حضورتاج الشریعہ اور زیارت حرمین شریفین

مولانا عبدا الرحیم نشتر فاروقی ، بریلی شریف ، انڈیا


حج وزیارت حرمین شریفین

حج وزیارت بندۂ مومن کا ایک ایساکیف آورخواب ہے جس کی تعبیراس کے لئے معراج حیات ہے ،وہ اسے حقیقت کاجامہ پہنانے کے لئے سیکڑوں جتن کرتاہے ،ہزاروں مشکلات کاسامنا کرتاہے،لاکھوں دعائے سحرگاہی کرتاہے،تب کہیں جاکراس سرمدی سعادت اورلازوال نعمت سے سرفرازہو پاتاہے،حرمین شریفین کاسفرایک بندہ ٔ مومن کواللہ کی وحدانیت اوراس کے رسول کی رسالت کی یاددلاتاہے ،رنگ ونسل کافرق مٹاکرمساوات کادرس دیتاہے اوراللہ کی نشانیوں کی یادتازہ کرتاہے۔
حج کامہینہ آتے ہی مومن کے دل میں ایک لطیف سادرد اٹھتاہے، حجاج کے قافلے دیکھ کراس کاقلب مچل جاتاہے کہ کاش !وہ بھی اس دیارکی حاضری سے اپنانصیبہ جگالیتاجہاں صبح وشام کی حاضری کوفرشتوں نے بھی اپناشیوہ بنالیاہے،وہ بھی جیتے جی جنت کی کیاریوں کانظارہ کرلیتاجس کی زیارت کے لئے حجاج کے یہ قافلے رواںدواںہیں اورجب اس نعمت کے حصول کی کوئی سبیل نہیں بن پڑتی توایک سردآہ حسرت ویاس کاموسم بن کراس کی آنکھوںسے جھماجھم برسنے لگتی ہے اوراللہ کے برگزیدہ بندوں کی کیفیت توعجیب سی ہوتی ہے۔
چنانچہ امام اہل سنت اعلیٰ حضرت امام احمدرضاخاںقادری بریلوی قدس سرہ اپنی اس لطیف کیفیت کویوں بیان فرماتے ہیں:
’’یہاں ننھے میاں اورحامدرضاخاں مع متعلقین بارادۂ حج روانہ ہوئے ،لکھنؤتک ان لوگوں کوپہنچاکرمیں واپس آگیا،لیکن طبیعت میں ایک قسم کاانتشاررہا، ایک ہفتہ یہاں رہاطبیعت سخت پریشان رہی، ایک روزعصرکے وقت زیادہ اضطراب ہوا،دل وہاں کی حاضری کے لئے زیادہ بے چین ہوا،بعدمغرب مولوی نذیراحمدصاحب کواسٹیشن بھیجاکہ جاکرممبئی تک کاسیکنڈریزروکرالیں کہ نمازوں کاآرام رہے ۔ عشاکی نمازسے اوّل وقت فارغ  ہولیا،شکرم (سواری)بھی آگئی، صرف والدہ ماجدہ سے اجازت لیناباقی رہ گئی جونہایت اہم مسئلہ تھااورگویااس کایقین تھاکہ وہ اجازت نہ دیں گی ،کس طرح عرض کروںاور بغیراجازت والدہ حج نفل کو جانا حرام، آخرکاراندرمکان میں گیادیکھاکہ حضرت والدہ ماجدہ چادراوڑھے آرام فرماتی ہیں، میں نے آنکھیں بندکرکے قدموںپرسر رکھ دیاوہ گھبراکراٹھ بیٹھیں اورفرمایا،کیاہے ،میں نے عرض کیا:حضورمجھے حج کی اجازت دے دیجئے،پہلالفظ جوفرمایایہ تھاکہ خداحافظ ، یہ انھیں دعاؤں کااثرتھا،میں الٹے پیروں باہرآیااورفوراًسوارہوکراسٹیشن پہنچا۔‘‘ [الملفوظ-۲؍ص۱۴۵]
امام اہل سنت کے یہ الفاظ حج وزیارت کے لئے ایک مومن صادق کے قلبی واردات کی ترجمانی کررہے ہیں،ملاحظہ فرمایئے کہ ایک بندۂ مومن اس نعمت کے حصول کے لئے کس قدر مشتاق ہوتاہے، وہاںکی حاضری کے لئے کیسے کیسے جتن کرتاہے،اگرحج نفل ہے تواس کی تکمیل کے لئے کتنی منتوں سے والدین کی اجازت حاصل کرتاہے ۔
امام اہل سنت کے حقیقی علمی امین وارث ہونے کے سبب حضورتاج الشریعہ کوبھی وہی سوزوگدازعشق ورثے میں ملاہے چنانچہ عشق رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے آپ کوبھی چین سے بیٹھنے نہ دیااورآپ کادل بھی اس درکی حاضری کے لئے مثل بسمل تڑپ اٹھاجس درکی حاضری کے طفیل اللہ حج کی سعادتیں عطافرمادیتاہے ،آپ نے دل کولاکھ سمجھایا،مگرلاحاصل !آپ نے اس درکی حاضری کے لئے رخت سفرباندھا،پھردل بے قابو ہورہا ہے ،سنبھالے نہیں سنبھل رہاہے،وہ پاک دراب قریب آنے والا،آپ نے دل کوسرزنش کی ،تنبیہ کی کہ کہیں بے قابوہوکراس سرکار میں کوئی بے ادبی نہ کربیٹھے ۔ ؎

