نظر کی جلاسامانی کررہے تھے اور خدا وند قدوس سے دلِ بینا طلب کررہے تھے؛ کیوں کہ دل کا نور آنکھ کا نور سے مختلف ہواکرتاہے۔بقول اِقبال ؎

دلِ بینا بھی کر خدا سے طلب
آنکھ کانور دل کا نور نہیں

یقین مانیں حضرت اتنے لمبے سفرکی تکان کے باوجود باہر کھڑکی سے لگے کھڑے ہمارا ذکرسنتے رہے، پھر اختتام پر اندرتشریف لاکر ارشادفرمایا: مولانا! مجھے خوشی ہے کہ آپ نے تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کی بھی خشت اوّل رکھ دی ہے، مجھے امید ہے کہ یہ ورد -انشاء اللہ- دلوں کے زنگ چھڑا دے گا،جہالت کی تاریکیاں مٹا دے گااورقلب وباطن کو علم نافع کے ساتھ عمل صالح کے لیے آمادہ وتیار کردے گا۔بس آپ اسے تسلسل کے ساتھ کرتے رہیں باقی تاثیروتوفیق اللہ کے ہاتھ میں ہے۔حضرت کی خواہش وفرمائش کے مطابق جامعہ میں اپنے قیام کے آخری دن تک میں نے اس عمل خیر کو بلا ناغہ قائم ودائم رکھا۔اس وردکے روحانی فوائد کے ساتھ ظاہری فائدے یہ تھے کہ اس کی برکت سے ہر کسی کو نمازِ مغرب تکبیر اولیٰ کے ساتھ پڑھنے کی سعادت حاصل ہوجاتی تھی۔ورنہ ہمارے یہاں مدرسوں میںعصر کے بعد چہل قدمی کی کہنہ روایت کتنوں کی نماز مغرب سرے سے ہڑپ کر جاتی ہے یا کم از کم تکبیراولیٰ تو ضرور چھڑوادیتی ہے۔(وجہ اس کی یہ ہے کہ یہ کہنے کو توچہل قدمی ہوتی ہے مگر حقیقت میں ہزار قدمی ہوتی ہے،صرف چہل قدمی پراکتفا کیاجائے تو شایداس کی نوبت نہ آئے)۔اس کے تدارک کی یہ ایک کامیاب کوشش تھی۔اور جنوبِ ہند کے بیشتر مدارس میں آج بھی یہ عمل خیر پوری تب وتاب کے ساتھ جاری وساری ہے۔نہیں معلوم کہ اس اَنمول ذکر کی مدھر مدھر آوازوں سے مرکز کے درودیوار آج بھی محظوظ ہورہے ہیں یا نہیں۔اللہ ہمیں ایسا کچھ کرنے کی توفیق رفیق حال کردے ساتھ ہی طلبہ کی کردار سازی میں کرارارول اداکرنے کی ہمت نصیب فرمائے۔
میں نے بریلی میں اپنے قیام کے دوران یہ دیکھا کہ اگر حضرت کو کوئی باذوق اور علم دوست شخص مل جاتا تو حضرت اپنی عالمانہ اور مدللانہ گفتگو کی برکت سے نقاہت کے باوجود جوانِ رعنامعلوم ہونے لگتے تھے،اور معرفت وحکمت کے ایسے ایسے رازہاے سربستہ کی گرہ کشائی فرماتے کہ حیرتوں کو پسینہ آجائے بس سنتے رہیے، جی چاہے کہ بس انھیں کے قدموں میں پڑ رہیے۔ میںیہ بات کسی ملامت گواور ہرزہ سرا کی پرواکیے بغیر علیٰ رئووس الاشہاد کہہ رہاہوں کہ حضرت کو بھی اگر اعلیٰ حضرت جیسے رفقاے کار اور شریک ہاے افکار اورحضراتِ اخیار وابرارخیرسے میسر آجاتے تو آج پیری و مریدی سے کہیں زیادہ تحریری میدان میں حضرت کاطوطی بول رہاہوتامگر براہو کچھ عاقبت نا اندیشوں کا جنھوںنے خوفِ خدا اور شرمِ نبی کو دونوں کو بالائے طاق رکھ کر حضرت کو محض اور محض پیر بناکر رکھ دیا۔یہ نہ صرف میرا پوری جماعت کا دردہے کاش وہ لوگ بھی اس درد سے آشنا ہوجاتے؛بلکہ اس بات کا حضرت کو بھی شدت سے احساس تھاجس کااظہاردوچند نہیں درجنوں بار حضرت نے دردانگیز اور حسرت آمیز انداز میں فرمایا۔