حضورتا ج الشریعہ اور آپ کا درس بخا ری

مفتی صلا ح الدین رضوی،انڈیا


جانشین حضورمفتی اعظم ہند وارث علوم اعلیٰ حضرت علامہ تا ج الشریعہ علیہ الرحمۃ والرضوان نے ۱۹۶۷ء میں جا معہ ازہر مصر سے فرا غت کے بعد اپنے ما در علمی یا دگا ر رضا مرکز علم وعر فا ن جا معہ رضویہ منظرا سلام میں درس وتدریس کا سلسلہ شروع فر مایا ۔آج درس وتدریس کا تعلق ان کے جسم سے نہیں بلکہ ان کی رو ح سے ہے ،درس وتدریس ان کی رو حا نی غذا ہے گیا رہ سال بعد آپ کے برا در اکبر حضور ریحا ن ملت علیہ الرحمۃ نے دارالعلو م منظر اسلام کے صدر المدرسین کی ذمہ دا ری آپ کے کا ندھو ں پر ڈا ل دی آپ نے اس منصب عظیم کی ذمہ داریو ں کو بحسن وخو بی نبھا تے ہو ئے تعلیمی وتنظیمی اعتبا ر سے دارالعلوم کی شہرت ومقبو لیت کا پا یا بہت بلند فر ما دیا اور مصروفیت کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہو تاچلا گیا تو با ضا بطہ درس وتدریس کا سلسلہ ممکن نہ رہ سکا ،لیکن اس کے با وجود تصنیف وتا لیف ،تحقیق وتد قیق ،ترجمہ وتعریب ،فقہ وافتا ء جیسے علمی کا موں میں مصروف رہے اور بین الاقوامی مبلغ اور عالمی شہرت یا فتہ پیر ہو نے کی وجہ سے دنیا کے اکثر ممالک میں بیعت وارادت وارشاد کی خا طر تبلیغی اسفار کے باوجو دلکھنے پڑھنے اور تعلیم وتعلم کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوا یہاں تک کہ آپ نے اپنے دولت کدہ مخصوص اوقات میں درس قر آن و درس حدیث کی محفل سجا دی ۔یہاں درس وتدریس کی افا دیت اتنی بڑھی اور اتنی مقبو ل و معروف ہو ئی کہ اس حلقۂ درس میں شرف تلمذ پانے اورزانو ئے تلمذ تہہ کر نے کے لئے منظر اسلام ،مظہر اسلام اور جامعہ نو ریہ کے طلبا ء کی بڑی تعداد جمع ہو گئی ختم بخا ری شریف تدریس کی اونچی منز ل ہے ۔آپ نے یہ کام بھی بحسن و خو بی انجا م دیا افتتاح بخا ری پھر ختم بخا ری کا سلسلہ مدا رس اہلسنت میں شروع ہوا تو بڑھتا ہی چلا گیا ۔مدا رس اہلسنت کے اساتذہ وطلبا ء کی خواہش پر جلو ہ با ر ہو کر افتتاح بخا ری و ختم بخا ری کی محفلوں کو رو نق بخشی طلبا ء وعوام وخو اص کے سامنے علمی گو ہر لٹا ئے اور فیض وکرم کی مو سلا دھا ر با رش سے دلوں کی سوکھی کھیتیوں کو ہر یا لی بخشی اور ایسا لگتا تھا کہ اما م بخا ری علیہ الرحمۃ و امام مسلم کی محفلوں کو جا نشین کی حیثیت سے سنوار رہے ہیں ۔اور اپنے اساتذہ واجداد کی یا د تا زہ کر رہے ہیں ۔
