تاج الشریعہ اور دیار حجازِمقدس

قاری محمد افروز خان ، ابھا ، حجازِ مقدس


نبیرۂ اعلیٰ حضرت وحجتہ الاسلام، شہزادہ مفسر اعظم ہند نواسۂ حضور مفتی اعظم ہند تاج الشریعہ فقیہ اسلام حضرت علامہ مفتی محمد اختر رضا خاں قادری برکاتی رضوی ازہری بریلوی مدظلہ العالی کی آفاقی شخصیت جنہیں دنیائے اسلام صدرالعلماء ، شیخ العلماء ، ملک العلماء، بدرالعلماء خیرالاذکیا، ممتاز العلماء فقیہہ اسلام ، تاج الاسلام، مفکر اسلام، فقیہہ ملت، فقیہہ النفس، فقیہہ اعظم رئیس الفقہا کے نام سے جانتی اورپہچانتی ہے۔
حضرت تاج الشریعہ کی عالمگیر شخصیت کاکیاکہنا، آپ کے تبلیغی اسفار میں امریکہ، انگلینڈ، ہالینڈ، فلسطین، ترکی،شام، عراق، اردن، کویت ، قطر ، پاکستان، بنگلہ دیش ، سری لنکا، ماریشش، دوبئی اورسعودی عرب شامل ہیں۔
وہ دور کتنا ہی مبارک ومسعود ہوگا جب اس پاکیزہ زمین پرترکی کی حکومت تھی جنت المعلیٰ اور جنت البقیع میںصحابہ کرام، ازواج مطہرات تابعین اورتبع تابعین کے مزارات قبے اور گنبدوں کے ساتھ جگمگا رہے تھے محمد بن عبدالوہاب نجدی اورجنگجو قبیلہ کے سردار محمد بن مسعود کے باہمی روابط نے حجاز مقدس پرحملہ کرکے خونریز جنگ کی اور۱۹۲۴ء میں ترکی حکومت کاخاتمہ ہوا اورنجدی حکومت کا جھنڈا لہرانے لگا ارباب حکومت میں سعودی خاندان حصہ دار بنااورمذہبی امور میں محمد بن عبدالوہاب کے باطل عقائد و نظریات داخل کئے گئے جسے وہابی اورسلفی عقائد کے نام سے امت مسلمہ نے جانا۔
تخت و تاج سنبھالنے کے بعد نجدیوں نے مقامات مقدسہ اورمزارات کے قبوں و گنبدوں کو شہید کرنا شروع کردیا علماء حق اورمشائخ عظام کو تہہ تیغ اورنظربند کرنا شروع کردیا بغاوت کرنے والے سنی عوام کو سولیا ںدی گئیں گویا ظلم واستبداد کے پہاڑ توڑے گئے پورا عالم اسلام نجدیوں کے ظالمانہ رویوں سے چیخ پڑا۔اورآج بھی ان کے ظلم و بربریت کے نشان مکۃ المکرمہ اورمدینہ منورہ میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ بھلاہو ان ا ھل حق کا جن لوگوں نے اعلائے کلمۃ الحق کے پرچم کوسرنگوں ہونے نہیں دیا اور اسلام وسنیت کے پیغام کو حجاز مقدس میں بلند کرتے رہے جن میں علامہ ضیاء الدین علامہ فضل الرحمان مدنی رضوی ، مجاہد ملت علامہ حبیب الرحمن ہاشمی رضوی،علامہ سید محمد علوی مالکی، تاج الشریعہ علامہ اختر رضاخاں ازہری کے اسماء قابل ذکر ہیں۔ سعودی عرب میں جن کا وجودمسعود نجدی حکومت کے لئے وبال جاں بنا رہا ان نفوس قدسیہ نے اس پاکیزہ زمین کو عقائد اہلسنت کی آماجگاہ بناکرہی دم لیا جس کے پاداش میں حضرت قطب مدینہ کوبارہانجدی پولس نے ظلم کانشانہ بنایا۔ علامہ علوی کی تقریروں پرپابندی عائد کی گئی مجاہد ملت کو بیر علی جیل میں ڈال دیا گیا ۔ حضرت تاج الشریعہ کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈال دی گئیں اور روضہ ٔانور کی زیارت کے بغیرواپس ہونا پڑا۔
حضر ت تاج الشریعہ کی علمی ، فقہی اورروحانی شخصیت سے عالم عرب متعارف ہے آپ کا سفر حج بیت اللہ ہو یا عمرہ کی نیت سے آمد عشاق جدہ سے لے کر مکہ مکرمہ اور وہاں سے مدینہ طیبہ شرف زیارت کے لئے امنڈ پڑتے ہیں۔
ہندوپاک کی طرح عالم عرب میں تصوف کاتصور ہے یہاں کے اہل سنت اورنجدیوں میں صوفی اوروہابی کے ذریعہ خط امتیاز کھینچا جاتاہے اورسنیوں کے عقائد وہی ہیں جن کی تشریح اپنی کتابوں میں سیدنا مجدد اعظم امام احمد رضامحدث بریلوی نے کی ہے۔
حضور تاج الشریعہ مدظلہ العالی کے دامن کرم سے اہل عرب بھی وابستہ ہیں سعودی عرب میں ترکی، یمن ، قطر، عراق، کویت، ایران، شام، فلسطین سے تعلق رکھنے والے افراد ذریعہ معاش کے لئے مقیم ہیں ان افراد میں تصوف سے منسلک افراد جہاں سلسلہ رفاعیہ ، نقشبندیہ ، قادریہ شاذلیہ سے مرید ہیں وہیں سلسلہ قادریہ برکاتیہ رضویہ میں حضور تاج الشریعہ مدظلہ العالی سے مرید ہیں ان کی خاصی تعداد مکہ معظمہ، مدینہ منورہ، دمام، جدہ، اباح، ریاض میں ہیں اورحضرت تاج الشریعہ کو شیخ ازہری ہندی کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ یہ حضرات محفل میلاد شریف منعقد کرتے ہیں ، قصیدہ غوثیہ قصیدہ بردہ شریف اور قصیدہ معراجیہ پڑھتے ہیں پاکستانیوں کے ساتھ کعبہ کے بدرالدجیٰ ، مصطفیٰ جان رحمت پہ لاکھوں سلام بھی پڑھا کرتے ہیں۔
