تاج الشریعہ! سلاسلِ طریقت کے شیخ کبیر

وسیم احمد رضوی،  مالیگاؤں،انڈیا


جانشینِ مفتی اعظم تاج الشریعہ علامہ مفتی محمد اختر رضا قادری ازہری مد ظلہٗ العالی(قاضی القضاۃ فی الہند) کی شخصیت کثیر الجہات اور ہمہ گیر ہے۔ آپ کی حیاتِ مبارکہ کا دینی و عصری، فقہی و علمی،مسلکی و نظریاتی،ادبی و تعلیمی، تدریسی و تربیتی، تصنیفی و تالیفی اور ظاہری و روحانی وغیرہ غرض ہر گوشہ اپنے اندر جاذبیت ، معنویت اور اثر آفرینی رکھتا ہے۔آپ علومِ عقلیہ و نقلیہ کے جامع اور شریعت و طریقت کے مجمع البحرین کی حیثیت رکھتے ہیں۔کیوں نہ ہو کہ آپ اس خاندانِ عالی وقار سے تعلق رکھتے ہیں جس نے ہر دور میںشریعت و طریقت کی پاسبانی کا فریضہ انجام دیا۔ آپ کے جدِ کریم امام اہلِ سنت امام احمد رضا محدثِ بریلوی جہاں اپنے وقت کے ابوحنیفہ تسلیم کیے گئے وہیں نائبِ غوثِ اعظم بھی مانے گئے۔ امام احمد رضا کی تربیت ہی کا اثر ہے کہ خانقاہوں سے دارالافتاء کا فریضہ انجام دیا جانے لگا اور دارالافتاء سے تصفیۂ نفس و باطن کی باتیں کی جانے لگیں۔
حضور تاج الشریعہ خانوادۂ رضویہ کی علمی و روحانی امانتوں کے وارث اور امین ہیں۔ سلسلۂ بیعت و ارشاد کا جو فریضہ آپ انجام دے رہے ہیں وہ یقینا دورِ حاضر کی اہم ضرورت ہے۔ جس کے ذریعے باطن کی تطہیر اور صالح اسلامی معاشرے کی تشکیل میں مدد ملتی ہے۔اس سلسلہ کو آگے بڑھانے کے لیے متقی و پرہیز گار عالمِ باعمل اور صوفیِ باصفا کی ضرورت ہوتی ہے، جس کی رہ نمائی میں منازلِ طریقت طے کیے جاتے ہیں۔اور بلا شبہ حضور تاج الشریعہ کی ذات وہ ذات ہے کہ جن کے تقویٰ و طہارت اور علمی جلالت و روحانی شوکت پر عرب و عجم کے علما و مشائخ گواہ ہیں۔
سلسلۂ طریقت کو آگے بڑھانے کے لیے حضور تاج الشریعہ کا انتخاب کسی عام آدمی نے نہیں کیا تھا بلکہ وہ ذات قطب زمانہ ، ہم شبیہ غوثِ اعظم حضور مفتی اعظم علیہ الرحمہ کی تھی جنھوں نے اپنی ظاہری حیات ہی میں حضور تاج الشریعہ کو اپنا نائب اور جانشین قرار دیا تھااور اپنی موجودگی میں لوگوں کو حکم دیا کہ وہ حضور تاج الشریعہ کے ہاتھ پر بیعت کریں۔حضور تاج الشریعہ کو مفتیِ اعظم کے علاوہ برہان الملت مفتی برہان الحق جبل پوری ، سیدالعلما علامہ آلِ مصطفی برکاتی مارہروی، احسن العلما علامہ سید مصطفی حیدر حسن برکاتی مارہروی علیہم الرحمہ نے بھی اجازت و خلافت عطا فرمائی۔مگر آپ حضور مفتی اعظم کے توسل ہی سے بیعت فرماتے ہیں۔حضور مفتیِ اعظم کو اعلیٰ حضرت امام احمد رضا اور حضرت سید ابوالحسین احمد نوریؔ میاں مارہروی سے معرفت و طریقت کے تیرہ سلاسل میںاجازت و خلافت حاصل تھی ،(جس کے حامل و جامع حضور تاج الشریعہ ہیں)وہ درج کیے جاتے ہیں۔