قا رئین کرا م !یہ با ت اظہر من الشمس ہے اسلامی تصنیفا ت میں اللہ تبا رک وتعالیٰ نے جو مقبو لیت بخا ری کو عطا فر ما ئی وہ آج تک کسی تصنیف کو حا صل نہ ہو سکی بلکہ خود امام بخا ری کی دوسری تصنیفا ت کو بھی حاصل نہ ہوئی شرقا ً وغربا ً تمام ممالک اسلامیہ میں اس کا سکہ بیٹھا ہوا ہے نیز علماء امت کا اس با ت پر اتفاق ہے کہ کتا ب اللہ کے بعد بخا ری سے زیا دہ کو ئی صحیح کتا ب رو ئے زمین پر موجو د نہیں ہے ۔صحیح بخا ری کی معرا ج کمال یہ ہے کہ مصنف کی ذات کی طرح ان کی کتا ب بھی با رگا ہ رب العالمین میں مقبو ل ہو ئی ،اور سرکا ر کائنات ﷺ نے اس کواپنی کتا ب فر ما یا ۔امام بخا ری کا اسلوب اس کتا ب میں یہ ہے کہ پہلے با ب با ندھتے ہیں کبھی کبھی باب کی منا سبت سے ایک یا چند آیا ت ذکر کرتے ہیں کبھی با ب سے متعلق احا دیث اور اقوال سلف صحا بہ یا ائمہ تا بعین یا تبع تابعین ذکر کرتے ہیں پھر با ب کی مو ئید کو ئی ایسی حدیث ہوتی ہے جو ان کے شرائط پر پو ری ہو اسے مع سند کے ذکر کرتے ہیں کبھی ایک کبھی متعدد کبھی مفصل کبھی مختصرکبھی پوری حدیث کبھی حدیث کا کو ئی جز ذکر کرتے ہیں اور کبھی حدیث کے جز ہی کو عنوان بنا دیتے ہیں حضور تا ج الشریعہ کی حیا ت طیبہ میں پچھلے دنو ں ایک آڈیو کیسٹ سامنے آئی جس میں حضور ازہری میاں علیہ الرحمۃ والرضوان بخا ری شریف کا درس دیتے ہو ئے امام بخا ری علیہ الرحمۃ والرضوا ن کے قا ئم کردہ ایک عنوان پر تحقیقی علمی بحث فر ما رہے ہیں یہ بحث بہت طویل ہے کثرت دلائل وبرا ہین ،طرز استد لال ،قوت استنبا ط ،فقہی بصیرت ،عالما نہ فکر دیکھ کر حضرت امام ابن الہمام کی یاد تا زہ ہوجا تی ہے حضور تا ج الشریعہ نے عنوان کے تحت ذکر کردہ حدیث کی تشریح وتو ضیح مذاہب مختلفہ اور ان کے دلائل کی تفصیل ،حل لغا ت ،اعرا ب کی مختلف صورتیں اور ان کی وضا حت ۔متعارض احا دیث میں مطابقت اور اسما ئے رجال پر محد ثانہ و محققا نہ بحث فر ما کر جس طرح امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے مذہب کی ترجیح فر ما ئی ہے اسے پڑھ کر اور سن کر ہر انصاف پسند محقق یہ ما ننے پر مجبو ر ہو جا ئے گا کہ حضور تا ج الشریعہ بدرالطریقہ علیہ الرحمۃ کا مقا م جس طرح فقہ میں بلند وبالاہے اسی طرح علم حدیث میں بھی ارفع واعلیٰ ہے ۔
آئیے اب ہم آپ کو حضور تا ج الشریعہ کے درس بخا ری شریف کے تحقیق کے جلو ے دکھا تے ہیں جس سے آپ خو د ہی انداز ہ کر سکتے ہیں کہ علم حدیث میں آپ کا مقام کتنا اونچا ہے ۔حضرت امام ابی عبد اللہ محمد بن اسما عیل بخاری علیہ الرحمۃ نے اپنی کتا ب بخا ری شریف کتا ب الو ضو ء میں صفحہ ۲۶ (مطبو عہ مجلس البر کا ت ) جلد نمبر۱ میں ایک با با س طرح قا ئم کیا ہے(باب لا یستقبل القبلہ بغا ئط او بولٍ الا عند البنا ء جدارٍ اونحوہ) یعنی پا خا نہ یا پیشا ب کے وقت قبلہ کی طرف منہ نہ کیا جا ئے لیکن جب عما رت میں ہو تویا کسی دیوار یا اس طرح کی جسی چیز کی آڑ ہو تو تو کو ئی حرج نہیں ۔