تاج الشریعہ کے چند اوصاف حمیدہ
مولانا عبد السلام رضوی ، بریلی شریف ، انڈیا
فقیہہ الاسلام،تاج الشریعہ،حضرت علامہ مفتی محمد اختر رضاخاں صاحب قبلہ قادری متعنا اللہ بطول حیاتہ المبارکہ ان شخصیات میںسے ایک ہیں جو بلاشبہ دنیائے اہل سنت وجماعت کے لئے قیمتی سرمایہ کی حیثیت رکھتی ہیں اور جن کے علمی وروحانی فیض سے ایک عالم مستفید ہورہاہے۔ آپ مرجع خواص وعوام ہیں۔ آپ کے روئے زیبا کے دیدار سے آنکھوں کو ٹھنڈک اوردلوں کو قرار حاصل ہوتاہے، جہاں پہنچتے ہیں لوگ پروانہ وار جمع ہوجاتے ہیں اور آپ کے دستہائے اقدس کاایک لمس حاصل کرنے کے لئے دیوانہ وار ٹوٹ پڑتے ہیں۔ امام اہلسنت اعلیٰ حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علوم کے سچے وارث اورتاجدار اہلسنت حضور مفتی اعظم ہند رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سچے قائم مقام ہیں۔
بزم اہل سنن کی ضیاء آپ ہیں
وارث مصطفی ورضا آپ ہیں
اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کو غیرمعمولی صفات و کمالات سے نوازا ہے۔ آپ قوی الحافظہ ، ذکی الطبع، وسیع المطالعہ، کثیرالمعلومات، دقیق النظر ، عظیم خطیب، باکمال مصنف وسخنور، صاحب رعب ووجاہت، مقبولِ خلائق، جید ومتبحر عالم دین اور عظیم مفتی ٔشرعِ متین ہیں۔ آپ کی جو عظیم خوبیاں ایک ایک جملہ میں بیان کی گئیں اب مشاہدات اورمعتبر روایات کی روشنی میں ان میں سے بعض کی تفصیل ذکر کی جاتی ہے۔
قوت حافظہ:
ستمبر۱۹۸۸ء کی بات ہے کہ حضور تاج الشریعہ صوبہ راجستھان کے شہر چورو تشریف لے گئے تھے۔ ہمرکابی میں جناب محترم ڈاکٹر عبدالنعیم صاحب عزیزی بھی تھے۔آپ کے نورانی چہرے کی دید اور آپ کاخطاب سننے کے لئے شہر چورو اورقرب وجوار کے علماء وعوام جوق درجوق حاضرہوئے تھے اورکثرت سے آپ کے دست مبارک پر سلسلہ ٔ عالیہ قادریہ رضویہ میں داخل ہوئے تھے۔عجیب روح پرور منظر تھا۔ فرزندان اہلسنت خصوصاً وابستگان سلسلہ ٔ عالیہ رضویہ کے قلوب جذبات مسرت سے لبریز اورچہرے روشن اور کھلے ہوئے تھے ۔
شب کے عظیم الشان اجلاس میں آپ نے خطبہ مسنونہ کے بعد کچھ اس طرح ارشاد فرمایا تھا: تقریر کے لئے بھی اصرار ہے اورنعت پاک سنانے کی بھی فرمائش ہے اورذہن سفر کی تکان اورنیند پوری نہ ہونے کی وجہ سے بوجھل اورخمار آلود ہے۔ آپ کا یہ فرماناتصنع وتکلف کے طور پر نہ تھا بلکہ اظہار حقیقت تھااس لئے کہ آپ نے رات میں بریلی شریف سے دہلی کا سفر کیاتھااوروہاں سے صبح ساڑھے سات یاآٹھ بجے ٹرین پر سوار ہوکر تین بجے چورو پہنچے تھے اوراہل عقیدت ومحبت کے پرجوش اورشاندار استقبال ، پھر قیام گاہ پر لوگوں کی لگاتار آمدورفت کی وجہ سے آرام کاموقع نہیں ملاتھا ، اس کے باوجود آپ نے مدلل ومبرہن،حکمت و نکات سے بھرپورایمان افروز اورتصلب بخش خطاب فرمایا اورخطاب سے پہلے ایک نعت پاک بھی سنائی۔