یادیں تاج الشریعہ کی
علامہ محمد یونس شاکر القادری،کراچی،پاکستان
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
اما بعد فاعوذباللّٰہ من الشیطٰن الرجیم بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الَّذِیۡ خَلَقَ الۡمَوۡتَ وَ الۡحَیٰوۃَ لِیَبۡلُوَکُمۡ اَیُّکُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلًا ؕ
صدق اللہ مولانا العظیم
حمد وصلاۃ کے بعد معلوم ہو کہ اللہ جس نے ہمیں زندگی کی نعمت سے سرفراز فرمایا، ایک آزمائش کے بعد آخرت کی عظیم تر نعمتوں سے متمتع فرمائے گا۔ جس طرح وہ ہماری زندگی کا خالق ہے ہماری موت بھی اس کی تخلیق کردہ ہے۔ اس دنیا میں آمد ایک آزمائش ہے آزمائش کے اس مرحلے میں اس کے محبوبین خودتو بامراد رہے اور دوسروں کی ہدایت کا ذریعہ بھی بنے۔ یقینا ایسے افراد کی حیات باقی ماندہ کے لیے باعث رحمت و نجات ہے۔نیکی و بدی ،اہل خیر و شر کا مقابلہ بہت پرانا ہے، اگرچہ کہ شریروں کے سرغنہ نے صراط مستقیم پر بیٹھ کر لوگوں کی راہ مارنے کی ضد کی، مہلت ملنے کے باوجود بھی عباد الصالحین کا کچھ نہ بگاڑ سکا اور خود بھی اس کا اقراری رہا مگر اس کی کوشش جاری ہے۔ اللہ! ہمارا رب بڑا کریم ہے، اس کے کرم کے طفیل مخلوقات کی رہنمائی اور ان کو اخروی ہلاکت سے بچانے کے لیے انبیائے کرام علیہم الصلاۃ والتسلیم کی تشریف آوری ہوئی اورحضور ختم المرسلین ﷺکے بعد اس فریضے کی ادائیگی کے لیے عبادالرحمان آگے آئے اور اس علم کو بلند رکھا۔
ان میں کا ہر فرد اپنے کام میں مخلص رہا اور عوام الناس کو شر سے دور اور خیر سے قریب کرتارہا۔ اس طبقۂ مصلحین میں کچھ ظاہری علوم میں ممتاز ہوئے اور کچھ باتیں علوم میں اور کچھ علوم ظاہری و باطنی دونوں کے جامع رہے۔ لیکن ہر ایک خیرالناس من ینفع الناس کے تحت لوگوں کو نفع پہنچانے میں لگا رہا۔چونکہ ہر ایک کو وعدہ الٰہیہ
’’کُلُّ نَفۡسٍ ذَآئِقَۃُ الۡمَوۡتِ ‘‘
کو پانا ہے۔ لہٰذا جس کا جو وقت مقرر ہے اس سے پیشتر اپنا کام کرکے ،کسی کو اپنا نائب بنا کر رخصت ہوجاتا ہے۔ یہی طریقہ ہے اہل حق کے اس طبقے میں ہر فرد سے ایک عالم نے فیض پایا کچھ کو اللہ تعالیٰ نے خاص انعام سے سرفراز فرمایا تو ظاہری اور مختصر زندگی میں بھی بہت کام کر گئے جیسے مختلف سلاسل حقہ کے پیشوایان اور پھر ان کے متبعین میں بعض کو اللہ نے خوب ممتاز فرمایا جن کا فیض نسلاً بعد نسل منتقل ہوتا رہا۔
انہی تابناک اور روشن ناموں میں ایک نام اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ والرضوان کا بھی ہے ،جو بلاشبہ اہل حق کی پہچان بنے ۔احقاقِ حق اور ابطال باطل جن کا طریقہ رہا ۔اللہ تعالی نے بہت سے اسرارورموز ان کے سینۂ مبارکہ پر منکشف فرمائے جس کی بدولت وہ اپنے معاصرین میں بھی خوب ممتاز ہوئے اور بعد والے تو ان کے علمی و روحانی احسانات پر شکرگزار ہیں ہی۔انھیں کی فکر و نظر کے حامل افراد اہل سنت وجماعت ہیں۔ ان کے طفیل ان کی اولاد و تلامذہ رہنما ہوئےاوریہ سلسلہ جاری ہے ۔میں بذات خود اسی خانوادے کے ثمرات کا خوشہ چیں ہوں۔ نبیرۂ اعلیٰ حضرت حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ سے ایک عالم نے فیض پایا ۔بے شک وہ امام اہلسنت کے علوم و فکر و نظریات کے امین رہے اور اپنے اجداد کے سچے نائب ۔اللہ تعالی نے ان کو ظاہری حسن کے ساتھ باطنی حسن بھی مرحمت فرمایا اور یہ اس لئے کہتا ہوں کہ تقویٰ وپرہیزگاری جو باطنی حسن کے لئے ضروری ہے آپ کی ذات میں خوب موجود رہی، محبین و معتقدین کے علاوہ معاندین اس بھی اس بات کو تسلیم کرتے رہے ہیں۔
