تاج الشریعہ کا اسلوب نگارش

مولانا محمد عطاء النبی حسینی مصباحی ، بریلی شریف،انڈیا


یوں تو ہندوستان کو یہ شرف حاصل ہے کہ ہر دور ، ہر زمانے ، ہر عہد ، ہر صدی اور ہر قرن میں اسے ایسے ایسے عظیم و جلیل خانوادوں نے فیضیاب کیا جن کا شمار آج سواد اعظم اہل سنت سے ہوتا ہے ۔اسی ہندوستان کے صوبۂ اتر پردیش میں واقع شہر بریلی میں ایک پٹھان خاندان میں علم و معرفت کا آفتاب امام العلماء حضرت علامہ شاہ رضا علی خان علیہ کی شکل میں تیرہویں صدی ہجری میں طلوع ہوا ۔ اس کے بعد یہ خانوادہ علم و حکمت اور معرفت و طریقت کے نور سے ایسا روشن و منور ہوا کہ خدا معلوم اب تک اس خانوادہ سے منسلک ہو کر کتنے خانوادے منور ہوچکے ہیں ۔ یہ خانوادہ کون ہے ؟ یہ وہی خانوادہ ہے جو آج اہل سنت و جماعت کے درمیان’’ خاندان رضا ‘‘اور’’ خانوادۂ رضویہ‘‘ کے خوش نما نام سے متعارف ہے ۔ خانوادۂ رضویہ کے خصوصیات میں سے ایک اہم خصوصیت یہ کہ اس خانوادے نے اہل سنت و جماعت کو دین اسلام کے احکام کی تشریحات وتوضیحات اور اہل سنت و جماعت کے عقائد و معمولات پر مشتمل اس قدر تصنیفات وتالیفات سے نوازا کہ شایداس کی مثال ملنی مشکل ہو ۔ ذرا ایک سر سری نظر اس خانوادے کے افراد کے تصنیفات وتالیفات پر ڈالیں جس سے بخوبی واضح ہوجائے گا کہ خانوادۂ رضویہ اس میدان میں دیگر خانوادوں سے ممتاز ہے ۔
خاتم المحققین امام المتکلمین علامہ نقی علی خان علیہ الرحمہ نے تقریباً ۴۰ ؍کتابیں قوم و ملت کو عطا فرمائیں (بحوالہ تاریخ مشائخ قادریہ ، ج : ۲ ، ص : ۲۹۶ )
امام اہل سنت مجدد دین وملت اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان قادری رضی اللہ عنہ نے۱۰۵ علوم و فنون پر مشتمل علم و حکمت سے لبریز تقریباً ۱۰۰۰ ؍کتابوں سے اہل سنت کو شاد کام کیا ۔( بحوالہ امام احمد رضا کی نعتیہ شاعری ، ص : ۵۹ )
استاذ زمن حضرت علامہ حسن رضاخان علیہ الرحمہ نے ۶ ؍کتابیں نذر اہل سنت کیں۔
حجۃ الاسلام حضرت علامہ حامد رضاخان علیہ الرحمہ کے نوک قلم سے ۱۴ ؍تصنیفات معرض وجود میں آئیں ۔( بحوالہ تذکرۂ جمیل ، ص : ۱۸۴)
حضور مفتی اعظم ہند علامہ مصطفیٰ رضا خان علیہ الرحمہ نے بھی ملت اسلامیہ کو ۴۰ ؍کتابوں کا تحفہ دیا۔(فتاویٰ مصطفویہ ، ص : ۱۷۔ ۲۴)
اور موجودہ جانشین مفتیٔ اعظم ہند حضور تاج الشریعہ دامت برکاتہم العالیہ نے بھی اپنے خاندانی طرۂ امتیاز کو باقی رکھتے ہوئے اپنی بے پناہ دعوتی و تبلیغی مصروفیات کے باوجود بڑی چھوٹی تقریباً ۷۵ کتابیں تصنیف فرمائیں ۔حضور تاج الشریعہ کی کتابیں جہاں اپنے موضوع پر اہم اور گراں قدر ہیں وہیں معلومات سے بھی لبریز ہیں جس کے سبب قاری کو نہ صرف متعلقہ موضوع کے بارے میں کسی ایک نتیجہ تک پہنچنے میں آسانی ہوتی ہے بلکہ مزید معلومات سے بھی قلوب و اذہان مالامال ہوتے ہیں ۔ حضور تاج الشریعہ کی تمام کتابوں کے مطالعہ کا شرف راقم کو حاصل نہیں ہوالیکن تلاش بسیار کے بعدجن کتابوں تک رسائی حا صل ہوئی اور جس قدر بھی مطالعہ سے شاد کام ہوا وہ یہ ہیں ۔
( ۱ ) تعلیقات الازہری علیٰ صحیح البخاری و علیٰ حواشی المحدث السہارنفوری ( ۲ ) آثارِ قیامت ( ۳ ) ٹائی کا مسئلہ ( ۴ ) ٹی وی اور ویڈیو کا آپریشن ( ۵ ) تحقیق أن أبا ابراہیم ’’تارح ‘‘لا’’ آزر ‘‘ ( ۶ ) حقیقۃ البریلویۃ معروف بہ مرأۃ النجدیہ ( ۷ ) چلتی ٹرین میں فرض و واجب نمازوں کی ادائیگی کا حکم ۔
مذکورہ کتب کے مطالعہ کے دوران حضور تاج الشریعہ کے جن مشترک اسالیب سے معرفت حاصل ہوئی وہ یہ ہیں ۔
( ۱ )جوشِ بیان تنز وتعریض ( ۲ ) بر محل شعر یا مصرعہ کا استعمال (۳ ) تنقید و تعاقب ، عقائد و معمولات اہل سنت کی جلوہ گری ،عقائد باطلہ و افکار فاسدہ کا رد بلیغ( ۴ ) پُر زور طرز استدلال اور دلائل و براہین کی کثرت ( ۵ ) کتب متداولہ کی طرف مراجعت(۶ ) کتب اعلیٰ حضرت سے استفادہ( ۷ ) ازالۂ اعتراض و اوہام۔
اس طویل مگر مفید تر تمہید کے بعد حضور تاج الشریعہ کے اسلوب تحریر آپ کی کتابوں کی روشنی میں پیش کیے جا رہے ہیں ، ملاحظہ فرمائیں۔

جوشِ بیان اور تنز و تعریض :