بعض لوگوں نے یہ نعت پاک ریکارڈ کی تھی۔ میرے پاس بھی اس نعت پاک کی کیسٹ تھی جسے میں نے کئی بار سنا۔ میری یاد کے مطابق یہ نعت شریف سترہ اٹھارہ اشعار پرمشتمل ہوگی لیکن ذہن کے بوجھل اورخواب آلود ہونے کے باوجود آپ نے پوری نعت پاک زبانی اورمسلسل پڑھی ۔ صرف ایک شعر میں معمولی سی جھجھک ہوئی اس کے علاوہ نہ کہیں جھجھکے نہ کہیں سوچنے کی ضرورت پیش آئی اورنہ کہیں مصرعوں کی ترتیب میںکوئی خلل واقع ہوا۔
عام طور پر نعت خوانوں کاطریقہ ہے کہ وہ سامعین سے داد و تحسین کے خواہشمند رہتے ہیں اورطرح طرح سے داد وتحسین کامطالبہ کرتے ہیں۔ مثلاً آپ حضرات سے گزارش ہے کہ جو شعر پسند آئے اس پر سبحان اللہ ماشاء اللہ کہہ کر اپنی پسند کااظہار کیجئے یاشعر حاصل نعت ہے اس پر بھی آپ خاموش رہے تو میںایسا سمجھوں گا ویسا سمجھوں گا ، اگر آپ لوگ سننے کے موڈ میں نہیں ہیں تومیںمائک چھوڑدوں ؟ وغیرہ وغیرہ۔
اس کے برعکس حضور تاج الشریعہ نے بالکل اسی انداز میں نعت پاک پڑھی جیسے قصیدہ ٔبردہ شریف پڑھاجاتا ہے یعنی نہ آپ نے شروع میں حاضرین سے فرمایا کہ مطلع سماعت فرمائیں نہ درمیان میں فرمایا کہ یہ شعر خصوصی توجہ کاطالب ہے یایہ شعر حاصل نعت ہے نہ اشارۃ ًکنایۃً داد و تحسین کامطالبہ فرمایا اورنہ کسی کی واہ واہ کی طرف التفات فرمایا۔ ہاں درمیان میں ایک شعر کی وضاحت اوراپنی بات پر دلائل ضرور پیش فرمائے۔ ایسامعلوم ہوتاتھا جیسے آپ نے روضۂ انور کاتصورکرلیاہواوراپنے آقا سرکاردوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بارگاہ عظمت میںاپنی عقیدتوں کی نذرپیش فرمارہے ہوں۔ اتفاق سے نعت پاک کی ردیف بھی خطابیہ تھی یعنی ’’آپ ہیں‘‘۔
البتہ یہ کلام کی خوبی اورتاثیر تھی کہ منبر پرجوعلماء ،دانشور اورشعرا تشریف فرماتھے کہ ان پر وجد کی کیفیت طاری تھی اوروہ داد دیتے نہ تھکتے تھے۔ بلکہ حضرت پیر سید محمد انوار ندیم القادری صاحب مدظلہ العالی نے تواپنی پسند اورجذبہ کایوںاظہار کیاتھا: حضورآپ صبح تک اسی طرح پڑھتے رہیں اور ہم سنتے رہیں۔ حضرت موصوف ایک ذی علم خانوادۂ سادات کے چشم و چراغ اورشہر چورو کی مرکزی شخصیت ہیں ۔ طلیق اللسان وولولہ انگیز مقرر اور خوش فکر و سخن فہم شاعر ہیں ۔ طبابت کاپیشہ کرتے ہیں اور اپنے فن میںحاذق وماہر ہیں۔ خودداری، وسیع الاخلاقی، کشادہ ظرفی اور ملنساری جیسے اوصاف کے حامل ہیں۔اس وقت چورو کے مرکزی دارالعلوم مدینۃ العلوم کے نائب ناظم تھے اور آج کل ناظم اعلیٰ ہیں۔
اس وقت اس نعت پاک کاصرف مقطع یاد آرہا ہے جو درج ذیل ہے۔
بردرتـ آمد گدا بہرسوال
ہوبھلا اختر کاداتا آپ ہیں
