حضورتاج الشریعہ کا دورۂ مصر

مولاانا امام الدین قادری ، جامع ازہر ، مصر


سرزمین مصرکوایک زمانے سے مرکز علم وفن کی حیثیت حاصل ہے اورآج بھی تشنگان علوم نبویہ دنیا کے ہر گوشہ سے اپنی علمی پیاس کوبجھانے کیلئے اس کارخ کرتے ہیں‘ اسی مقصد کی پیش نظر جانشین حضور مفتی اعظم ہندحضور تاج الشریعہ علامہ مفتی اختررضاخاںازہری دامت برکاتہم القدسیہ۱۹۶۳ء میں دنیا کی قدیم دینی یونیورسٹی ازہرشریف مصر میں حصول تعلیم کے لئے تشریف لائے تھے اورقیام مصر کے دوران اپنے جدامجد امام احمدرضا خاں علیہ الرحمہ کی فکروآگہی اورفقہی کمالات سے اہل مصر کوبطورعام اورعلمائے ازہرشریف کوبطورخاص روشناس کرایاتھا۔
مگرچندسال کے قیام کے بعد جب آپ تکمیل تعلیم کے بعد ہندوستان واپس آگئے توپھرآپ کاکوئی ایساعلمی یاقلمی رشتہ جامعہ ازہرسے قائم نہ رہ سکا جس کے توسط سے علمائے مصر وازہرشریف کوامام احمدرضافاضل بریلوی کی جامع شخصیت اورآپ کی گرانقدرخدمات کومزید جاننے اور سمجھنے کاموقع ملے‘اس قطع تعلق کے نتیجہ میں اعداء اہل سنت وجماعت نے امام احمد رضا علیہ الرحمہ کی پروقارشخصیت کومجروح کرنے کی حتی الامکان کوششیں کرتے رہے جس میں وہ کچھ حد تک وقتی طورپرکامیاب بھی رہے لیکن ادھرچند سالوں سے طلباء اہلسنّت وجماعت کاجم غفیر جویہاں پرتعلیم حاصل کررہاہے انہوں نے جب حالات کوپراگندہ پایاتوسب بہ یک آواز پکاراٹھے کہ جوماحول ہمارے خلاف بنایاگیا ہے اس کوصاف وشفاف کرنے کے لئے ہرممکن کوشش کریں گے وہ اپنی بساط کے مطابق جدوجہد کرتے رہے اسی اثناء میں علم وادب اورصوفی گھرانہ سے وابستہ شیخ خالد ثابت جوکئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں‘تبلیغی جماعت کے عیارانہ ومکارانہ دام فریب میں آکرہندوستان کاچند بار تبلیغی دورہ فرمایا۔ ان کاکہنا ہے کہ جب میں ہندوستان میں قیام پذیر تھاتومیں تبلیغی جماعت کے سرکردہ لوگوں سے شیخ الاسلام والمسلمین امام احمد رضا کے متعلق پوچھتا تو وہ برجستہ جواب دیتے کہ وہ بریلویہ فرقہ کے موسس ہیں اوریہ ایک گمراہ اورگمراہ گرفرقہ ہے ‘جب ہم نے سنا تو ہمارے کانوں کویقین نہیں آیا کیونکہ بریلویت کے بارے میں عرصہ دراز سے سن رہاتھاکہ وہ ایک صاف وشفاف اورمحب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت ہے آخریہ عداوت کیسی؟کہاں حق اورکہاں باطل۔ یہ دونوں کاسنگم کیسے‘اب میں نے شدت سے اس جماعت کی حقانیت کی جستجو شروع کی اورجب وطن واپس آیاتوچند ہندوستانی علماء جوسعودی عرب میں جامعات سے جڑے ہوئے تھے ان سے دریافت کیا کہ آپ لوگ شیخ امام احمدرضا بریلوی کوجانتے ہیں اوران کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے تو وہ تبلیغی جماعت کی طرح ہی جواب دیتے جس سے میں کافی کبیدہ خاطرہوا لیکن طالب حق کی رہنمائی اللہ عزوجل ضرور فرماتا ہے اسی تلاش میں ایک طالب علم جوسرزمین کیرالہ سے تعلق رکھتا ہے اوروہ ازہرشریف میں زیر تعلیم ہے اس سے ملاقات ہوئی تومیں نے حسب عادت شیخ امام احمد رضا خان کے بارے میں سوال کیاتواس نے جواب دیا کہ وہ سواداعظم اہلسنّت وجماعت کے ایک امام ہیں اورہندوستان میں۹۰فیصد سنی مسلمان ان کے تابع ہیں اورصحیح طریقے سے پرایک زمانے سے اسلامی عقائد کی آبیاری فرماتے ہیں ‘مزیدمعلومات کے لئے اس طالب علم نے شیخ امام احمد رضا اور دیگر علمائے اہلسنّت کی کتابیں فراہم کیں‘ اس کے بعد میں نے اپنے مطالعہ کی روشنی میں ایک کتاب بنام’’من اقطاب الامۃ فی القرن‘‘ ترتیب دی۔ اس کتاب میں تین برگزیدہ شخصیات کااجمالی تعارف اوران کے عقائد ہیں اس مں سرفہرست(1) الشیخ احمد رضا بریلوی الہندی(2) الشیخ صالح الجعفری مصر3))الشیخ احمد الستغالی علیہم الرحمتہ والرضوان ہیں جب یہ کتاب مارکیٹ میں آئی توبعض احباب کے ذریعہ مطالعہ کے لئے دستیاب ہوئی بعد مطالعہ راقم کے دل میں صاحب کتاب سے ملاقات کا شوق پیدا ہواکہ اتنے بڑے عاشق احمدرضا خان یہاں پرہیں اورہم لوگ ان کی زیارت سے محروم ہیں اب راقم الحروف مع احباب قیام گاہ پرحاضری ہوئے سلام ودعا اورسمی گفتگو کے بعد شیخ نے اپنی ساری آپ بیتی سنائی تو آنکھیں نم ہوگئیں کہ کس طرح سے حق کومٹانے کیلئے خوارج وہابیہ‘ ودیوبند یہ نے اپنے فریب کے جال بچھائے تھے ‘شیخ اپنے قیمتی مشورہ سے نوازتے رہے اوربتاتے رہے کہ کون کون سے ذرائع ہو سکتے ہیں‘ امام احمد رضا خاں علیہ رحمتہ کے عقیدہ حقہ کی ترجمانی کے اس کی ایک کڑی حضور تاج الشریعہ کادورہ مصر کے چہرے پرمسرت وشادمانی کاآفتاب مسلسل چمکتارہااورآخیر میںآپ نے بہت ہی عاجزی کے ساتھ عرض کیا کہ اگرآپ اپنے قدم میمنت سے اہل مصر کوعام طورسے اور اس گدائے امام احمد رضا کوخاص طور سے زیارت کاشرف بخشیں توانتہائی ذرہ نوازی ہوگی تب علامہ ازہری نے کہاکہ انشاء اللہ میں بہت جلد دورہ مصر پرآرہاہوں‘ اتنا سننا تھاکہ شیخ خوشیوں سے پھولے نہ سمارہے تھے اورزبان پہ صرف اورصرف اہلاً وسہلاً مرحبا کی صدائیں تھیں‘ جب یہ خبر طلبائے ہند کے مابین پھیلی توہر کوئی دست بدعا تھا کہ حضرت کادورہ کسی طرح بھی ہوجائے تاکہ برسوں سے پہلے ہوئے ہمارے خلاف غلط افکار کی اصلاح حضرت کی زبان فیض ترجمان سے ہوگی توزیادہ پراثر ہوگی۔
اب وہ وقت بھی آہی گیا کہ حضورتاج الشریعہ نے اپنے سفر کی تاریخ کاتعین کردیا‘کیاکہناتھاخوشیوں سے طلباء جھوم اٹھے‘زمانہ امتحان کاتھاپھربھی طلبا ہمہ تن اپنے قائد کے پروگرامات کی تیاریوں میں روزوشب مصروف ہوگئے اورعلماء ازہرشریف اوردیگر جامعات کے علماء کودعوتیں دی جانے لگیں ‘ساتھ ہی مصر سے حضور اعلیٰ حضرت اوردیگر علماء اہلسنّت وجماعت کی شائع شدہ کتابوں کاسیٹ بھی دیاگیا‘جس میں مندرجہ ذیل کتابیں تھیں۔
(۱)تنقیہ الایمان من عقائد مبتدعہ الزمان المعروف باسم المعتقد المنتقد مع شرحہ المعتمد المستند بناء نجاۃ الابد۔
(۲) رفع الریب عمانال المصطفی من علم الغیب المعروف باسم الدولتہ المکیہ بالمادۃ الغیبیۃ۔
(۳)محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبین
(۴)الفلسفتہ الاسلامیہ۔
(۵) من اقطاب الامتہ فی قرآن العشرین۔
(۶)حضرت کانایاب حقیقی رسالہ ’’اصحابہ نجوم الاھتداء۔

یہ کتابیں سیکڑوں کی تعداد میں مفت تقسیم کی تاکہ کتابوں کے مطالعہ کی روشنی میں ہر منصف مزاج اپنی رائے قائم کرسکے‘ پورے ماحول کورنگ رضا میں ڈھالنے کی بھرپورجدوجہد کی گئی جس میں خاطرخواہ کامیابی بھی ملی‘ تین مئی کی وہ حسین رات تھی جب طلباء کاایک وفد قاہرہ ایئرپورٹ پہ جانشین حضور مفتی اعظم ہندحضورالشریعہ حضرت علامہ مفتی اختررضا خان ازہری کاستقبال کرنے کیلئے گیا اوروہ ساعت سعید بھی آگئی کہ اللہ کازندہ ولی اپنے احباب کے ساتھ نازک قدموں سے خراماخراماچلاآرہاہے جو جہاں ہے اس حسین وجمیل فرشتہ صفت پیکر کودیکھ رہاہے اوردل ہی دل میں اپنی زبان سے یہ اظہار کررہاہے کہ کیاآج کے اس پرفتن اورفیشن بھرے ماحول میں ایسے بھی اللہ کے نیک بندے ہیں سب کی زبانیں مدح سرائی میں لگی ہوئی ہیں یہ کوئی اللہ کاولی ہی ہوسکتا ہے‘ بعد مصافحہ ومعانقہ یہ وفد اپنے عظیم قائد آبروئے اہل سنت وجماعت کوان کی قیام گاہ کی طرف لے کر روانہ ہوا تو یہاں بھی طلباء کاجم غفیر تھا سب نے حضرت کاپرتپاک استقبال کیا۔
