عالم اسلام کی عظیم و عبقری شخصیت: علامہ اختر رضا خاں قادری ازہری

مولانا غلام مصطفی رضوی ،ا نڈیا


ایمان و عقیدے کی سلامتی کے بعد فکر و نظر کی تابندگی اور کردار و عمل کی جولانی سے شخصیت کا حسن کھلتا ہے یہ وصف علمائے حق میں پایا جاتا ہے۔ حدیث پاک میں علما کو انبیا کا وارث بتایا گیا ہے اور یہ وراثت علم کی ہے، وَاِنَّ العُلَمَاءُ وَرَثَۃُالْاَنْبِیَاء (ترمذی) اسی طرح علما کو رب تعالیٰ سے ڈرنے والا بتایا گیا یعنی خوف و خشیت الٰہی علماے حق کے یہاں زیادہ ہوتا ہے اور یہ انھیں مقبولِ بارگاہ الٰہی بناتا ہے: اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰٓؤُا (فاطر:۲۸) ’’ اﷲ سے اس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں ‘‘۔ اور ایسے عالمِ ربانی کو اقبال ؔنے بندۂ مومن سے تعبیر کیا ہے جن کی آفاقی شخصیت کا حسن زمانے کو متاثر کرتاہے ع

مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق

بساطِ عالم میں ایسے عالمِ ربانی کی جب تلاش کی جاتی ہے تو جانشین مفتی اعظم تاج الشریعہ علامہ مفتی محمد اختر رضا خاں قادری ازہری مدظلہ العالی کی ذات نہایت ممتاز و نمایاں دکھائی دیتی ہے۔ آپ ’مرجع العلما‘ بھی ہیں اور’ ممتاز الفقہا‘ بھی۔ آپ بڑے ہیں اس لیے نہیں کہ مجددِ اسلام امام احمد رضا قادری برکاتی (م۱۹۲۱ء) کے نبیرہ ہیں اورمفتی اعظم قدس سرہ (م۱۹۸۱ء) کے جانشین، بلکہ اپنے علم و فضل ، تفقہ فی الدین، تقویٰ و استقامت نیز دینی خدمات اور عشق و محبت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بنیاد پر عظیم ہیں۔

علامہ ازہری جس محفل میں جاتے ہیں محفل کی جان بن جاتے ہیں اور جس بزم میں جاتے ہیں اس کی شان بن جاتے ہیں، حق گو، حق پسنداور حق شناس ہیں اور اس راہ میں اپنے بیگانے کی پروا نہیں کرتے جوحق ہوتا ہے بلا خوفِ لومۃِ لائم کہہ سناتے ہیں۔ دین کے معاملے میں لچک اور کسی کی ناراضی کوخاطر میں نہیں لاتے بلکہ اﷲ عزوجل و رسول کونین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی رضا و خوش نودی کو عزیز رکھتے ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ کسی مقرر نے تقریر کی اور کوئی خلاف شرع کلمہ زبان سے کہہ دیا فوراً توبہ کروائی اورتنبیہ فرمائی۔