۱۴۲۵ھ میں مکہ مشرفہ سے حضرت علامہ سید محمد علوی مالکی مکی حسنی بریلی شریف تشریف لائے تھے۔حضور تاج الشریعہ کے قائم کردہ ادارے ’’مرکزالدراسات الاسلامیہ جامعۃ الرضا‘‘میںحضرت موصوف کے لئے استقبالیہ بزم کا انعقاد کیاگیاتھا۔ ادیب شہیر حضرت علامہ یٰسین اختر صاحب مصباحی بانی دارالقلم ذاکر نگر دہلی اورحضرت علامہ شمس الہدیٰ صاحب مصباحی استاذ الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور بھی ساتھ میں تھے۔ مقامی علمائے کرام اورجامعۃ الرضا کے علاوہ جامعہ نوریہ رضویہ وغیرہ کے طلبا اور شہر کے مخصوص حضرات بھی اس محفل میںشریک ہوئے تھے۔ اس موقع پر حضور تاج الشریعہ نے لسان الفردوس میںاپنی کہی ہوئی طویل حمد پیش فرمائی تھی اوراسی شان سے جس کا ذکر ہوا یعنی نہ کہیں جھجھک نہ وقفہ نہ سوچنے کی نوبت اورنہ ترتیب میں کوئی سہو۔ بریلی شریف سے واپسی کے چند ماہ بعد ۱۵؍ رمضان المبارک ۱۴۲۵ء کومکہ مکرمہ میںحضرت علوی مالکی نے وصال فرمایا۔ رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ۔
جناب ڈاکٹر افسر رضاخاں صاحب نوری پرتاپوری مدرس جامعہ نوریہ رضویہ بریلی شریف نے راقم اورچند دیگرحضرات کے سامنے بیان کیاکہ پندرہ سولہ سال پہلے کی بات ہوگی کہ میں حضرت منانی میاں صاحب قبلہ مدظلہ العالی کے ہمراہ دہلی گیا۔ رات میں قیام محلہ ذاکر نگر میں جناب حافظ محمد زبیر صاحب نوری کے دولت خانہ پرہواتھا۔ وہاں پہنچنے پر معلوم ہوا کہ حضور تاج الشریعہ بھی یہیںقیام فرماہیں۔صبح کو دست بوسی اورکچھ دیر ہم نشینی کاشرف حاصل ہوا۔ اس وقت آپ نے بیرونی ممالک ہالینڈ، امریکہ اوربرطانیہ وغیرہ کے متعدد لوگوں سے پی این ٹی کے ذریعہ گفتگو فرمائی اس وقت موبائل کارواج نہیں ہواتھا۔ یہ مجھے آپ کی گفتگو سے معلوم ہواکہ یہ فون ان ممالک کے باشندوںکوکئے جارہے ہیں۔ مجھے سخت تعجب ہوا کہ آپ نے رابطہ کرتے وقت نہ ڈائری کاسہارالیا اورنہ ہی نمبر ڈائل کرتے وقت آپ کو سوچنا اورذہن پر زور دیناپڑا۔ بلکہ ایک صاحب کی گفتگو پوری ہوتی اورفوراً دوسرے صاحب کانمبر ڈائل کردیا۔ دوسرے سے بات مکمل ہوئی اورمتصلاً تیسرے کانمبر لگادیا۔
حضرت مولانا مفتی قاضی شہیدعالم صاحب مدظلہ العالی استاذ ومفتی جامعہ نوریہ رضویہ، بریلی شریف نے حضور تاج الشریعہ کے حافظہ کی قوت کاذکر کرتے ہوئے فرمایا: کہ ایک مسئلہ کے تعلق سے بات آئی توآپ نے بلاتکلف وہ پوری عبارت پڑھ دی۔
آپ ہی کابیان ہے کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت سے ایک عبارت کے بارے میں سوال کیاتوآپ نے ٹھہر ٹھہر کر وہ پوری عبارت سنادی۔ اورفرمایا کہ یہ عبارت کتاب’’حقۃ المرجان‘‘ کی ہے اوریہ کتاب میں نے دس برس پہلے دیکھی تھی۔ یہ آپ کی غیرمعمولی اورنادرالمثال قوت حافظہ کے چند نمونے ہیں۔