حضرت کا مزاج انتہائی سادہ، کوئی تصنع و بناوٹ نہیں یہ اور بات ہے کہ آپ عام اور سادہ لباس زیب تن فرماتے تو بھی خوب سجتے ۔ہم جیسے لوگ لباس سے زینت حاصل کرتے ہیں جب کہ یہاں ایسا لگتا ہے کے لباس کو حضرت سے زینت ملی ۔بلاشبہ وہ ایک عمامہ زیب سر فرمانے کے بعد دوسرے رنگ کا عمامہ اپنے سر پر سجا تے تودیکھنے والے کو فیصلہ مشکل ہوتا کہ یہ زیادہ خوب یا وہ جو پہلے تھا۔یہی حال لباس کا ۔فللّٰہ الحمد 28؍فروری 1983ءکی رات پیر کالونی میں ایک مکان میں حضرت تشریف فرما تھے میں اپنے برادر خورد محمدیوسف شاکر کے ساتھ جا رہا تھا، ہماری مسجد کے امام میرے استاد محترم قبلہ علامہ غلام قمر الدین چشتی سیالوی قبلہ پر نظر پڑی اشارے سے اندر آنے کا فرمایا، جب اندر داخل ہوئے تو حضرت صوفے پر تشریف فرما تھے، یہ پہلی ملاقات و زیارت تھی حضور سے۔ امام صاحب نے تعارف کرایا کہ اعلیٰ حضرت کے خاندان سے ہیں ،دیکھتے ہی سبحان اللہ زبان سے نکلا، دست بوسی کی اور ہم دونوں بھائی اسی وقت حضرت کے دست پاک میں ہاتھ دے کر غلامی میں داخل ہوئے ۔پھر جب جب موقع ملتا رہا قبلہ شوکت ملت حضرت قبلہ شوکت حسن خان صاحب اور محترم حافظ محمد اسلم صاحب رضوی کے توسط سے قرب ملتا رہا۔ ناچیز پر شفقت فرماتے ہوئے اجازت سے سرفراز فرمایا ۔تحدیث نعمت کے لیے عرض کرتا ہوں کہ فقیر کو علامہ مفتی ثاقب قادری قبلہ کے ساتھ تحریری طور پر وکالت بھی حاصل رہی ۔پیرانہ سالی کے باوجود مختلف بلاد میں تبلیغی دورہ اور تشنگان علم وحکمت کو سیراب کرنا آپ ہی کاحصہ ہے۔
حضرت کی اعلیٰ ظرفی دیکھئے! گویا اللہ کا فرمان پیش نظر تھا:
’’ وَ اَعۡرِضۡ عَنِ الۡجٰہِلِیۡنَ ‘‘
(جاہلوں سے اعراض فرمائیں) اس سنت کو ادا کرتے ہوئے بہت سے ایسے افراد جو حضرت پر زبان دراز تھے کبھی ان کی جانب التفات نہ فرمایا۔اور طبقۂ علماء میں جن سے علمی اختلاف رہا ان پر ضرور اپنا موقف ظاہر فرمایا،لیکن اخلاق و شائستگی ہاتھ سے نہ جانےدی۔ آپ کی علمی خدمات کی ایک طویل فہرست ہے۔
حج و عمرہ و حرم مدینہ میں آپ کی قربت اور رفاقت فقیر کی زندگی کے وہ پاکیزہ لمحات ہیں جن کو میں اپنی زندگی کا سرمایہ اور نجات کا باعث سمجھتا ہوں۔ 2005ءمیں عرس اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے سلسلے میں بریلی شریف میں حاضری کے وقت 9دن حضرت کی مصروفیات اور جلوت و خلوت کے لمحات بہت ہی خوب تھے۔ دنیا بھر سے آئے ہوئے محبین اعلیٰ حضرت سے ملاقات بھی تو حلقہ ارادت میں داخل ہونے والے بھی، سب کے لیے وقت نکالنا پھر اس زمانے میںطلباءکے اسباق بھی، حضرت اپنے بیڈروم میں تشریف فرما ہو کر طلباء کو فقہ کی کتاب الاشباہ والنظائر کا سبق پڑھا رہے تھے۔ کراچی سے اعلی تعلیم کے سلسلے میں بریلی شریف میں موجود علامہ مفتی محمد ثاقب اختر القادری کے ساتھ اس سبق میں میری بھی حاضری رہی۔ عرس کی تقریبات میں حضرت کی مصروفیات دیدنی تھیں ۔مختلف اکابر علماء کے لیے خصوصی رہائش کا اہتمام اور ان سے ملاقات اور مختلف مسائل پر گفت و شنید ،حضرت کی رفاقت میں آپ ہی کی گاڑی میں شیر بیشہ اہلسنت علامہ حشمت علی خان صاحب علیہ الرحمہ کے مزار پر حاضری بھی نصیب ہوئی۔
آپ کی رحلت یقینا بہت بڑا سانحہ ہے مگر ہر ایک کو اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے آپ کے وصال سے ایک عالم سوگوار ہوا۔ حضرت ہماری ظاہری آنکھوں سے اوجھل ضرور ہوئے ہیں مگر ان کا روحانی فیض ہمارے شامل حال ہے اور رہے گا۔ ان شاءاللہ۔ اللہ پاک حضرت کے درجات کو بلند سے بلند فرمائے اور حضرت کے فرزند ارجمند قبلہ حضور عسجد میاں صاحب کو حضرت کے فیض کو جاری رکھنے کی توفیق بخشے ۔
آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللّٰہ علیہ وسلم