کوئی صاحبِ ثروت ہو یا دنیوی جاہ و منصب والا، کوئی صاحبِ رسوخ پیر ہوں یا خانقاہی رعب و جلال سے مالا مال اگر دین پر تصلب ہے تو ان کی تحسین کی اور تائید کی لیکن کہیں شرع کی راہ سے قدم رُو گرداں ہوا تو بلا کسی خوف کے گرفت کی اور حق کی دعوت پیش کی، یہی سبب ہے کہ کئی ایسی خانقاہیں جو زر اندوزی کو وطیرہ بنائے ہوئے ہیں اور جہاں مصلحت کی سیاست ہے وہ ، نیز علماے سوء آپ سے خائف ہو بیٹھے، آپ کی مقبولیت انھیں ایک آنکھ نہ بھائی۔ بارہا ایسے مواقع آئے کہ فراعنۂ عصر نے آپ کو خریدنا چاہا لیکن آپ کے پائے استقلال میں جنبش نہ آئی، جب کبھی شریعت کے اصولوں کی خلاف کوئی ضابطہ نافذ کرنے کی بات کی گئی آپ نے شریعت کا جو حکم تھا جاری کیا۔ بندۂ مومن کی یہی شان ہے کہ وہ اقتدار و شوکت سے دور و نفور رہتا ہے اور حکم شرع کو مقدم و فائق رکھتا ہے۔ اور ایسی شان آن بان والا کوئی مرد حق نظر آتا ہے تو اسے دنیا تاج الشریعہ قاضی القضاۃ فی الہند علامہ مفتی اختر رضا قادری برکاتی ازہری کے نام سے جانتی ہے۔ آپ کے یہاں جذبۂ عشق رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی توانائی اور تب و تاب ہے جس کا اظہار کبھی کبھی اشعار کے سانچے میں ڈھل کر فکر و نظر کو خیرہ کر دیتا ہے۔ اور وارفتگیِ شوق و وفورِ عشق میں زبان گنگنانے لگتی ہے ؂

عطا ہو بے خودی مجھ کو خودی میری ہوا کر دیں
مجھے یوں اپنی اُلفت میں مِرے مولیٰ فنا کر دیں

پی کے جو مست ہو گیا بادۂ عشق مصطفی
اس کی خدائی ہو گئی اور وہ خدا کا ہو گیا

دل کا ہر داغ چمکتا ہے قمر کی صورت
کتنی روشن ہے رُخِ شہ کے خیالات کی رات

احکامِ اسلام پرعمل کایہ حال کہ کہیں کوئی مداہنت، سمجھوتہ یا مصلحت کوشی کا گزر نہیں۔ جہاں خلاف شرع اُمور معاشرے کا حصہ بن چکے ہوں ایسے مقام پر جب آپ کی آمد ہوتی ہے تو ان پر اوس پڑ جاتی ہے اور دینی شعور بیدار ہو جاتا ہے، سچ ہے جو خدائے پاک کاہو جاتاہے اہلِ زمانہ اس کی گردِ راہ کو حیات کا غازہ بنالیتے ہیں، اس کی امامت و قیادت پر سُرور و انبساط کا اظہار کرتے ہیں اور اس ذات کی مقبولیت و عظمت کے نقوش مسلمانوں کے دلوں پر آویزاں ہو جاتے ہیں ؂

ہے وہی تیرے زمانے کا امامِ برحق
جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے

مغرب کی دریوزہ گری نے مسلمانوں کوجس ابتلا و آزمائش میں ڈال رکھا ہے وہ پوشیدہ نہیں، قوم مغرب کے روشن خیالی کے اندھیروں میں بھٹک کر رہ گئی ہے۔ آفاق کی پہنائیاں کبھی مردِ مسلماں کی عظمت و رفعت کے نغمے الاپتی تھیں آج وہ ’’آفاقی دین‘‘ کا حامل ہو کر بھی فکری پستی میں مبتلا ہو بیٹھا۔ اس دور ابتلا خیز میں علامہ اختر رضا ازہری جیسی جلیل القدر شخصیت کے تابندہ نقوش موجودہیں، جن کی خدماتِ دینیہ و علمیہ کے نقش و نگار سے آفاقِ عالَم جگ مگا رہے ہیں ؂

