آپ کی طلعت کو دیکھا جان دی

پروفیسر سید خرم ریاض اختر القادری ،لاہور،پاکستان


حضرت تاج الشریعہ مولانا و بالفضل اولٰنا علامۃ الدھر فھامۃ العصر بقیۃ السلف حجۃ الخلف فقیہ دوراں امام زماں وارث علوم امام احمد رضا خان قاضی القضاۃ تاج الاسلام مفتی اختر رضا خاں الازھری قدس اللہ تعالیٰ سرہٗ القوی دنیائے فانی سے جہانِ باقی میں جابسے ۔اعلی اللّٰہ مکانہ فی قربہ العظیم و نور اللہ شان حب رسولہ الکریم علیہ التحیۃ والتسلیم و علی الہ و صحبہ و حزیہ وابنہ الکریم الغوث الاعظم اجمعین الیٰ یوم الدین
حضرت تاج الشریعہ مفتی اختر رضا خاں الازھری علیہ الرحمتہ نے ان ساعتوں میں منزلِ بقا کی جانب قدم بڑھایا کہ جب عازمین حج لبیک اللھم لبیک کی صدائیں بلند کرتے ہوئے سوئے حرم جانے کو تیار بیٹھے تھے۔ شوق و وجدان کی ان گھڑیوں میں حضرت تاج الشریعہ اعلیٰ حضرت کے اس ذوق و عرفان کا مصداق بنے میقاتِ عشق سے لقائے رحمان کا احرام باندھے حِلِّ شریعت سے گزر کر حرمِ حقیقت میں جا پہنچے۔

کجاد انند حالِ ماسبکسارانِ ساحل ہا

ہم بھی چلتے ہیں ذرا قافلے والو ٹھہرو
گٹھڑیاں توشۂ امید کی کس جانے دو

ایام حج میں آیت قرآنی’’ اَتِمّوا الْحَج وَالعمر ۃَ ‘‘کی صدا پر لبیک کہتے ہوئے علائق بشری سے کنارہ کیے کعبۂ جاں کا قصد کیا اور عرفاتِ اشتیاق میں کمال استغراق کے ساتھ مشاہدہ حق میں ڈوب کر تموجِ بحرھو میں جانکلے اور طائرِ جان قبلۂ ایمان کا طواف کرتے ہوئے قربان ہوگیا۔

زمانہ حج کا ہے جلوہ دیا ہے شاھدگل کو
الٰہی طاقتِ پرواز دے پر ہائے بلبل کو

حسن و جمال کا یہ پیکر عمر بھر مصطفی کریم ﷺ کے محاسن کا خطبہ پڑھتا رہا۔ فضل و کمال کا یہ حسیں سراپا ساری زندگی پیارے مصطفیٰﷺ کے لازوال کمالات و مناقب کے نشر و بیان میں ڈوبا رہا۔ نور و نکہت کا یہ دلکش مرقع صبح و مساحبیب کبریاﷺ کے عشق کی تابانیاں بانٹتا رہا۔ اس کے معطر انفاس سے حبّ نبی کی مہک چھلکتی رہی اور اس کی خوبصورت چمکتی آنکھوں سے یاد محبوب کی رعنائی ٹپکتی رہی۔ اس کے دل کی دھڑکنوں میں فداک یارسول اللہﷺ کا سوز اور اس کے نغموں میں عشقِ حقیقی کا ساز گونجتا رہا۔ لاریب آپ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے اس جذبِ صادق کے آئینہ دار بن کے رہے:

یاد میں جس کی نہیں ہوشِ تن و جاں ہم کو
پھر دکھادے وہ رُخ اے مہرِ فروزاں ہم کو
دیر سے آپ میں آنا نہیں ملتا ہے ہمیں
کیا ہی خود رفتہ کیا جلوۂ جاناں ہم کو
میرے ہر زخم جگر سے یہ نکلتی ہے صدا
اے ملیحِ عربی کردے نمکداں ہم کو
پردہ اس چہرۂ انور سے اٹھا کر اِک بار
اپنا آئینہ بنا اے مہِ تاباں ہم کو
اے رضا وصفِ رُخِ پاک سنانے کے لیے
نذر دیتے ہیں چمن مرغِ غزل خواں ہم کو