پھر اس با ب کے تحت مع سند مندرجہ ذیل حدیث بیان کی ہے:حدثنا آدم قال ثنا ابن ابی ذئب قال ثنا الزہری عن عطا ابن یزید اللیثی عن ابی ایوب الانصا ری قال قال رسول اللہ ﷺ اذا اتی احدکم الغا ئط فلا یستقبل القبلۃ فلا یولھا ظھرہ شرقوا او غربوا ۔امام بخا ری روایت کرتے ہیں ہمیں آدم نے حدیث بیا ن کی انہوں نے کہا مجھے زہری نے ہمیں ابن ذئب نے حدیث بیا ن کی از عطا ء بن یزید اللیثی از حضرت ابی ایوب انصاری انہوں نے کہا رسول اللہ ﷺ نے فر ما یاجب تم میں سے کو ئی شخص پا خا نہ کرنے جا ئے تو قبلہ کی طرف منہ کرے اور نہ اس کی طرف پیٹھ کرے مشرق کی طرف منہ کرو یا مغرب کی طرف منہ کرو ۔حضور تا ج الشریعہ نے حدیث پا ک بیا ن کر نے کے بعد لفظ غا ئط و بو ل کو مقدم کرنے اور مؤخر کرنے کے اعتبا ر سے مختلف نسخو ں کاتذکرہ فر مایا پھر مختلف سندوں کے ساتھ حدیث کہا ں کہا ں ذکر کی گئی ہے اس کو تفصیل کے ساتھ بیا ن کیا پھر حدیث کی تشریح و تو ضیح مشکل الفا ظ کے معانی ،اعرا ب ،بیان لغا ت وغیرہ کے بعد فر ما یا کہ مسئلہ مذکو رہ میں مشہور ومعروف کل چار مذاہب پائے جاتے ہیں ۔

مذہب اول :

مطلقا عدم جواز ، چاہے جنگل ہو یا عمارت ، یہ مذہب حضرت امام اعظم ، حضرت مجاہد ، حضرت ابراہیم نخعی ، حضرت سفیان ثوری رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمٰعین کا ہے ، اور ایک روایت کے مطابق حضرت امام حنبل کا بھی ہے ، اور خود راویٔ حدیث حضرت ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کا بھی یہی مذہب ہے،جیسا کہ ابو ایوب کا یہ جملہ اس پر واضح دلیل ہے ۔فقد منا الشام فوجد نامرا حیض قد بنیت نحو الکعبۃ فکنا ننحرف عنھا ونستغفر اللہ تعالیٰ۔ اگر حضرت ابو ایوب انصاری نے ممانعت کو عام نہ سمجھا ہوتا یعنی (صحراء ہو یا بنیان ) تو مکان میں قضائے حاجت کے وقت انحراف اور استغفار کی کوئی ضرورت نہ تھی۔

مذہب دوم :

فضا اور صحراء میں نا جائز ۔بنیان اور اماکن میں جائز یہ مذہب امام شعبی ،امام شافعی اور امام احمد ابن حنبل کا ہے ، ان حضرات کی دلیل مروان اصفر سے مروی وہ حدیث ہے جسکی تخریج ابو داؤدنے کی ہے رئیت ابن اناخ راحلتہ وجلس یبول الیھا فقلت ابا عبد الرحمٰن الیس قد نھی عن ھٰذا قال بلیٰ انہ نھی عن ذالک فی الفضاء فاذاکان بنیک وبین القبلۃ شیٔ یسترک فلا باس۔