اس مرد خدا سے کوئی نسبت نہیں تجھ کو
تو بندۂ آفاق ہے، وہ صاحبِ آفاق

روحانی اقدار کے زوال کے ساتھ فکری انحطاط نے تصوف کے معنٰی و مفہوم کو بدل کر رکھ دیا، جنھیں نفس کے تزکیے اور صفائیِ قلب کا سامان کرنا تھا وہی نفس کو اسیرِہوا و ہوس بنا رہے ہیں اور فکر کو گدلا۔ ’’تصوف ‘‘ شریعت پر ثابت قدمی کا نام ہے اب شریعت سے جدا راہ اور گم رہی کو تصوف کانام دیا جا رہا ہے، نتیجہ یہ ابھر کر سامنے آیا کہ بیعت و پیری مریدی کو’’ تجارت‘‘ اور دنیا حاصل کرنے کا ذریعہ بنا لیا گیا۔ علامہ ازہری اسلام کے اس اصول کے داعی ہیں جو صوفیاے اسلام کا وطیرہ رہا ہے اور جس نظام نے اسلام سے عاری دلوں میں دین کی روح پھونک دی تھی۔ آپ بیعت لیتے ہیں تو شریعت پر ثابت قدمی کا عہد و پیمان لیتے ہیں، یوں مریضِ روح تزکیہ پاتے ہیں، دل کھینچے چلے آتے ہیں، گناہ کے دَل دَل میں پھنسے افراد نادم و تائب ہو جاتے ہیں، ہم نے دیکھا کہ ایسی مقبولیت قصبہ ہو یا کوئی چھوٹا سا گاؤں وہاں وہ اژدھام ہو جاتا ہے کہ پروانے ٹوٹ پڑتے ہیں، اور ہر فرد بیعت کا متمنی نظر آتا ہے، بیرون ممالک، عربی ممالک اور مستقرِ بعید و اماکنِ مغرب میں بسنے والے بھی یہی کہتے ہیں (جیسا کہ ایک شاہد نے بتایا) کہ اپنے تو کیا انگریز صرف چہرے کے جمال سے حیران و ششدر رہ جاتے ہیں بلکہ بعض نے تو اسلام بھی قبول کر لیا سچ ہی کہا جاتا ہے کہ: اﷲ والے وہ ہیں جن کے دیدار سے حق کی یاد آئے، اور یہ مقبولیت وہ نہیں کہ مول لی جائے بلکہ یہ تو عطاے الٰہی ہے، اﷲ کریم جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے، بے شک ذٰلک فضل اللّٰہ یوتیہ من یشاء

ایسے حالات میں جب کہ ایمان کے لٹیرے تاک میں ہیں، اعتقادی، تمدنی، عمرانی، فکری، تہذیبی، ثقافتی، معاشی، معاشرتی، تعلیمی اور سیاسی ہر طرح کے حملے مسلمانوں پر وارِد ہیں ضروری ہے کہ مسلمان اﷲ تعالیٰ اور رسول کونین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی بارگاہ سے رجوع ہوں اس کے لیے علماے حق کے دامن سے وابستگی ضروری ہے اور یہ سعادت کی بات ہے کہ علامہ اختر رضا ازہری مدظلہ العالی کا فیض جاری و ساری ہے لہٰذا اس بارگاہ سے مربوط ہو جاناایمان افروز امرہو گا ؂

ترے غلاموں کا نقش قدم ہے راہِ خدا
وہ کیا بہک سکے جو یہ سُراغ لے کے چلے

علامہ ازہری کی تصنیفی خدمات کا حاشیہ بھی کافی وسیع ہے، آپ کی دسیوں کتابیں اور فتاویٰ کے مجموعے عربی، اردو اور انگریزی میں شایع و مقبول ہیں، درجنوں کتابوں کے تراجم بھی فرمائے۔ آپ کے تلامذہ برصغیر کے علاوہ دیگر ملکوں میں بھی پھیلے ہوئے ہیں اور سند و اجازتِ حدیث طلب کرنے والے علما عجم تو عجم عرب میں بھی کثیر ہیں۔ آپ کی عربی دانی اور فقاہت کے عرب کے موجودہ اکابر علما بھی قائل ہیں، نیز فقہی و شرعی مسائل کے حل کے سلسلے میں دوسرے مسالک کے علما کی نگاہیں بھی آپ کے فیصلے پر لگی ہوتی ہیں۔ علامہ ازہری کی عبقریت کا معترف سارا عالَمِ اسلام ہے۔اللہ کریم آپ کی ذات کو مسلمانوں کے سروں پر سایہ فگن رکھے۔آمین

Menu