حضور تاج الشریعہ کے اسالیب تحریر میں ایک اسلوب جوش بیان اور روانی ہے جس سے قاری کو سنجیدگی کے ساتھ ساتھ دلچسپی کا بھی احساس ہوتا ہے اور اسے پوری تحریر پڑھ جانے کے باوجود اکتاہٹ کی پریشانی لاحق نہیں ہوتی بلکہ قاری پڑھتا اور پڑھتا ہی چلا جاتا ہے ۔ نیز اس جوش بیان میں جب اپنے مخاطب و مقابل پر بغیر نام و نمود کی خواہش کے تنز و تعریض کرتے ہیں تو جہاں بے باکی کی جھلک ملتی ہے وہیں قاری عش عش کر اٹھتا ہے ۔ ملاحظہ فرمائیں حضور تاج الشریعہ کا یہ اسلوب ۔
تعلیقاتالازہری علیٰ صحیح البخاری و علیٰ حواشی المحدث السہارنفوری : حدیث نیت کی توضیح وتشریح کے بعد حضور تاج الشریعہ اس حدیث پاک سے اخذ ہونے والے فوائد کا ذکر کرتے ہوئے ایک مقام پر رقم طراز ہیں : ’’ لم ینقل عن النبی ﷺ و لاعن الصحابۃالکرام : التلفظ بالنیۃ غیر أن اکثر الصلحاء قالوا باستحبابہ لجمع العظیمۃ کما تقدم ۔ فالتلفظ بالنیۃ بدعۃ حسنۃ ، من ھنا علم أنہ لاتنحصر البدعۃ فی السیئۃ ، بل تکون البدعۃ حسنۃ أیضاً ، فزعم الوہابیۃ أن کل بدعۃ سیئۃ ، لادلیل علیہ و ھو عدوان علیٰ المسلمین عظیم ۔۔۔فزعم الوہابیۃ أن کل بدعۃ سیئۃ تحکم و اختراع ‘‘ ۔ ( تعلیقات الازہری ، ص : ۶۳ ۔ ۶۲ ) یعنی نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام سے زبان سے نیت کرنا نہیں منقول ہے حالاں کہ اکثر صالحین فرماتے ہیں کہ یہ مستحب ہے جیساکہ مذکور ہوا ۔ اس لیے زبان سے نیت کرنا بدعت حسنہ ہے نیز یہ بھی معلوم ہواکہ بدعت صرف سیئہ ہی نہیں ہوتی بلکہ حسنہ بھی ہوتی ہے ، سو فرقہ وہابیہ کا یہ سمجھناکہ ہر بدعت سیئہ ہے ، اس پر کوئی دلیل نہیں اور یہ گمان ( فاسد) مسلمانوں پر عظیم ظلم ہے ۔ ۔۔ ( چند سطروں کے بعد لکھتے ہیں ) اس لیے وہابیہ کا گمان کرناکہ ہر بدعت، سیّٔہ ہے ( فساد کن ) ذاتی رائے اور ایجاد ہے ۔
آثار قیامت : غیر اللہ سے مددچاہنا جائز ہے جس کی دلیل قرآن میں بھی موجود ہے اور احادیث میں بھی ۔ اہل سنت و جماعت اسی کے قائل ہیں اور اسی پر عامل بھی لیکن گمراہ اور گمراہ گر دیابنہ اور وہابیہ وغیرہ فرقوں نے نہ صرف اسے ناجائز و حرام کہا بلکہ اسے شرک بھی قرار دیا ۔ حضور تاج الشریعہ انہیں دیابنہ و وہابیہ وغیرہ پر تنزو تعریض کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’ یہ وہابیہ کا ظلم ہے کہ ان عام محاورات ( فصلِ بہار نے سبزہ اگایا ، حاکم نے بچایا ، اس مرض کا یہ شافی علاج ہے ، یہ زہر قاتل ہے ) سے آنکھیں میچتے ہیں اور ان کے بولنےوالے کوتو مسلمان جانتے ہیں مگر اسی طور پر اولیا ، انبیا کے لیے جو مسلمان تصرف و مدد ثابت کرے اسے مشرک گردانتے ہیں جس میں راز یہ ہے کہ ان کے نزدیک اولیا در کنار رسول ہی کی تعظیم شرک ہے ‘‘ ۔ ( آثار قیامت ، ص : ۸۴ )
ٹی وی اور ویڈیو کا آپریشن : ناپائیدار عکوس کے تعلق سے قیاس کرنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے مدنی میاں صاحب نے لکھا : ’’ قیاس میں نے اس لیے کیا ہے کہ ناپائیدار عکوس کی حرمت کے تعلق سے ایک بھی نص موجود نہیں اور نہ اس سلسلہ میں کسی مجتہد کا کوئی قول ہے ‘‘ ۔ وضاحت مذکورہ پر حضور تاج الشریعہ نے جو تنز و تعریض فرمایا اسے ملاحظہ فرمائیں : ’’ اس لیے آپ کو قیاس کرنے کی اجازت ہوگئی اور آپ مجتہد کے منصب پر فائز ہوگئے ۔ یہ تو بتائیے کہ اس حادثہ غیر منصوصہ کوکون سے امر منصوص پر کون سی علتِ جامعہ سے قیاس فرمایا اور اگر کوئی امر منصوص مقیس علیہ ہے تو یہ کیا فرمارہے ہیں کہ ’’ ناپائیدار عکوس کی حرمت کے تعلق سے ایک بھی نص موجود نہیں ‘‘ ۔ ( ٹی وی اور ویڈیو کا آپریشن، ص : ۸۲۔ ۸۳)
ذرا اس جوشِ بیان اور اندازِ تنز و تعریض کو بھی دیکھتے چلیں ، لکھتے ہیں :’’ ناظرین بتائیں کہ میں نے اپنے اس سوال سے کتنے کیڑے علامہ مدنی کی عبارت میں نکالے اورکیا کھینچ تان کی اور جب یہ قید کہ لہو لعب کے قصد سے نہ دیکھا جائے ملحوظ تھی تو اسے کیوں چھوڑا گیا اور سہواً چھوٹ گئی تو اس پر تنبیہ کرنے والاتشکر کے بجائے اس کا مستحق ہے کہ اسے کھینچ تان کرنے والا، کیڑے نکالنے والاگردانا جائے ؟ ۔۔۔لہٰذا ضروری ہے کہ لہوولعب والوں کے طور پر نہ دیکھی جائے اور اس پر بھی بس نہیں بلکہ ضروری ہے کہ اس سے بھی بے خوفی ہو کہ فلم دیکھنا لہوو لعب والوں کے لیے سند نہ ٹھہرے گا اور وہ لہوولعب کو کارِ خیر نہ سمجھ بیٹھیں گے ۔ اب اس کی ضمانت آپ لیں تو بے دھڑک فتویٰ دیں ۔ واللہ تعالیٰ اعلم ‘‘ ۔ ( ٹی وی اورویڈیو کا آپریشن ، ص: ۸۴ ۔۸۵)
حقیقۃ البریلویہ المعروف بہ مرآۃ النجدیہ : حضور تاج الشریعہ ’’ البریلویہ ‘‘ کے مقدمہ نگار قاضی عطیہ کے کلام پر تنزو تعریض کرتے ہوئے یوں گویا ہوتے ہیں : ’’اما ما تضمن کلام ’’ عطیۃ ‘‘ من المنع عن العمل بغیر ما عمل بہ القرون المشھود لھا بالخیر ، فحصر للمباح فی عمل القرون المشھود لھا بالخیر ، و ابتدع حد البدعۃ قولاً لم یسبق الیہ الوہابیۃ ، بل لم یعرف زمن حتیٰ فی القرون المشھود لھا بالخیر ، ھلا یأتون علیہ بسلطان بین ان کانوا صادقین ؟ و اذ أحصر المباح فی تلک القرون بزعمھم فلم یبق شئی فی زمن غیر تلک القرون مباحاً ، فمن أین جاء أولٰئک العاملون بالسنۃ الذین یسمون انفسھم ’’ السلفیۃ ‘‘ فی ھٰذہ الأزمنۃ المتأخرۃ ‘‘ ۔ ( حقیقۃ البریلویہ ، ص : ۱۳۶)یعنی’’ عطیہ‘‘ کا کلام اس بات کو متضمن ہے کہ جن چیزوں پر شہادت یافتہ خیرِ قرون کا عمل نہیں ہے ان پر عمل منع ہے سو مباح ، ان قرون کے عمل میں منحصر ہوگیا جن کے خیر کی شہادت دی گئی ہے ۔ عطیہ نے تعریفِ بدعت میں ایسی بات کہ دی جس کی طرف ’’ وہابیہ ‘‘ بھی سبقت نہ کر سکے بلکہ ( بدعت کی ) ایسی تعریف کسی زمانے میں نہ رہی حتیٰ کہ خیرِ قرون میں بھی نہیں ۔ ٹھیک ہے ( بات ایسی ہے ) تو اس پر دلیل بین لاؤ اگر سچے ہو؟ اور اپنے خیال ( فاسد) کے مطابق جب اس نے خیر قرون ہی میں مباح کو منحصر کر دیا تو خیر قرون کے علاوہ کسی زمانے میں کوئی چیز مباح ہی نہ رہی تو اپنے آپ کو ’’ سلفیہ ‘‘ سے موسوم کرنے والے ( منہ میاں مٹھو کہلانے والے ) یہ عاملین بالسنہ کہاں سے آ دھمکے ۔
چلتی ٹرین میں فرض و واجب نمازوں کی ادائیگی کا حکم : سراج الفقہا حضرت مفتی نظام الدین صاحب قبلہ صدر شعبہ افتا و صدر المدرسین الجامعۃ الاشرفیہ نے چلتی ٹرین میں نمازوں کے بلا اعادہ جواز کو ثابت کرتے ہوئے فتاویٰ رضویہ کی عبارت ’’ ( ٹرین ) انگریزوں کے کھانے وغیرہ کے لیے روکی جاتی ہے اور نمازوں کے لیے نہیں تو منع من جھۃ العباد ہوا ‘‘ نقل کرنے کے بعد فرمایا : ’’ اس کا مفہوم یہ ہوا کہ ’’ اگر دونوں کے لیے روکی جائے تو سرے سے منع ہی نہیں اور اگر دونوں کے لیے نہ روکی جائے تو منع من جھۃ العباد نہیں ‘‘ ۔ ( ماہ نامہ اشرفیہ جولائی ۲۰۱۳ )
مفتی صاحب کا فتاویٰ رضویہ کی عبارت کو مفہوم مخالف کی طرف پھیرنے پر تاج الشریعہ کی یہ اقتباس دیکھیں جس میں جوشِ بیان بھی جلوہ ریز ہے اور طنز وتعریض بھی جلوہ نما ۔ آپ لکھتے ہیں : ’’ مفہومِ مخالف کی طرف اتنی جلدی کیوں دوڑے ، اس عبارت کا ایک مفہوم وہ بھی تو ہے جو ذہن کی طرف سبقت کرتا ہے ، نفس جس کو فوراً قبول کرتا ہے اس متبادر مفہوم کا نام مفہوم موافق رکھیے اور وہ یہ کہ ٹرین روکنا اس محکمہ کے اختیار میں تھا تو انگریزوں کے معمولی کام کے لیے ٹرین روکتے تھے اور مسلمانوں کے اہم دینی فریضے کے لیے ٹرین نہیں روکتے تھے ، مفہومِ موافق کے ہوتے ہوئے مفہومِ مخالف پر عمل کی کس نے ٹھہرائی ؟ ‘‘ ۔ (چلتی ٹرین میں فرض و واجب نمازوں کی ادائیگی کا حکم،ص : ۱۹ )
کچھ آگے بڑھ کر تاج الشریعہ فرماتے ہیں : ’’ ( خیالی ) مفہوم مخالف کے پیچھے تو اس لیے پڑے کہ منع خاص و عام کا تفرقہ ٹھہرا کر تغیر زمانہ کی بنا پر یہ جما دیں کہ اب اس زمانے میں حکم بدل گیا ہے ‘‘ ۔ ( مصدر سابق، ص :۲۱ )

بر محل مصرع یا شعر کا استعمال:

حضور تاج الشریعہ کی کتابوں میں مطالعہ کرنے والوں کو جا بجا بر محل اور بر جستہ استعمال کیے ہوئے اشعار سے بھی ملاقات ہوتی ہے جس سے مطالعہ کرنے والوں کو حضور تاج الشریعہ کے اشعار پر گہری نظر کا بھی علم ہوتا ہے اور ساتھ ہی عجیب قسم کی خوشگواری کا بھی احساس ہوتا ہے ۔ جیسا کہ ذیل میں نقل کیے گئے اقتباسات میں اس اسلوب کو دیکھا جا سکتا ہے ۔
تعلیقات الازہری علیٰ صحیح البخاری و علیٰ حواشی المحدث السہارنفوری : بخاری شریف و مسلم شریف کی متفق علیہ حدیث’’حدیثِ نیت‘‘کے جزء ’’ فمن کا نت ہجرتہ الخ ‘‘ پر حاشیہ تحریر کرتے ہوئے رقم طراز ہیں : ’’و علم من ھٰذا أیضاً أنہ ﷺ مطلع علیٰ ضمائر القلوب و ھو شعبۃ من العلم بالغیب أعطیھا ﷺ من الحضرۃ الالٰہیۃ مع علوم جمۃ و فی ذالک أنشد الامام أحمد رضا علیہ الرحمۃ بیتاً بالھندیۃ‘‘ :

کہنا نہ کہنے والے تھے جب سے تو اطلاع
مولیٰ کو قول و قائل ہر خشک و تر کی ہے

( تعلیقات الازہری ، ص : ۶۹۔۷۰ )

آثار قیامت : ’’جب امانت رائیگاں کر دی جائے‘‘ کے تحت تشریح کرنے کے بعد اخیر میں آپ فرماتے ہیں : ’’ تقریر بالاسے روشن ہو گیا اور ادائے فرضیت و امانت کا معنیٰ خوب روشن ہو گیا اور یہ بھی معلوم ہو گیا کہ امانت کو ضائع کرنا ان تمام مذکورہ صورتوں کو شامل ہے ۔ یہ سرکار علیہ الصلوٰۃ و السلام کے دہنِ مبارک سے نکلے ہوئے ایک کلمہ کی جامعیت اور اس میں کثرتِ معانی کا یہ حال ہے کہ کسی کا بیان اس کا احاطہ نہیں کر سکتا ۔

میں نثار تیرے کلام پر ملی یوں تو کس کو زباں نہیں
وہ سخن ہے جس میں سخن نہ ہو وہ بیاں ہے جس کا بیاںنہیں

( آثارِ قیامت ، ص : ۲۶ )

یوں ہی ’’ علم کا چھپانا ‘‘ کے تحت ایک حدیث شریف نقل کرنے کے بعد آپ لکھتے ہیں : ’’ مفہومِ حدیث سے خوب ظاہر کہ کچھ کوگوں کو سرکار ﷺ نے تکذیب اور کتمانِ حق کی وجہ سے یہودی فرمایا تو وہابیہ وغیرہم جو حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کے علمِ غیب ہی کے منکر ہیں اور عناداًفضائل چھپاتے ہیں اور ضروریاتِ دین کو نہیں مانتے ، یہ بھی بلا شبہ اس حدیث کے مصداق ہیں اور وہ حدیث جس میں فرمایا کہ اس کا ایمان نہیں جس کے پاس دیانت نہیں ، اِن منکرین کے حق میں اپنے ظاہری معنیٰ پر ہے تو ان کی کلمہ گوئی اصلاً انہیں مفید نہیں ۔

ذیاب فی ثیاب لب پہ کلمہ دل میں گستاخی
سلام اسلام ملحد کو کہ تسلیم زبانی ہے

( آثارِ قیامت ، ص : ۲۷)

ٹی وی اور ویڈیو کا آپریشن : تصویر و عکس پر صورت کا اطلاق حقیقتاً ہوتا ہے ۔ اپنے اس دعویٰ کو مدلل کرتے ہوئے آپ ’’ المعجم الوسیط ‘‘ سے ایک عبارت نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں : ’’دیکھیے صورت کا معنیٰ شکل بتایا جو عام ہے پھر اس پر تمثال مجسم کو تخصیص بعد تعمیم کے طور پر معطوف کیا اور شکل بحکم عموم عکس کو بھی شامل ۔ تو صورت عکس پر بھی صادق بلکہ عربی میں عکس و صورت کا فرق ہی نہیں ۔ لہٰذا عربی میں عکس کو بھی صورت کہتے ہیں ۔ اسی لیے کیمرے کے عکس کو بھی صورت کہا اور اردو میں بھی بکثرت عکس پر تصویر و صورت کا اطلاق ہوتا ہے ۔ شاعر کہتا ہے :

پسینہ موت کا ماتھے پہ آیا آئینہ لاؤ
ہم اپنی زندگی کی آخری تصویر دیکھیں گے

نیز کسی نے کہا :

دل کے آئینے میں ہے تصویرِ یار
جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی

( ٹی وی اورویڈیو کا آپریشن ،ص : ۴۸)

حقیقۃ البریلویۃ معروف بہ مرآۃ النجدیہ :’’ أیھا الناس ألم یأن لکم أن تعلموا أان الذی أذعنتم لہ أخبرتم عن البریلویۃ علیٰ زعمکم الابریاء ھٰذا الخبر الذی لاعین لہ و لاأثر ؟ فبھتم الأبریاء ، و أنتم لاتشعرون ھو اہل الضلال و ھو قائم بالاضلال ، قد شغفکم حباً و ملک لکم لباً ، فلم یمھلکم حتیٰ تتبینوا خبرہ ، فقلتم و أنتم لا تدرون ، و لئن دریتم ثم تلیتم من تعلمون فقد جئتم بمالا یھون ، فانا للّٰہ و انا الیہ راجعون :

فان کنت لاتدری فتلک مصیبۃ
و ان کنت تدری فالمصیبۃ أعظم

( حقیقۃ البریلویہ ، ص : ۳۱ )
ترجمہ : اے لوگو! کیا وقت قریب نہ آیا کہ تم جانوکہ بریلویت کے متعلق جس کا تم نے یقین کر کے لوگوں کو خبر دی وہ ایسی خبر ہے جس کی حقیقت ہے نہ کوئی نام ونشان۔۔ ۔ لہذا تم نے لوگوں کو حیران وششدر کردیا ،اور تمھیں اس بات کا علم نہیں کہ وہ گمراہ اور گمراہ گر ہیں۔ ۔ ۔ تم نے جلد بازی کی یہاں تک کہ اس کی خبر بیان کردی۔تو تم نے کہا حالاں کہ تمھیں علم نہیں اور اگر تم کھوج کرتے پھر جاننے والے کے پاس آتے تو ضرور غیر معمولی بات لاتے۔
اگر تمہیں نہیں معلوم تو یہ ایک مصیبت ہے ( لیکن ) اگر تمہیں معلوم ہے تو یہ اور بڑی مصبیت ہے ۔
چلتی ٹرین میں فرض وواجب نمازوں کی ادائیگی کا حکم : عمدۃ المحققین حضرت علامہ محمد احمد مصباحی صاحب قبلہ ناظم تعلیمات و سابق صدر المدرسین الجامعۃ الاشرفیہ بلا اعادہ چلتی ٹرین میں نماز کے جواز پر دلیل دیتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’ اس سے زیادہ واضح اور متفق علیہ مسئلہ شتربانوں کے قافلے کا ہے ‘‘ ۔ اس پر حضور تاج الشریعہ گرفت کرتے اور اسی ضمن میں ایک مصرع کا بھی استعمال کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’ اسے متفق علیہ تو کہا ،یہ کیوں نہیں بتاتے کہ محلِ وفاق کیا ہے ؟ وہ مطلق ہے یا مقید ؟ ؎

کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے ‘‘ ۔

( چلتی ٹرین ، ص : ۶۵ )

تنقید و تعاقب :

تعلیقات الازہری علیٰ صحیح البخاری و علیٰ حواشی المحدث السہارنفوری : عبد الرسول ، عبد النبی وغیرہ نام رکھنا درست ہے یا نہیں اس تعلق سے محشی بخاری ، بخاری شریف کے ’’ کتاب العتق ‘‘ کے تحت ’’ باب کراہیۃ التطاول علی الرقیق و قولہ : عبدی أو امتی ‘‘ پر حاشیہ رقم کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’ فعلیٰ ھٰذا لاینبغی التسمیۃ بنحو عبد الرسول و عبدالنبی و نحو ذالک مما یضاف العبد الیٰ غیر اللہ تعالیٰ ‘‘ ۔( ۳۸۹ ) یعنی : اس بنا پر عبد الرسول ، عبد النبی وغیرہ اس طرح کے نام رکھنا صحیح نہیں جس میں ’’ عبد ‘‘ کی اضافت غیر اللہ کی طرف ہو ۔ یہ عبارت عقائد اہل سنت سے کس قدر متصادم ہے ، مخفی نہیں ۔ محشی بخاری کی اس عبارت پر حضور تاج الشریعہ کی تنقید بھی اور تعاقب بھی ملاحظہ فرمائیں۔ جس سے محشی کے فکری اعتقاد سے بھی واقفیت حاصل ہوتی ہے آپ لکھتے ہیں : ’’ أفصح المحشی عن توھبہ ھنا حیث منع التسمیۃ بعبد الرسول و عبد النبی و کان الواجب علیہ أن یجیب عن الآیات و الأحادیث التی ورد فیھا ‘‘ ۔ (تعلیقات الازہری ، ص: ۳۸۹ ) یعنی محشی نے یہاں اپنی وہابیت آشکار کردی ۔ کیوں کہ انہوں نے عبد الرسول اور عبد النبی نام رکھنے سے منع کیا حالاں کہ ان پر ضروری تھا کہ وہ اس سلسلے میں وارد آیات و احادیث کا جواب دیتے ۔
آثار قیامت : مروجہ چین کی گھڑی کے استعمال کے جواز و عدم جواز میں مفتیان کرام و علماے عظام کا اختلاف ہے ۔ حضور تاج الشریعہ عدم جواز کے قائل ہیں جس کے سبب آپ قائلین جواز پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں : بہت سارے امام ، مولوی ، اور مفتی بھی بے دریغ اس (مروجہ چین کی گھڑی) کو پہنے ہوئے نظر آتے ہیں ۔یہ قطعاً زینتِ ممنوعہ اور تحلیِ ناجائز ہے ۔اس کا جواز اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی قدس سرہٗ  کے کلمات سے بتایا جارہا ہے حالاں کہ ان کے کلمات سے ہرگز اس کا جواز ثابت نہیں ہوتا ‘‘ ۔ (آثار قیامت ، ص : ۶۷ )
پھر اپنے دعویٰ پر کلمات اعلیٰ حضرت ہی سے چین کی گھڑی کے عدمِ جواز پر دلیل پیش کرنے کے بعد مزید لکھتے ہیں : ’’ یہاں سے مجوزین کے قیاس کی حالت ظاہر ہوگئی ۔ ہماری دانست میں اعلیٰ حضرت عظیم البرکت قدس سرہ کے کلمات میں نہ تعارض ہے ، نہ ان کے فتویٰ سے اس چیز یا اس زنجیر کا جواز نکلتا ہے ۔بالفرض اگر صورتِ تعارض ہو بھی تو رجوع ان تصریحات کی طرف لازم ہے کہ خود قوی اور شبہ سے صاف ہے ، اور جس کلمہ سے اس کا خلاف متوہم ہو ، اس کی تاویل لازم ہے اور اس طرح تطبیق دینا ضروری ہے ‘‘ ۔ ( مصدرِ سابق، ص : ۷۰۔ ۷۱ )
ٹائی کا مسئلہ :ٹائی کے مجوزین دلیل میں حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ کی حدیث پاک پیش کرتے ہیں جس میں ہے کہ : ’’ کان ابن عباس یصلی فی البیعۃ الا بیعۃ فیھا تماثیل ‘‘۔ حضور تاج الشریعہ اس استدلال پر تنقید پھر اس کا تعاقب کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’ اس جگہ حدیثِ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے استناد جس میں وارد ہوا ۔۔۔
اصلاً مفید نہیں اور اس سے مفہومِ شعار میں وہ قید ثابت نہیں ہوتی بلکہ اسی جگہ شعارِ مذہبی کا تحقق ہی محلِ منع میں ہے کہ کنیسہ میں باختیار و رغبت جانا منع ہے اور وہی کفار کا طریقہ اور ان کا شعار ہے ، حدیث سے ثابت ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا کنیسہ میں جانا باختیار نہ تھا بلکہ بحالتِ اضطرار واقع ہوا ‘‘ ۔ ( ٹائی کا مسئلہ ، ص : ۲۱ )
اپنے موقف پر دلائل پیش کرنے کے بعد بطور نتیجہ فرماتے ہیں : ’’ یہاں سے ظاہر ہوا کہ ’’ مشی الیٰ الکنائس ‘‘ اسی وقت کفار کا شعار ہوگی جبکہ صاف انداز ’’ موافقت مع الکفار‘‘ آشکار ہو اور یہ کہ مدار کفار کے افعالِ کفری میں موافقت پر ہے اور یہ باجماعِ مسلمین کفر ہے اور کفار کے ساتھ ان کے افعالِ کفری میں موافقت معاذ اللہ کتنی ہی عام ہو جائے باجماعِ مسلمین کفر ہی رہے گی اور یہ ہرگز نہ ٹھہرایا جائے گا کہ ان کا فلاں فعلِ کفری عام ہونے کی وجہ سے ان کا شعار نہ رہا ورنہ نقص اجماع لازم آئے گا جو باطل و حرام ہے ‘‘ ۔ (مصدرِ سابق ،ص : ۲۲ ۔ ۲۳ )