زکاوت وذہانت:ذکاوت وذہانت کی یہ شان ہے کہ حضرت قاضی صاحب مدظلہ العالی ہی کا بیان ہے کہ حضور تاج الشریعہ ضعف بصارت کی وجہ سے خود تو لکھنے پڑھنے سے معذور ہیں لیکن تفسیر، حدیث اورفقہ وغیرہ کی معیار ی کتابیں گھنٹوں گھنٹوں پڑھوا کرسنتے ہیں اورموقع بموقع فرماتے رہتے ہیں : اس عبارت سے فلاں اشکال رفع ہوگیا، یہ فلاں اعتراض کاجواب ہے، اس جملہ نے اس امرکاافادہ کیا ، اس قید میں یہ حکمت ہے وغیرہ وغیرہ۔اس روایت کی روشنی میں جہاںآپ کی غیرمعمولی ذکاوت و ذہانت کاپتہ چلا وہیں یہ بھی معلوم ہواکہ آپ کو اس ضعف ونقاہت کے عالم میں بھی کتب دینیہ سے کس درجہ شغف ہے۔
حضور تاج الشریعہ نے بخاری شریف پراپنا لکھا ہوا حاشیہ تبییض اورکمپوزنگ کے واسطے حضرت مولانا محمد حنیف خاں صاحب قبلہ مدظلہ العالی مولف جامع الاحادیث کوسپر د فرمایاتھا۔ موصوف اس سلسلہ میں کچھ بات کرنے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے۔ ساتھ میں راقم بھی تھا ۔ ہم نے دیکھا کہ آپ سرکاراعلیٰ حضرت کے اردو رسالہ ’’حاجزالبحرین ‘‘ کاعربی ترجمہ املا کرارہے ہیں ۔ یہ رسالہ کے آخری حصہ کا ترجمہ تھا۔ آپ اس کام میں اس قدر منہمک تھے کہ ہمارے سلام کے جواب کے علاوہ آپ نے ہم سے کوئی کلام نہ فرمایا۔ جب ترجمہ سے فراغت ہوئی تب ہماری جانب ملتفت ہوئے۔
ترجمہ کاطریقہ یہ تھاکہ املاکنندہ ’’حاجزالبحرین‘‘کا ایک جملہ پڑھتے۔ یہ جملہ مختصر بھی ہوتا اور کبھی طویل بھی ہوتااورحضور تاج الشریعہ فی البدیہہ اورگاہے معمولی سے توقف کے بعد اس کا عربی ترجمہ ارشاد فرمادیتے اور وہ قلم بندکرلیتے۔کبھی کبھی جملہ کو دوبارہ پڑھنے کے لئے فرماتے پھر ترجمہ فرماتے۔ ہماری موجودگی میںاندازہ یہ ہے کہ آپ نے مذکورہ رسالہ کے کم و بیش نصف صفحہ کاترجمہ املاکرایاہوگا لیکن ایسانہیں ہوا کہ آپ نے ترجمہ املا کرادیا ہواور پھر اس کومحو کرانے کے بعد دوسراترجمہ لکھوایاہو یابولے ہوئے ترجمہ میں کچھ حکّ واضافہ کیاہو۔ یہ آپ کی اعلیٰ درجہ ذہانت ہے کہ اردو جملہ بھی ذہن میں رہتا اورپہلی ہی بار میںاس کا درست ترجمہ بھی لکھوا دیتے۔
ترجمہ کرنے والے سمجھ سکتے ہیں کہ اصل عبارت مترجم کے سامنے ہواور وہ خودترجمہ لکھے دریں صورت ترجمہ کرنے میں آسانی ہوتی ہے بر خلاف اس طریقے کے کہ عبارت دوسرا بولے اورمترجم ترجمہ املاکرائے۔
وجاہت:
اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کو ایسی وجاہت عطافرمائی ہے کہ جس مجلس میں رونق افروز ہوتے ہیںنوشۂ بزم اورحاضرین کامقصود نظر آپ ہی کی ذات گرامی ہوتی ہے اگرچہ مجلس میں دیگر اکابر علماء اوراعاظم مشائخ تشریف فرماہوں۔ ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشاء۔