اور اسکی تخریج ابن خزیمہ ، حاکم، دارقطنی، بیہقی نے بھی کی ہے ، انکی دوسری حدیث جس سے ان حضرات نے اپنے موقف پر استلال کیا وہ بھی عبد اللہ ابن عمر ہی کی ہے ، جس میں انہوں نے فعل رسول کی حکایت کی ہے ، عبد اللہ ابن عمر فرماتے ہیں رقیت یوما علی بیت اختی حفصۃ فرئیت النبی ﷺ یقضی حاجتہ مستقبل الشام مستدبر القبلۃ ، مذکورہ حدیث کو حضرت امام بخاری، حضرت امام مسلم، حضرت ابو داؤد، ترمذی ، نسائی ، ابن ماجہ، اور داری وغیرہ نے روایت کیا ۔ حضور تاج الشریعہ نے اس جگہ انتہائی محدثانہ اور محققانہ گفتگو فرمائی ، اور بہت ساری وجہوں سے حضرت ابو ایوب انصاری کی حدیث کو ترجیح دی ہے ۔۔ مثلاً
(۱) ابن عمر کی پہلی حدیث موقوف ہے اور ابو ایوب انصاری کی حدیث مرفوع ، اس لئے پہلے حضرت ابو ایوب انصاری کی حدیث کو ترجیح ہوگی (۲) ابن عمر کی دوسری حدیث اگر چہ مرفوع ہے مگر وہ فعل رسول کی حکایت ہے اور فعلی حدیث ہے ، اور حضرت ابو ایوب انصاری کی حدیث قولی اور قولی حدیث کو فعلی حدیث پر ترجیح ہوگی ۔
(۳) حضرت ابو ایوب کی حدیث حرمت اور ممانعت پردلالت کرتی ہے اور ابن عمر کی حلت واباحت پر اور شریعت کا قاعدہ ہے ، اذا اجتمع الحلال والحرام رجح الحرام (جب حلال وحرام کسی جگہ جمع ہوجائیں تو حرام کو ترجیح ہوگی)
(۴) اگر مکان مین رخصت اس وجہ سے ہے کہ شرم گاہ اور قبلہ کے درمیان دیوار حائل ہے تو جنگل میں بھی رخصت ہونا چاہئے کہ وہاں بھی پہاڑ وغیرہ حائل ہیں مگر آپ وہاں حرمت کے قائل ہیں تو یہاں کیوں نہیں؟
(۵) راویٔ حدیث حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے بھی ممانعت کو عام سمجھا ، یہاں آکر حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمۃ نے اصول حدیث ، اصول فقہ، فن جرح وتعدیل اور اسمائے رجال کی روشنی میں ایسی معرکۃ الآرا بحث کی ہے کہ امام اعظم ابو حنیفہ کا مذہب چاند وسورج کی طرح روشن ہوجاتا ہے ۔

مذہب سوم :

صحراء اور اماکن میں استقبال قبلہ ناجائز اور استدبار قبلہ جائز، فقہ کی مشہور ومعروف کتاب ہدایہ میں اسکو ان الفاظ کیساتھ نقل کیا گیا ہے: والاستدبار یکرہ فی روایۃ لما فیہ من ترک العظیم ولا یکرہ فی روایۃ لان المستدیر فرجہ غیر مواز القبلۃ وما ینحط منہ ینحط الی الارض بخلاف المستقبل لان فرجہ موازلھا وما ینحط منہ ینحط الیھا ۔
اس مذہب سوم کی بنیاد بھی حضرت ابن عمر کے قول پر ہے جس میں انہوں نے فعل رسول کی حکایت کی ، ابن عمر کی حدیث پر بالتفصیل گفتگو ماسبق میں ہوچکی ہےاور حضرت ابو ایوب انصاری کی حدیث کا راجح ہونا بیان ہو چکا ۔

مذہب چہارم :