مجھے یاد آتاہے کہ جس وقت اہلاک الوہابیین اور احکام التصویر کی تعریب مکمل ہوئی تو حضرت کا روے انور ایک طرف جہاں خوشی سے ٹمٹمارہاتھا وہیں دوسری طرف غم والم کی لکیریں بھی جبین نیاز پر سلوٹیں لے رہی تھیں جس کا صاف مطلب یہی تھا کہ مجھ سے اس طرح کے علمی کام میرے عہد شباب میں کیوں نہیں لیے گئے مجھے پیر محض بناکر کیوں رکھ دیا گیا۔
خانوادۂ رضویت صدیوں سے عالم اسلام کو سلف صالحین کے سچے افکاروعقائد کی کمک فراہم کررہاہے ۔یہ گھرانہ علم وفکر،حکمت وبلاغت ، فقہ وافتااوردرس وتدریس کے اعتبار سے ممتاز گھرانہ رہاہے۔ حضرت مستقل درِ دولت پر درسِ بخاری دیاکرتے تھے،اور یہ مبارک سلسلہ برسوں سے چلا آرہاہے۔میں اس درس سے استفادے کی ہر ممکن کوشش کرنے کے باوجوداُس سے محروم رہاجاتاتھا؛چوں کہ حضرت کادرس سرصبح ہواکرتاتھااور یہ وقت جامعہ میں خود ہمارے درس کاہوتا تھا۔ ہاں! جب شش ماہی نصاب مکمل ہوگیااورراحت کے کچھ لمحات ملے تو ہم بلاناغہ حضرت کے درس میں شریک ہونے کی غرض سے درِ دولت پر حاضر ہونے لگے۔ درس کیا ہوتا تھاجیسے علم وحکمت کی نہریں بہہ رہی ہوں، دلائل وشواہد کے دھارے چھلک رہے ہوںاور تحقیقات وتدقیقات کی بھرنیں برس رہی ہوں۔ بخاری شریف کے علاوہ بھی کئی منتہی کتابیں حضرت کے درس میں شامل تھیں۔ہم جیسے عجمیوں کے مبلغ علم کودیکھتے ہوئے حضرت کے یہ دروس اُردو میں ہوا کرتے تھے۔ ورنہ بخاری شریف پر حضرت کا بزبانِ عربی پرزور حاشیہ حضرت کی جودتِ طبع،مکانت علمی اور قوت استحضار کامنہ بولتاثبوت ہے۔ ہر زبان میں حضرت کی طوطی بولتی ہے۔ اردووفارسی وعربی اور انگلش میں الفاظ کے دروبست اورجملوں کی سجاوٹ دیدنی اورشنیدنی ہوتی ہے۔ایک شہادت دیکھیں۔
کسی موقع پر میں نے حضرت سے قصیدۂ بردہ شریف پڑھنے کی اجازت طلب کی تو حضرت نے زبانی عنایت فرمادی۔ میں نے عرض کیا ۔حضور! تحریری درکار ہے۔فرمایا تب لکھئے میں اس پر دستخط کیے دیتا ہوں۔میں نے لکھنا شروع کیا، حضرت نے فی البدیہہ ایسا مقفّی اور مسجع اجازت نامہ املا کروایا کہ میں تو عش عش کراُٹھا۔ذرا جملوں کے زیروبم دیکھیںبلکہ سیاق وسباق کی تفہیم کے لیے پورااجازت نامہ ہی نقل کیے دیتاہوں :
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم ، الحمد للّٰہ الملک المنعام ، و الصلوٰۃ و السلام علی سیدنا محمد النعمۃ المہداۃ رحمۃ للأنام ، و علیٰ آلہ الکرام ، و صحبہ العظام ، و من تبعہم باحسان الی قیام الساعۃ و ساعۃ القیام ، و بعد !
فقد استجزت لقراء ۃ ’بردۃ المدیح‘ فہـا أنـا ذا اجیز المستجیز – محمَّد افروز قادری جریاکوتی- بہا و بکل ما اجزت من مشائخی الکرام -رحمہم اللہ تعالیٰ-
و أسئل اللّٰہ -سبحانہ وتعالیٰ- أن یسدد خطای و خطاہ و یوفقنا بما یحبہ و یرضاہ و اوصیہ بملازمۃ السنۃ و مصاحبۃ أہلہا و مجانبۃ البدعۃ و مفارقۃ أہل الہویٰ و الاستقامۃ علی نہج الہدیٰ ۔