گزشتہ سطور میں حضرت علامہ سید محمد علوی مالکی علیہ الرحمۃ والرضوان کی بریلی شریف آوری اورجامعۃ الرضا میں آپ کے لئے استقبالیہ محفل کا ذکر ہوچکا ہے۔ اس محفل میںحضور تاج الشریعہ کی آمد اس وقت ہوئی تھی جب کہ حضرت موصوف اوردہلی سے آپ کے رفیق سفر حضرت علامہ یٰسین اختر صاحب اورحضرت علامہ شمس الہدیٰ صاحب محفل میں تشریف لاچکے تھے۔یہ محفل حضرت علامہ سید علوی مالکی ہی کے اعزاز میں سجائی گئی تھی اوراس وقت علماء و طلبہ کی یہاں آمد کامقصد آپ ہی کی زیارت تھی اور آپ کوئی معمولی شخصیت نہ تھے بلکہ اپنے حسب و نسب ، اپنے علم ، تصنیفات اوردیگر علمی و دینی خدمات کی وجہ سے عظیم شخصیت کے مالک تھے۔ حجاز مقدس میںآپ کو دینی وجاہت ومقبولیت حاصل تھی اورعالم اسلام میں بھی آپ کو قدر ومنزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا لیکن سچی بات یہ ہے کہ جب حضور تاج الشریعہ سرمبارک پر بھاری بھرکم عمامہ کاتاج سجائے ہوئے محفل میں تشریف لائے توایسالگاکہ نوشۂ بزم اورمقصودِ محفل آپ ہی ہیں اوربقول میرؔ
وہ آئے بزم میں اتناتو میر نے دیکھا
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی
محب گرامی منزلت حضرت مولاناعزیز الرحمن صاحب منانی مدظلہ العالی استاذ جامعہ نوریہ رضویہ وخطیب جامع مسجد بریلی شریف نے بیان فرمایاکہ ’’تاجدار اہل سنت حضور مفتی اعظم ہند قدس سرہٗ العزیز کے عرس چہلم میں جہاں عوام کا بے پناہ اژدہام تھا وہیں خواص بھی کثرت کے ساتھ شریک ہوئے تھے ۔اسلامیہ انٹر کالج کے گرائونڈ میں جلسہ کاوسیع منبر اہل علم و دانش سے بھراہوا تھا۔ ان میں علمائے اعلام بھی تھے ، مفتیان کرام بھی تھے اورمشائخ عظام بھی تھے ۔ غرضیکہ ایک سے بڑھ کر ایک صاحبان فضل وکمال جلوہ فرماتھے لیکن ان سب کے درمیان حضور تاج الشریعہ دامت برکاتہم العالیہ الگ ہی نظر آتے تھے ۔ آپ کی شخصیت اس انجمن میں بلامبالغہ ایسی معلوم ہوتی جیسے پھولوں میں گلاب یاستاروں میںماہتاب۔
اس ذکر سے صرف اورصرف اس فضل خاص کابیان مقصود ہے جواللہ عزو جل نے حضور تاج الشریعہ کوعطافرمایا ہے معاذاللہ کسی کی تخفیف ِشان مقصود نہیں۔
قبول عام:
مقبولیت کایہ عالم ہے کہ جہاں جاتے ہیں لوگ پروانہ وار جمع ہوجاتے ہیں اورآپ سے مصافحہ کی سعادت حاصل کرنے کے لئے دیوانہ وارٹوٹ پڑتے ہیں اس تعلق سے چند واقعات نقل کئے جاتے ہیں۔
موضع سالار پور ضلع مرادآباد کے ساکن حضرت مولانا قاری رفیق عالم صاحب استاذ شعبہ تجوید و قرأت جامعہ نعیمیہ مرادآباد نے بیان کیاتھا کہ حضور تاج الشریعہ ہماری بستی میں تشریف لے گئے تھے تو اہل بستی کی خوشی کاعجیب عالم تھااور لوگوں کے دل آپ کی طرف ایسے جھکے کہ تقریباً پوری بستی آپ کی مرید ہوگئی۔