ٹی وی اور ویڈیو کا آپریشن :ـ حضور شیخ الاسلام علامہ مدنی میاں کچھوچھوی دام ظلہ العالی نے حضور تاج الشریعہ کی طرف سے کیے گئے سوالات کا جواب دیتے ہوئے خود حضور تاج الشریعہ پر سوال بھی قائم فرمایا۔ چناں چہ مدنی میاں صاحب رقم طراز ہیں : ’’ جن افعال میں لہو و لعب غالب رہے انہیں مطلقاً ممنوع قرار دیا جائے گا ۔ مگر وہ آلات جو بنیادی طور پر آلاتِ لہو ولعب سے نہ ہوں اور ان کا اچھا اور برا دونوں استعمال ممکن ہوں تو صرف اس لیے کہ ان کا برا استعمال ہوتا ہے یا ہوسکتا ہے ، ان کے اچھے استعمال کو ممنوع نہیں قرار دیا جاسکتا ۔۔۔( چند سطر کے بعد مزید لکھتے ہیں) بس اجمالی طور پر یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ہر وہ کام حرام ہے جس میں صرف لہو ولعب مقصود ہو یا جس کا بڑا حصہ لہو ولعب پر مشتمل ہو ‘‘ ۔ (ٹی وی اور ویڈیو کا آپریشن، ص : ۸۵ )
علامہ مدنی میاں کے اس سوال پر تاج الشریعہ تنقیدانہ اور تعاقبانہ جواب دیتے ہوئے اپنے قلم کو یوں حرکت دیتے ہیں : ’’ جناب کے اس پورے جواب میں دو خط کشیدہ ( جن افعال میں۔۔۔ قرار دیا جائے گا ، جس کا بڑا حصہ ۔۔۔ مشتمل ہو)جملے ہی ہمارے سوال نمبر ۲۴ کا ٹھیک ٹھیک جواب ہیں اور یہ دونوں جملے آنجناب کی طرف سے ٹی وی اور ویڈیو کی حرمت مطلقہ کا اقرار ہیں کہ اس میں شک نہیں کہ ویڈیو اور ٹی وی کا اغلب استعمال لہو ولعب ہی کے لیے ہوتا ہے اور آپ نے اقرار فرمایا کہ جن افعال میں لہو ولعب غالب ہو انہیں مطلقاً ممنوع قرار دیا جائے گا اور آدمی اپنے اقرار سے پکڑا جاتا ہے ۔ المرء یوخذ باقرارہ ۔ تو جناب ہی کے اقرار سے ٹی وی کی حرمتِ مطلقہ کا حکم ہو گیا اور حکم جواز جو جناب نے اس فتویٰ میں دیا خود رخصت ہو گیا ۔۔۔ آپ نے پھر اقرار فرمایا کہ بس اجمالی طور پر یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ہر وہ کام حرام ہے جس میں صرف لہو ولعب مقصود ہو یا جس کا بڑا حصہ لہو ولعب پر مشتمل ہو اور اس سے کسی کو انکار کی مجال نہیں کہ ویڈیو اور ٹی وی کا بڑے سے بڑا استعمال صرف لہو ولعب کے لیے ہوتا ہے ۔ تو قطع نظر اس کے کہ ویڈیو اور ٹی وی میں صورت ہے کہ نہیں ،ان کی حرمت کے لیے آپ ہی کے قلم سے نکلے ہوئے یہ دو جملے ہی کافی تھے جنہیں لکھ کر آپ نے اپنے فتویٰ کا خود رد کر دیا ‘‘ ۔ ( مصدرِ سابق۸۵ ۔ ۸۶ )
تحقیق أن اباابراہیم ’’ تارح‘‘لا ’’آزر ‘‘: استاذ احمد شاکر نے دعویٰ بلا دلیل کے مصداق ایک جگہ قول کیا : ’’ أما ما نسب الیٰ مجاہد أن آزر اسم صنم ۔۔۔ فغیر صحیح ۔۔۔ الخ ‘‘ یعنی جس روایت کی نسبت امام مجاہد کی طرف کی جاتی ہے کہ آزر بت کا نام ہے ، وہ ضعیف ہے ۔استاذ شاکر کے اس دعویٰ پر تنقید کرتے ہوئے تاج الشریعہ نے فرمایا : ’’ لا ینھض حجۃ لدفع الوجہ المذکور ولا دلیلا لتکذیب من أثر عن مجاہد القول المذبور ‘‘ ۔( تحقیق أ ن أباابراہیم ’’ تارح ‘‘ لا ’’ آزر ‘‘ ، ص: ۷۵ ) یعنی: اس وجہ مذکور کے رد میں نہ کوئی حجت قائم اور نہ امام مجاہد سے منقول والی اثر کی تکذیب پر کوئی دلیل ۔پھر اس ’’ غیر صحیح ‘‘ سے ’’ غیر ‘‘کو غیر محل میں ہونا قرار دیتے ہوئے مختلف اسناد سے امام مجاہد کے چار اثر نقل فرمائے اور پھر استاذ شاکر کے قول کی قلعی کھولتے ہوئے تحریرفرمایا: ’’ و بھٰذا یعلم أن الاسناد متعاضد ، تقوی بعضہ ببعض و المتن ثابت فسقط قول الأستاذ أحمد محمد شاکر ‘‘ ۔( تحقیق أ ن أباابراہیم ’’ تارح ‘‘ لا ’’ آزر ‘‘ ، ص: ۷۶) یعنی اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ اسناد ایک دوسرے کی ممد و معاون ہوتی ہیں کہ ایک دوسرے کو تقویت پہنچاتی ہیں اور متن ثابت ہے اس لیے استاذ احمد شاکر کی بات ساقط و باطل ہوگئی ‘‘ ۔
حقیقۃ البریلویۃ المعروف بہ مرآۃ النجدیہ : قاضی عطیہ محمد سالم نے غیر اللہ سے توسل و استعانت کو بدعت و شرک قرار دیا تھا جس کے جواب میں حضور تاج الشریعہ نے قاضی صاحب کی خوب خبر لی اور انہیں اپنے گھر کا راستہ بھی دکھایا ۔ چناں چہ تاج الشریعہ کے ذرا اس تیور کو ملاحظہ کریں جس میں تنقید بھی ہے تعاقب بھی اورطنزو تعریض بھی ۔
آپ لکھتے ہیں :’’ فان قلتم نستغیث بالاحیاء الحاضرین و أنتم تستغیث بالأموات و الغائبین ، قلنا لکم : ھل عندکم من اللہ برھان علیٰ أن الأحیاء شرکاء اللہ من دون الاموات ؟ فان قلتم : لا ، قلنا : فکیف ساغ عندکم سؤالھم و الاستعانۃ بھم و ھو عندکم شرک ؟ أ یجوز عندکم الشرک بالأحیاء دون الأموات ؟ و أی دلیل من الشرع علیٰ جواز الشرک بالأحیاء دون المیتین ؟ فان قلتم : سؤال الحی و الاستعانۃ بہ لیس شرکاً اذا لم یعتقد الحی مستقلاً بالنفع و الضرر دون اللہ ، بل اعتقد أن اللہ ھو النافع و الضار ، وھو مالک الأمر کلہ وانما ھٰذا الحی وسیلۃ للعون ، قلنا : کذالک سؤال المیت و الاستعانۃ بہ بھٰذہ الشریطۃ لیس شرکاً ‘‘ ۔ ( حقیقۃ البریلویہ ۱۳۴)یعنی اگر تم کہو: ہم حاضر زندوں سے مدد مانگتے ہیں اور تم مردوں اور غائبین سے مدد چاہتے ہو ۔ تو میں کہوں گا : کیا تمہارے پاس اللہ کی طرف سے کوئی دلیل ہے کہ زندے اللہ تعالیٰ کے شریک ہیں مردے نہیں ؟ اگر تم کہو : نہیں ، تو ہم کہیں گے :تمہارے لیے کیوں کر جائز ہو گیا کہ تم زندوں سے سوال کرو ، مدد طلب کرو جبکہ یہ بھی تمہارے مذہب میں شرک ہے ؟ کیا تمہارے مذہب میں زندوں کے ساتھ شرک جائز اور مردوں کے ساتھ ناجائز ہے ۔ شریعتِ مطہرہ کی طرف سے تمہارے پاس کون سی دلیل ہے کہ زندوں کے ساتھ شرک جائز اور مردوں کے ساتھ ناجائز ہے ۔ اب اگر تم کہو: زندے سے مانگنا اور مدد طلب کرنا شرک نہیں ہے جبکہ اس کے مستقلاً نفع و نقصان پہنچانے کا اعتقاد نہ رکھے بلکہ یہ اعتقاد رکھے کہ اللہ تعالیٰ ہی نفع و نقصان کا مالک اور تمام معاملات کا مالک ہے اور یہ زندہ شخص مدد کا ذریعہ اور سبب ہے ۔ ( اس پر ) ہم کہیں گے : اسی طرح ان شرطوں کے ساتھ مردے سے سوال اور استغاثہ بھی شرک نہیں ہے ۔
چلتی ٹرین پر فرض و واجب نماز وں کی ادئیگی کا حکم : عمدۃ المحققین علامہ محمد احمد مصباحی صاحب قبلہ نے چلتی ٹرین میں بلا اعادہ نمازوں کی ادائیگی کو شتر بانوں والی سے واضح کرتے ہوئے فرمایا : ’’ اس سے زیادہ واضح اور متفق علیہ مسئلہ شتربانوں کے قافلے کا ہے ‘‘۔ مصباحی صاحب کے اس قول پر تنقید کرتے ہوئے علامہ ازہری میاں فرماتے ہیں : مصباحی صاحب نے چمک کر یہ دعویٰ تو کر دیا کہ ’’ اس سے زیادہ واضح اور متفق علیہ مسئلہ شتربانوں کے قافلے کا ہے ‘‘، اس سے اگر آپ کا مقصود یہ ہے کہ شتربانوں کا مسئلہ چلتی ٹرین کی نظیر ہے ، اس لحاظ سے کہ ٹرین اور اونٹوں کا قافلہ دونوں چلتی سواریاں ہیں مگر اتنی بات ہرگز کافی نہیں جب تک کہ دونوں کا ایک حکم ہونا ثابت نہ ہو لے ۔ اس جگہ مصباحی صاحب کو کتبِ معتمدہ سے یہ دکھانا تھا کہ دونوں کا حکم ایک ہے ، کیوں نہ دکھایا ؟ اس کے بجائے زبانی دعوے پر کس لیے اکتفا کیا ؟ مزید یہ کہ اسے متفق علیہ تو کہا ، یہ کیوں نہیں بتاتے کہ محلِ وفاق کیا ؟ ‘‘۔(چلتی ٹرین، ص: ۶۴ ۔ ۶۵ )

