حضور تاج الشریعہ علم و فضل کا مہ تاباں

مولانا محمد اشرف رضا قادری,مدیر ،  اعلیٰ سہ ماہی امین شریعت  ، بریلی شریف


خورشید علم ان کا درخشاں ہے آج بھی

علما کی شان و عظمت پر کئی حدیثیں وارد ہوئی ہیں۔ علما ہی دین سکھاتے اور سمجھاتے ہیں۔شرعی حدود واضح کرتے ہیں۔ غیر شرعی راہوں سے بچاتے ہیں۔ ان کے ذریعے حق و صداقت کا جوہر اگلی نسلوں تک منتقل ہوتا ہے۔ ان کے ذریعے منبر و محراب کی بہاریں ہیں۔ انھیں کے ذریعے حق و باطل کے مابین فرق واضح ہوتا ہے۔ علماے حق کی بڑی شان ہے۔ بڑی عظمت ہے۔ انھیں علما نے ناگفتہ بہ حالات میں دین کے مقابل اٹھنے والے ہر فتنے کا بروقت دنداں شکن جواب دیا اور سرحدِ اسلام کی نگہ بانی و پاس بانی کی۔
امام اہلسنّت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری بریلوی علیہ الرحمۃ ان علما میں نمایاں و ممتاز حیثیت و مقام کے حامل ہیں۔ جن کی تجدیدی خدمات کا اعتراف سارے جہان کے علما، عمائدین و مشائخ کرام کرتے ہیں۔ آپ نے جہاں دین کی حفاظت و صیانت کی وہیں علما و سادات کا مقام و مرتبہ بھی واضح کیا۔ دین کو باطل عقائد سے پاک کیا اورفتنوں کی قلعی کھول کر رکھ دی۔ وہابیت، دیوبندیت، قادیانیت، نیچریت، ندویت و صلح کلیت کے چہرے کو بے نقاب کیا۔ رسول کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی تعظیم دلوں میں بٹھا دی جبھی آج ہر گلی، ہر کوچہ، ہر شہر و علاقہ- جہاں کہیں عشقِ رسول کی محفلیں سجتی ہیں، میلاد کی محافل آراستہ ہوتی ہیں، اعلیٰ حضرت کی خدمات کا ذکرِ جمیل ضرور ہوتا ہے اور یہ نغمہ دل کو سرشار کرتا ہے ؎

ڈال دی قلب میں عظمت مصطفیٰ
سیدی اعلیٰ حضرت پہ لاکھوں سلام

نیابت امام احمد رضا:
حضور تاج الشریعہ علامہ مفتی محمد اختر رضا خان قادری ازہری موجودہ دور میں نیابتِ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ دین کے مقابل پیدا ہونے والے ہر فتنے کے مقابل حق کی شمع روشن کیے ہوئے ہیں۔ علماے ربانیین میں نمایاں و ممتاز ہیں۔ اور علماے حق کے ترجمان ہیں۔
حضور تاج الشریعہ کی ذات علماے سلف کی خدمات و افکار کی مظہر ہے۔ شریعت پر استقامت کا یہ عالم کہ حق و صداقت کی تائید و نصرت میں یہ نہیں دیکھا کہ کس کی مخالفت ہو رہی ہے۔ یا مدمقابل ظاہری شوکت و طاقت سے لیس ہے۔ حضور تاج الشریعہ نے اسلامی سچائی کے اظہار میں بلا خوف لومۃ لائم ہمیشہ حق ہی کہا۔ غیر شرعی معاملات کی تبلیغ کرنے والوں کو حضور تاج الشریعہ کی حق گوئی ایک آنکھ نہ بھائی۔ انھیں یہ شکوہ ہے کہ حضرت مداہنت سے کام کیوں نہیں لیتے۔ مصلحت سے کام کیوں نہیں لیتے۔شرعی معاملات میں استقامت و تصلب کیوں روا رکھتے ہیں!!
مومن کی یہ صفت ہے کہ اس کا ظاہر و باطن ایک ہوتا ہے۔ یک رنگی ہوتی ہے۔ زبان پہ کچھ دل میں کچھ نہیں رہتا۔ ایسے ہی مرد مومن ہیں حضور تاج الشریعہ۔ جن کے کردار و عمل نے فتنوں کو گھر تک پہنچایا ہے۔ اور شریعت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا اُجلا، نکھرا،ستھرا اور روشن چہرہ پیش کر کے خلافِ شرع راہوں پر قدغن لگایا۔ یہی وصف انھیں معاصرین میں ممتاز کرتا ہے۔یہی وصف شریعت بیزار طبقے کے لیے باعثِ عار ہے۔

خداداد مقبولیت :
اللہ تعالیٰ نے حضور تاج الشریعہ کی عظمت دلوں میں ڈال دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی مقبولیت بڑھتی جا رہی ہے۔ شہرت ایسی کہ بڑے بڑے علما، اکابر، مشائخ و سادات بھی آپ کا تذکرہ احترام و وقار کے ساتھ کرتے ہیں۔ آپ کے فتوؤں، شرعی فیصلوں کو تسلیم کرتے ہیں۔ اسی کے مطابق شرعی حکم جاری کرتے ہیں۔جب بھی کسی پیچیدہ مسئلے میں دقت آتی ہے تو علماے محتاطین آپ کے فیصلوں کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
اپنے تو اپنے ہیں اغیار بھی آپ کی شان و شہرت کے قائل اور تصلب فی الدین کے معترف ہیں۔ مختلف علاقوں کے احباب کے ذریعے معلوم ہوتے رہتا ہے کہ فلاں علاقے میں حضور تاج الشریعہ کی آمد سے ایک انقلاب آ گیا۔ دشمن بھی استقامت فی الدین کا معترف نظر آتا ہے۔ جس مقام پر آپ کی آمد ہوتی ہے دلوں کی دنیا بدل جاتی ہے۔ کتنے ہی گناہوں سے تائب ہوتے ہیں۔ بد عقیدگی سے بھی تائب ہونے والوں کی بڑی تعداد ہے۔ صرف حضور تاج الشریعہ کے دیدار سے ہی کتنے ایمانی حلاوت سے سرشار ہو جاتے ہیں، کہ ایک غلامِ مصطفی کا یہ عالم ہے تو آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمتوں کا کیا عالم ہوگا۔