قصبہ ٹھاکر دوارہ ضلع مراد آباد میںحضور تاج الشریعہ کاپروگرام تھا۔ راستہ میں واقع ایک بستی والوں نے منتظمین سے یہ خواہش ظاہر کی کہ حضرت چند منٹ کے لئے ہمارے یہاں بھی قیام فرمالیں بہت سے لوگ داخل سلسلہ ہوناچاہتے ہیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ یہ تو مشکل ہے وہاں آپ لوگ روڈ کے کنارے ہی کچھ دیر بیٹھنے کاانتظام کرلیں اورسب لوگ حضرت کے یہاں پہنچنے کے متوقع وقت سے پہلے جمع ہوجائیں اس طرح آپ کی مراد پوری ہوسکتی ہے ۔ چنانچہ بتائے گئے دن اور وقت پر پوری بستی وہاں جمع ہوگئی اورحضور تاج الشریعہ کے پہنچنے پر داخل سلسلہ ہوئی۔ یہ واقعہ غالباً مجھ سے خطیب شہرحضرت مولانا قاری سخاوت حسین صاحب رضوی مد ظلہ العالی نے بیان کیاتھا۔
چار پانچ سال پہلے کی بات ہوگی کہ آپ دارالعلوم سلطان الہند واقع فتح پور شیخاوائی، راجستھان کے اراکین کی دعوت پر وہاں تشریف لے گئے تھے۔محب محترم حضرت مفتی منظرامام صاحب شیخ الحدیث درالعلوم مدینۃ العلوم چورو، راجستھان نے مجھ سے بیان کیاتھاکہ میں بھی اس موقع پرفتحپور حاضر ہوا تھا۔ حضور تاج الشریعہ کی آمد پروہاں لوگوں کااس قدر ہجوم تھا کہ عرس رضوی شریف جیسا منظر معلوم ہوتاتھا۔اور آپ کا ایسا شاندار استقبال کیاگیاتھاکہ ایسا استقبال کم ہی دیکھنے میںآیاہوگا۔ لوگوں کے اشتیاق کایہ حال تھاکہ جب آپ کو گاڑی کے ذریعہ جلسہ گاہ میں لے جایاجارہاتھا تو حاضرین جلسہ آپ کو قریب سے دیکھنے کے لئے لپک لپک کر گاڑی کے قریب آنے لگے یہاں تک کہ بھیڑ لگ گئی اورراستہ بند ہوگیا۔ سمجھانابجھانا بھی بے سود ثابت ہورہاتھا ۔ سختی سے کام لینامناسب نہیں تھا۔ منتظمین کے لئے یہ صورت بہت ہی پریشان کن تھی۔ بڑی دشواریوں اورمحنتوں سے جیسے تیسے راستہ بنایاگیا اورخداخدا کرکے آپ اسٹیج پر پہنچ سکے اور جو راستہ بہ مشکل تین چار منٹ کاتھا وہ آدھاپون گھنٹہ میں طے ہوا۔ اسٹیج پرپہنچے تو اہل منبر مصافحہ کے لئے ٹوٹ پڑے اورہر ایک کی یہی کوشش تھی کہ مصافحہ کی سعادت حاصل ہوجائے۔ یہاں تک کہ جب منبر کی قوت جواب دینے لگی اوروہ فریاد کرنے لگاتب کہیں جاکر لوگ اپنے جوش سے ہوش کی طرف آئے۔ حضور تاج الشریعہ بھی لوگوں کے اس رویہ سے کبیدہ خاطر ہوئے اوراپنے بیان میں اس کااظہار فرمایا اورلوگوں کو نصیحت بھی فرمائی۔
چھ سات برس پہلے کی بات ہے کہ بریلی شریف کی عیدگاہ میں نمازاستسقا اداکی گئی جس کی امامت حضور تاج الشریعہ نے فرمائی تھی۔ حضور تحسین ملت علیہ الرحمۃ والرضوان اورحضور سبحانی میاں صاحب قبلہ مدظلہ العالی بھی شریک تھے۔ اس نماز میں ایساعظیم مجمع تھا کہ لوگوں کے بیان کے مطابق ایسا مجمع کبھی عیدین کی نمازوں میں بھی نہیں ہوا۔