مطلق اباحت ۔اباحت کے قائلین میں بعض وہ حضرات ہیں جنہوں نے حدیث میں تعارض دیکھکر قاعدہ اذا تعارض تساقط کی بنیادپر اصل کی طرف رجوع کیا اور وہ اصل کیا ہے اباحت ہے ،ان حضرات نے حضرت عمر کی حدیث نیز ابن ماجہ کی اس حدیث کو جسے عراک نے حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت کیا ہے حضرت ابو ایوب کی حدیث کے معارض خیال کیا اور تعارض کی وجہ سے اصل اباحت کا قول کیا عراک کی حدیث یہ ہے ۔ عن عائشۃ قالت ذکر عندہ النبی ﷺقوم یکرھون ان یستقبلوابفروجھم القبلۃ فقال اراھم قد فعلوھا استقبلوابمقعدی القبلۃ ۔(مذکورہ حدیث کو امام بہقی طیالسی اور دارقطنی نے روایت کیا ہے)بہت سے محدثین نے اسکو ضعیف قرار دیاہے مگرحضورتاج الشرعیہ نے نصب الرایہ سے امام زیلعی کا یہ قول پیش کیا ۔قال الزیلعی قال ابن دقیق قال الاثرم ،قال احمد ، احسن مافی الرخصۃ ۔حدیث عائشہ وان کان مرسلاًفان مخرجہ حسن ،حضور تاج الشریعہ کہتے ہیں اسکو مرسل کہنے کی وجہ یہ ہے عراک نے حضرت عائشہ سے نہ سنا ہو پھر تاج الشریعہ فتح القدیر کے حوالے سے کہتے ہیں کہ ممکن ہے عراک نے حضرت عائشہ سے سنا ہو کیونکہ عراک کا حضرت ابو ہریرہ سے سننا ثابت ہے اور حضرت ابو ہریرہ اور حضرت عائشہ کا وصال ایک ہی سال ہوا ہے اس لئے عراک کا حضرت عائشہ سے سننا بعید نہیں اس لئے وہ دونوں ایک ہی شہر میںتھے ،حضرت تاج الشریعہ نے اس جگہ عراک کی دو حدیثیںبیان کیں پہلی حدیث کو امام مسلم نے اور دوسری حدیث کو دار قطنی نے تخریج کیا دار قطنی کی حدیث میں تحدیث کی صراحت کی گئی ہے حدیث مسلم یہ ہے ۔عراک نے کہا: عن عائشۃ جاءتنی مسکینۃ تحمل ابنتین لھا ۔حدیث دار قطنی اس طرح ہے،عراک نے کہا :حدثتنی عائشۃرضی اللہ عنھاانہ ﷺلما بلغہ قول الناس أمر بمقعدتہ فاستقبل لھا،اباحت کے قائلین میں سے بعض حضرات نے نسخ کا دعوی کیا ان حضرات میں حضرت عروہ بن زبیر ۔حضرت ربیعۃ الرائے حضرت ابو داؤد وغیرہ ہیں انکی دلیل یہ ہے کہ ممانعت کی جو احایث کریمہ ہیں وہ منسوخ ہو چکی ہیں۔
اور ناسخ حضرت مجاہد کی وہ حدیث ہے جسکو حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے ۔نہا نا رسول اللہﷺ ان نستقبل القبلۃ او نستدبرھاببولٍ،ثم رئیتہ قبل ان یفیض بعام یستقبلھا، اس حدیث کو حضرت ترمذی،ابو داؤد، ابن ماجہ ،ابن خزیمہ ، ابن حبان اور حاکم نے بیان کیا ہےیہ مسلم کی شرط پر صحیح کہنا صحیح نہیں، اس لئے کہ امام مسلم نے ابان بن صالح جو حدیث مجاہد عن جابر کے راوی ہیں انکی کوئی روایت مسلم میں تخریج ہی نہیں کی تو پھر مسلم کی شرط کیسے صحیح ہوگی ۔حضرت حبان کی روایت میں یہ الفاظ ہیں۔کان رسول اللہ ﷺ قد نھاناان نستقبل القبلۃ او نستدبرھابفروجھااذ اھرقنا الماء ثم رئیتہ قبل موتہ بعام ببولٍ الی القبلۃ ۔اس حدیث کے راوی ابان ابن صالح ہیں انکو یحییٰ ابن معین ابو زرعہ ،ابو حاتم ، نے ثقہ قرار دیا امام ترمذی نےعلل کبیر میں فرما یا ۔