سنبھل جااے دل مضطرمدینہ آنے والاہے
لٹااے چشم ترگوہرمدینہ آنے والاہے

حضورتاج الشریعہ نے پہلے حج و زیارت کی سعادت ۱۴۰۳ھ مطابق ۱۹۸۳ء میں حاصل کی ، دوسرے حج سے ۱۴۰۵؁ھ مطابق ۱۹۸۵ء میں اور تیسرے حج سے ۱۴۰۶ھ مطابق ۱۹۸۶ء میں مشرف ہوئے ۔
جب آپ تیسرے حج پر گئے تو سعودی حکومت نے آپ کی بیجا گرفتاری کی، اس موقع پر آپ نے جو حق گوئی و بے باکی کا مظاہرہ کیا وہ آپ ہی کا حصہ ہے ، اس واقعہ کی مکمل روداد بنام ’’سعودی حکومت کی کہانی اختر رضا کی زبانی ‘‘ ۱۹۸۷ء میں بریلی شریف سے شائع ہو چکی ہے۔
چوتھے حج وزیارت کے لئے ۲؍ذی الحجہ ۱۴۲۹ھ مطابق یکم دسمبر۲۰۰۸ء بروزپیرتشریف لے گئے،اس موقع پر حضورپیرانی امی صاحبہ مدظلہاکے علاوہ آپ کے شہزادے حضرت مولانامحمدعسجدرضاخاںقادری برکاتی بریلوی مدظلہ العالی، ناظم اعلیٰ : جامعۃ الرضابھی ساتھ تھے ،بریلی شریف سے بذریعہ انڈیورصبح ۱۱؍بجے دہلی کے لئے روانہ ہوئے ،تھوڑی دیرکے بعدحضرت شہزادۂ گرامی کافون آیاکہ ہم جامعہ کے قریب آچکے ہیں،حضرت کے استقبال کے لئے جامعہ میں دورویہ صفوں میں کھڑے طلبہ کاشوق قابل دیدتھا،اساتذہ بھی سراپاانتظارتھے ،جیسے ہی حضرت کی گاڑی جامعہ کے گیٹ پرپہنچی نعرۂ تکبیر،نعرۂ رسالت ،حضورتاج الشریعہ زندہ باد،شہزادۂ تاج الشریعہ زندہ بادکے فلک شگاف نعروںسے آس پاس کاعلاقہ گونج اٹھا،دہلی ہائیوے پردونوںجانب گاڑیوں کی بھیڑلگ گئی ،مسافراپنی گاڑیوں سے یہ روح پرورمنظردیکھ کرحیرت زدہ تھے ،اس وقت حضورتاج الشریعہ کے چہرے سے ایساملکوتی نورپھوٹ رہاتھاکہ دیکھنے والوںکی نگاہیں آپ کے چہرۂ اقدس پرجم سی گئی تھیں طلبہ بھی اس نورانیت کواپنی آنکھوں میں سمیٹنے کوبے قابوہورہے تھے ۔
راقم نے بعدسلام آگے بڑھ کرحضورتاج الشریعہ کے گلے میں ہارڈال کردست بوسی کی اورسرکارمیں اپناسلام عرض کرنے کی گزارش کی پھر شہزادۂ گرامی کے گلے میں ہارڈالااورآپ سے مصافحہ ومعانقہ کے شرف سے بھی مشرف ہوا،اس کے بعدجامعہ کے دیگراساتذہ ٔ کرام یکے بعددیگرے حضورتاج الشریعہ اورشہزادۂ گرامی کے گلے میں ہارڈالتے رہے اوردست بوسی و معانقہ سے مشرف ہوتے رہے ،تقریباًساڑھے ۱۲؍بجے آپ حضرات جامعہ سے رخصت ہوکردہلی کے لئے روانہ ہوئے ۔
اسی شام اسلامی مرکزدہلی میں حجاج کرام کے لئے وداعیہ تقریب تھی،حضرت اورشہزادۂ گرامی اس میں شریک رہے ،اگلے دن۳؍ذی الحجہ کودہلی اوراطراف کے احباب سے ملاقاتوں کاسلسلہ رہا،راجستھان کے چنداحباب بھی ملاقات کے لئے حاضرہوگئے تھے، دوسرے دن۴؍ذی الحجہ ۱۴۲۹ھ مطابق۳؍دسمبر۲۰۰۸ء بروزبدھ اندراگاندھی ہوائی اڈے سے جدہ روانہ ہوئے۔
دوران حج مقامی شیوخ کے علاوہ وہاں دیگرممالک سے پہنچے علماے کرام ومشائخ عظام سے علمی اورمذہبی مذاکرے رہے ،اس موقع پرآپ نے اپنی عربی تصانیف وتراجم بالخصوص ’’شمول الاسلام‘‘اور’’الھاد الکاف‘‘عرب شیوخ کوپیش کئے جنھیںکافی پسندکیاگیابلکہ جدہ کے ایک مقتدرعالم دین شیخ موسیٰ عربوش نے توحضرت کاجدیدعربی قصیدہ ۔ ؎