علاوہ ازیں حضرت کی تعریبات بھی زبان وبیان کے قیمتی گہنوں سے سجی دھجی ہیں۔ان کے مطالعہ سے بھی عربی آشناذوق سلیم سیراب ہوسکتے ہیں۔
درس میں سعادتِ شرکت حاصل کرنے کے بعد پھرحضرت نے مجھے مستقل طور پرطلب فرماناشروع کردیا۔ میں ہر روز جامعہ سے درِ دولت پرحاضر ہوجاتا۔عموماً حضرت اِملا کرواتے تھے،ہم نے ’’اہلاک الوہابیین‘‘ کی تعریب شروع کی اور ابھی چند روز بھی نہ بیتنے پائے تھے کہ پایہ تکمیل کو پہنچ گئی۔فالحمد للہ۔ ادھر ہماری تعطیل بھی مکمل ہوگئی اور ہم پھر جامعہ کے اُمور تعلیم وغیرہ میںاُلجھ کر حضرت کی صحبت سے محروم ہوگئے۔ اس بیچ حضرت طلبہ دارالافتا کی معاونت میں شاید المعتمد المستند کے ترجمے میں لگے رہے نیز ’’اخلاص نیت‘‘ وغیرہ کچھ اپنی کتابیںتعریب فرمائیں۔ پھر جب ہمارا کاروانِ تعلیم انتہاے سال کے قریب پہنچ گیا تو ایک بار پھر ہمیں حضرت کے قرب کی دولت نصیب ہوگئی اور ہم شایداحکام التصویریافقہ شہنشاہ کی تعریب میں جٹ گئے،یہ کام بھی الحمد للہ چند ہی دنوں میں تکمیل آشناہوگیا۔بلاشبہہ خداے بخشندہ نے حضرت کو خزانۂ علم وعزت سے حصہ وافرعطاکیاہے،اور ان کے وقت میں بے پایاں برکتیں بھی رکھی ہیں۔کہتے ہیں کہ جہاں صالحین کا صرف ذکرچھڑ جائے وہاں رحمتوں کی پروائیاں چلنے لگتی ہیں توپھر جہاں بندۂ صالح تشریف فرماہوکرحکمت وآگہی کی خیرات بانٹے جارہاہوبھلا وہاں رحمت وبرکت کی کیفیت کو کون بیان کرسکتاہے۔کچھ وہی کیفیت اور خمار مجھ پر بھی طاری ہے کہ میں نے حضرت کے قرب میں کیاکچھ پایانہ قلم کو یاراے تحریر ہے اور نہ زباں کو تابِ بیاں۔
اس دوران میں خود بھی حضرت کی معرکۃ الاراتصنیف’’مرأۃ النجدیۃ‘‘ کواُردو میں منتقل کررہاتھا کوئی نصف تک پہنچا ہوں گا کہ پھر آج تک اس کی تکمیل کی توفیق نہ ہوئی۔خیر!پھر ایک دن آیاکہ حضرت نے مجھے بطورِ خاص بلوایااور جبہ ودستار کے ساتھ سند خلافت عطا فرماکر مجھے مفتخرکیا۔اس وقت حیرت ومسرت کی جوکیفیت مجھ پر طاری تھی اس کی تعبیربھی حرف وصوت سے ممکن نہیں۔ حیرت اس لیے کہ اسی سوداگران میں کتنے لوگ لبادۂ علمی اوڑھے خلافت کی بھیک لینے کے لیے مدتوں سے حضرت کی چاکری اختیار کیے ہوئے ہیں مگر حضرت ان پر کوئی توجہ نہیں فرمارہے ہیں۔اورمسرت یوں کہ مجھ جیسے حقیر بے توقیر کو دور سے بلواکرایساعظیم وجلیل اعزازبخشے جارہے ہیں۔فالحمد للّٰہ علی ذالک

گرچہ خردیم نسبتے ست بزرگ
ذرہ آفتاب تابانیم

اللہ سبحانہ وتعالیٰ اسلام کے اس مردِ جلیل کو جگ جگ سلامت رکھے، اس کے فیوض وبرکات سے ایک زمانہ کومتمتع فرمائے،اوراس کے علم وفکر،فقہ وافتا اور تقویٰ وطہارت کا کوئی سچا وارث پیدا فرمائے۔

آمین یارب العالمین بجاہ سید المرسلین۔ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ و صحبہ وسلم۔

Menu