سالت محمد بن اسماعیل یعنی البخاری عن ھذا الحدیث فقال صحیح و الاحوط المنع لان الناسخ لابدان یکون فی قوت المنسوخ وھذا وان فعلہ لایقاوم وما تقدم مما اتفق علیہ الستۃوغیرھا مما اخرج کثیراً مع ان الذی فیہ حکایۃفعلہ وھو لیس صریحاً فی نسخ التشریع القولی بجوازالخصوصیۃ۔اس مقام پر حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ نے درس دیتے ہوئےطحاوی ،فتح القدیر ، بنایہ نصب الرایہ اور عینی وغیرہ کتب کے حوالے سے ایک تحقیقی بحث کی ہےاور اپنے دلائل قاہرہ سے یہ ثابت فرما دیا ہے یہ حدیث ابو ایوب کی حدیث کی ناسخ نہیں ہو سکتی ۔یہ حدیث اگر صحیح بھی ہو تو صحت میں حضرت ابو ایوب انصاری کے برابر نہیں ہوسکتی ۔جسکی تخریج پر آئمہ ستہ کا اتفاق ہے اس کے علاوہ اس میں فعل رسول کی حکایت ہے جو حدیث قولی کے منسوخ ہونے پر دلیل نہیں ، اور یہ بھی ممکن ہے کہ خصائص نبوت سے ہو ۔ اسلئے نسخ پر استدلال نہ صرف ظاہر کے خلاف ہے بلکہ سخت ضعیف ہے،حضور تاج الشریعہ نے چاروں مذہب اور ان کے دلائل بیان کرنے کے بعد حنفی مذہب کی تائید وتوثیق وترجیح میں مفصل گفتگو فرمائی اور براہین اور دلائل قاہرہ سے واضح اور روشن فرمادیا کہ امام اعظم کا مسلک ہی اس سلسلے میں راجح اور محتاط ہے ، اس پر عمل کیا جائے تب ہی خانۂ کعبہ کی تعظیم وتکریم اور قبلہ کی عظمت کا حق ادا ہو سکتا ہے،پھر درس دیتے ہوئےآپنے مسلم ، ابوداؤد ، نسائی ، ابن ماجہ سے چند احادیث مع عبارت بیان کی ہیں ۔ پہلی حدیث عبد اللہ ابن حارث کی ہے، دوسری معقل ابن ابی معقل کی ، تیسری حضرت سلمان فارسی کی ۔ جن میں حضور ﷺ نے قضائے حاجت کے وقت استقبال واستدبار قبلہ کو منع فرمایا ہے، آپ ان احادیث کے عموم واطلاق سے استدلال فرماتے ہوئے کہتے ہیں حدیث میں لفظ نھیٰ عام ہے اس لئے صحراء ہو یا مکان قضائے حاجت کے وقت استقبال واستدبار دونوں ناجائز وحرام ہیں۔پھر آپ نے حدیث کے آخر ی حصہ میں شرقوا او غربوا پر ایسی دل نشیں عدیم المثال گفتگو فرمائی ہے کہ طبیعت خوش ہوجاتی ہے اور وجدان کہہ اٹھتا ہے کہ واقعی آپ وارث علوم اعلیٰ حضرت تھے،اسی لئے محدث کبیر نے کہا ہے جب ہم تاج الشریعہ کی کوئی تحریر یا فتویٰ پڑھتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ ہم اعلیٰ حضرت کی تحریر یا فتویٰ پڑھتے ہیں۔
حضور تاج الشریعہ شرقوا وغربوا کامفہوم یوں بیان فرماتے ہیں کہ یہ خطاب اہل مدینہ ، اہل شام ، اہل یمن اور ان حضرات سے ہے جن کا قبلہ نہ جہت مشرق ہے نہ جہت مغرب ۔ اور جن کا قبلہ جہت مشرق یا جہت مغرب ہو ان کیلئے حکم یہ ہے کہ قضائے حاجت کے وقت وہ شمال یا جنوب کی طرف منہ کرے ، علاوہ از یں دوران درس آپنے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے حالات بھی تفصیل کے ساتھ ببیان فرمائے ، نیز بخاری کی اس حدیث پر جو عنوان کے تحت درج کی گئی مکمل بحث کے بعد آداب خلا ءسے متعلق بھی نہایت ہی مفید اور مثبت گفتگو فرمائی اور تفصیل کیساتھ بتایا کہ کس چیز سے استنجاء کرنا چاہئے اور کس چیز سے استنجاء کرنا ممنوع ہے اور اسی کیساتھ یہ مسئلہ بھی واضح فرمادیا کہ جس طرح بالغ کیلئے قضائے حاجت کے وقت استقبال قبلہ یا استدبار قبلہ ناجائز ہے اسی طرح اس کیلئے یہ بھی ناجائز ہے کہ بچوں کو قبلہ رخ بٹھا کر پیشاب یا پاخانہ کرائے ۔ اور اس پر مزید یہ بھی افادہ فرمایا کہ اگر بھول کر قبلہ رخ بیٹھ گیا تو بقدر امکان گھوم جائے اور انحراف کرے اور اس کے ثبوت میں فقہ حنفی کی معروف و مشہور کتاب عالمگیری میں تبیین سے اور فتح القدیر سے جزئیات کا حوالہ پیش کیا ۔ اور زبانی پڑھ کر سنا بھی دیا ۔ مضمون کی طوالت کو مد نظر رکھتے ہوئے بس اسی پر اکتفا کیا جاتا ہے ۔ یقیناً حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمۃ کا یہ درس بخاری جو آڈیو کیسٹ کے ذریعہ گوش گزار ہوا تحقیق و تدفیق کا منہ بولتا ثبوت اور علوم ومعارف کا انمول گنجینہ اور دینی وفقہی معلومات کا قیمتی سرمایہ ہے ، حضور تاج الشریعہ نے مذہب امام اعظم کو ثابت کرنے اور ظاہر کرنے میں دلائل وبراہین کے انبار لگادیئے ہیں ، اپنے ہر قول میں اصول روایت ودرایت کو ملحوظ رکھا ۔ اپنی ہر بات کو معتبر ومستند حوالجات سے مزین فرمایا ۔ زبانی طویل احادیث کے متون کو بیان کرنا انکے راویوں پر جرح وتعدیل کرنا ۔ شراح حدیث کے اقوال کو پیش رکھتے ہوئے فنی واصولی انداز میں بحث کرتے ہوئے ترجیح وراجح ومرجوح کو بیان کرنا ۔ پھر مختلف کتب سے دقیق وطویل بحثوں کو سمیٹ کر انکو آسان الفاظ میں پیش کرنا ۔ یہ ہر ایک کے بس کی بات نہیں ۔ یہ وہی کرسکتا ہے جو اپنے اندر وسعت علم ۔دقت نظر۔ تبحر علمی ، کمال استحضار ، طریقۂ استدلال ، کثرت مطالعہ ، مجتہدانہ شان ، فقیہانہ بصیرت ، محدثانہ آن بان، محققانہ انداز ، علوم ومعاف کی جامعیت رکھتا ہو ۔ بلا شبہ سارے کمالات حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمۃ والرضوان کے اندر بدرجۂ اتم پائے جاتے ہیں اسی طرح سے آپکے دوسرے دروس اور حواشی نہایت ہی وقیع ۔ فکر انگیز اور معلومات افزا ہیں جن پر منحۃ الباری فی حل صحیح البخاری کے اسباق اور تعلیقات زاہرہ علی صحیح البخاری شاہد عدل ہیں ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمۃ کے درجات کو بلند فرمائے اور انکی چھوڑی ہوئی تحقیقات وتدقیقات سے ہمیں استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے(آمین)

Menu