حضرت چند منٹ آرام کرنے کے بعد تشریف لائے توطلباء نے آپ کے تعلیمی زمانے کے متعلق چند سوالات کئے جس کاجواب حضرت نے بڑے ہی اچھوتے اندازمیں دیا پھر حضرت نے اگلے دن کے پروگرام کے متعلق پوچھا کہ کیا کیا پروگرام ہیں‘ تب سارے پروگرامات کی تفصیل حضرت کے گوش گزارکردی گئی جوکچھ اس طرح سے تھی۔
۷مئی کوگیارہ بجے شیخ الازہر سید طنطاوی سے مشیختہ الازہر میں ملاقات کرنی ہے‘ عالم اسلام کے عظیم مفتی مصر علی جمعہ سے ملاقات کرنی ہے اور پھر3بجے سے بین الاقوامی کانفرنس کاانعقاد ہے جس کی تیاری بڑے پیمانے پربہت ہی محنتوں سے کی گئی ہے جس میں اجلہ اکابر علماء کومدعو کیاگیا ہے اس میں آپ کے جدامجد امام احمد رضا خان بریلوی پرلگائے گئے بے بنیاد لزامات کی تردید کرنی ہے اور جماعت بریلویتہ کے متعلق اور ان کے عقائد کے بارے میں آگاہ فرمانا ہے علماء وطلباء کے ذہنوں میں جوشکوک وشبہات جماعت بریلویہ کے متعلق ہیں ،اس کودفعہ کرناچاہے۔
جامعہ ازہر شریف کے وائس چانسر احمد طیب سے گیارہ بجے دن میں ملاقات کرنی ہے اس کے بعدمزارات مقدس کی زیارتیں کرنی ہیں اورشام بعدنماز عشاء عاشق اعلیٰ حضرت جناب شیخ محمد خان ثابت صاحب کے دولت کدہ پرمحفل ہے اس میں شرکت کرنی ہے۔۶مئی کوقیام گاہ پراکثر ملکی وغیر ملکی طلباء درس حدیث کے متمنی ہیں اوربیعت کے خواہشمند ہیں وہ حاضر بارگاہ کے ان تمنائوں کوپایہ تکمیل تک پہنچانا ہے‘۷مئی کووطن کیلئے روانگی ہے۔
۷مئی کوگیارہ بجے حضرت مع احباب شیخ الازہر سید طنطاوی سے ملاقات کرنے کے لئے تشریف لے گئے توشیخ الاہرنے پرجوش انداز میں آپ کااستقبال کیا اس کے بعد آپ نے شیخ سے اپنے جدامجد امام احمدرضا کے افکاروخیالات پرتبادہ خیال کیا اور چند کتابیں جو اپنے ہمراہ لے کرآئے تھے شیخ کوپیش کی اورہرکتاب پہ تفصیلی روشنی ڈالی کہ ان کتابوں کاپس منظر کیا ہے آپ نے اعلیٰ حضرت کی کتاب ’’تنقیۃ الایمان من عقائد مبتدع الزمان‘‘ وپیش کیاتوشیخ صاحب نے طائرانہ نگاہ پوری کتا ب پرڈالی اورپکاراٹھے کہ یہ کتاب اہلسنّت وجماعت کے عقیدے کی بھرپورتائید کرتی ہے اورباب عقائد میں منفرد ہے اسکی خوب اشاعت ہونی چاہئے پھرآپ نے اپنا تحقیقی رسالہ’’الصحابۃ نجوم الاہتداء‘‘پیش کیا اور بتایا کہ ازہر شریف کے ایک عالم دین نے حدیث ’’اصحابی کالنجوم بایھم اقتدیتم اھتدیتم‘‘ کو شفاء شریف کی تحقیق و تخریج میں موضوع لکھا ہے تب شفاء شریف کی تحقیق وتخریج میں موضوع لکھا ہے‘ تب شیخ صاحب نے فرمایا کہ یہ حدیث ضعیف ہے اورضعیف حدیث باب فضائل میں مقبول ہے اور اس حدیث کوتلقی بالقبول حاصل ہے لہٰذ یہ حدیث موضوع ہے پھر دوسرا ارسالہ’’ان ابسا ابراہیم تارخ لاآزر‘‘ کوپیش کیااورکہاکہ بعض مفسرین کاکہنا ہے کہ آزوحضرت ابراہیم علیہ اسلام کے والد ہیں‘تب شیخ صاحب نے کہاکہ نہیں آزران کے چچاتھے اورتارخ ان کے والد ہیں‘شیخ صاحب فراخدلی سے آ پ کی نادرونایاب تحقیقات پرداددیتے رہے اوردعائیں کرتے رہے کہ اللہ آپ کی عمرمیں برکت عطا فرمائے اورآپ کاسایہ ہمارے اوپر تادیر قائم رکھے‘آپ نے اب اپنا تیسرا رسالہ جوابھی غیر مطبوع ہے اس کازیر اکس پیش کیا جس کانام ہے’’سداالمشارع علی من بقول ان الدین یستغنی عن الشارع‘‘اوربتایا میں سعودی عرب میں تھاتوکسی دیوبندی (جودارالعلوم دیوبند سے تعلق رکھتا ہے)نے کہا ہے کہ دین رسول کامحتاج نہیں ہے اتنا سنناتھا کہ شیخ صاحب کے چہرے پرناگواری ظاہر ہوئی اورکہاکہ وہ ملحدہے جس نے ایساکہا ہے تب آپ نے کہاہم نے اس کے ردمیں یہ تفصیلی جواب لکھا ہے۔