فراغت کے بعد جب حضرت عیدگاہ کے گیٹ کی طرف بڑھے تو لوگ مصافحہ کے لئے ٹوٹ پڑے۔ شدید ترین گرمی تھی، سورج آگ برسارہاتھا، اس پر مستزاد لوگوں کی بھیڑ بھاڑ جس کی وجہ سے طبائع پریشان تھیں۔ ایسے حالات میںلوگوں کاان حضرات کے ارد گرد اکٹھا ہونا اور ہرایک کامصافحہ کی کوشش کرنا یقینا بڑا تکلیف دہ تھا۔ حضور تاج الشریعہ کے ساتھ جو لوگ تھے انہوں نے بڑی پھرتی سے کام لیا اورحضرت کو گھیرے میں لے کر جلدی سے باہر لے گئے اور قریب ہی میں یونس بھائی کے مکان میں پہنچانے کے بعد دروازہ بند کردیا تاکہ بھیڑ چھٹنے کے بعد یہاں سے چلاجائے۔دور تک نمازیوں کی صفوں کی وجہ سے گاڑیاں عیدگاہ سے دورکھڑی کردی گئی تھیں اورعید گاہ تک یہ حضرات پیدل ہی تشریف لائے تھے۔
حضور تحسین ملت رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کے ساتھ جامعہ نوریہ کے اساتذہ حضرت حافظ الحاج محمد ثناء اللہ صاحب وغیرہ تھے انہوں نے لوگوں کوڈانٹا ڈپٹا اورقریب ہی میں واقع جامعہ نوریہ میں لے گئے۔ حضرت نے بھیڑ چھٹنے تک وہیں آرام فرمایا۔
حضور سبحانی میاں صاحب قبلہ کونکلنے میں کچھ تاخیر ہوگئی۔ آپ کی خدمت میں جولوگ تھے انہوں نے روک تھام تو بہت کی لیکن لوگوں کازور بہت تھا اوراب یہ زور اورزیادہ ہوگیاتھا کیوں کہ پہلے توجہ کامرکز تین شخصیات تھیں اب تنہا آپ ہی تھے۔حتیٰ کہ گرمی کی شدت اور لوگوں کی بھیڑ کی وجہ سے آپ کی حالت بگڑگئی تب سختی سے کام لیاگیا اورآپ کو باہرلاکر فوراً ایک جگہ بیٹھایاگیااورہواکی گئی تب کہیں دم میں دم آیا اور حضرت نے سکون کاسانس لیا۔
ان واقعات سے معلوم ہوتاہے کہ سرکار اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خانوادے کے ساتھ لوگوں کو کس درجہ عقیدت ومحبت ہے اوریہ حضرات خلق خدا میں کس قدر مقبولیت رکھتے ہیں۔
میں یہاں یہ بات ضرور کہناچاہوں کہ یہ اپنی جگہ تسلیم ہے کہ ان ہر دو واقعات میں عوام کاقصد ان بزرگوں کوزحمت میں مبتلا کرنانہیں تھا بلکہ ان کامقصود تقاضائے عقیدت و محبت کی بنیاد پر صرف مصافحہ کی سعادت حاصل کرناتھا لیکن عقیدت و محبت کاایسا جوش جس میں ہوش سے کام نہ لیاجائے اوراپنے مخدوم ومرکز عقیدت کی پریشانی وزحمت کالحاظ نہ رکھاجائے کوئی اچھی بات نہیں ہے بلکہ یہ عقیدت کے دامن پر ایک دھبہ ہے۔
لوگوں کو اپنے اس طریقہ کی اصلاح کرنی چاہئے اورایسے مواقع پر جہاں کثیر مجمع ہواورسیکڑوں لوگوں کے مصافحہ سے اپنے معظم دینی کو زحمت ہو مصافحہ پراصراراور دھکامکی سے پرہیز کیاجائے بلکہ صرف دیدار ہی پراکتفا کیاجائے کیاہماری تسلی قلب کے لئے اس قدر کافی نہیں ہے کہ ہم ان کے دیدار سے مشرف ہورہے ہیں۔
میرا اپناطریقہ تو یہی ہے کہ ایسے مواقع پر مصافحہ و دست بوسی سے احتراز برتتا ہوں۔ حالانکہ بعض اوقات اپنے اس طریقہ کی وجہ سے محرومی کااحساس بھی ہوتاہے کہ لوگ فلاں بزرگ کے مصافحہ کی سعادت سے مشرف ہوئے اورمیں محروم رہا۔