پُر زور طرز استدلال اور دلائل و براہن کی کثرت:

خانوادۂ رضویہ کا یہ ایک اہم وصف ہے کہ جس مسئلے پر گفتگو ہو اس پر سیر حاصل بحث کرتے ہیں اور اپنے موقف کے ثبوت میں انداز استدلال مضبوط و مستحکم اختیار کرتے ہیں ساتھ ہی دلائل و براہین کی کثرت بھی موجود ہوتی ہے جس سے مخاطب اور قاری دونوں کو موقف تسلیم کرنے میں پس و پیش کا سامنا نہیں ہوتا نیز دلائل کی کثرت کے سبب خود کو ایک جہانِ علم میں سیاحت کرتے ہوئے نظر آتا ہے اور علمی استحضار سے بھی واقف ہوجاتا ہے۔ ملاحظہ کریں تاج الشریعہ کے کتب سے آپ کا یہ موروثی اسلوب تحریر۔
تعلیقات الازہری علیٰ صحیح البخاری و علیٰ حواشی المحدث السہارنفوری : قبر کے گرد چبوترہ یا کوئی مکان بنانا جائز ہے یا نہیں ؟ اس مسئلے میں حضور تاج الشریعہ نے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا رضی اللہ عنہ کی تحقیق کی روشنی میں کافی طویل بحث فرمائی ہے اور مزارات و قبور پر قبوں اور اس کی گرد چہار دیواری کی تعمیر پر بھی خوب روشنی ڈالی ہے ۔ چناں چہ آپ فرماتے ہیں :’’ أما بناء مکان عند القبر أو حول القبر فکما أن المنع من الصلوٰۃ علی القبر لایشمل المنع عن الصلوٰۃ بجنب القبر کذالک البناء حول القبر بمعزل عن النھی‘‘ ۔ (تعلیقات الازہری ، ص : ۲۰۸ ۔ ۲۰۹ ) یعنی قبر کے پاس یا قبر کے گرد مکان بنانا تو جس طرح صلوٰۃ علی القبر کی ممانعت بجنب القبر کو شامل نہیں اسی طرح گردِ قبر مکان بنانا نہی( علی القبر)سے بری ہے ۔اس کے بعد آپ نے امام فقیہ النفس فخر الملۃ والدین اوزجندی کی کتاب’’ خانیہ ‘‘ ،امام طاہر بن عبدالرشید بخاری کی ’’ خلاصہ ‘‘ ،مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح ، مجمع بحار الانوار ، بخاری شریف ، ارشاد الساری ، جذب القلوب ، مطالب المؤمنین ، نور الایمان ،مراقی الفلاح وغیرہ متعدد کتب کی عبارتوں سے دلائل کے انبار لگا دئیے ۔کتاب کا مطالعہ کر کے اس سے شاد کام ہونے کا شرف حاصل کیا جاسکتا ہے، یہاں گنجائش نہیں ۔
آثار قیامت : اس کتاب میں ’’ جب غیر اللہ کی قسم کھائی جائے ‘‘ کے تحت حضور تاج الشریعہ نے غیر اللہ کی قسم کھانا شرعاً ممنوع ہونے اور غیر اللہ کی قسم کو قسمِ شرعی سمجھ کر قسم کھانے والے کے تعلق سے احکام شرعیہ بیان کرتے ہوئے اپنے موقف کا اظہار فرمایا ساتھ ہی ، فیض القدیر ، طبرانی ، مرقاۃ شرح مشکوٰۃ ، اشعۃ اللمعات ، مشکوٰۃ المصابیح ، جامع الصغیر ، رد المحتار کے اقتباسات علاوہ ازیں مزید مختلف احادیث سے مدلل و مبرہن فرمایا ۔ تفصیل کے لیے آثار قیامت صفحہ : ۷۵ تا ۸۹ کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے ۔
ٹائی کا مسئلہ : ٹائی حرام اشد حرام ہے ، اس کے بارے میں بہت سے علماء نے فتویٰ ، کتب اور رسائل لکھے ہیں انہیں علما میں سے ایک اہم اور معتبر نام حضور تاج الشریعہ کا ہے جنہوں نے اسے حرام اشد حرام فرمایا اور اس کی حرمت پر ایک الگ ہی زاویہ سے دلیل پیش فرمائی ۔ چناں چہ آپ لکھتے ہیں : ’’ ہم بعونہ تعالیٰ اس فتویٔ مبارکہ کی تائید میں بنائے کار اس امر پر رکھیں گے جو سب کے نزدیک مسلم ہے اور وہ ہے کراس ( cross) جسے مسلم و غیر مسلم سب بالاتفاق عیسائیوں کا نشان جانتے ہیں ، اس کراس کا اطلاق جس طرح اس معروف نشان پر ہو تا ہے اسی طرح وہ تختہ جس پر بقول نصاریٰ کے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو معاذ اللہ پھانسی دی گئی بھی کراس کا مصداق ہے ‘‘ ۔ ( ٹائی کا مسئلہ ، ص : ۱۰۔۱۱)
پھر اپنے دعوے پر استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’ انگریزی کی متداول لغت ’’ Practical Advanced Twentieth Century Dictonary ‘‘ میں ’’ cross ‘‘ کے تحت ہے :
Stake with a transverse bar used for crucifixion سولی ، صلیب ، چلیپا the Cross , wooden structure on which according to christion religious belife , jesus was crucified ” (ٹائی کا مسئلہ ، ص : اا )
مزید اپنے دعوے کو مبرہن کرتے ہوئے رقم طراز ہیں : ’’ جو چیز اس کراس کی شکل پر ہو وہ بھی کراس کا مصداق ہے ، چناں چہ اسی ڈکشنری میں اسی جگہ پر ہے :’’ Anything shaped like + or x‘‘(ٹائی کا مسئلہ ، ص : ۱۱)
اور پھر ٹائی کے تعلق سے اس تحقیق کے بعد کہ ٹائی مکمل ’’ کراس ‘‘ کی نشان ہے ، ٹائی کے بارے میں اپنا موقف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’ بالجملہ ٹائی مکمل ’’ کراس ‘‘ مع شئے زائد ہے کہ اس میں پھانسی کا پھندا بھی ہے اسی پر بوٹائی ( Bowtie) کو قیاس کر لیجیے ، اس کے گلے میں بندھنے سے بھی کراس کی شکل بنتی ہے ۔۔۔ اور کراس اور شبیہ کراس عیسائیوں کا مذہبی نشان ہے توٹائی کو ’’ کراس ‘‘ مانو ’’ شبیہ کراس ‘‘ مانو بہر صورت وہ عیسائیوں کا مذہبی شعار ہے اور جو چیز کافروں کا مذہبی شعار ہو وہ ہرگز روا نہ ہوگی اگر چہ معاذ اللہ کیسی ہی عام ہو جائے ‘‘ ۔ ( ٹائی کا مسئلہ ، ص : ۱۲ )
ٹی وی اور ویڈیو کا آپریشن : ٹی وی اورویڈیوکی حرمت کے قائلین اس کی حرمت پر یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ اس میں نشر ہونے اور دیکھی جانے والی اشیاء کے تصویرہے اور تصویر کی حرمت احادیث اور اقوال ائمہ سے ثابت ہے ۔ حضور تاج الشریعہ نے ٹی وی کی حرمت کی علت جہاں اس میں نشر ہونے والی چیزوں کا تصویر ہونا بتایا وہیں ایک دوسری وجہ بھی اس کی حرمت کی بیان فرمائی اور پھر اس وجہ کو مدلل و مبرہن کرتے ہوئے ایک دو نہیں کئی کئی دلیلیں ذکر فرمائیں ۔ چناں چہ آپ دوسری وجہ بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں : ’’ قطعِ نظر اس کے کہ اس میں فوٹو ہوتا ہے یا نہیں یہی ایک وجہ کہ ٹی وی کا استعمال لہو و لعب کے لیے ہو تا ہے اس کے ناجائز ہونے کے لیے وجہ کافی ہے اور علمائے کرام کا یہ دابِ مستمر ہے کہ غلبہ فساد و لہو ولعب کے وقت مطلقاً ممانعت فرماتے ہیں اور شرعِ مطہرہ کا قاعدہ ہے کہ اغلب کا اعتبار فرماتی ہے اور حکم باعتبارِ اغلب ہی ہوتا ہے اور نادر ساقط الاعتبار ہوتا ہے ‘‘ ۔( ٹی وی اور ویڈیو کا آپریشن ،ص : ۱۲۲)
اور پھر اس دعویٰ پر کہ ’’ علمائے کرام کا یہ دابِ مستمر ہے کہ غلبہ فساد و لہو ولعب کے وقت مطلقاً ممانعت فرماتے ہیں اور شرعِ مطہرہ کا قاعدہ ہے کہ اغلب کا اعتبار فرماتی ہے اور حکم باعتبارِ اغلب ہی ہوتا ہے اور نادر ساقط الاعتبار ہوتا ہے ‘‘ کو متعدد دلیلوں سے ثابت فرمایا ۔ چناں چہ آپ فرماتے ہیں : ’’ فقہا فرماتے ہیں : لاعبرۃ بالنادر ۔ رد المحتار میں ہے : ’’ قالوا : الفتویٰ فی زمننا بقول محمد لغلبۃ الفساد ‘‘ اسی میں ہے ’’ لما کان الغالب فی ھٰذہ الأزمنۃ قصد اللھو لا التقویٰ علیٰ لطاعۃ منعوا من ذالک اصلاً ‘‘ ( ٹی وی اور ویڈیو کا آپریشن ،ص : ۱۲۲) مزید دلیل پیش کرتے ہوئے ’’ رد المحتار ‘‘ ہی سے تین ، ’’ در مختار ‘‘ سے بھی تین ’’ فتاویٰ عالمگیری ‘‘ سے بھی تین اور ’’ طحطاوی علی الدر ‘‘ سے ایک عبارت نقل فرمائی اور اس تعلق سے مزید تفصیل کے لیے سیدنا اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ کے رسالہ مبارکہ ’’ ھادی الناس فی رسوم الاعراس ‘‘ کے مطالعہ کی دعوت سے بھی نوازا ۔
تحقیق أن أبا ابراہیم ’’ تارح‘‘لا’’آزر‘‘ : استاذ شاکر نے اس قول حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کا نام ’’ تارح ‘‘ یا ’’ تارخ ‘‘ ہے کے تعلق سے کہا کہ یہ قول غلط ہے اور اس قول پر کوئی دلیل نہیں ہے ۔ استاذ شاکر کے اس دعویٰ کی تردید اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کا نام ’’ تارح ‘‘ یا ’’ تارخ ‘‘ ہے کو ثابت کرتے ہوئے آپ نے اولاً قرآن کریم کی درج ذیل تین آیات پیش کیں ۔
( ۱ )وَ مَا کَانَ اسۡتِغۡفَارُ اِبۡرٰہِیۡمَ لِاَبِیۡہِ اِلَّا عَنۡ مَّوۡعِدَۃٍ وَّعَدَہَاۤ اِیَّاہُ ۚ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہٗۤ اَنَّہٗ عَدُوٌّ لِّلّٰہِ تَبَرَّاَ مِنۡہُ ؕ (ترجمہ:اور ابراہیم کا اپنے باپ کی بخشش چاہنا وہ تو نہ تھا مگر ایک وعدے کے سبب جو اس سے کرچکا تھاپھر جب ابراہیم کو کھل گیا کہ وہ اللّٰہ کا دشمن ہے اس سے تنکا توڑ دیا)
( ۲ )رَبَّنَاۤ اِنِّیۡۤ اَسۡکَنۡتُ مِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ بِوَادٍ غَیۡرِ ذِیۡ زَرۡعٍ (ترجمہ:اے میرے رب میں نے اپنی کچھ اولاد ایک نالے میں بسائی جس میں کھیتی نہیں)
( ۳ )رَبَّنَا اغۡفِرۡ لِیۡ وَ لِوَالِدَیَّ وَ لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ یَوۡمَ یَقُوۡمُ الۡحِسَابُ (ترجمہ :اے ہمارے رب مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو اور سب مسلمانوں کو جس دن حساب قائم ہوگا)
پھر ان آیات کی روشنی میں تین سوالات قائم فرمائے جو یہ ہیں :
’’ الاول : متیٰ وقع استغفار ابراہیم لأبیہ ؟
الثانی : و متیٰ تبین لہ أنہ عدو اللہ ؟
الثالث : متیٰ ھاجر سیدنا ابراہیم علیہ الصلوٰۃ و السلام الیٰ مکۃ ؟ متیٰ تبرأ من أبیہ ؟ أ بعد القائہ فی النار و بعد ھلاک أبیہ تبرأ ثم ھاجر الیٰ مکۃ ؟ (تحقیق أن أبا ابراہیم ’’ تارح‘‘ لا ’’آزر‘‘ ص : ۷۲۔ ۷۱)
اس کے بعد نہایت محققانہ انداز میں تفصیل کے ساتھ ان سوالات پر بحث فرمائی ،قرآن کریم کی روشنی میں حضرتِ ابراہیم علیہ السلام کی حیات مبارکہ کے پہلوؤں کو بیان فرمایا ،تاریخ کے اوراق سے حران ، شام اور مکہ کی طرف آپ کی ہجرت کی وضاحت فرمائی اور اسی کے ضمن میں آپ علیہ السلام کے والد اور چچا کے زمانۂ وفات کی بھی تعیین فرمائی اور پھر ان تفصیلات سے ماخوذ ہونے والے آٹھ علمی نکات بیان فرمائے جس سے واضح ہو جاتا ہے کہ آپ علیہ السلام کے والد کا نام ’’ تارح ‘‘ ہے ’’ آزر‘‘ نہیں ۔ تفصیل کے لیے کتاب ’’ تحقیق ابا ابراہیم ،تارح لا آزر ‘‘کی طرف رجوع کیا جائے ، یہا ں اس کا ذکر طوالت کا سبب ہوگا۔
حقیقۃ البریلویۃ المعروف بہ مرآۃ النجدیہ : ’’ البریلویہ ‘‘ کے مقدمہ نگار قاضی عطیہ نے ابن عبد الوہاب کی تعریف کا پل باندھتے ہوئے لکھ مارا کہ ابن عبد الوہاب کتاب و سنت کے داعی تھے ۔ اس کی تردید میں تاج الشریعہ رقم طراز ہیں کہ وہ کیوں کر کتاب و سنت کا داعی ہو سکتا ہے جبکہ وہ اجماع اور قیاس کا منکر تھا ۔ اس کے بعد آپ نے اجماع کی حجیت ثابت کرتے ہوئے نہ صرف علما و مفسرین کے اقوال سے استدلال فرمایا بلکہ احادیث اور قرآن کریم سے بھی اس کی حجیت واضح فرمائی ۔ فرماتے ہیں : ’’ ھٰذا القرآن اول دلیل علیٰ حجیۃ الاجماع و لزوم عمل بہ و أنہ لایجوز مخالفتہ قال عز وجل من قائل : ’’ وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُہَدَآء َ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَہِیْدًا۔ قال الامام حجۃ الاسلام احمد بن علی الجصاص الرازی المتوفی ۳۷۰ ھ فی ’’ احکام القرآن ‘‘ : و فی ھٰذہ الآیۃ دلالۃ علیٰ صحۃ اجماع الأمۃ ‘‘ ۔ ( حقیقۃ البریلویہ۱۲۳ ) یعنی قرآن کریم اجماع کی حجیت اور اس پر عمل کے لزوم پر پہلی دلیل ہے اور یہ اس کی مخالفت نہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ترجمہ : اور بات یوں ہی ہے کہ ہم نے تمہیں کیا سب امتوں میں افضل تم لوگوں پر گواہ ہو اور یہ رسول تمہارے نگہبان و گواہ۔ حجۃ الاسلام امام احمد بن علی جصاص رازی نے ’’ احکام القرآن ‘‘ میں فرمایا : اس آیت میں اجماعِ امت کی حجیت کی دلیل ہے۔‘‘
اس کے علاوہ آپ نے اجماع کے حجیت ہونے پر مزید کچھ اور آیتیں پیش فرمائیں اور امام جصاص کی ’’ احکام القرآن ‘‘ سے اس کی تفسیر نیز ’’ انوار التنزیل و اسرار التاویل ، تفسیر النسفی ، لباب التاویل للخازن ، تفسیر ابی السعود اور التفسیر الکبیر ‘‘ سے بھی اجماع کی حجیت کو ثابت فرمایا ۔
چلتی ٹرین میں فرض و واجب نمازوں کی ادائیگی کا حکم : محقق مسائل جدیدہ مفتی نظام الدین صاحب قبلہ نے چلتی ٹرین پر نماز بلا اعادہ کے جواز پر حضرت محدث سورتی علیہ الرحمہ کے تحریر کردہ ’’ التعلیق المجلیٰ لما فی منیۃ المصلیٰ ‘‘ سے ایک طویل اقتباس نقل فرمایا ہے اور ’’ احوط و اشبہ ‘‘ کے مفہوم و مطلوب پر بڑے اچھے انداز میں روشنی ڈالی ہے ۔ اسی ’’ احوط و اشبہ ‘‘ پر بحث کرتے ہوئے حضور تا ج الشریعہ نے مفتی صاحب قبلہ کی توضیح کی تردید فرمائی ہے ۔ چناں چہ پہلے آپ نے حضرت محدث سورتی کا وہ مکمل حاشیہ نقل فرمایا جسے مفتی صاحب نے اپنی تحریر میں پیش فرمایا ۔ پھر ’’ احوط ‘‘ کے بارے میں بحث فرمائی کہ یہ الفاظ فتویٰ سے ہے اور اس کا مرتبہ استحباب میں ہونامحتاج بیان ہے ۔ اس کے بعد بہترین طرز استدلال کے ساتھ ’’ فتاویٰ خیریہ سے ایک طویل پیراگراف ، رد المحتار سے تین جگہوں کی عبارتیں ، در مختار سے ایک ، فتح القدیر سے ایک اور التعلیق المجلیٰ سے بھی ایک اقتباس پیش فرماکر اپنے اس ایک موقف کو کثیر دلائل سے مزین فرمایا ۔ تفصیل کے لیے آپ کی مذکورہ کتاب کے مطالعہ کی درخواست ہے ۔