أعینای جودا ولا تجمدا

ألاتبکیان لشط النویٰ

بے حدپسند کیااورپھرایک مجلس میںا س قصیدے کی تعریف میںتقریباً ایک گھنٹہ کی تقریربھی فرمائی۔
اس بارحج وزیارت سے مشرف ہوکر۲۸؍ذی الحجہ ۱۴۲۹ھ مطابق ۲۷؍دسمبر۲۰۰۸ء بروزہفتہ ۸؍بجے شب بریلی شریف تشریف لائے ،اس موقع پرتاج الشریعہ اورآپ کے شہزادۂ گرامی حضرت علامہ عسجدرضاخاںقادری بریلوی مدظلہ العالی کانہایت ہی عظیم اورتاریخی استقبال کی گیا،جامعۃ الرضاکے ۵۰۰؍ طلبہ کانورانی قافلہ مخصوص یونیفارم میں ملبوس بعدنمازمغرب ہی سٹی سبزی منڈی پہنچ چکاتھا، بڑی تعدادمیں اہل شہر کاہجوم بھی موجودتھا۔
طلبہ آج بھی دورویہ صفوںم یںکھڑے اپنے مرشدومربی کی آمدکے منتظرتھے لیکن آج ان کے جوش وخروش ،ذوق وشوق اورو رفتگی کاعالم قابل دیدتھا ان کاقرینے سے بادب باملاحظہ کھڑاہوناکسی ’’گارڈآف آنر‘‘کامنظرپیش کررہاتھااورگزرنے والے کوحیرت واستعجاب کے بھنورمیں غرق کر رہاتھا،دیکھنے والوں کابیان ہے کہ ایساروحانی منظرشایدوبایدہی دیکھنے کوملتاہے۔
بالآخروہ گھڑی آہی گئی جس کابے صبری سے سب کوانتظارتھاجیسے ہی حضرت کی گاڑی سٹی سبزی منڈی پہنچی ،طلبہ نے نعرہائے تکبیرورسالت کاغلغلہ بلندکیا،راہ گیربت بنے اس روحانی منظرکودیکھ رہے تھے، اب یہ نورانی قافلہ نعت خوانی اورنعرہ ہائے تکبیرورسالت کے جلومیںحضرت کولے کر سوداگران رضانگرکی طرف روانہ ہوا،تقریباًپونے دوگھنٹے میں یہ قافلہ سٹی سبزی منڈی سے حضرت کے دولت کدے پرپہنچا۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کودیگرمواقع پرعمرہ کی سعادت سے بھی نواز ا،چنانچہ آپ نے کئی عمرے بھی کئے ہیں ،عموماًہرسال مضان البارک کے مبارک ومسعودمہینے میں عمرے کے لئے تشریف لے جاتے رہے ہیں۔

Menu