مکۃ المکرمہ میں اہل سنت کے فقہ مالکیہ کے زبردست عالم دین حضرت علامہ سید محمد علوی مالکی علیہ الرحمہ کی شخصیت ممتاز و متعارف ہے ہندستانی علماء سے آپ کے اچھے تعلقات ہیں۔ آپ کے ہندستانی خلفاء میں علامہ یاسین اخترمصباحی ، علامہ افتخار احمد قادری (افریقہ) ہیں۔
حضرت علامہ سیدمحمد علوی مالکی علیہ الرحمہ نے ہندستان کاسفر کیا ہے۔ ہندستانی علماء نے ان کاشایان شان استقبال کیا وہ کالی کٹ، ممبئی، دہلی اوربریلی شریف بھی تشریف لائے ۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں حاضری بھی دی حضور تاج الشریعہ نے زبردست استقبالیہ دیا۔
علامہ علوی حضور تاج الشریعہ سے بے حد انسیت رکھتے تھے ۔ ان کی علمی، فقہی اورروحانی عظمت و رفعت کے قائل تھے قیام مکہ کے دوران تاج الشریعہ سے علمی گفتگو ہواکرتی تھی ۔ عقائد ، فقہ، تصوف خاص موضوع ہواکرتے تھے۔ جس سال سعودی پولس نے تاج الشریعہ مدظلہ العالی کو گرفتارکیاتھا اس وقت آپ کے پاس علامہ مالکی علیہ الرحمہ کی کئی عربی تصانیف تھیں جسے دیکھ کر وہاں کی پولس اوربرہم ہوگئی اورزیادتی پر اترآئی۔ جس کی پاداش میں گیارہ دنوں تک زیرحراست رہے۔
حضور اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے خلیفہ قطب مدینہ علامہ ضیاء الدین مدنی رضوی علیہ الرحمہ کی شخصیت عالم اسلام میں محتاج تعارف نہیں ایام حج میں آپ کامکان علماء ومشائخ کی آمد سے پررونق ہوجایاکرتاتھا۔ برصغیر کے علماء ہویا عالم عرب کے ہرایک شرف ملاقات کو باعث فخر سمجھتے تھے۔ آپ کے شہزادہ عالی حضرت علامہ فضل الرحمن مدنی ضیائی علیہ الرحمہ بھی علماء نواز اورمسلک اہل سنت کے مدینہ طیبہ میں داعی و ترجمان تھے۔
یہ دونوں نفوس قدسیہ خانوادہ اعلیٰ حضرت کے شہزادوں سے بے حد پیارکرتے تھے یہی سبب ہے کہ آپ نے مدینہ طیبہ کی حاضری کے موقع پر علامہ ریحان رضاخاں رحمانی میاں علیہ الرحمہ اورحضور تاج الشریعہ علامہ اختررضاخاں ازہری مدظلہ العالی کو اجازت و خلافت سے سرفراز فرمایا ہے۔
حضور تاج الشریعہ مدظلہ العالی کی مدینہ طیبہ آمد کے موقع پر شایان شان دیاررسول میں آپ کے مریدین ، متوسلین ، معتقدین استقبال کرتے ہیں۔ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضری کے وقت بہت ہی ادب واحترام کرتے ہیں بھیگی پلکوں کے ساتھ شرف زیارت سے مشرف ہوتے ہیں گھنٹوں سرکارمدینہ کی بارگاہ میں گریہ و زاری کاماحول رہتاہے ساتھ ہی ساتھ جنت البقیع میںحاضری کے وقت اپنے قدم کو بڑے ادب واحترام کے ساتھ راستوں پر رکھتے ہیں ابناء النبی اورنبات النبی ، ازواج النبی اوراصحاب النبی کی بارگاہ میں دعائوں کے وقت آنکھیں اشکباررہتی ہیں اوربالخصوص آپ کی دعائیں دنیائے اہلسنت اورعوام اہلسنت کی سلامتی اورامن و سکون ، عقائد حقہ کی حفاظت اورمظلومین کی ہمدردی کے لئے ہواکرتی ہیں۔
مرشدی حضور تاج الشریعہ علامہ مفتی محمد اختر رضاخاں ازہری قادری رضوی برکاتی مدظلہ العالی نے اب تک متعدد حج کئے اوربالخصوص رمضان شریف کے موقع پر عمرہ کی دولت سے مالامال ہوئے آپ نے اپنا پہلا حج ۱۴۰۳ھ بمطابق ۴؍ ستمبر ۱۹۸۳ء کو کیا پہلے سفر حج کا کیاکہنا سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں شرف حاضری کی بے چینی اوراضطرابی کیفیت، عجیب بے خودی کاعالم تھا روانگی کے وقت محلہ سوداگران میں پرکیف منظر تھا اہل خاندان ، علماء، مشائخ، مریدین، متعقدین کاجم غفیر تھا۔ حاضرین نے اپنے روحانی پیشوا کو روتا بلکتا نم آنکھوں کے ساتھ رخصت کیا اورحضور تاج الشریعہ اس منزل کی طرف روا ں دواں ہوگئے جہاں ارباب تصوف نے دل کا سجدہ کیا ہے، فقہا، محدثین نے ننگے پیر چلنا سعادت مندی سمجھا ہے ۔ غوث، قطب ، ابدال، افراد سالک نے سرکے بل چلنے کی تمنائیں کی ہیں اوروہاں کی خاک کو حیات جاودانی سمجھا ہے ۔ جس وقت پہلی مرتبہ گنبد خضریٰ پر نظر پڑی ہے پورے بدن پر لرزہ طاری تھا آنکھیں ساون بھادوں کی طرح آنسو برسارہی تھیں یہ شعر زبان پر تھا۔