مراجعتِ کتبِ متداولہ:

حضور تاج الشریعہ کا ایک اسلوب ’’ کتب متداولہ کی طرف مراجعت ‘‘ بھی ہے اور یہ اسلوب تو لازمی ہے کیوں کہ آپ اپنے موقف کی تائید میں دلائل و براہین کا انبار لگا دیتے ہیں جیساکہ مذکورہ بالااسلوب ’’ پر زور طرزِ استدلال اور دلائل کثرت ‘‘ میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے اور ظاہر ہے کہ جب دلائل کی کثرت ہو گی تو زیادہ سے زیادہ کتب کی طرف رجوع بھی ہوگا ۔ اب ذیل میں حضور تاج الشریعہ کے کتب اور مراجعتِ کتب کثیرہ کی جھلک ملاحظہ فرمائیں جس سے آپ کی وسعتِ نظر ، وسعتِ مطالعہ اور استحضار علمی ہویدا ہے ۔
تعلیقات الازہری علیٰ صحیح البخاری و علیٰ حواشی المحدث السہارنفوری : یہ کتاب حضور تاج الشریعہ کا ایک عظیم کارنامہ ہے جسے رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا ۔ اس عظیم شاہکار کے لیے آپ نے ۱۶۳ کتب کی طرف رجوع فرمایا جن میں سے چند ایک کے اسماء ملاحظہ فرمائیں : ( ۱ ) القرآن الکریم ( ۲ ) عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری ( ۳ ) ارشاد الساری شرح صحیح البخاری ( ۴ ) شرح الزرقانی علیٰ موطا الامام مالک ( ۵ ) مجمع بحار الانوار ( ۶ ) المستدرک علی الصحیحین ( ۷ ) الاتقان فی علوم القرآن ( ۸ ) الأشباہ و النظائر ( ۹ ) فتح المعین علیٰ شرح الکنز( ۱۰ ) رد المحتار ( ۱۱ ) لمعات التنقیح شرح المشکاۃ المصابیح ( ۱۲ ) در مختار ( ۱۳ ) فتاویٰ خیریہ ( ۱۴ ) شرح معانی الآثار ( ۱۵ ) فیض القدیر شرح الجامع الصغیر ( ۱۶ ) المنھاج شرح صحیح مسلم بن الحجاج ( ۱۷ ) الفتاویٰ الحدیثیہ ( ۱۸ ) أحکام القرآن (۱۹ ) الشفاء بتعریف حقوق المصطفی ٰ( ۲۰ ) اشعۃ اللمعات شرح مشکاۃ ( ۲۱ ) صحیح البخاری ( ۲۲ ) مصنف عبد الرزاق ( ۲۳ ) سیر اعلام النبلاء ( ۲۴ ) انوار التنزیل و اسرار التاویل ( ۲۵ ) مجمع الانہر فی شرح ملتقی الابحر ( ۲۶ ) تنقیۃ الایمان المعروف المعتقد المنتقد مع المعتمد المستند ( ۲۷ ) فتاویٰ رضویہ ( ۲۸ ) سنن ابو داؤد ( ۲۹ ) سنن نسائی ( ۳۰ ) سنن ترمذی ( ۳۱ ) سنن ابن ماجہ ( ۳۲ ) صحیح مسلم ( ۳۳ ) جامع العلوم و الحکم ( ۳۴ ) کنز العمال ( ۳۵ ) طبقات الشافعیۃ الکبریٰ وغیرہ۔
ٹائی کا مسئلہ : اس کتاب کی تصنیف میں جن کتابوں کی طرف مراجعت کی گئی ہیں ان کے اسما یہ ہیں : ( ۱ ) قرآن کریم ( ۲ ) بیضاوی شریف ( ۳ ) صحیح البخاری ( ۴ ) مسند احمد ابن حنبل ( ۵ ) عینی ( ۶ ) اختیار شرح مختار ( ۷ ) زواجر ( ۸ ) شرح درود ( ۹ ) ہدایہ ( ۱۰ ) حدیقہ ندیہ شرح طریقہ محمدیہ ( ۱۱ ) فتاویٰ ہندیہ معروف بہ فتاویٰ عالمگیری (۲ ۱ ) محیط ( ۱۳ ) Practical Advanced Twentieth Century Dictonary ( ۱۴ ) گرو لیئر اکیڈمک انسائیکلوپیڈیا (۱۵ ) فتاویٰ رضویہ ( ۱۶ ) فتاویٰ مصطفویہ ( ٹائی کامسئلہ )
آثارِ قیامت : آثارِ قیامت کی توضیح و تشریح میںحضور تاج الشریعہ نے جن کتابوں سے استفادہ کیا ہے ان کی تعداد تقریباً اکتیس ہے جن کے نام یہ ہیں : ( ۱ ) قرآن کریم ( ۲ ) تفسیر در منثور ( ۳ ) تفسیر کبیر( ۴ ) حاشیہ صاوی ( ۵ ) احکام القرآن ( ۶ ) الاتقان فی علوم القرآن ( ۷ ) اللآئی المصنوعہ (۸ )صحیح بخاری (۹ ) صحیح مسلم (۱۰ ) جامع الترمذی (۱۱ ) سنن ابو داؤد ( ۱۲ ) سنن ابن ماجہ ( ۱۳ ) مشکوٰۃ المصابیح ( ۱۴ ) کنز العمال ( ۱۵ ) مستدرک للحاکم ( ۱۶ ) مجمع الزوائد ( ۱۷ ) مسند امام احمد ( ۱۸ ) الترغیب و الترہیب ( ۱۹ ) مجمع البحار ( ۲۰ ) طبرانی ( ۲۱ ) تیسیر شرح جامع صغیر ( ۲۲ ) فیض القدیر شرح جامع صغیر ( ۲۳ ) اشعۃ اللمعات شرح مشکوٰۃ ( ۲۴ ) مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح ( ۲۵ ) رد المحتار ( ۲۶ ) در مختار ( ۲۷ ) فتاویٰ رضویہ ( ۲۸ ) الطیب الوجیز ( ۲۹ ) بہار شریعت (۳۰ ) نزہۃ المجالس ( ۳۱ ) تفسیر خازن ( ۳۲ ) کنز الایمان فی ترجمۃ القرآن ۔
ٹی وی اور ویڈیو کا آپریشن : اس کتاب میں حضور تاج الشریعہ نے جن کتابوں کے حوالے پیش کیے ہیں ان کے نام یہ ہیں ۔ ( ۱ ) قرآن کریم ( ۲) رد المحتار( ۳ ) المعجم الوسیط(۴ ) تبیین شرح الکنز( ۵ ) مواقف( ۶ ) الکشف الشافیا( ۷ ) صحیح البخاری( ۸ ) تفسیر بیضاوی( ۹ ) الاشباہ و النظائر ( ۱۰ ) عطایا القدیر فی حکم التصویر( ۱۱ ) جد الممتار(۱۲ ) تفسیر خازن( ۱۳ ) در مختار(۱۴ ) فتاویٰ عالمگیری (۱۵ ) جامع الترمذی (۱۶ ) الملفوظ ۔
تحقیق أن أبا ابراہیم ’’ تارح ‘‘لا ’’ آزر ‘‘ : اس کتاب کے مطالعہ کے دوران راقم نے اس کتاب یا اس کے حاشیہ میں جن جن کتابو ں کے نام ملاحظہ کیے ان میں سے کچھ کے نام یہ ہیں : ( ۱ ) القرآن الکریم ( ۲ ) الحاوی للفتاویٰ( ۳ )قصص الانبیاء (۴ ) تفسیر کبیر( ۵ ) صحیح بخاری ( ۶ ) جامع الترمذی(۷ ) فتح الباری( ۸ ) تفسیر طبری( ۹ ) الھاد الکاف فی حکم الضعاف(۱۰ ) مرقاۃ شرح مشکاۃ( ۱۱ ) موضوعات کبیر (۱۲ ) فتح القدیر(۱۳ ) میزان الشریعۃ الکبریٰ (۱۴ )سنن کبریٰ(۱۵ ) التعقیبات(۱۶ ) مقدمہ ابن صلاح(۱۷ ) المقدمۃ الجرجانیہ (۱۸ ) التقریب للنووی(۱۹ ) تدریب الراوی(۲۰ ) البحر المحیط (۲۱ ) روح البیان( ۲۲ ) تفسیر سمرقندی(۲۳ ) روح المعانی( ۴۲ ) حاشیہ جمل وغیرہ ۔
حقیقۃ البریلویۃ المعروف بہ مرآۃ النجدیہ : اس گراں قدر کتاب کی تصنیف میں آپ نے جن کتابوں سے استفادہ کیا ہے اس کی تعداد تقریباً ۸۰ ہے ۔ ان میں سے چند اہم اسما یہ ہیں : ( ۱ ) القرآن الکریم ( ۲ ) صحیح البخاری ( ۳ ) صحیح مسلم ( ۴ ) جامع الترمذی ( ۵ ) سنن نسائی ( ۶ ) سنن ابو داؤد ( ۷ ) سنن ابن ماجہ ( ۸ ) القادیانیہ (قادیانیوں کے تعلق سے اعلیٰ حضرت کے رسائل کا مجموعہ ) ( ۹ ) الکلمۃ الفیصل ( ۱۰ ) ازالۃ الاوہام ( ۱۱ ) البریلویہ (۱۲ )فتاویٰ رشیدیہ ( ۱۳ ) براہین قاطعہ ( ۱۴ ) دعوت فکر ( ۱۵ ) اقبال اور علماء پاکستان و ہند ( ۱۶ ) الدرر السنیہ فی الرد علی الوہابیہ ( ۱۷ ) الصواعق الالٰہیہ فی الرد علی الوہابیہ ( ۱۸ ) المعجم الاوسط ( ۱۹ ) الجوہر المنظم ( ۲۰ ) التاریخ الکبیر ( ۲۱ ) اتحاف السادۃ ( ۲۲ ) المصنف فی الاحادیث و الآثار ( ۲۳ ) الدرر المنتثرۃ فی الاحادیث المشتہرہ ( ۲۴ ) المقالات السنیہ فی کشف ضلالات احمد ابن تیمیہ ( ۲۵ ) الشھاب الثاقب ( ۲۶ ) بہجۃ الاسرار ( ۲۷ ) تتمہ حقیقۃ الوحی ( ۲۸ ) لباب التاویل فی معانی التنزیل ( ۲۹ ) نوادر الاصول ( ۳۰ ) نزھۃ الخواطر ( ۳۱ ) نسیم الریاض ( ۳۲ ) ہدیۃ العارفین ( ۳۳ ) لسان المیزان ( ۳۴ ) البحر الرائق ( ۳۵ ) مدارج النبوۃ وغیرہ ۔
چلتی ٹرین میں فرض و واجب نمازوں کی ادائیگی کاحکم : اس کتاب میں حضور تاج الشریعہ نے جن کتابوں سے استفادہ فرمایا ہے ان میں سے چند کے اسما کچھ یوں ہیں:( ۱ ) فتاویٰ رضویہ (۲ ) فتاویٰ خیریہ ( ۳ ) التعلیق المجلیٰ لما فی منیۃ المصلیٰ ( ۴ ) رد المحتار ( ۵ ) در مختار (۶ ) فتح القدیر ( ۷ ) البحر الرائق ( ۸)جد الممتار ( ۹ ) نور الانوار ( ۱۰ ) ماہ نامہ اشرفیہ جولائی ۲۰۱۳ء ( ۱۱ ) خطبۂ صدارت باضافۂ جدید وغیرہ ۔