مخالفت کے اسباب:
آج کل ایک وبا چل پڑی ہے۔ جس کی خداداد مقبولیت دیکھی اسی سے حسد کر بیٹھے۔ ایسا ہی کچھ معاملہ ہم حضور تاج الشریعہ سے متعلق دیکھ رہے ہیں۔ کہ ان کے مخالفین بِنا سبب محض بغض و حسد سے واہی تباہی بک رہے ہیں۔ اپنے پیشہ ورانہ طرزِ خطابت سے طنز و تشنیع کے ذریعے حضور تاج الشریعہ سے عناد کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ یہ طرزِ عمل سخت تشویش کن ہے۔ باعث افسوس ہے۔ ایسے مقرروں اور پیروں کو اپنا قبلہ درست کر لینا چاہیے۔ علماے ربانیین سے عداوت زوال کا سبب ہوتی ہے۔ یاد رکھیے! شریعت سے کسی کو خلاصی نہیں۔ شرعی قوانین کی پاس داری ہر طبقے کے لیے ہے۔ علما ہوں یا مشائخ، سادات ہوں یا عام مسلمان، ہر ایک کے لیے شرعی قوانین پر عمل ضروری ہے۔ اس لیے کہ تمام نسبتیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع و پیروی سے ہی مستحکم ہوتی ہیں۔ اسی لیے شریعت مصطفی کی اتباع میں ہی کمی رہ جائے تو بڑی نسبتوں کا حق کیسے ادا ہوگا!! اگر حضور تاج الشریعہ شریعت کے مطابق زندگی گزارنے کا درس دیتے ہیں تو ان کے دروس و نصائح پر عمل کی کوشش کرنی چاہیے، اس سے حسد میں مبتلا ہو کر خلافِ شرع محرکات کو ہی قبلہ قرار دے لینا دنیا و آخرت دونوں جگہ ذلت و رسوائی کا سبب ہوگا۔
ایسے ہی بعض پیشہ ور مقرروں نے رائے پور چھتیس گڑھ میں اپنی عداوت کا مظاہرہ کیا اور حضور تاج الشریعہ کی شان میں بڑی جسارت کر ڈالی۔ ایسوں کے لیے ہم ہدایت و راہِ مستقیم کی دعا کرتے ہیں۔ اور انھیں دعوتِ فکر دیتے ہیں کہ علماے ربانیین کی مخالفت سے باز آئیں ورنہ مقبولیت کا گراف جو تیزی سے زوال کی سمت مائل ہے، کہیں بے نام ونشاں نہ کردے۔
کام کی فکر کیجیے:
اس زمانے میں جو لوگ فتنوں کا سبب بنے ہیں۔ انھیں تو اپنے لفافوں اور نذرانوں سے مطلب ہے۔ انھیں مسلک کی کیا فکر! وہ تو بس اپنے مفادات کے لیے چلتے اور بولتے ہیں۔ عوامی جذبات سے کھیلتے ہیں۔ لطیفہ گوئی سے ماحول بناتے ہیں۔ ہنساتے،دھونس جماتے اور اوندھے منھ گراتے ہیں۔ بریلی کا کھاتے اور اکابرین بریلی پر غراتے ہیں۔ اعلیٰ حضرت کے نام پر دوکان چلاتے ہیں اور انھیں کے علمی جانشین حضور تاج الشریعہ سے خوف کھاتے ہیں۔اور حضور تاج الشریعہ سے بغض کی تشہیر کرتے ہیں۔
انھیں چاہیے کہ اپنی اصلاح کی فکر کریں۔ زبان پر قابو لائیں۔ دل کا قبلہ درست کریں۔ من سنواریں تا کہ ظاہر بھی مہک اٹھے۔ اسلاف پر کیچڑ اچھالنے سے گریز کریں۔ کام کے آدمی بنیں۔ فتنہ و شر انگیزی کی عادت ترک کریں۔ اپنے اسلاف کی راہ چلیں جنھیں بریلی سے محبت تھی۔ بریلی نے محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سوغات تقسیم کی ہے۔ اس سے حسد رہے سہے ورثے کو تباہ کرنا ہے۔ بہت ہو گئی تخریب۔ اب کام کی بھی فکر کیجیے۔ موت کا کوئی بھروسہ نہیں۔ کب آجا ئے بلاوا۔ اس لیے آخرت کی فکر کیجیے۔ حضور تاج الشریعہ کی شان میں بدگوئی سے بچئے۔ شریعت کی سچی پیروی اختیار کیجیے۔ اسی میں نجات ہے۔ اسی میں اہلسنّت کا بھلا ہے۔ آخرت کی سرخروئی ہے اور قومی وقار کے لیے فوز و فلاح کی ضمانت ہے۔

 

Menu