اس طرح سے گفتگو کاسلسلہ گھنٹوں جاری رہا پھرشیخ نے کہاکہ امام احمد رضا کے افکار کوعالم عرب میں متعارف کرایاجائے توآپ نے کہاکہ میں ان کے مجموعہ فتاویٰ بنام’’العطایا النبٰویۃ فی الفتاویٰ الرضویہ‘‘ کی تعریب کررہاہوں جوجلد ہی منظرعام پرآئیںگے اورچلتے چلتے آپ نے شیخ صاحب کوبریلی شریف آنے کی دعوت دی شیخ نے کہاکہ انشاء اللہ حاضر آئوں گا۔
اب مفتی مصر علی جمعہ سے ملاقات کرنی تھی لیکن وہ کسی اہم کام سے باہر تھے توان سے روبروملاقات تونہ ہوسکی البتہ فون پرتبادلہ خیال ہوا‘پھرحضرت اپنی آرام گاہ کے لئے روانہ ہوئے کچھ دیر آرام کے بعد راقم نے آپ کولے کر طلبا کی جانب سے منعقدہ عالمی کانفرنس میں پہنچا تووہاں علماء وطلباء پہلے ہی دیدار کیلئے ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہے تھے‘ جب آپ کی گاڑی رکی توعلماء وطلباء کاٹھاٹھے مارتاہوا سمندر آپ کی طرف بیتابانہ بڑھا اورپوری فضا اہلاً وسہلاً مرحبا کی آواز سے گونجنے لگی آپ رونق اسٹیج ہوئے وہاں پرازہرشریف ودیگر جامعات کے اجلہ علمائے کرام تشریف فرماتھے۔جن میں کلیتہ اصول الدین کے شعبہ عقیدہ وفلسفہ کے صدر جناب عزت مآب ڈاکٹر طہ حبیشی وسوتی اورصدر شعبہ حدیث عزت مآب ڈاکٹرسعید جاویش’’ کلیۃ اللغات والترجمہ‘‘ کے شعبہ اردو کے مساعد ڈاکٹر عزت مآب حازم محفوظ اورجامعہ عین شمس کے ڈاکٹرعبدالقادر انصار اوردیگر جامعات کے کئی علماء تشریف فرماتھے سب کے ناموں کااحاطہ مشکل ہے‘ صحافتی میدان سے تعلق رکھنے والے کئی افراد تھے لیکن انہیں پہلے ہی باخبر کردیاگیاتھاکہ شیخ کے نزدیک تصویر کشی حرام ہے اور اس کے لئے سختی سے پمفلٹ چسپاں کردیئے گئے کہ کوئی تصویر نہ کھینچے جس کی وجہ سے بعض میڈیا والے چلے گئے اورجورہے وہ سامعین کی حیثیت سے بیٹھے رہے اورپروگرام کی رپورٹ نوٹ کرتے رہے جس میں ازہریونیورسٹی کے طرف سے نکلنے والا ہفتہ واری اخبار’’صوت الازہر‘‘ نے پروگرام کی رپورٹ کومختصر لیکن جامع شائع کیا اورتقریباً پچاس ملکوں کے طلباء زینت محفل تھے محفل کی ابتداء پہلے ہی سے ہوچکی تھی جس میں سب سے پہلا خطاب ڈاکٹرعبدالقادر انصار جامعہ عین شمس نے کیا بہت ہی مختصر لیکن نہایت ہی جامع وپرمغز خطاب فرمایا‘ آپ نے کہاکہ اگر کسی کوامام احمد رضا کے عقیدے پرکوئی شبہ ہوتوپہلے ان کی تصنیفات کامطالعہ کرے خصوصاً’’تنقیہ الایمان من عقائد مبتدعتہ الزمان‘‘ کا اس لئے اس کتاب میں امام اہلسنّت امام احمد رضا نے تمام باطل فرقوں کی سرکوبی کی ہے اورعلماء اہلسنّت کے عقائد کو صحیحہ کو بیان فرمایا ہے اورمیں وثوق سے کہتا ہوں کہ اگرکسی نے اس کتاب کومنصفانہ مزاج سے پڑھ لیا تواس کے سارے شکوک وشبہات ریت کے تودوں کے طرح بکھرجائیں گے‘لہٰذا ہمیں امام کی کتابوں کامطالعہ لازمی ہے اس سے پہلے کچھ بھی ان کے متعلق کہنا عبث ولایعنی بات ہوگی۔