حاجیو آئو شہنشاہ کا روضہ دیکھو
کعبہ تو دیکھ چکے کعبہ کا کعبہ دیکھو

غور سے سن تو رضا کعبہ سے آتی ہے صدا
میری آنکھوں سے میرے پیارے کاروضہ دیکھو

دوسرا سفر حج ۱۴۰۵ھ/۱۹۸۵ اور تیسرا حج ۱۴۰۶/ ۱۹۸۶ء میں ادافرمائے ہیں۔
حضور تاج الشریعہ مد ظلہ العالی کاحجاز مقدس پر قدم رکھتے ہی وہاں کی پولس حرکت میں آجایاکرتی ہے جاسوسی دل ہر وقت دائیں بائیں چکر لگایاکرتی ہے اس لئے سعودی حکومت کے نزدیک ان کی حیثیت بریلوی مکتب فکر کے علمی، فقہی، روحانی عالمگیر شخصیت کے مثل ہے۔ کہیں وہ اپنے عقائد و نظریات کی تبلیغ و تشہیر کے اعادہ نہ کریں اورحکومت کو ایک مشکل کاسامنانہ کرناپڑے۔ لیکن آپ کی فکری تعلیم ، وعظ و نصیحت اورخطابت کادرس کامقصد صرف اورصرف سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ترویج واشاعت ہوتی ہے۔ ہرگز!ہرگز!! کسی حکومت کے خلاف علم بغاوت کرنایاکسی سرزمین پرجاکر ایذا رسانی کرنا نہیں ہوتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ آج تک حکومت سعودی عرب ان کی آمد پر پابندی عائد نہ کرسکی۔
مولیٰ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ حضور تاج الشریعہ مد ظلہ العالیٰ کی بابرکت زندگی کو ہمارے لئے سایہ رحمت بناکر رکھے اوران کی تعلیمات پر ہم غلاموں کو یقین واذعان کے ساتھ عمل پیرا ہونے کی توفیق عطافرمائے۔(آمین)

Menu