ان ۱۳؍ سلاسلِ طریقت میں سلسلۂ عالیہ قادریہ برکاتیہ رضویہ کی اجازت و خلافت پانچ طریقوں سے ہے:
(۱)قادریہ برکاتیہ جدیدہ، (۲) قادریہ آبائیہ قدیمہ، (۳) قادریہ اہدائیہ، (۴) قادریہ رزاقیہ، اور(۵)قادریہ منوریہ
سلسلۂ چشتیہ دو طریقوں سے:
(۶) چشتیہ نظامیہ (۷) چشتیہ صابریہ
سلسلۂ نقشبندیہ دو طریقوں سے:
(۸) نقشبندیہ علائیہ (۹) نقشبندیہ علائیہ صدیقیہ
سلسلۂ سہروردیہ بھی دو طریقوں سے:
(۱۰) سہروردیہ قدیمہ (۱۱) سہروردیہ جدیدہ
ان کے علاوہ (۱۲) سلسلۂ بدیعیہ اور (۱۳) سلسلۂ علویہ منامیہ
ہیں جن کے پیرِ طریقت حضور تاج الشریعہ ہیں اور ان سلاسل کے فیوض و برکات سے مستفیض کرتے ہیں۔
مذکورہ سلاسلِ معرفت و طریقت تو سب ہی اپنی جگہ سلسلۃالذہب کی حیثیت رکھتے ہیں۔لیکن ان میں سلسلۂ علویہ منامیہ وہ سلسلہ ہے جو بہت کم واسطوں سے حضور رحمتِ عالم ﷺ تک پہنچتا ہے۔ اس مبارک سلسلہ میں تاج الشریعہ کو مفتی اعظم سے خلافت ہے، انہیں اپنے والد امام احمد رضا سے، انہیں اپنے پیر و مرشد سیدنا آلِ رسول مارہروی سے، انہیں اپنے استاد سراج الہند شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی سے، انہوں نے اپنے سچے خوابوں میں امیرالمومنین حضرت مولیٰ علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہٗ کے ہاتھ پر بیعت کی اور مولائے کائنات نے حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے مبارک ہاتھوں میں ہاتھ دیا۔(تجلیاتِ تاج الشریعہ،ص۱۴۲؍تا ۱۴۸ ملخصاً)
تاج الشریعہ کی ذات دورِ حاضر میں مسلمانوں کے قائد و امیر کی حیثیت رکھتی ہے۔ شرعی معاملات میں ان کا قول تقویٰ کا معیار اور احتیاط کا مینار ہوتاہے جس کی روشنی میں اعمال پابندِ احکامِ مصطفیٰ ہوسکتے ہیں۔اپنی متنوع مصروفیات کے باوجود سلسلۂ طریقت کو فروغ دینے کا جو عظیم فریضہ آپ انجام دے رہے ہیں اس سے متاثرہوکر علمائے عرب آپ کو’’ شیخ کبیر‘‘،’’شیخ ازہری‘‘ اور ’’شیخ ہندی‘‘ کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔ تبرکاً آپ سے اجازت و خلافت و اسانیدِ اجازتِ حدیث حاصل کرتے ہیں۔برصغیر ہند و پاک کے علاوہ بلادِ عرب و یورپ میں آپ کے سیکڑوں خلفاوتلامذہ ہیں ۔ بڑے بڑے علما و مفتیانِ کرام آپ سے بیعت ہونے کو اپنے لیے باعثِ فخر تصور کرتے ہیں۔اسی طرح آپ کے مریدین کی تعدادمحتاط اندازے کے مطابق ایک کروڑ سے تجاوز کر گئی ہے۔اس ضمن میں آپ کو دورِ حاضر میں سلسلۂ قادریہ کا ’’مرشدِ اعظم‘‘ اور ’’ شیخ کبیر‘‘ کہا جاتا ہے۔

Menu