دوسرا خطاب ڈاکٹر طہ حبیشی وسوتی کاہوا(موصوف ایک صوفی گھرانہ سے تعلق رکھتے ہیں اوربڑے ہی علم وفضل کے مالک ہیں ‘نابینا ہونے کے باوجود ہرماہ دوماہ پرآپ کی کوئی نہ کوئی نایاب وعلمی کتاب منظر عام پرآتی ہے اور اپنے درسگاہی لیکچر میں کھلم کھلا وہابیوں کاروفرماتے ہیں اورذرابھی کسی کاخوف نہیں کرتے)آپ نے سب سے پہلے اپنے عظیم وبابرکت مہمان کوہدیہ تہنیت پیش کیا اورکہاکہ جامعہ ازہر آپ کاخیر مقدم کرتا ہے اورمیں بھی تہہ دل سے آپ کااستقبال کرتاہوں پھرآپ نے ہندوستان میں اسلامی تاریخ پربہت ہی جامع روشنی ڈالی کہ کس طرح اسلام سرزمین ہند میں داخل ہوا اورکس طرح انگریزوں نے وہابیت کے توسط سے افتراق بین المسلمین کاکھیل کھیلا‘ اورقادیانیت نے کس کے رحم وکرم پہ اپنا پرپھیلاناشروع کیا اوردیوبندیوں کاان سارے حالات میں کیارول رہاہے؟اب ایسے پرفتن ماحول میں شیخ الاسلام والمسلمین محب رسول امام احمد رضاخاں بریلوی کاکیا کرداررہا ہے اورآپ نے دفاع اسلام کی عظیم ذمہ داری کو کس طرح انجام دیا ہے چنانچہ جب قادیانیوں نے اپنا پرپھیلاناشروع کیا توسب سے پہلے اگرکسی نے تردید کی تو وہ امام احمد رضا بریلوی کی شخصیت ہے اورآپ نے ان کی تردید میں پانچ کتابیں تصنیف فرمائی اورجب وہابیت ودیوبندیت نے سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے علم غیب پرسوالات اٹھائے تو امام احمد رضا بریلوی نے الدولتہ المکیہ جیسی مدلل کتاب پیش کی گویاباطل نے جس زوایہ سے اعتراض کیا امام نے اسی زوایہ سے جواب دیا چنانچہ آپ اپنے زمانہ میں ہر نئے جنم لینے والے فتنے کاسرقلم کیا ہے اوراکیلے میدان میں ان فتنوں کامقابلہ کیا جیساکہ آپ کی کتابوں سے ظاہر ہے میں نے آپ کی چند کتابوں کامطالعہ کیا ہے اورسناہے کہ آپ کے فتاویٰ۳۰جلدوں پر مشتمل ہیں لیکن ابھی تک میں نے اسے نہیں پایا ہے لہٰذا میں اپنے معزز ومکرم مہمان سے عرض کروں گا کہ جدامجد کی کتابوں کوزیادہ سے زیادہ عرب دنیا میں پھیلایاجائے تاکہ صحیح عقائد کی نشرواشاعت ہوسکے‘اخیر میں آپ نے کہاکہ وقت کی تنگی ہے اورہمارے عظیم مہمان تشریف فرما ہیں ہم ان کی زبانی امام احمد رضاکے متعلق سنیں گے۔
تیسری تقریر ڈاکٹرسعدجاویش کی ہوئی آپ نے بھی اپنے عظیم مہمان کوسب سے پہلے ہدیہ تہنیت پیش کیا اور حضرت کی کتاب’’ الصحابہ نجوم الاھتداء‘‘پربھرپورروشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ میں نے ابھی تک اس حدیث’’اصحابی کالنجوم بایھم اقتدیھم اھتدیتم‘‘پراتنی مفصل بحث نہیں دیکھی ہے اورنہ ایسی نادر تحقیق ہماری نظر سی گزری ہے یہ تحقیق اپنی مثال میں منفرد ہے اوراس بات پرشاہد عدل ہے کہ علم حدیث میں مہمان موصوف کومکمل عبور حاصل ہے۔

خطاب حضورتاج الشریعہ:
آپ نے سب سے پہلے اپنے سامعین ‘منتظمین اورزینت اسٹیج علمائے کرام کاشکریہ ادا کیا آپ نے فرمایا کہ ازہرشریف جوکعبۃ العلم ہے اورعلم نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کوپوری دنیا میں پھیلانے میں کوشاں ہے اوریہ ایک زمانہ سے اس خدمت کوبحسن وبخوبی انجام دے رہاہے زمانہ کے نشیب وفراز نے بہت ساری تبدیلیوں کولایا لیکن ازہر شریف آج بھی اسلاف کی ڈگرپہ قائم ہے اوراسلام کی سچی تعلیمات کودنیا کے گوشہ گوشہ میں پہنچارہاہے۔
آپ نے کہاکہ آج ہمارے جدامجد شیخ الاسلام والمسلمین وامام الہمام امام احمد رضا خان رضی اللہ عنہ کے بارے میں کچھ مفسد عناصر نے اپنے عقائد فسادہ پرپردہ ڈالنے کے لئے غلط عقیدوں کوان کی طرف منسوب کردیا ہے جس سے ہمارے جد امجد اوران کی نسلیں بری ہیں اورہمارے عقائد وہی ہیں جوعہد صحابہ سے لے کرآج تک سینہ بسینہ چلے آرہے ہے اورہم مذہبی حنفی‘ مسلکا سنی ‘مشربا قادری‘ بلادابریلوی ہیں آج وہابیوں اوردیوبندیوں نے یہ مشہور کردیا ہے کہ امام احمدرضا فرقہ بریلویہ کے بانی ہیں میں کہتاہوں بریلویہ کوئی فرقہ نہیں ہے نہ امام احمد رضا اس کے بانی ہیں یہ ایک جھوٹ اورغلط الزام وبہتان ہے جو ہمارے اوپر عائد ہے ہم اس سے کلیتاً بری ہیں‘ہاں! جس طرح عرب دنیا میں اہلسنّت وجماعت اپنے آپ کوصوفی سے متعارف کراتے ہیں اسی طرح ہندوستان میں اہل سنت وجماعت کوبریلوی کہاجاتاہے۔