حضرتِ تاج الشریعہ مفتی اختر رضا خاں الازہری علیہ الرحمتہ یقیناً فنافی الرسول تھے۔ آپکی حیات و ممات الفتِ رسول کے نوری نفحات سے سرشار و معمور رہی۔
محبت و تعظیم نبیﷺ آپکی زندگی کاخاصہ اور عظمت و شانِ مصطفیٰ کا دفاع آپ کا مقصدِ حیات تھا۔ دن کی جلوتوں کو ذکر والشمس و الضحیٰ سے زینت دیتے تو شب کی خلوتوں کو زلفِ محبوب کی یادوں سے رعنائی بخشتے۔ عشق و احترام رسولﷺ آپکی گفتار و کردار میںایسا رچا بسا تھا کہ عزت و توقیر نبی کے خلاف معمولی سی بات بھی گوارانہ فرماتے۔ ازہری میاں قبلہ حضور اقدسﷺ کے ادب و وقار کے مقابل کسی کے جبہ و دستار کو بھی خاطر میں نہ لاتے بلکہ صداقتِ صدیق و جلالت فاروق کا جلوہ دکھاتے۔ حیائے عثمانی کی جوت جگاتے اور شجاعتِ حیدری کی تلوار چمکاتے نظر آتے۔ گویا اعلیٰ حضرت کے اس اعلان کی برھان بن جاتے ؎

کلکـ رضا ہے خنجرِ خونخوار برق بار
اعدا سے کہدو خیر منائیں نہ شر کریں

حضرت تاج الشریعہ مفتی اختر رضا خاںالازہری علیہ الرحمتہ کی ذاتِ والاصفات گلشنِ اسلام کے لیے ابرِ بہاراں ثابت ہوئی۔ آپ کے وجود مسعود سے اسلام و اسلامیانِ عالم کو خوب فروغ ملا، آپ کی صورت و سیرت میں مَنْ یَّجدِ دلھا امرَ دینھا کا نور مستنیر رہا، بخداآپ اعلیٰ حضرت کی شانِ تجدید کے مظہر ٹھہرے،ظاہری و باطنی حسن میں تو آپ کا کوئی نظیر نظر نہ آیا، اتقاء میں ثبات و صلابت اور افتاء میں خوبی و مہارت آپ نے ورثہ میں پائی، بولتے تو پھول جھڑتے،لب کھولتے تو شہد گھولتے،مسکراتے تو بجلیاں گراتے، قلم اٹھاتے تو علم کے دریا بہاتے، خطاب ایسا مستطاب کہ سننے والے ہدایت پاتے، تقریر ایسی دلپذیر کہ سامعین جھوم جاتے، تحریر میں ایسی تنویر کہ فکر و ادراک جگمگاتے! وہ ذات کیا تھی واللہ کمالات کا اک جہان، وہ وجود کیا تھا باللہ معارف کا بوستان۔

اب چراغِ دل جلا کر ڈھونڈیئے
نور کاوہ سائبان جاتا رہا

حضرتِ تاج الشریعہ مفتی اختر رضا خاں الازہری علیہ الرحمتہ کا سانحۂ ارتحال اہل ایمان کے لیے ناقابل تلافی نقصان ہے۔ آپ کے تشریف لے جانے سے علم و فضل کا ایک عظیم دروازہ بند ہوگیا،آپ کی رحلت سے اِک سنہرے دور کا اختتام ہوا، آپکی وفاتِ حسرت آیات نے اہل حق پر قیامت ہی ڈھا دی،کیونکہ اک آپ ہی تو تھے جو ابلیسی فتنوں کے مدمقابل اہل حق کے لیے رحمانی ڈھال بنے، اک آپ ہی تو تھے جو یزیدی یورشوں کے سامنے اہل ایمان کے لیے حُسینی حصار بنے، اک آپ ہی تو تھے جنہوں نے جویانِ حق کی پیاس بجھائی اور بد مذہبیت کے جھکڑوں میں انہیں حقیقت کی راہ دکھائی، فکری طوفانوں میں بخششوں کا سفینہ آپ تھے، صاحبانِ حق و ہدایت کے لیے دلائل و براہین کا محمدی خزینہ آپ تھے، شریعت مطہرہ کے ایسے پاسدار کہ سرِ تاجِ شریعت کا روشن نگینہ آپ تھے:

حامد کی وہ ضیا ہیں وہ نوری کا نور ہیں
اہل سنن کی آنکھ کا نور و سرور ہیں

اللہ جل مجدہ الکریم اپنے حبیبِ لبیب ﷺتبارک و تعالیٰ کے صدقے حضرت تاج الشریعہ مفتی اختر رضا خاں الازہری قدس سرہ العزیز کے فیوض و برکات عام تر فرمائے۔ جمیع اہل ایمان اہلسنت و جماعت کو آپکی تعلیمات سے بہرہ مند کرے اور آپکے فرزند دلبند حضرت مفتی عسجد رضا خاں قبلہ کو آپکے علم و فضل کا حقیقی ترجمان و پاسبان بنائے۔ آمین یارب العالمین

اے خدا اختر رضا کو چرخ پر اسلام کے

رکھ درخشاں ہرر گھڑی اپنی رضا کے واسطے

اے خدا عسجد رضا پر نور کی برسات ہو

مظہرِ نوری میاں اختر رضا کے واسطے

Menu