کتب اعلیٰ حضرت سے استفادہ کا التزام:

حضور تاج الشریعہ کے اسالیب میں جو اسلوب آپ کی تمام کتابوں میں مشترک ہے وہ یہ ہے کہ آپ اپنے خانوادےکے بزرگوں ، خصوصیت کے ساتھ اپنے جد امجد اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رضی اللہ عنہ کی کتابوں سے ضرور استفادہ فرماتے ہیں اور ان کی عبارتوں کو اپنی تصنیف و تالیف اور کتب و رسائل میں ضرور بطور دلیل و حوالہ پیش فرماتے ہیں ۔ اب ذیل میں تاج الشریعہ کی کتابوں میں جلوہ افروز اقتباسات و عبارات اعلیٰ حضرت نقل کیے جاتے ہیں تاکہ آپ کا یہ اسلوب بھی منظر عام پر آئے اور اعلیٰ حضرت کے کلمات سے آنکھ و دل کو ٹھنڈک پہنچے ۔
تعلیقات الازہری علیٰ صحیح البخاری و علیٰ حواشی المحدث السہارنفوری : ’’ قال جدنا الامام احمد رضا ۔۔۔ و ھٰذا أحد معانی قولہ ﷺ : ’’ أنا صاحب شفاعتھم ‘‘ و المعنی الآخر الألطف الأشرف أن لا شفاعۃ لأحد بلا واسطۃ عند ذی العرش جل جلالہ الا للقرآن العظیم و لھٰذا الحبیب المرتجی الکریم ﷺ ۔( تعلیقات الازہری ، ص : ۱۳۲ )
آثار قیامت : حضور تاج الشریعہ اپنی اس کتاب میں ایک مقام پر اپنے جد امجد کی عبارت یوں نقل فرماتے ہیں : ’’ امام اہل سنت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری بریلوی قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں : ’’ والدین کے ساتھ نیکی صرف یہی نہیں کہ ان کے حکم کی پابندی کی جائے اور ان کی مخالفت نہ کی جائے بلکہ ان کے ساتھ نیکی یہ بھی ہے کہ کوئی ایسا کام نہ کرے جوان کو ناپسند ہو اگر چہ اس کیلیے خاص طور پر ان کا کوئی حکم نہ ہو ۔ اس لیے کہ ان کی ’’فرمانبرداری ‘‘اور ان کو ’’ خوش رکھنا ‘‘دونوں واجب ہیں اور نافرمانی اور ناراض کرنا حرام ہے ‘‘ ۔ ( آثار قیامت، ص :۴۱ ۔ ۴۲ )
ٹائی کا مسئلہ : شعار کفار کے تعلق سے حضور تاج الشریعہ نے ’’ٹائی کا مسئلہ ‘‘ میں اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ کا فتویٰ ان الفاظ کے ساتھ نقل فرمایا : ’’ آخر میں سیدنا اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ کے فتاویٰ سے چند کلمات تبرکاً پیش ہیں ۔۔۔ الجواب : جو بات کفار یا بد مذہبان اشرار یا فساق فجار کا ہو بغیر کسی حاجت صحیحہ کے برغبت نفس اس کا اختیار مطلقاً ممنوع و ناجائز و گناہ ہے اگر چہ وہ ایک ہی چیز ہو کہ اس سے وجہ خاص میں ضرور ان سے تشبہ ہوگا ، اسی قدر منع کو کافی اگر چہ دیگر وجوہ سے تشبہ نہ ہو ‘‘ ۔ (ٹائی کا مسئلہ، ص : ۱۴ )
ٹی وی اور ویڈیو کا آپریشن : اس کتاب میں آپ اعلیٰ حضرت کے قول کو نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’ اب آخر میں ’’ الملفوظ ‘‘ کی عبارت سنتے چلیں جس سے ظاہر ہوا کہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے غلبہ لہو و لعب کا لحاظ بھی فرمایا ہے ۔۔۔ ’’ ( الملفوظ کی عبارت ) گانے میں اصل کا حکم ہے، اگر اصل جائزیہ بھی جائز اگر اصل حرام یہ بھی حرام مثلاً عورت و اَ مْرَد کی آواز نہ ہو مزامیر(یعنی ساز،ڈھول وغیرہ)کی آواز نہ ہو اَشعار خلافِ شَرْع نہ ہوں تو جائز ہے ورنہ نہیں اور قرآن عظیم کا سننا تَوَ جُّد(یعنی بے خودی کی کیفیت)ہے کہ عبادت ہے اور گرامو فون سے سننا لَہو ہے کہ وہ موضوع ہی اسی لیے ہے اگرچہ کوئی نیت لہونہ کرے مگر اصل وضع(یعنی بناوٹ )کی تبدیل کوئی نہیں کرسکتا ‘‘ ۔ ( ملفوظات اعلیٰ حضرت ، ص : ۴۱۸ )
تحقیق أن ابا ابراہیم ’’ تارح ‘‘لا’’آزر‘‘: اپنی مذکورہ کتاب میں اپنے موقف پر بطور دلیل اعلیٰ حضرت کے رسالہ ’’ الھاد الکاف فی حکم الضعاف‘‘ کی عبارت ان لفظوں میں بیان فرمائی :’’ قال : الاما م الہمام سیدی و جدی الشیخ احمد رضا فی رسالتہ الفذۃ ’’ الھاد الکاف فی حکم الضعاف ‘‘ : ’’ الحدیث اذا روی بطرق عدۃ و کانت کلھا ضعیفۃ ۔۔۔ فالضعیف لاجتماعہ بالضیف یتقوی‘‘ ۔ ( تحقیق أن ابا ابراہیم ’’ تارح ‘‘لا’’آزر‘‘۷۷ )
حقیقۃ البریلویۃ المعروف بہ مرآۃ النجدیہ : اس مایہ ناز کتاب میں فرقہ وہابیہ کے بارےمیں لکھتے ہوئے اعلیٰ حضرت اور عبارت اعلیٰ حضرت یوں ذکر کرتے ہیں : ’’ قال الشیخ فی التصنیفہ المذکورۃ اللطیف المفید المبارک یذکرھم : ’’ منھم الوہابیۃ الشیطانیۃ و ھم کالفرقۃ الشیطانیۃ من الروافض ‘‘ ۔ (حقیقۃ البریلویہ، ص : ۳۸ )
چلتی ٹرین میں فرض و واجب نمازوں کی ادائیگی کا حکم : حضور تاج الشریعہ نے اس کتاب میں اپنے جد امجد کے فتویٰ سے استفادہ کرتے ہوئے بایں الفاظ نقل فرمایا : ’’ اب ہم فتاویٰ رضویہ سے مسئلہ دائرہ کے متعلق ایک فتویٰ مع سوال جواب نقل کریں ۔۔۔ ( سوال کا جواب دیتے ہوئے اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں ) الجواب : فرض اور واجب جیسے وتر و نذر اور ملحق بہ یعنی سنت فجر چلتی ریل میں نہیں ہو سکتے اگر ریل نہ ٹھہرے اور وقت نکلتا دیکھے پڑھ لے پھر اعادہ کرے تحقیق یہ ہے کہ استقراربالکلیہ ولوبالوسائط زمین یا تابع زمین پر کہ زمین سے متصل جب تک استقرار زمین پر اور وہ بھی بالکلیہ نہ ہو تو چلنے کی حالت کیسے جائز ہو سکتی ہے کہ نفس استقرار ہی نہیں بخلاف کشتی رواں جس سے نزول متیسر نہ ہو کہ اسے روکیں گے بھی تو استقرار پانی پر ہوگا نہ کہ زمین پر لہٰذا سیر و وقوف برابر لیکن اگر ریل روک لی جائے تو زمین ہی پر ٹھہرے گی اور مثل تخت ہو جائے گی ‘‘ ۔ ( چلتی ٹرین ، ص : ۶۹ )

ازالۂ اعتراض و اوہام :