اب تاج الشریعہ سے کئے گئے سوالات کومن وعن پیش کررہاہوں۔
سوال نمبر۱: احسان الہٰی ظہیر نے اپنی کتاب‘‘البریلویہ تاریخ وعقائد ‘‘میں لکھاہے کہ احمدرضا کے استاذمرزاغلام قادر بیگ‘مرزاغلام احمدقادیانی کے بھائی تھے ‘کیا یہ صحیح ہے؟
جواب: نہیں مرزا غلام قادر بیگ امام احمد رضا کے استاذ اوروہ سنی صحیح العقیدہ تھے ان کاانتساب مرزاغلام احمد قادیانی کی طرف کرنا صریح جھوٹ ہے اس لئے کہ ان کاتعلق قادیانی سے نہ قرابتاً ہے اورنہ مجاورۃ‘کیونکہ قادیانی پنجاب میں رہتا تھااورغلام قادربیگ شہر بریلی میں رہتے تھے اوران دونوں شہروں کے مابین طویل مسافت ہے اوروہ اس سے کبھی نہیں ملے اوریہ ان کے اوپر الزام ہے کہ وہ قادیانی کے بھائی تھے ایسا کچھ نہیں ہے وہ اس سے بری ہیں۔

سوال۲: کیا امام احمد رضا فرقہ بریلویہ کے موسس ہیں؟اورکیا بریلویہ کوئی مستقل فرقہ ہے؟اورامام احمدرضا کاتعلق کیا شیعہ اور قادیانیوں سے ہے جیساکہ سعودی عرب سے ایک کتاب بنام ان عجم میسرالادیان‘‘شائع ہوئی ہے جس میں لکھا ہے کہ احمد رضا فرقہ بریلویہ کے موسس ہیں اوران کاتعلق شیعہ اورقادیانی سے ہے کیا یہ صحیح ہے؟
جواب: سب سے پہلے میں کہناچاہوں گا کہ بریلویہ کوئی فرقہ نہیں ہے اورنہ ہمارے جدامجد امام احمد رضا کاتعلق کسی شیعہ اورنہ قادیانی سے ہے ہم اورہمارے جدامجد ان ساری تہمتوں سے پاک ہیں‘ اہلسنّت وجماعت کوہندوستان میں بریلویہ سے پہچاناجاتاہے جیساصوفیہ بلادعرب میں اہل وسنت وجماعت کادوسرانام ہے۔
سوال۳: بریلویہ اوردیوبندیہ میں کیا فرق ہے؟اوران کے عقائد کیا ہیں؟
جواب: اس سوال کاجواب دینے سے پہلے میں کہونگا کہ میں نے ایک مستقل کتاب بنام’’الحق المبین‘‘لکھی ہے جوان سارے اختلافی باتوں پرمشتمل ہے ۔حق بات یہ ہے کہ ہم اہلسنّت وجماعت سے ہیں اور ہمارے پاس کوئی جدید فکر ہے اورنہ ہی ہم کسی مذہب جدید سے جڑے ہیں‘بریلویہ کالقب ہمارے اغیار و اعداء نے اس شرط کے ساتھ دیا ہے کہ یہ محب رسول کی جماعت ہے اورجواب اہلسنّت وجماعت کی نشانی ہے سوال کے دوسرے جز کاجواب یہ ہے کہ دیوبندیوں کااہل سنت وجماعت سے کوئی تعلق نہیں دیوبندیت وہابیت کے بطن سے پیدا ہوئی ہے اس کاتذکرہ میں نے اپنی کتاب’’الحق المبین’’’ میں کیا ہے اوردوسری کتاب’’حقیقتہ البریلویہ المعروف باسم مراہ النجدیۃبجواب البریلویہ‘‘کی تحقیق وتخریج ازہر شریف کے طلبا کررہے ہیں(راقم الحروف نے اس کتاب کی تحقیق وتخریج کی ہے اوریہ کتاب زیورطباعت سے آراستہ ہوگئی ہے) ہم اپنے قارئین سے عرض کریں گے کہ ان دونوں کتابوں کامطالعہ فرمائیں تاکہ حق وباطل کی پہچان کرسکیں۔
اس طرح سے ہماری یہ کانفرنس اختتام کوپہنچی اور اخیر میں حضور اعلیٰ حضرت کی چند کتابیں جن کی تعریف حضور تاج الشریعہ نے کی ہے اس کی تقسیم حاضرین میں کی گئی کتابوں کے نام یہ ہیں۔
(۱) الامن والعلی لناعتی المصطفیٰ
(۲)قوارع القھار علی المجسمۃ الفجار
(۳)الھادی الکاف فی حکم الضعاف
(۴)الامام احمدرضاخان البریلوی فی صفوہ المفکرین
یہ کتاب علمائے عرب کے مقالات کامجموعہ ہے کتاب میں اعلیٰ حضرت کی زندگی کے مختلف گوشوں کواجاگرکیاگیا ہے اورجناب عزت مآب ڈاکٹر حازم محفوظ نے ترتیب دی ہے۔
۵مئی کوحضور تاج الشریعہ جامعہ ازہرشریف کے وائس چانسلر جناب عزت مآب ڈاکٹر احمد طیب سے ملاقات کیلئے پہنچے(موصوف ایک خانقا ہی گھرانہ سے تعلق رکھتے ہیں اورخود بھی بہت بڑے پیر ہیں مصر کے بین الاقوامی ٹی وی چینل‘نائل ٹی ویNileپہ ہرہفتہ پابندی سے وہابیہ کاردفرماتے ہیں راقم نے کئی دفعہ ان کی رد وہابیہ کی سی ڈی کوسناہے)ڈاکٹرموصوف نے آپ کااستقبال مع وفد اپنے آفس کے صدر دروازہ پہ پرجوش انداز میں کیاپھراس کے بعد اپنے خاص آفس میں لے گئے اوریوں آپ کے سامنے بیٹھے تھے کہ لگ رہاتھا کہ کوئی طالب علم اپنے استاذ کے روبروزانوئے تلمذتہہ کئے ہوئے ہے‘ یہ ان کی اپنی عاجزی تھی کہ اتنے بڑے عالم ہونے کے باوجود عاجزی کادامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا‘ان سے مختلف امورپرتبادلہ خیال ہوا موصوف نے کہاکہ ازہرشریف اشعریوں اورصوفیوں کاہے اوراس کادروازہ ہمیشہ اہل سنت وجماعت کے طلباء کے لئے کھلا ہوا ہے پھرآپ نے اپنے محترم ومکرم زائر کوایک اعزازی ایوارڈ سے نوازا‘یادرہے کہ یہ ایوارڈ ازہرشریف کے ان فارغین کودیاجانا ہے جن کاکارنامہ ملکی وغیر ملکی پیمانہ کاہوتا ہے چنانچہ اس سے پہلے یہ ایوارڈ پاکستان کے نامور عالم پیر کرم شاہ ازہری کودیاگیاتھا۔
اسی شام تاج الشریعہ جبل مقطم پہ عاشق امام احمد رضا ڈاکٹر محمد خالد ثابت کے دولت کدہ پہ تشریف لے گئے یہ وہی محترم موصوف ہیں جن کی دعوۃ پرحضرت کایہ دورہ ہوا ہے‘ موصوف اپنے یہاں محفل میلاد منعقد کئے تھے یہاں بھی سامعین کی اچھی خاصی تعداد تھی آپ نے حضور ازہری صاحب سے عرض کیا کہ سیدی اپنا کوئی قصیدہ اپنی رس بھری آوازیں سنائیں توحضرت نے ان کی آواز پرلبیک کہااور اپناعزیزترین قصدہ ’’اللہ اللہ مالی رب الاھو‘‘ کوگنگنایا اورتمام سامعین حضرت کے ساتھ اس قصیدہ کوگنگنارہے تھے۔پھر اس کے بعدوہاں پہ ایک بہت بڑے صوفی عالم دین اورفن طب کے ماہر ڈاکٹر یسریٰ صاحب تشریف فرماتھے‘موصوف آج بھی ازہرشریف کی جامع مسجد میں درس بخاری دیتے ہیں جس میں کئی ممالک کے طلبہ شریک ہوتے ہیں‘آپ کانظریہ امام احمد رضا کے متعلق صاف نہیں تھا‘کیونکہ جب ہمارے احباب نے حضرت علامہ محمداحمد مصباحی صاحب کی کتاب’’حدوث الفتن وجہاد اعیان السنن‘‘کی طباعت شیخ محمد خالد ثابت کے مکتبہ سے کرائی توموصوف نے شیخ خالد سے کہاکہ آپ نے اس کتابوں کواپنے مکتبہ سے کیوں شائع کیا ہے اس میں توامام احمد رضا بریلوی کاتذکرہ ہے جو مسلمانوں کی عام تکفیر کرتے رہے توشیخ نے کہاکہ ہماری نگاہ سے توایسی عبارت نہیں گزری ہے تب موصوف نے کہاکہ میں نے ایک کتاب بنام ’’البریلویہ تاریخ وعقائد‘‘ میں پڑھی ہے توشیخ نے کہاکہ یہ ایک وہابی کی کتاب ہے اورآپ وہابیوں کے وساوس سے بخوبی واقف ہیں کہ انہوں نے شیخ السلام علامہ زینی زھلان اورعلامہ یوسف نبھانی علیہم الرحمتہ والرضوان کے بارے میں کیا کچھ نہیں لکھا ہے‘ اس کے بعد موصوف خاموش ہوگئے تب شیخ خالد نے کہاکہ کسی قسم کااگرکوئی ترددہوتوآپ بلا جھجھک پوچھ سکتے ہیں‘میں اپنے مطالعہ کی روشنی میں آپ کومطمئن کرنے کی کوشش کرونگا‘ راقم اپنے دوست کے ساتھ شیخ خالدکی زیارت کیلئے گیا توانہوں نے یہ ساری باتیں بتلائیں کہ اس طرح کاحادثہ ہوا ہے پھرآپ نے پوری کہانی سنادی توہم نے ان سے عرض کیا کہ آپ ضروران سے خاص طورپرملاقات کرکے ان کے نظریات کوصاف کریں اس کے لئے ہم سے جس طرح کی بھی مدد کی ضرورت ہوگی توہمیں حاضر پائیں گے اسی اثناء میں حضرت کادورہ بھی ہواتوڈاکٹرموصوف کوخاص طورپر کانفرنس میں مدعو کیاگیا تھالیکن