آثار قیامت : اگر کوئی شخص اپنے نفس کے زجر و تہدید اور مکروہ و ممنوع سے اجتناب کے لیے کوئی ایسی قسم کھائے جس کا ظاہری معنیٰ کفر پر مشتمل ہو ، ایسے شخص پر کیا حکم شرعی عائد ہوگا بیان کرتے ہوئے تاج الشریعہ فرماتے ہیں : ’’ قائل جب تک حانث نہ ہو ، کافر نہ ٹھہرے گا ۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ایسی قسم کھانا سخت شنیع اشد حرام ہے جس سے قائل پر توبہ لازم ہے اور احتیاطاً تجدید ایمان بھی ضرور ‘‘ ۔ (ص ۸۵ ) اب اس مقام پر ایک سوال پیدا ہوتا تھا کہ اگر شخص مذکور حانث ہو جائے تو کیا اس پر کفارہ لازم ہو گا یا نہیں ؟ تو اس سوال مقدر کا جواب دیتے ہوئے آپ آگے لکھتے ہیں : ’’ رہی یہ بات کہ بصورتِ حنث اس پر کفارہ ہے یا نہیں تو ائمۂ حنفیہ کا مذہب یہ ہے کہ قسم توڑنے کی صورت میں اس پر کفارۂ قسم لازم ہوگا جب کہ کسی فعل آئندہ پر قسم کو معلق کیا ہو اور اس کی نظیر تحریمِ مباح ہے یعنی کسی فعلِ مباح کو اپنے اوپر بذریعہ قسم حرام کر لے ‘‘ ۔ (آثارِ قیامت ، ص : ۸۶)
ٹائی کا مسئلہ : حضور تاج الشریعہ نے شعار کفری کے بارے میں ’’ ٹائی کا مسئلہ ‘‘ میں ایک جگہ رقم فرمایا کہ ’’ شعار کفری ہمیشہ کفر ہی رہے گا کہ وہ اپنے وضع کو ملزوم ہے اور وہ کفر کے لیے ہے ‘‘اور آپ نے ثابت فرمایا کہ ’’ ٹائی ‘‘ عیسائیوں کا شعار ہے جیسا کہ کتاب مذکور سے واضح ہے تو اس سے اول نظر میں یہ وہم اپنا چہرہ دکھا رہا تھا کہ جب ٹائی شعار کفری ہے تو ان مسلمانوں پر کیا حکم شرعی عائد ہو گا جو اسے بخوشی اپنے گلے کا ہار بناتے ہیں ۔ کیا ان پر بھی حکم کفر ہوگا ؟ اس وہم کا ازالہ فرماتے ہوئے تاج الشریعہ تحریر فرماتے ہیں : ’’ البتہ شعارِ کفری اختیار کرنے کی صورت میں مسلم کی تکفیرِ قطعی اس وقت ہوگی جبکہ یہ ثابت ہو کہ اس نے اپنے قصد و ارادہ سے اس کو شعارِ کفری جانتے ہوئے کافروں سے موافقت کے لیے اپنایا ، اس صورت میں تشبہ التزامی ہوگا ورنہ مسلمان کو کافر نہ کہیں گے لیکن توبہ کا حکم دیں گے اور احتیاطاً تجدیدِ ایمان کا بھی حکم ہوگا کہ کفار سے اس فعلِ کفری میں تشبہ قصداً نہ سہی صورۃً و ضرورتاً ہوا اور اظہر یہ ہے کہ تجدیدِ ایمان کا حکم ایسی صورت میں دیا جائے گا جبکہ اس فعلِ کفری میں تشبہ ظاہر تر ہو ۔ بہر حال کسی فعل یا قول کا کفر ہونا اور ہے اور قائل و فاعل کو کافر قرار دینا اور ‘‘ ۔ ( ٹائی کا مسئلہ ، ص : ۲۴ )
ٹی وی اور ویڈیو کا آپریشن : شیخ الاسلام علامہ مدنی میاں مد ظلہ العالی نے تصاویر کے تعلق سے حضور تاج الشریعہ دام ظلہ العالی سے سوال فرمایا تھا کہ ثابت کیجیے کہ جہاں جہاں نصوص میں تصاویر و تماثیل کا لفظ آیا ہے اس سے اس کا حقیقی معنیٰ مراد نہیں ۔ کیوں نہیں ؟ ۔ اپنے اوپر ہونے والے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے حضور تاج الشریعہ نے کیا فرمایا ، ملاحظہ فرمائیں : ’’ بے شک حقیقی معنیٰ مراد ہے اور وہ معنیٰ عام جو صورت و عکس دونوں کو شامل ہے ۔ تو دونوں کا بنانا حرام ہے اور آپ کے اس ’’ اندازہ مذکورہ ‘‘ سے ادعائے حقیقت محض نامتصور اور اس سے عام نصوص میں دعویٔ خصوص قطعاً نامعتبر ‘‘ ۔ (ٹی وی اور ویڈیو کا آپریشن۶۴ )
تحقیق أن ابا ابراہیم ’’ تارح‘‘لا ’’آزر ‘‘: اس کتاب میں ایک مقام پر ایک وہم کی گنجائش تھی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کے نام ’’ تارح ‘‘ والی تمام روایات ضعیف ہیں جیساکہ استاذ احمد شاکر نے بھی بیان کیا تو یہ معتبر نہیں کیوں کہ ضعیف کا اعتبار نہیں ۔ اس وہم کا ازالہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں : ’’والحدیث الضعیف یتقویٰ بکثرۃ الطرق،ویترقیٰ الیٰ درجۃ الحسن ‘‘ ۔ ( تحقیق ابا ابراہیم ، ص : ۷۷ ) یعنی حدیث ضعیف کثرتِ طرق کے سبب قوی ہو کر حسن کے درجہ کو پہنچ جاتی ہے ۔ پھر اپنے اس قول کو ’’ الھاد الکاف فی حکم الضعاف ، مرقاۃ المفاتیح ، موضوعات کبیر ، فتح القدیر ، میزان الشریعۃ الکبریٰ ، تعقیبات علیٰ الموضوعات ، مقدمۃ ابن صلاح ، المقدمۃ الجرجانیہ ، فتح المغیث بشرح الالفیہ ، تقریب النووی ، تدریب الراوی ‘‘ کی عبارات سے مبرہن فرمایا ۔
حقیقۃ البریلویۃ المعروف بہ مرآۃ النجدیہ : قاضی عطیہ نے اہل سنت و جماعت پر الزام و بہتان تراشی کرتے ہوئے اپنے مقدمہ میں لکھا : ’’ والموقف الثانی : مع البریلویین فی المسلکھم ، فقد جمعوا بین الافراط و التفریط ، فافرطوا فی معتقداتھم فی معبوداتھم من دون اللہ ، من أحیاء أو أموات حتیٰ أعطوھم صفۃ القادر المقتدر ، و وضعوا أیدی مشایخھم و دعاتھم علیٰ خزائن الدنیا و بأیدیھم أقلام البراء ۃ للآخرۃ ‘‘ ۔( حقیقۃ البریلویہ، ص :۱۶۵ )یعنی دوسرا موقف بریلویوں کے ساتھ ان کے مسلک کے بارے میں ہے کہ ان لوگوں نے افراط و تفریط کو جمع کر لیا ہے ۔ چناں چہ وہ اپنی فرطِ عقیدت میں اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر اپنے زندہ اور مردہ معبودوں کے سلسلے میں افراط کے جال میں پھنس گئے ہیں حتیٰ کہ انہیں قادر و مقتدر جیسے اوصاف سے متصف کردیا (یہیں تک نہیں بلکہ ) اپنے مشائخ و دعاۃ کے ہاتھوں میں دنیا کے خزانے ( کی کنجیاں ) رکھ دیں اور ان کے ہاتھوں میں نجاتِ آخرت کے قلم بھی دے بیٹھے۔
اس بے بنیاد اور بے سر و پا الزامات اور سوال کا حضور تاج الشریعہ نے تحقیقی مدلل اور منہ توڑجواب دیتے ہوئے اپنے قلم کو یوں حرکت دیتے ہیں : ’’و الجواب عن ھٰذا أن اللہ سبحانہ و تعالیٰ ھو الذی جعل أولیائہ من عبادہ مدبرین لأمرہ بأمرہ ، وھو الذی أورثھم الأرض ، حیث قال عز و جل من قائل : ’’وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ‘‘ ۔ ۔۔ فاللّٰہ ھو الذی أعطی أولیاء صفۃ القادر والمقتدر ، و وضع أیدی أولیاء ہ علیٰ خزائن الدنیا ، فلیتّھم عطیۃ ، اللہ سبحانہ و تعالیٰ -و العیاذ باللّٰہ سبحانہ و تعالیٰ -جعل من عبادہ شرکاء لہ ، و ھو سبحانہ و تعالیٰ یصنع ھٰذا الصنیع بأولیاء ہ تعالیٰ فحسب ‘‘ ( حقیقۃالبریلویہ ، ص : ۱۶۵ ) یعنی اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہی نے اپنے بندوں میں سے اولیاء کرام کو اپنے معاملات کا مدبر بنایا ہے چناں چہ فرمایا : اور بیشک ہم نے زبور میں نصیحت کے بعد لکھ دیا کہ اس زمین کے وارث میرے نیک بندے ہوں گے۔ ۔۔تو اللہ تبارک و تعالیٰ ہی نے بذات خود ( اپنے ) اولیا کو قادر و مقتدر جیسی صفت عطا فرمائی اور اپنے اولیا کے ہاتھوں میں دنیا کے خزانے دیے ۔ اس لیے اے عطیہ ( و العیاذ باللہ ) اللہ تبارک و تعالیٰ پر اعتراض کرنا چاہیے تھا کہ اس نے اپنے بندوں کو اپنا شریک ٹھہرا لیا حالاں کہ وہ اس سے پاک و منزہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا اپنے اولیا کے ساتھ ایسا کرنا ہی ہمارے لیے کافی ہے ۔
چلتی ٹرین پر فرض و واجب نمازوں کی ادئیگی کاحکم : محقق مسائل جدیدہ مفتی نظام الدین صاحب قبلہ نے چلتی ٹرین میں فرض و واجب نماز کے جواز میں اکابرین علمائے اہل سنت میں سے دو بڑی شخصیت کے فتاویٰ پیش فرمائے ۔اب سوال سر ابھارتا ہے کہ اگر چلتی ٹرین میں نماز جائز نہیں تو ان علما نے کیوں کر ایسا فتویٰ دیا ۔ اس سوال مقدر کا جواب دیتے ہوئے تاج الشریعہ لکھتے ہیں : ’’ جہاں تک حضرت مولانا عبد الحی فرنگی محلی اور حضرت مولانا نور اللہ نعیمی بصیر پوری کے فتویٰ کا سوال ہے تو ان حضرات نے چلتی ٹرین کا الحاق چلتی کشتی کے ساتھ کیا ہے جیسا کہ ان کی عبارت سے ظاہر ہے ، گو کہ چلتی ٹرین کا الحاق چلتی کشتی کے ساتھ صحیح نہیں ۔ کیوں کہ چلتی ٹرین جب ٹھہرے گی تو زمین پر ٹھہرے گی اور اس سے متصل باتصال قرار ہوگی اور مثل تخت ہو جائے گی جبکہ چلتی کشتی اگر روکی جائے تو پانی پررکے گی اور پانی زمین سے متصل باتصال قرار نہیں ۔ لہٰذا چلتی کشتی پر نماز کی صحت کے لیے استقرار علی الارض اور اتحاد مکان کی شرط کا حصول ناممکن ہونے کے سبب ساقط ہے ، جبکہ ٹرین میں استقرار کی شرط کا حصول ممکن ، اس لیے ساقط نہیں ‘‘ ۔ ( چلتی ٹرین، ص :۴۵ )
یہ ہیں اسالیبِ تاج الشریعہ کی مختصر جھلک ۔ان اسالیب کے علاوہ اور بھی اسالیب ہیں مثلاً عقائد اہل سنت کی جلوہ گری ، فرقۂ ضالہ مضلہ کا رد و ابطال ، بغیر تصنع مقفیٰ و مسجمع جملوں کی جھلک ، اپنی نگارشات میں قرآنی آیات، عربی فقرے یا جملے کا ضم وغیرہ ۔ صرف نثر میں ہی نہیں بلکہ نظم میں بھی درج بالابہت سے اسالیب موجود ہیں لیکن کیا کیا جائے زبان پر قلتِ وقت کا شکوہ ہے ، جس کے سبب قلم کو یہیں ساقط و صامت کرنا پڑا رہا ہے۔ خیر اب شکوہ سے کچھ نہیں بنتا کہ جو ہونا ہے وہی ہونا ہے اور جو نہیں ہونا ہے وہ نہیں ہونا ہے ۔

Menu