موصوف عدم فرصت کی وجہ سے حاضر نہ ہوسکے تب میں نے شیخ خالد سے عرض کیا کہ ڈاکٹر یسریٰ صاحب کواپنے دولت کدہ پرپروگرام میں ضرورت مدعو کریں توانہوں نے لگے ہاتھ فون کرکے موصوف کودعوت دی اوروہ ان کے دولت کدہ پرحاضر ہوگئے لیکن موصوف نے حضرت کے پررونق جلوہ زیبا کودیکھا توحیران ہوگئے اورکلی طریقے سے مرعوب نظر آنے لگے اوربہت ہی عاجز کے ساتھ چندسوالات اس شرط کے ساتھ کئے کہ یاسیدی آپ کامذہب بھی طیب ہے اورمشرب بھی طیب ہے میں پوچھناچاہتاہوں کہ اگرکوئی جاہل کلمہ کفر کہے تو کیا وہ کافرہوگا یانہیں کیونکہ آپ کے جد امجدامام احمد رضا خان اس کی تکفیر کرتے ہیں‘تب تاج الشریعہ نے کہاکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت عام ہوگئی ہے اورجہالت کوئی عذر نہیں ہے لہٰذا اگرکوئی کلمہ کفر بکے اوراس مصر رہے تووہ کفر ہے جیساکہ فقہائے حنفیہ کاکہنا ہے پھرآپ نے برجستہ درالمختار وردالمحتار کی عبارتیں پیش کیں۔
(راقم الحروف نے جب ان عبارتوں کی تحقیق کی تومن وعن پایا جیسا آپ نے بیان کیاتھا‘یہ حضرت کی اپنی انفرادیت ہے فقہ حنفی کے مسائل میں)حضرت کی اس حاضر دماغی پرڈاکٹرموصوف ششدرہ گئے اوربول پڑے کہ اگراصرار کرتا ہے تویقیناً کافرہے تب حضرت نے کہاکہ وہابیہ ودیابنہ اسی اصرار کی وجہ سے کافر ہیں‘ ان ساری گفتگو کے بعد ڈاکٹرموصوف نے عرض کیا کہ آپ ہمیں دلائل الخیرات شریف کی اجازت عنایت فرمائیں توحضرت نے فرمایا کہ اجازت ہے اس کے بعد عرض کیاکہ داخل سلسلہ فرمالیں تو حضرت نے داخل سلسلہ کیا‘کسی صاحب نے کہاکہ کہئے کہ وہ ٹائی اتارلیں ہمارے نزدیک پہننا حرام ہے(یہ جرأت وبے باکی حضرت کاہی حصہ ہے جو انہوں نے اپنے اسلاف کرام سے پائی ہے)پھرآپ نے داخل سلسلہ فرمایا ورطریقہ قادریہ کی اجازت بھی عطافرمائی۔
اس طرح اختتام محفل پرحضرت نے اپناعمامہ شریف جواپنی قیام گاہ سے لے کرآئے تھے اس کوشیخ محمد خالد ثابت کے سرپرسجایا اوردعائیں کیں کہ اللہ عزوجل مزید آپ کوہمارے جد امجد اعلیٰ حضرت امام احمد رضا پرکام کرنے کاحوصلہ عطافرمائے اورآپ کی عمردرازفرمائے‘پھرآپ نے شیخ کوبریلی شریف آنے کی دعوت دی۔
حضرت کے دورہ کے بعد آپ نے دوسری کتاب بنام’’انصاف الامام امام اھل سنتہ العالم الربانی المجدد الشیخ احمد رضاخان البریلوی‘‘ تصنیف فرمائی ہے جس میں آپ نے سار ے الزامات جوامام احمد رضاخاں پر بے بنیاد لگائے گئے ہیں ان کاخوب اچھی طرح سے قلع قمع کیا ہے۔
۶مئی کوطلباء ازہرشریف ودیگر جامعات کے طلباء درس حدیث کے لئے قیام گاہ پرحاضر ہوئے توحضرت نے انہیں بخاری شریف کی پہلی حدیث’’انما الاعمال بالنیات‘‘ پڑھائی‘ایسا لگ رہاتھاکہ کوئی محدث علم حدیث کے گوہر لٹارہاہے اورآپ مسلسل بزبان عربی بہت دیرتک پڑھاتے رہے آپ مصری لہجہ میں فصاحت وبلاغت کے ساتھ بول رہے تھے ایسا لگ رہاتھاکہ عربی النسل ہیں۔
اختتام درس کے بعد سندحدیث کی اجازت عطا فرمائی‘اسکے بعد کثیر تعدادمیں ملکی اورغیر ملکی طلباء داخل سلسلہ قادریہ ہوئے اوردلائل الخیرات شریف کی اجازتیں حاصل کیں‘۷مئی کے شام کوحضرت کی وطن کیلئے روانگی ہوئی تمام طلبا نے حضرت کواشکبار آنکھوں سے اس امید وبیم کے ساتھ الوداع کہاکہ آپ حضورآئندہ ضرور تشریف لائیں گے‘ اس رپورٹ کی آڈیو سننے کیلئے لاگ آن کریں ہماری اس ویب سائٹ پرwww.albarelwia.comاس آڈیو سیکشن میں اس پروگرام کی ساری تفصیل بزبان عربی دستیاب ہے اس رپورٹ کی تیاری میں جوخامی ہوگی اس کی ساری ذمہ داری راقم کے سر ہے۔

Menu